جشنِ حماقت

جشنِ حماقت

ڈاکٹر خالد مبشر
جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی

اک شور ہر طرف ہے نیا سال آ گیا
لیکن نئے پرانے کی منطق نہیں پتہ
سانسیں نئی ہیں یا کہ مری دھڑکنیں نئی
چہرہ نیا ہے یا کوئی آئینہ ہے نیا
میری نظر نئی ہے کہ منظر ہوئے نئے
یہ آسمان یا مہ و اختر ہوئے نئے
خشکی بدل گئی ہے کہ دریا بدل گیا
جنگل بدل گیا ہے کہ صحرا بدل گیا
تبدیل کیا ہوا ہے کہیں کچھ نہیں ہوا
صبحیں وہی ہیں، شام وہی اور شب وہی
دانہ کہ دام، صید کہ صیاد سب وہی
میں بھی وہی پرانا، تمھارا بھی ڈھب وہی
وحدت کی ایک سیلِ بلا خیز ہے یہ وقت
سو یہ نئے پرانے کی تقسیم سب غلط
یہ سالِ نو کا جشن حماقت کا جشن ہے
***
صاحب نظم کی گذشتہ تخلیق :میں کہ اک معلم ہوں

شیئر کیجیے

One thought on “جشنِ حماقت

  1. سالِ نو کے شور شرابے کو آئینہ دکھاتی ہوئی نظم ۔۔۔ کھوکھلی روایت کا جشن، ” جشن حماقت” ہی تو ہے ۔
    خوبصورت اور معنی خیز نظم کے لئے ڈاکٹر خالد مبشر صاحب کو بہت داد و مبارکباد۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے