آؤ فارسی سیکھیں

آؤ فارسی سیکھیں

امان ذخیروی
رابطہ: 8002260577

پیارے بچو! میں بتاؤں آپ کو
کچھ نئی باتیں سکھاؤں آپ کو

آئیے ہم سیکھتے ہیں فارسی
جس سے ہے اردو زباں میں دل کشی

یہ زباں پیدا ہوئی ایران میں
پھر وہاں سے آئی ہندستان میں

تب ہوئی اس پر حکومت مہرباں
یہ بنی بھارت میں دفتر کی زباں

وقت نے کچھ ایسی کروٹ لی یہاں
رفتہ رفتہ مٹ رہی ہے یہ زباں

اس کا اب کوئی نہیں پرسان حال
کوئی بھی رکھتا نہیں اس کا خیال

اس کی ایسی نیم جاں حالت ہوئی
اب یہ اسکولوں سے بھی رخصت ہوئی

اس لیے کچھ لفظ و معنی جان لیں
فارسی کی اہمیت پہچان لیں

فارسی میں رب کو کہتے ہیں خدا
جو ہے ہر مخلوق کا حاجت روا

ماں کو مادر باپ کو کہتے پدر
بیٹی دختر ہے تو بیٹا ہے پسر

ہے برادر بھائی، خواہر ہے بہن
مرد تو ہے مرد ہی عورت ہے زن

عم چچا ہیں اور ماموں خال ہیں
جن سے جیبیں آپ کی خوش حال ہیں

بیوی زن ہے اور میاں خاوند ہیں
یہ گل و بلبل کے ہی مانند ہیں

چاند ہے مہتاب، سورج آفتاب
تارے اختر، ابر بادل کا خطاب

کوہ ہے پربت تو جنگل دشت ہے
سنگ پتھر، اینٹ بھی تو خشت ہے

یہ ہوا ہے باد، پانی آب ہے
جن کی برکت سے جہاں شاداب ہے

ہے ندی دریا تو جھرنا آبشار
پھول کہلاتا ہے گل کانٹے ہیں خار

اتنا کر لیں یاد تب آگے بڑھیں
رفتہ رفتہ فارسی ہم سب پڑھیں

(دوسری قسط)

بال کو کہتے ہیں”مو" "لب" ہونٹ کو
اے عزیزو! ناک کو "بینی" کہو

سر کو اپنے ” سر" کہیں گے ہم جناب
ہے خدا کی اس میں حکمت بے حساب

جلوہ گاہ نور ایمانی کہیں
کیوں نہ ہم ماتھے کو "پیشانی" کہیں

بھاوں کو ” ابرو" کہیں ہم بے کھٹک
آنکھ کی پتلی کو ہم بولیں”پلک"

کان سے سننے کا ہم لیتے ہیں کام
فارسی میں "گوش" ٹھہرا اس کا نام

آنکھ کو کہتے ہیں بچو! "چشم" ہم
جو دکھاتی ہے ہمیں سب پیچ و خم

دانت جو ” دندان" سے موسوم ہے
آپ کو اس کی صفت معلوم ہے

قید میں دندان کی جو، ہے "زباں"
فارسی، اردو میں ہے یکساں رواں

ہے جو یہ گردن ہماری ” گردنہ"
اس سے بھی بچو! رہیں ہم آشنا

اردو میں کاندھا جسے کہتے ہیں آپ
فارسی میں ہے وہی "شانہ" جناب

دل کو پیارے ” دل" ہی کہنا چاہیے
توڑنے سے اس کو ڈرنا چاہیے

پیٹ کو کہتے ہیں ہم پیارے! شکم
جس کی خاطر کرتے ہیں ہم ہر کرم

پیٹھ کو بس "پشت" کہیے مہرباں
اور پھر ہڈی کو کہیے”استخواں"

اس بدن کو فارسی میں کہتے ” تن"
ہے ازل سے جس کو ڈھکنے کا چلن

یہ جو ہے چمڑا ہمارا "چرم" ہے
سخت کچھ کا ہے تو کچھ کا نرم ہے

ہے بدن میں جو لہو وہ "خون" ہے
طاقت و قوت کا یہ مضمون ہے

نس جو اپنا ہے وہی تو "رگ" ہوا
ہے لہو کے دوڑنے کا راستہ

ہاتھ ہی تو فارسی میں "دست" ہے
جس میں دنیا کا ہنر پیوست ہے

جو ہے انگلی، ہے وہی "انگشت" ہی
اور ہم مٹھی کو کہتے "مشت" بھی

اہل فارس پاؤں کو کہتے ہیں”پا"
ہم پہ یہ احسان ہے رب کا بڑا

پیارے بچو! اب اجازت دیجیے
مسکرا کر مجھ کو رخصت کیجیے

(تیسری قسط)
اب ذرا کچھ ذکر حیوانات ہو
ان کی دنیا کی سہانی بات ہو

خر ہے گدھا اور کھوڑا اسپ ہے
ان کا قصّہ بھی بڑا دل چسپ ہے

فارسی میں کہتے ہیں 🐕 کتے کو سگ
سب سے ہے اس کی وفاداری الگ

بلی ہے گربہ تو چوہا موش ہے
دو زباں کے درمیاں خرگوش ہے

چلبلے 🐒 بندر میاں میمون ہیں
وہ ہمارے، ان کے ہم ممنون ہیں

🦊 لومڑی رانی، سنو روباہ ہیں
ان کی چالاکی سے ہم آگاہ ہیں

🦁 شیر خاں ہر حال میں ہیں شیر ہی
ان کے آگے کیا ہے اردو، فارسی

یہ جو 🐅 چیتا ہے، ببر کہلا گیا
برق رفتاری میں سب پر چھا گیا

🐫 اونٹ کو پیارے شتر بھی جانئے
کوئی کل سیدھی بھی ہے، پہچانئے

🐐 بکری بز ہے اور بزہ یہ بھیڑ ہے
ان کا آپس میں نہ کچھ مڈبھیڑ ہے

🐄 گائے پیاری گاؤ سے موسوم ہے
اس کی نیکی کی جہاں میں دھوم ہے

گائے کی بچھیا ہی گوسالہ ہوئی
اس سے بےحد پیار کرتے ہم سبھی

🐺 بھیڑیے کو گرگ بھی کہہ لیجیے 
اعتبار اس پر نہ لیکن کیجیے 

جان لو بچو! ہے کچھوا لاک پشت
سخت جاں ہے خوب لیکن چال سست

ہے کلاچیں بھرنے والا جو ہرن
اس کو آہو جانتے ہیں مرد و زن

اہل فارس 🐍 سانپ کو کہتے ہیں مار
اس کے آگے جایئو مت زینہار

🐸 مینڈکی کا قورباغہ نام ہے
اور ٹرانا ہی اس کا کام ہے

ہم 🐿️ گلہری کو کہیں سنجاب بھی
جو نظر آتی بڑی بیتاب سی

ہیں جو چاچا ریچھ کہلاتے خرس
اک 🍯 شہد ہی ان کو ہے مرغوب بس

بھاری بھرکم 🐘 ہاتھی راجا فیل ہے
پر بجھی سی عقل کی قندیل ہے

آج کا اتنا ہی کافی ہے سبق
اگلے ہفتے الٹیں گے اگلا ورق

(چوتھی قسط)
ہیں جو مخلوقات اٹھارہ ہزار
ہم سے ہے مشکل بہت ان کا شمار

پر جہاں تک ‌ہو سکے ہم جان لیں
ان کے سب نام و نسب پہچان لیں

کچھ زمیں پر اور کچھ زیر زمیں
اور کچھ ان میں ہیں پانی کے مکیں

جنگلوں میں کوئی کرتا ہے قیام
اور پہاڑوں پر کوئی ہے شادکام

کوئی غاروں میں بسر کرتا رات
کوئی پیڑوں پر بسر کرتا ہے رات

کوئی باشندہ ہے ریگستان کا
اور عادی ہے کوئی میدان کا

پالتو بن کر کوئی مسرور ہے
اور کوئی قید میں رنجور ہے

شکل اور فطرت بھی ہے سب کی جدا
با‌وفا ہے کوئی، کوئی بے وفا

کوئی کھاتا سبزیاں اور قند، مول
اور کسی کے دل کو بھاتا ہے ببول

پیٹ بھرتا ہے کوئی مردار سے
کچھ کو بس تازہ لہو سے پیار ہے

ہیں تلاش رزق میں سب کو بہ کو
ہے، غرض سب کو غذا کی جستجو

🐃 بھینس کہلاتی ہے بچو! "گاؤ میش"
دودھ جو دینے میں رہتی پیش پیش

پونچھ کو ہی پیارے بچو!” دم" کہو
مکھیاں جھلنے کے کام آتی ہے جو

جانور کی سینگ کا ہے "شاخ" نام
جس سے لیتے ہیں‌ حفاظت کا وہ کام

🦎 چھپکلی کا "مارمولک" نام ہے
بے مشقت کی غذا سے کام‌ ہے

کیکڑے کی فارسی ” خرچنگ" ہے
خوب صورت ہے نہ یہ خوش رنگ ہے

ہم کہیں گھڑیال کو "تمساح" بھی
اس کا مسکن ہے سمندر یا ندی

اس نجس خنزیر کو کہتے”گراز"
دیکھنے سے بھی اسے آنا ہے باز

ہے جو کنگارو، وہی ہے”کانگرو"
کیا کبھی اس کے ہوئے ہو رو بہ رو؟

فارسی میں آپ "زرافہ" کہو
لمبی گردن والے اس زراف کو

🦂 بچھو "عقرب"، 🎏 مچھلی”ماہی"، چینٹی”مور"
اور جھینگر” زنجرہ" کرتا ہے شور

نیولا کہلاتا ہے” راسو" جناب
سانپ سے کرتا ہے نفرت بے حساب

ایک ہفتہ رک کے تھوڑا سانس لیں
تازہ دم ہو جائیں، پھر آگے بڑھیں

(پانچویں قسط)
اب پرندوں سے بھی ہو لیں آشنا
جو خدا کی کرتے ہیں حمد و ثنا

ان پرندوں کی بھی ہے دنیا عجیب
آپ‌ بھی ہو کر کبھی دیکھیں قریب

ان کا اڑنا، چہچہانا خوب ہے
ان کے ہونٹوں پر ترانہ خوب ہے

گلشن ہستی میں ان سے ہے بہار
یہ زمین و آسماں کے رازدار

یہ پرندے بھولے بھالے بے ضرر
رسم دنیا کی نہ کچھ ان کو خبر

بس تلاش رزق ہی اک کام ہے
مشغلہ ان کا یہ صبح و شام‌ ہے

پنکھ کو ان کے کہا جاتا ہے "پر"
آسماں کا جس سے یہ کرتے سفر

چونچ جو ہے ان کی وہ "منقار" ہے
دانا چگنے کا یہی ہتھیار ہے

مور کو "طاؤس" کہتے ارجمند!
رقص اس کا ہے بڑا ہی دل پسند

طوطا ہی کہلاتا ہے "طوطی" میاں!
بولتا ہے آپ، ہم سب کی زباں

آمد مہماں کی دیتا ہے خبر
وہ جو کوا ” زاغ" ہے پیغامبر

گدھ ” کرگس" اب نہیں آتا نظر
لمبی گردن اس کی ہے بے بال و پر

نام گوریا کا ہی ” کنجشک" ہے
اس کی آزادی پہ سب کو رشک ہے

باز جو ” شاہین" سے مشہور ہے
اس کو پابندی نہیں منظور ہے

کٹکٹی مرغی،‌ سنو ہے "ماکیاں"
اس کا انڈا ہی تو ہے ” بیضہ" میاں!

مرغ کو کہیے "خروس" اے مہرباں
صبح میں اٹھ کر جو دیتا ہے اذاں

ہنس جو ہے، "غاز" سے موسوم ہے
دیکھنے میں ‌وہ بھی کیا معصوم ہے

آئیے بطخ کو ہم ” "اردک" کہیں
بے سری آواز اس کی ‌ہم سنیں

رت جگے کا عادی الو ہے "جغد"
کوئی اس کو نیک کہتا، کوئی بد

ہے جو وہ بگلا‌ "حواصل" ہو گیا
مچھلیوں کا ‌وہ بھی قاتل ہو گیا

پس کبوتر کی غٹر غوں جب سنیں
فارسی میں اس کو ” کفتر" بھی کہیں

رات بھر مچھر جو وہ کرتا ہے بین
اس کو ‌”پشہ" بھی کہیں اے نور عین

پھول پر بھونرا ہے سو جاں سے فدا
اہل فارس نے اسے "سوسک" کہا

پھول سے تتلی کی بھی ہے عاشقی
اس کو ” پروانہ" پکاریں ہم سبھی

پھول سے بلبل کا ہے رشتہ عجیب
فارسی میں اس کو کہتے”عندلیب"

سلسلے کا اگلا حصّہ، پھر کبھی
بچ گئے جو، ان کا قصہ، پھر کبھی

(چھٹی قسط)
پیارے بچو! آپ کا کیا حال ہے
آپ کی کیوں سست اتنی جال ہے

رکھ کے دل پر ہاتھ بتلائیں ذرا
آپ کو پچھلا سبق ہے یاد کیا

جانے کیوں مجھ کو یہ ہوتا ہے گماں
میری محنت ہو نہ جائے رائیگاں

میرے اس دل کی تمنا ہے یہی
سیکھ جائیں آپ سب بھی فارسی

فارسی کی راہ پہچانی رہے
جس سے اردو میں بھی آسانی رہے

اپنی یادوں کو جگاؤں میں بھی کچھ
اس بہانے سیکھ جاؤں میں بھی کچھ

بس اسی اک بات سے رنجور تھا
مدتوں میں فارسی سے دور تھا

اب جو یہ جاری ہوا ہے سلسلہ
کچھ تو میرا بھی بڑھا ہے حوصلہ

ہے گزارش آپ سب سے اک یہی
یاد کرنے کی کریں ان کو سعی

آپ نے گر کی مری خواہش قبول
اس گھڑی ہوگی مری محنت وصول

پچھلے ہفتے کا سبق باقی جو تھا
اس کو کر لیں آج ہم پورا، ذرا

اک پرندہ ہے بیا "کیتو" بہ نام
گھونسلے میں اپنے رہتا شادکام

چاند کا عاشق ” کبک" ہے وہ چکور
اس کے سانسوں کی بندھی ہے جس سے ڈور

دیکھ کر ہی اس کو دل ہے پاش پاش
وہ جو چمگادڑ ہے کہلاتا "خفاش"

مکھیوں کو ہی کہا جاتا "مگس"
بھنبھنانا ہی ہے ان کا کام بس

اس کے مکھے کا ہی "خرمس" نام ہے
کام اس کا بھی یہ صبح و شام ہے

آپ نے ہدہد کو دیکھا ہے کبھی
جان لیں ” بوبک" ہے اس کی فارسی

مثل بگلا ہی ہے سارس بھی سنو
فارسی میں تم اسے "لک لک" کہو

بچو! وہ کٹھپھوڑوا ہی ہے "فراغ"
اب کہیں ملتا نہیں اس کا سراغ

دیکھنا مکھی شہد کی جب کبھی
جان لو "زنبور" کہلاتی وہی

کیوں نہ اس امید پر دل شاد ہو
اگلے ہفتے آپ کو سب یاد ہو

( ساتویں قسط)
بے وجہ کیوں آج کل کی بات ہو
اب ذرا کچھ پھول پھل کی بات ہو

پھول کی خوشبو سے ‌دل پائے سکوں
دور سب ہو جائیں امراض دروں

دید سے جس کے بڑھے آنکھوں کا نور
ذہن میں بھی اس سے ہو پیدا شعور

اور پھل بھی ہے بہت عمدہ غذا
ذائقہ بھی اس میں ہے اور ہے قوی

پھل بھی کچھ سوکھا ہے کچھ رس دار ہے
دونوں کی حاجت ہمیں بسیار ہے

پھول ” گل" ہے اور پھل ” میوہ" ہوا
رنگ بھی ہوتا ہے ان سب کا جدا

پیڑ جو بچو! ہے کہلاتا "شجر"
کوئی ہے پھل دار کوئی بے ثمر

وہ کہ جو راجا پھلوں کا آم ہے
فارسی میں اس کا” انبہ" نام ہے

ہے بہت امرود بھی خوش ذائقہ
فارسی میں جو” گلابی" بھی ہوا

جب کبھی اخروٹ کھائیں مہربان
نام اس کا جان‌لیں ہے”گردگان"

زرد آلو کو ہی ” خوبانی" کہیں
شکریہ کھا کر اسے، رب کا کریں

کھایا ہوگا آپ نے بےشک کھجور
اس کو” خرما" کہتے ہیں جانیں ضرور

"ہندوانہ" کہتے ہیں تربوز کو
جس سے ہوتی پیٹ کی گرمی فرو

ہے جو خربوزہ وہی ” فریوک" ہے
اس کو کھانے میں نہ کوئی روک ہے

فارسی میں کہتے ہیں کیلے کو "موز"
وہ صحت پائے جو کھائے روز روز

آپ نارنگی کو” کینو" جانیے
اس کی ساری خوبیاں پہچانئے

جو پپیتا ہے ” ھلو" بھی ہے وہی
خوب رغبت سے اسے کھاتے سبھی

آج اتنا سے ہی بچو! کام لیں
خوب پھل کھائیں، خدا کا نام لیں

(جاری)

امان ذخیروی کی گذشتہ تخلیق :استاد محترم

شیئر کیجیے

One thought on “آؤ فارسی سیکھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے