مقالہ نگار محمد عادل فراز کے لیے ڈھیروں دعائیں!

مقالہ نگار محمد عادل فراز کے لیے ڈھیروں دعائیں!

حسنین عاقب کی غزلیہ شاعری میں سائنسی مزاج اور محمد عادل فراز کا تحقیقی مقالہ : اجمالی تاثر

ارم رحمن
ایڈووکیٹ
لاہور، پاکستان

گزشتہ چند روز سے پرنٹ میڈیا، ادبی رسائل اور مختلف اہم ادبی ویب سائٹس کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی انجینئر محمد عادل فراز (علی گڑھ) کا تحریر کردہ ایک اہم ادبی تحقیقی مقالہ قارئین میں مقبولیت حاصل کررہا ہے۔ یہ مقالہ برصغیر کے معروف شاعر، ادیب اور مترجم خان حسنین عاقب کی شاعری کے فنی تجزیے پر مشتمل ہے۔ اس تحریر میں دلائل و براہین کو بہت سلیقے سے ترتیب دیا گیا ہے اور حسنین عاقب کی غزلوں میں سائنسی تخیل کا رنگ بھرپور طریقے سے نمایاں کیا گیا۔
عادل فراز نے اپنے مقالے کے لیے واقعی ایسی نابغۂ روزگار ہستی کا انتخاب کیا جس کی شاعری میں واقعی اتنی وسعت ہے کہ اسے زندگی کے کسی بھی روپ سے تشبیہہ دی جاسکتی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حسنین عاقب برصغیر پاک و ہند میں ہی نہیں بلکہ اردو دنیا کے ہر علاقے میں اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ خصوصی طور پر دونوں ملکوں میں ان کی شاعری کے مداحین کی تعداد قابل لحاظ ہے جس میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
حسنین عاقب کی شاعری کا کینوس اس قدر وسیع ہے کہ اگر اونچائی کی بات کی جائے تو آسمان کم پڑ جائے اور گہرائی کی بات کی جائے تو سمندر کی تہہ سے مونگے اور موتی چرا لائے۔
زندگی سے بھرپور رسیلی اور سریلی شاعری جو سننے میں ہی نہیں بلکہ سمجھنے میں بھی عجب لطف دیتی ہے۔ ہر شعر ایسا سلجھا اور سمٹا کہ آسان لگے لیکن معنویت کے اعتبار سے گہرا، جامع اور بہت سے زاویہ ہائے فکر عطا کرنے والا۔
عادل فراز نے عاقب کے اشعار کو جس خوب صورتی سے سائنسی تخیل سے جوڑاہے، اس کی چند خوب صورت مثالیں دیکھتے ہیں۔
بہت آگے غزل پہنچی ہے عاقب
تخیل کو میں وسعت دے رہا ہوں
اس شعر سے ہی حسنین عاقب کا طرز سخن اور دعوت فکر بہت نمایاں ہے۔
پھر مشہور فلسفی اور ماہر نفسیات ڈارون کی تھیوری کا اعادہ کرتے ہوئے وہ عاقب کا شعر نقل کرتے ہیں:
فطرت میں آدمی کے تغیر نہیں مگر
انسان کو بدلتے ہیں حالات زندگی
کس قدر جامع اور مستند بات!
واقعی انسان کی جبلت اور فطرت ہمیشہ یکساں رہتی ہے حالانکہ بہ ظاہر اس میں کچھ تبدیلیاں رونما ہونا حالات کے تغیر و تبدل کی وجہ سے ہوتا ہے۔
عاقب کا سب سے بڑا فلسفہ بھی اسی مقالے میں نقل کیے گئے شعر میں ان کے دعوے سے مستعار ہے۔
جو بات ہم کسی محفل میں یوں ہی بول آئے
بہت سے لوگ اسے فلسفہ سمجھتے ہیں
اس خوب صورت شعر میں عاقب کی خود آشنائی نظر آتی ہے. جیسے وہ اپنی قدرومنزلت سے شناسا ہیں۔ ان کی عام بول چال بھی حکمت سے خالی نہیں.
شاید یہی خود شناسی اور اعتماد ان کے بہترین مدرس ہونے میں مددگار ہے۔
کیونکہ ان کا علم، ان کی دانائی اور ان کا فلسفۂ حیات انھیں باقی لوگوں سے ممتاز بناتا ہے۔
اس حوالے سے ایک شعر دیکھیے :
دانائیاں اٹک گئیں لفظوں کے جال میں
اتنے جواب گم ہیں مرے اک سوال میں
یہ شعر صرف ایک شعر ہی نہیں بلکہ ادراک کا ایک ایسا پہلو ہے جو ایک دانا و بینا شخص کا ہی خاصا ہو سکتا ہے۔
پھر حسنین عاقب کے سمندر کے گہرے پانی جیسی سوچ، نرم گرم یعنی ملائمت اور حرارت کو یک جا کرکے زندگی سے بھرپور شخصیت ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے؟
چند اشعار دیکھیے :
سطح کے نیچے کچھ بھی نہیں
کہنے کو میں دریا ہوں
خود کو کبھی میں پا نہ سکا
جانے کتنا گہرا ہوں
ساحل ساحل تیر چکے ہو
آؤ دریا سیر کراؤں
کتنی جاذبیت ہے ان اشعار میں!
خاص سانچے میں ڈھلا نپا تلا انداز۔
پھر اپنی خود شناسائی سے واقفیت کا عکاس ایک شعر یہ بھی دیکھیے:
اے خدا! میں تو بس یہی سمجھا
میں نہیں تو یہ کائنات نہیں
یہ حقیقت پر مبنی شعر ہے کہ ایک انسان اپنی ذات میں کل کائنات ہوتا ہے اور جب اس کی ہستی ہی نہ رہے تو اس کے لیے یہ کل کائنات ختم!
پھر انسان کی امنگوں اور خواہشوں اور چاہتوں کو آشکار کرتا ہوا یہ شعر:
وہ آسماں کی بلندی تک آتے بھی کیسے
رسائی فکر کی جن کی تھی آب و دانے تک
اس شعر میں جیسے انھوں نے انسانی سوچ اور فکر کی ساری گرہیں کھول کر رکھ دیں کہ جن انسانوں نے بڑے معرکے سر کرنے ہوتے ہیں، اوج کمال تک پہنچنا ہوتا ہے، وہ صرف دانہ پانی یا وقتی اور محدود سی زندگی سے ہٹ کر طرزفکر رکھتے ہیں۔
زندگی میں کامیابیاں سمیٹنے والے چھوٹی موٹی تکلیفوں اور فکروں سے بے نیاز ہو کر اپنے مقصد پر نظر رکھتے ہیں۔
اسی سوچ کو مزید واضح کرتا ہوا شعر دیکھیے:
ہوا کے شور سے چہرے کئی اترنے لگے
یہ کیسے لوگ ہیں جو زندگی سے ڈرنے لگے
المختصر یہ کہ عادل فراز صاحب کے مقالے سے خان حسنین عاقب کی جو شخصیت سامنے آتی ہے اور جس طرح انھوں نے اپنی شاعری میں اپنی سوچ کی ترجمانی کی ہے اس سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ عاقب زندگی کی لطافت اور رعنائی سے بھرپور، ایک حوصلہ مند اور وسیع النظر انسان ہیں۔ ایک ایسے زندہ دل اور جرات مند انسان جن کی شخصیت کا ہر پہلو ان کے مکمل انسان ہونے کے احساس کو منعکس کرتا ہے جو ہر حالت میں زندگی کو بھرپور طریقے سے گزارنے کے خواہاں ہیں، جو بدتر سے بدترین حالات میں بھی جینے کا ہنر جانتے ہیں، ہر لمحۂ موجود سے حظ کشید کرسکتے ہیں.
” self sufficient” کا لفظ ان کے لیے بہت موزوں معلوم ہوتا ہے۔
آفتاب کی مانند چمکنے والے اور اپنے ہزاروں طالب علموں کی زندگی کو اپنے علم کی روشنی سے منور کرنے والے، جن کے حوصلے اور محنت کے سامنے زندگی کی کٹھنائیاں بھی ہار مان جائیں، جن کی ذہانت اور فطانت کی چمک دمک دوسروں کی آنکھیں خیرہ کردے، حسنین عاقب جیسا علم اور احساس کا سمندر جس کے گہرے پانیوں میں اترنے والا غواص سطح پر کبھی نامراد نہیں لوٹ سکتا، وہ اس سمندر کی تہوں سے ایسے نادر و نایاب موتی نکال کر اپنے دامن میں بھر سکتا ہے جو اسے ایک خوب صورت زندگی جینے کے تمام رموز و اوقاف سمجھا سکیں۔
ان کا ہر شعر زندگی کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کیے ہوئے ہے جن سے فیضیاب ہونے کے لیے اپنا دامن بھی اتنا ہی وسیع کرنا ہوگا جتنی وسعت ان کی فکر رسا اور خیالات میں ہے۔ مقالہ نگار محمد عادل فراز نے نہایت ژرف نگاہی کے ساتھ، بڑی محنت اور جستجو سے حسنین عاقب کی غزلیہ شاعری کا جائزہ لے کر بھیڑ میں نمایاں نظر آنے والے ایک ممتاز معاصر شاعر کے فن سے کماحقہ انصاف کیا ہے۔
مقالہ نگار محمد عادل فراز کے لیے ڈھیروں دعائیں!
***
ارم رحمٰن کی گذشتہ نگارش :آوازیں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے