گنجِ لا یفنیٰ: ملفوظاتی ادب کا شہکار

گنجِ لا یفنیٰ: ملفوظاتی ادب کا شہکار

 طفیل احمد مصباحی 

شیخ المشائخ، امام الاصفیاء، ممتاز المحدثین، مخدومِ جہاں حضرت شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری قدس سرہ (متوفیٰ : ۷۸۲ ھ) کی ذاتِ ستودہ صفات علم و روحانیت اور حکمت و ولایت کی مجمع البحرین تھی۔ روحانیت تو خیر آپ کے گھر کی کنیز تھی۔ خالص علمی اعتبار سے بھی آپ بلند ترین مقام پر فائز تھے اور آپ کو بہت سارے تفردات و امتیازات حاصل تھے۔ علمی جلالت، فکری صلابت، فنی مہارت  اور درجنوں علوم و فنون میں اجتہادی بصیرت کے پیشِ نظر آپ کو "سلطان المحققین" جیسے بھاری بھرکم خطاب سے یاد کیا گیا ہے۔ آپ بر صغیر پاک و ہند میں "بخاری و مسلم" کا درس دینے والے پہلے محدث ہیں۔ فاصلاتی کورس اور مراسلاتی نظامِ تعلیم و تربیت شروع کرنے والے پہلے بزرگ آپ ہی تسلیم کیے جاتے ہیں۔ "ملفوظات" جو نثری ادب کا ایک مہتم بالشان شعبہ ہے، اس کو فروغ دینے والے اور سینکڑوں صوفیائے کرام کے درمیان سب سے زیادہ "ملفوظات" کو وجود بخشنے والے بھی آپ ہی ہیں۔ نیز مکتوبات و ملفوظات میں سب سے زیادہ احادیث سے استدلال کرنے والے محدث صوفی بھی آپ ہی کی ذاتِ با برکات ہے۔ غرض کہ جس زاویۂ فکر و نظر سے بھی آپ کی تہہ دار شخصیت کا مطالعہ کیا جاتا ہے، آپ منفرد و ممتاز اور فائق الاقران نظر آتے ہیں۔ آپ کی اسی بلند قامت علمی و روحانی شخصیت کو حضرت نظام الدین اولیا قدس سرہ نے ایک نظر میں بھانپ لیا تھا اور آپ کو دیکھ کر یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا تھا کہ "بندہ شاہین ہے، لیکن میری قسمت میں نہیں ہے۔"
حضرت محبوبِ الہٰی کے اس فرمان سے آپ کی عظمت و رفعت اور شانِ بزرگی کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ آپ کا علمی و روحانی پایہ کافی بلند ہے۔ آپ کی تہہ دار فکر و شخصیت کے بے شمار پہلو ایسے ہیں، جن کا کما حقہ تعارف ابھی تک نہیں ہو پایا ہے۔ آپ کی ذات و صفات سے قطعِ نظر صرف آپ کی تصانیف پر پی ایچ ڈی ہو سکتی ہے۔ صاحبِ "تاریخ سلسلہ فردوسیہ" کے بہ قول "مشہور ہے کہ آپ نے سترہ سو ( ۱۷۰۰ ) کتابیں لکھی ہیں۔ لیکن مطبوعہ و غیر مطبوعہ کُل ملا کر آپ کی مندرجہ ذیل کتابوں کا پتہ چلتا ہے: ( ۱ ) مکتوباتِ صدی (۲) مکتوباتِ دو صدی ( ۳ ) مکتوباتِ ہشت و بہشت (۴) فوائدِ رکنی ( ۵ ) معدن المعانی ( ۶ ) مخ المعانی (۷) راحت القلوب ( ۸ ) خوانِ پُر نعمت ( ۹ ) کنز المعانی (۱۰) مغز المعانی ( ۱۱ ) گنجِ لا یفنیٰ ( ۱۲ ) مونس المریدین (۱۳) تحفۂ غیبی ( ۱۴ ) ملفوظ الصفر ( ۱۵ ) برات المحققین ( ۱۶ ) شرحِ آداب المریدین ( ۱۷ ) عقائدِ شرفی (۱۸) ارشاد السالکین ( ۱۹ ) اجوبۂ کاکویہ ( ۲۰ ) اورادِ خورد ( ۲۱ ) اورادِ اوسط ( ۲۲ ) فوائد المریدین ( ۲۳ ) اجوبۂ زاہدیہ ( ۲۴ ) رسالہ اشارات ( ۲۵ ) رسالہ مکیہ (۲۶) ارشاد الطالبین ( ۲۷ ) اورادِ کلاں
حضرت مخدوم جہاں کی تصانیف اور مکتوبات و ملفوظات کی ان کے ہم عصر مشائخ کے دل میں کیا قدر و قیمت تھی، اس کا اندازہ حضرت مخدوم شاہ شعیب فردوسی کی اس روایت سے ہوتا ہے، جو انھوں نے "برہان الاتقیاء" کے حوالے سے اپنی تصنیف "مناقب الاصفیاء" میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت شیخ نصیر الدین اودھی (چراغ دہلوی) نے آپ کے مکتوبات کا مطالعہ کرنے کے بعد فرمایا تھا: سبحان اللہ! شیخ شرف الدین منیری نے اپنے ان مکتوبات کے ذریعے ہم لوگوں کے کفرِ صد سالہ کو روزِ روشن کی طرح آنکھوں کے سامنے کر دیا ہے۔
( تاریخ سلسلہ فردوسیہ، ص: ۱۶۳ / ۱۶۴، مطبوعہ: تاج پریس ، باری روڈ، گیا، بہار)
حضرت سید جلال الدین بخاری قدس سرہ (مخدوم جہانیاں جہاں گشت) سے لوگوں نے پوچھا کہ اس آخری عمر میں آپ کی مشغولیت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری کے مکتوبات کے مطالعہ میں مشغول ہوں۔ پھر لوگوں نے پوچھا: شیخ شرف الدین کے مکتوبات کیسے ہیں؟ فرمایا کہ بعض مقامات ابھی بھی سمجھ میں نہیں آئے ہیں۔
( مناقب الاصفیاء، ص: ۲۸۰، مطبوعہ: مکتبۂ شرف بیت الشرف، خانقاہ معظم، بہار شریف)
زیرِ نظر کتاب "گنجِ لا یفنیٰ" ایک اسم با مسمیٰ مجموعۂ ملفوظات ہے، جو حضرت مخدوم جہاں کی تہہ دار فکر و شخصیت کا مختلف الجہات قاموس ہے، جس میں حقائق و معارف اور تصوف کے دقائق و غوامض کی نہریں رواں ہیں۔ مخدوم گرامی حضرت مولانا سید حسام الدین فردوسی زید مجدہ نے اس گراں علمی و روحانی سرمایے کا چند سطروں میں بڑا عمدہ تعارف کرایا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
"حضرت مخدومِ جہاں قدس سرہ کے ملفوظات کا مجموعہ "گنجِ لا یفنیٰ" ایک ایسی موج ہے، جو بحرِ صمدیت کی حکایت بیان کر رہی ہے۔ ایک ایسا نور ہے، جو در حقیقت خورشیدِ نبوت کی ضیا باریوں کا مظہر ہے۔ ایک ایسا پھول ہے، جس کی خوشبو قلب و قبر دونوں جگہ آرام و سکون کا باعث ہے۔ ایک ایسا سرمایہ ہے، جو مخدوم جہاں کی مجلسِ قدسی میں موجودگی و حاضری کا قاری کو احساس دلاتا ہے۔ ایک ایسا عطر ہے، جو سالکین کے مشامِ جاں کو معطر و مجلیٰ کر رہا ہے اور ایک ایسا مضراب ہے، جو باطنی شعور کے تاروں میں ارتعاش پیدا کر رہا ہے۔ 42/ مجلسوں پر مشتمل حضرت مخدوم جہاں علیہ الرحمہ کا یہ مجموعۂ ملفوظات  گنجِ لا یفنیٰ  اپنے اندر گنج ہائے گراں مایہ سمیٹے ہوئے ہے اور مخدوم جہاں کی علمی بصیرت، عارفانہ کیفیت اور آپ کے ادراکِ حقیقت کا ثبوت پیش کر رہا ہے۔"
( ابتدائیہ گنجِ لا یفنیٰ ، ص : 38 )
حضرت مخدوم جہاں کی دینی و علمی برتری ان کے جملہ کتب و رسائل سے ظاہر ہے۔ ان کے مکتوبات و ملفوظات کو عالم گیر شہرت حاصل ہے۔ یہ مکتوبات و ملفوظات نہ صرف یہ کہ شرعی علوم و معارف کا گنجینہ ہیں، بلکہ فارسی زبان و ادب کا بیش قیمت سرمایہ بھی ہیں۔ مولانا سید مناظر احسن گیلانی (سابق پروفیسر دینیات جامعہ عثمانیہ، حیدر آباد) نے بجا لکھا ہے کہ "فارسی نثر نگاری میں شیخ سعدی شیرازی کے بعد کسی کا نام ہند ہی نہیں، بلکہ ایران میں بھی اگر لیا جا سکتا ہے تو شاید وہ بِہار کے مخدوم الملک ہی ہو سکتے ہیں۔ آپ نے مکتوبات کی شکل میں جو ارقام فرمایا ہے، فارسی زبان میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔"
( ابتدائیہ مکتوباتِ صدی کامل، ص: ۳۱، مطبوعہ: سعید کمپنی، کراچی)
چودھری اقبال سلیم گاہندری کے بہ قول :
"حضرت مخدوم شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری فردوسی کے ملفوظات معدن المعانی، خوانِ پُر نعمت، راحت القلوب، مخ المعانی، مونس المریدین، گنجِ لا یفنیٰ، فوائدِ غیبی، مغز المعانی اور تحفۂ غیبی نے بر صغیر کے مسلمانوں میں اسلامی روح پھونک دی ہے۔"
( ابتدائیہ جوامع الكلم، ص: ۲۱، مطبوعہ: نفیس اکیڈمی، لاہور)
440 / صفحات پر مشتمل یہ کتاب 42 / علمی و روحانی مجالس پر منقسم ہے اور ہر مجلس میں مختلف علوم و فنون اور سلوک و تصوف کے اہم مباحث موجود ہیں۔ اس مختصر تبصرے میں ہر مجلس پر جامع گفتگو اور اس کا کما حقہ تعارف و تجزیہ ممکن نہیں ہے۔ اس لیے کتاب کے چند اہم عناوین و خصوصیات کے ذکر پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔ کتاب کا آغاز مخزنِ علم و حکمت حضرت سید شاہ شمیم الدین احمد منعمی صاحب قبلہ کے جاندار اور شاندار "مقدّمہ" سے ہوتا ہے، جو 37 / صفحات پر مشتمل ہے اور اس کی سطر سطر سے تقدیم نگار کی وسعتِ علمی اور دقتِ نظر کا پتہ چلتا ہے۔ مقدمہ کے شروع میں "ملفوظات" کی اہمیت و معنویت، اس کے کثیر موضوعی ہونے اور شعبۂ تعلیم و تعلم میں اس کے غیر فانی اثرات و نتائج کا بیان بڑے اچھوتے اسلوب میں کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں  گنجِ لا یفنیٰ کے متعدد قلمی نسخوں کے ذکر کے ساتھ جامعِ ملفوظ حضرت زین بدر عربی اور صاحبِ ملفوظ حضرت مخدوم جہاں قدس سرھما کی حیات کے مختلف گوشوں کو دلائل و شواہد کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے، جن کے چند ذیلی عناوین کچھ اس طرح ہیں:
( الف ) گنجِ لا یفنیٰ کے متعدد نسخے (ب) ترجمہ و تحقیق کے لیے اساسی متن اور طریقۂ کار ( ج ) جامعِ ملفوظات کی سوانح حیات ( د ) جامعِ گنجِ لا یفنیٰ کا انداز و اسلوب ( ہ ) بارگاہِ مخدوم جہاں میں امرائے فیروز شاہی ( و ) برِ صغیر میں علم حدیث اور گنجِ لا یفنیٰ ( ز ) مخدوم جہاں حنفی المسلک ( ح ) اختلافِ مسالک اور مخدوم جہاں ( ط ) بین المسالک توسع اور مخدوم جہاں ( ی ) گنج لا یفنیٰ میں درج مقامات ( ک ) گنجِ لا یفنیٰ میں تذکرۂ شخصیات ( ل ) مخدوم جہاں کا اپنے مریدین پر تلطف۔ غرض کہ کسی بھی علمی و تحقیقی کتاب کے  مقدمہ میں جو بنیادی عناصر و اجزا ہونے چاہئیں، وہ اس میں موجود ہیں۔  گنجِ لا یفنیٰ  کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ آٹھویں صدی ہجری کا ایک نادر فارسی مجموعۂ ملفوظات ہے اور اردو ترجمہ و تخریج کے ساتھ خانقاہ منعمیہ، میتن گھاٹ، پٹنہ سے اس کی اولین شاعت، ایک عظیم علمی کارنامہ ہے، جس کے لیے مترجم حضرت مولانا محمد عابد چشتی، تخریج کار حضرت مولانا محب اللہ مصباحی اور خصوصیت کے ساتھ حضرت سید شاہ شمیم الدین منعمی صاحب قبلہ پوری دنیائے اہل سنت کی طرف سے تحسین و تبریک کے مستحق ہیں۔
حضرت مخدوم جہاں قدس سرہ کے جملہ ملفوظات میں ایک بات جو بہ قدرِ مشترک نظر آتی ہے، وہ یہ کہ سلوک و تصوف اور حقیقت و معرفت کے دقیق مسائل کی توضیح و تشریح کے علاوہ آپ کے ملفوظات میں حدیث و تفسیر اور فقہ و کلام کے قیمتی مباحث کثرت سے نظر آتے ہیں۔ کچھ یہی حال "گنجِ لا یفنیٰ" کا بھی ہے۔ فقہی مسائل، تفسیری مباحث اور مخدوم جہاں کے حدیثی افادات نے کتاب کی قدر و قیمت میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ حدیث اور اصولِ حدیث میں حضرت مخدوم جہاں قدس سرہ کی مہارت و بصیرت پر اب تقریباً سارے اہلِ علم و قلم کا اتفاق ہو چکا ہے۔ اپنے اور بیگانے سب نے آپ کے محدثانہ مقام کو تسلیم کیا ہے اور مختلف علوم و فنون میں آپ کی اجتہادی بصیرت کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ آج وہ لوگ بھی آپ کی عظمت و جلالت اور مہارتِ حدیث کا اعتراف کرنے لگے ہیں، جو بزرگانِ دین و اولیائے کاملین سے بیر رکھتے ہیں اور مزاراتِ اولیا کی زیارت کو شرکت و بدعت سے تعبیر کرتے ہیں۔ بہر کیف! یہ اقتباس ملاحظہ کریں اور حضرت مخدوم جہاں کی مہارتِ حدیث کا اندازہ لگائیں۔
ڈاکٹر محمد اسحاق لکھتے ہیں:
حضرت شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری، علاقۂ بِہار کے ایک ممتاز محدث تھے۔ وہ حدیث سے متعلق تمام علوم مثلاً: علمِ تاویل الحدیث، علمِ رجال الحدیث اور علمِ مصطلحات الحدیث پر پورا عبور رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنے مکتوبات اور تصوف کی کتابوں میں احادیث کثرت سے نقل کی ہیں اور صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ بہت سے مواقع پر انھوں نے علمِ حدیث کے مختلف پہلوؤں مثلاً : روایت بالمعنیٰ، شروط الراوی وغیرہ پر اپنی تصانیف میں طویل بحثیں بھی کی ہیں اور صحیحین ( بخاری و مسلم )، مسندِ ابو یعلیٰ، الموصلی، شرح المصابیح اور مشارق الانوار کے حوالے بھی دیے ہیں۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ النووی کی شرحِ صحیح مسلم کا ایک نسخہ ان کے پاس موجود تھا اور انھوں نے اس کا غائر مطالعہ کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ان کو نہ صرف بِہار بلکہ پورے ہندستان میں سب سے پہلے صحیحین (بخاری و مسلم) کی تعلیم شروع کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ انھیں احادیث نہ صرف زبانی یاد تھیں، بلکہ وہ ان کے مطابق عمل بھی کرتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے محض اس وجہ سے خربوزہ نہیں کھایا کہ انھیں یہ معلوم نہ ہو سکا کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خربوزہ کس طرح نوش ( تناول ) فرمایا تھا۔ ان اوصاف کے علاوہ شیخ شرف الدین منیری قرآن و حدیث دونوں کی متصوفانہ تعلیمات پر بھی سند مانے جاتے تھے ۔
( علمِ حدیث میں برِ عظیم پاک و ہند کا حصہ، 82، مطبوعہ: ادارہ ثقافتِ اسلامیہ ، لاہور )
مندرجہ بالا اقتباس حقیقت پر مبنی ہے۔ بر صغیر کے صوفیائے مشائخ میں حضرت مخدوم جہاں وہ واحد بزرگ ہیں، جنھوں نے اپنے مکتوبات و ملفوظات میں کثرت کے ساتھ احادیث کی تخریج فرمائی ہے اور اصول حدیث کے بہت سارے اہم مباحث پر محدثانہ نقطۂ نظر سے کلام فرمایا ہے۔ آپ کی کتابوں میں نہ صرف روایتِ حدیث بلکہ درایتِ حدیث پر بھی عالمانہ و محدثانہ گفتگو دیکھنے کو ملتی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ” گنجِ لا یفنیٰ" کی انیسویں مجلس ( ۱۹ ) میں آپ نے خصوصیت کے ساتھ حدیث اور اصولِ حدیث سے متعلق بیش قیمت افادات تحریر فرمائے ہیں۔ اس حوالے سے مخزنِ علم و حکمت جناب سید شاہ شمیم الدین احمد منعمی دام ظلہ ( سجادہ نشیں خانقاہ منعمیہ، میتن گھاٹ، پٹنہ) لکھتے ہیں:
برِ صغیر میں علمِ حدیث پر با ضابطہ محفوظ گفتگو (آٹھویں صدی ہجری میں) حضرت مخدوم جہاں کی ملتی ہے اور اس کی گواہی  گنجِ لا یفنیٰ  میں درج ہے۔ انیسویں مجلس میں یہ عناوینِ حدیث، گفتگو کی اہمیت و افادیت کے ساتھ ساتھ اس علم کے اجزائے ترکیبی پر بھی روشنی ڈال رہے ہیں۔ علمِ حدیث اور احتیاطِ روایت، روایتِ حدیث کی مشکلات، روایت بالمعنیٰ و روایت بلفظ، صغر سنی کی روایت، تقویٰ کے سبب قلتِ روایت، روایتِ حدیث میں کمالِ تحقیق، احادیث کی قسمیں، حدثنا و اخبرنا کا فرق وغیرہ۔ یہ وہ جلی عنوانات ہیں جو علمِ حدیث پر محفوظ پہلی گفتگو کے ذریعہ بر صغیر میں علم حدیث کے ارتقا کی تاریخ و تحقیق میں نئے ابواب روشن کر رہے ہیں۔
( مقدمہ گنجِ لا یفنیٰ، ص: ۲۱، مطبوعہ: خانقاہ منعمیہ، پٹنہ)
گنجِ لا یفنیٰ  کے مختلف صفحات پر کہکشاؤں کی مانند بکھرے تفسیری مباحث کی محققانہ توضیح و تشریح، حضرت مخدوم جہاں کی تفسیری مہارت اور علمِ تفسیر میں آپ کے مقامِ امتیاز کو اجاگر کرتے ہیں۔ مثلاً: سورہ طٰہٰ کا شانِ نزول، آیت کریمہ [ طائفۃ من الذین معک] کی تفسیر، [ سیماھم فی وجوھم من اثر السجود] کی تفسیر، قرآن کریم میں متشابہات کی حکمت، آیت [ قم اللیل الا قلیلا ] کی تشریح، [ فوق کل ذی علم علیم] کی تفسیر، آیت الکرسی کی فضیلت اور اس کی قراءت کا موقع و محل، سورہ یوسف کی آیت میں مذکور [ ھَمّ ] کی تفسیر، کلامِ الہی اور اس کی خصوصیات، قرآن میں آیات اور وقوف۔
اسی طرح گنجِ لا یفنیٰ میں مختلف مقامات پر فقہی مسائل سے متعلق قیمتی ابحاث ہیں، جن سے حضرت مخدوم جہاں کی فقہی بصیرت عیاں ہوتی ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ آپ جہاں بہت بڑے ولیِ کامل، عارفِ باللہ، مرشدِ طریقت اور شیخِ وقت تھے، وہاں ایک جلیل القدر محدث و مفسر اور فقہ و افتا کے متون و شروح پر اجتہادی نظر رکھنے والے ایک مایۂ ناز فقیہ اور بالغ نظر مفتی بھی تھے۔ اس کتاب میں مندرجہ ذیل فقہی مسائل پر گفتگو کی گئی ہے:
فجر کی سنت کے مسائل، حاملہ جانور کی قربانی کا مسئلہ، نکاح کا مہر، غیر مسلک کی امامت و اقتدا کا مسئلہ، کیا حنفی، امام شافعی پر طعن کر سکتا ہے؟ نماز قضائے حاجت، ائمۂ مذاہب اور ان کا عہد، امام اعظم ابو حنیفہ اور ہمارا مذہب حنفی، ضیافت و تعزیت میں شرکت کے آداب، تلقینِ میت اور دلائلِ شوافع، عقیقہ کا بیان، قضا و ادا کا مسئلہ، افعالِ حج وغیرہ۔
 گنجِ لا یفنیٰ  کے چند اہم عناوین یہ ہیں، جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں:
مشائخ کے ملفوظات جمع کرنا، عہدِ رسالت میں دلوں کا تزکیہ و تصفیہ، علمائے کرام کا مقام و مرتبہ، صومِ وصال، کھانے کے بعد فاتحہ پڑھنا، شکر کی قسمیں، قرضِ مخلوق اور قرضِ خالق، آدابِ دعا و سوال، مال دار اور تواضع، اللہ کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں، ابناء ثمانین عتقاء اللہ کی تشریح، وسوسہ، رمضان کے قید و بند کی حکمت، رمضان میں مسلمانوں پر اللہ کی پانچ نعمتیں، شب قدر کی علامات، شبِ قدر کے اعمال و اشغال، ان للہ عبادا یغبطھم الانبیاء کی تفسیر، گناہوں کا نیکیوں سے بدلنا، مراتبِ شیخ اور فوائدِ صحبت، شب بیداری کا مفہوم، آخرت کی پہلی منزل، قبر میں بچوں سے سوال، دنیا میں ہر وقت ۳۵۶ / اولیا کا وجود، فضیلتِ آیت الکرسی، آیت الکرسی پڑھنے کا موقع و محل، مجاہدات و ریاضات سے صفاتِ ملائکہ کا اتصاف، فالِ نیک اور تعبیرِ خواب، عصمت و حفاظتِ اولیا، انسان کامل، دعوۂ ایمان میں استثنا کی بحث، مستقبل کے لیے ان شاء اللہ کہنے کے آداب و نتائج، زلات یعنی لغزشِ انبیا علیھم السلام کی تفہیم، استقامت، علمِ غیب، علاماتِ قیامت، صحابہ میں افضل و مفضول، نفس اور ارتکابِ گناہ، مسئلۂ تقدیر کی وضاحت، عصمتِ انبیا علیھم السلام، بدعت کا بیان، ایمان میں شک و شبہ کا بیان، توکل، تسلیم اور تفویض وغیرہ۔
خلاصۂ کلام:  گنجِ یفنیٰ  ملفوظاتی ادب میں شہکار کا درجہ رکھتی ہے اور اس کے علمی، ادبی اور روحانی تابندہ نقوش ہمارے قلوب و اذہان کو منور و مجلیٰ کرتے ہیں۔ تزکیۂ نفس اور تطہیرِ باطن کے لیے اس کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ اللہ تعالٰی اس کتاب کے وقیع مندرجات سے ہم سب کو بہرہ مند فرمائے۔ آمین !!!
آخر میں خانقاہ منعیہ، پٹنہ اور اس کے روحِ رواں مخزنِ علم و ادب، ماہرِ تاریخ حضرت مولانا سید شاہ شمیم الدین احمد منعمی دام ظلہ العالی کا ذکرِ خیر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ موصوف ایک با صلاحیت عالم، عصری علوم کے فاضل، ماہرِ تاریخ و تصوف، محقق و مفکر اور حسنِ اخلاق کے پیکر ہیں۔ نیک صورت، پاکیزہ سیرت اور خانقاہی روایات کے امین ہیں۔ آپ کی علمی و دینی و اشاعتی خدمات قابلِ قدر اور لائقِ تقلید ہیں۔ مخطوطات اور قلمی نسخہ جات کی فراہمی، آپ کی مصروف ترین زندگی کا ایک قابلِ ذکر حصہ ہے۔ قدیم صالح و جدید نافع کے حامل اس مردِ قلندر نے اسلاف شناسی کا عملی ثبوت دیتے ہوئے گذشتہ دو عشرے میں نادر و نایاب کتب و رسائل کی ترویج و اشاعت کا عظیم الشان کارنامہ انجام دیا ہے۔ آپ کی سعیِ بلیغ اور توجہِ خاص سے اب تک دو درجن کتب و رسائل جدید رنگ و آہنگ اور تحقیق و ترجمہ کے زیور سے آراستہ ہو کر خانقاہ منعمیہ، میتن گھاٹ، پٹنہ سے شائع ہو چکے ہیں، جن میں سے چند کتابوں کے نام یہ ہیں:
( 1 ) کاشف الاسرار
تالیف : حضرت حسین بن معز نوشہ توحید بلخی
شارح : حضرت حسن دائم جشن بلخی
تقدیم و تحقیق : حضرت سید شاہ شمیم الدین احمد منعمی
( 2 ) ارشاد المریدین
مصنف : شیخ الشیوخ حضرت عمر بن محمد شہاب الدین سہروردی
تقدیم و تحقیق : حضرت سید شاہ شمیم الدین احمد منعمی
( 3 ) شیخ الشیوخ حضرت عمر بن محمد شہاب الدین سہروردی : حیات و خدمات
تحقیقی مقالہ : حضرت سید شاہ شمیم الدین احمد منعمی
( 4 ) مولودِ شرفی
مؤلف : حضرت سید شاہ عطا حسین فانی منعمی دانا پوری ثم گیاوی
مرتبہ : پروفیسر احمد بدر
( 5 ) مخ المعانی
[ ملفوظات مخدوم جہاں حضرت شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری قدس سرہ ]
( 6 ) نکات نقشِ فصوص
تالیف : قطب العالم حضرت مخدوم شاہ محمد منعم پاکبازی قدس سرہ
مترجم : بدر عالم خلش
( 7 ) رسالہ فردیہ شرحِ صمدیہ
تالیف : سلطان الاولیاء حضرت غوث الاعظم عبد القادر جیلانی قدس سرہ
شارح : دیوان سید ابو سعید جعفر محمد قادری
( 8 ) مکتوبات مولانا مظفر بلخی قدس سرہ
مترجم : مولانا وجیہ القمر مصباحی
تقدیم و تحقیق : حضرت سید شاہ شمیم الدین احمد منعمی
( 9 ) کنز المعانی ( تحفۂ غیبی)
[ ملفوظات مخدوم جہاں حضرت شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری ]
مترجم : مولانا محب اللہ مصباحی
( 9 ) تاریخ صوفیائے بہار
مصنف : حضرت سید شاہ شمیم الدین احمد منعمی
( 10 ) خطباتِ منعمی
[ خطبات حضرت سید شاہ شمیم الدین احمد منعمی]
مرتبہ : معراج احمد فریدی
( 11 ) شمامۃ المعانی
[ملفوظات حضرت سید شاہ شمیم الدین احمد منعمی ]
جامع : محمد آصف احمد منعمی
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش :سید نور الحسن نور نوابی کی غزل گوئی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے