ظفر کمالی کوساہتیہ اکادمی انعام ملنا اُس انعام کو عزت بخشنا ہے: عامر سبحانی

ظفر کمالی کوساہتیہ اکادمی انعام ملنا اُس انعام کو عزت بخشنا ہے: عامر سبحانی

ظفر کمالی کی ادبی خدمات کے اعتراف میں بزم صدف انٹرنیشنل کے زیر اہتمام سے می نار کا انعقاد 
بزمِ صدف انٹرنیشنل ظفر کمالی کے یومِ پیدایش ۳، اگست کو جشنِ ظرافت کے طور پر منائے: ڈاکٹر ریحان غنی

پٹنہ : ٢٠، نومبر۔ ظفر کمالی کی ادبی کاوشیں سنجیدہ ہیں اور ان کو ساہتیہ اکادمی کے ذریعہ انعام دیا جانا خود اس انعام کو عزت بخشنا ہے۔ میں نے ظفر کمالی کو تقریباً گیارہ برس کی عمر سے دیکھا ہے اور اس وقت سے اب تک انھیں سنجیدگی سے لکھنے پڑھنے کے کام میں ہی لگے دیکھا ہے۔ مندرجہ بالا باتیں جناب عامر سبحانی، چیف سکریٹری، حکومتِ بہار نے بزمِ صدف کے ذریعہ منعقدہ ایک روزہ قومی سے می نار کے افتتاح کے دوران کہیں۔ یہ سے می نار معروف مزاح نگار اور محقق و ادیب پروفیسر ظفر کمالی کو ساہتیہ اکادمی انعام براے ادبِ اطفال ملنے کے اعزاز میں منعقد کیا گیا تھا۔
جناب عامر سبحانی نے کہا ظفر کمالی کی نفاست، صلاحیت اور قابلیت سے مَیں بہت متاثّر رہا ہوں۔ وہ ادبی میدان میں بڑے بڑے معرکے سَر کرتے رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ظفر کمالی کو کئی جہتوں سے ادبی ایوارڈ مل سکتا تھا مگر ناقدری کے اس دور میں ادبِ اطفال کے حوالے سے بھی انھیں انعام دیا جانا خوشی کا باعث ہے۔ انھوں نے چالیس پینتالیس برس پہلے اپنے اسکول کے زمانے کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اُن کے ہم درس تھے اور اس دور میں بھی ظفر کمالی کی اردو، فارسی اور مذہبیات کا علم قابلِ رشک تھا۔ ظفر کمالی نے اپنے اُس علم اور ذوق پر اپنی محنت و مشقت سے اضافہ ہی کیا۔ وہ جہاں بھی رہے مطالعہ اور تصنیف و تالیف کی بنیادوں پر خود کو مزید مُستحکم کرتے رہے۔
عامر سبحانی نے یہ بھی بتایا کہ اسکول سے نکلنے کے بعد پھر ہم عظیم آباد میں ایک دوسرے سے ٹکرائے۔ الگ الگ مضمون میں ہم نے اپنی تعلیم جاری رکھی۔ تھوڑے تھوڑے وقفے سے جب بھی ظفر کمالی کی کوئی کتاب شایع ہوتی تو وہ میرے مطالعے کے لیے ضروربھیج دیتے۔ شاعری، ظرافت، تنقید و تحقیق، بچّوں کا ادب اور ظریفانہ کاوشیں؛ ظفر کمالی نے بڑی محنت و مشقّت کے بعد ادبی دنیا میں پہچان قایم کی۔ آج وہ ہماری زبان کے مشہور اور قابلِ ذکر لکھنے والوں میں ہیں۔ مَیں اُنھیں ساہتیہ اکادمی براے ادبِ اطفال کے ایوارڈ کے لیے خاص طور پر مبارک باد دیتا ہوں اور بزمِ صدف انٹرنیشنل کو ان کے اعتراف کے لیے شایانِ شان جشن کرنے کے لیے بالخصوص تہنیت پیش کرتا ہوں۔
ابتدائی اجلاس میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے روزنامہ قومی تنظیم کے چیف ایڈیٹر سید محمد اشرف فرید نے ظفر کمالی کی مجموعی ادبی خدمات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے رفتہ رفتہ کس طرح سے اپنی ادبی شخصیت کی تعمیر و تشکیل کی۔ انھوں نے کہا کہ ظفر کمالی کی شخصیت کثیر الجہات ہے اور وہ شاعری اور نثر کی متعدّد اصناف میں ایک ساتھ اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے ان کامیابیوں تک پہنچے ہیں۔ انھوں نے اُن کی شخصیت کی سادگی، شرافت اور علمی گہرائی کے اوصاف کا اظہار کیا اور بتایا کہ کس طرح یہ تمام اوصاف مل کر اُن کی ایک مجموعی شخصیت کا حصّہ بنتے ہیں۔
سے می نار کے کلیدی خطبے کے لیے کولکاتا یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو کے صدر اورمعروف نقّاد و محقّق ڈاکٹر امتیاز وحید کو مدعو کیا گیا تھا۔ امتیاز وحید نے اپنے تفصیلی خطاب میں ترتیب کے ساتھ ظفر کمالی کی زندگی اور ان کے کاموں کی پرتیں کھولتے ہوئے سامعین کو ایک مکمل ظفر کمالی سے روٗ بہ روٗ کرانے میں کامیابی پائی۔ انھوں نے بتایا کہ ظفر کمالی کس طرح گھریلو تعلیم کے مراحل میں ہی ادب اور مذہب کی تعلیمات سے آراستہ ہو چکے تھے۔ اردو اور فارسی زبانوں سے ان کا گہرا لگاو ہو چکا تھا۔ کتابوں کو پڑھنا، سمجھنا اور اہلِ کمال کی صحبت میں بیٹھ کر اپنی تعلیم و تربیت کو استحکام بخشنا، ظفر کمالی کی ابتدائی زندگی کے خوش گوار مراحل رہے ۔
ڈاکٹر امتیاز وحید نے ظفر کمالی کی ادبی شخصیت کے خاص خاص پہلوؤں پر تفصیلی تنقید و تجزیے سے بہت سارے مخفی گوشوں کو روشن کرنے میں کامیابی پائی۔ انھوں نے اُن کی تنقید و تحقیق سے متعلّق کُتب و مضامین کے بارے میں بتاتے ہوئے یہ بات کہی کہ ان کے یہاں صاف گوئی اور بے باکی کے ساتھ اصولِ تحقیق کی ایسی ٹھوس پاس داری ہے کہ وہ ضرورت پڑنے پر بڑے بڑوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ ڈاکٹر امیتاز وحید نے بچّوں کے ادب کے حوالے سے ظفر کمالی کی متعدّد نظموں کے اقتباسات پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اردو میں یہ کیوں کر دوسرے شعرا سے مختلف سرمایہ ادب ہے۔ ظفر کمالی کی رباعیات پر توجّہ فرماتے ہوئے انھوں نے موجودہ عہد کے سب سے اہم رُباعی گو شاعر کے طور پر یاد کیا اور ان کے اس علمی سرمائے کی قدر شناسی کے لیے نقّادوں کو آگے آنے کا مشورہ دیا۔ فنِّ رباعی میں ظفر کمالی نے جو اختراعات کیے، اس پر بھی امتیاز وحید نے روشنی ڈالی۔ انھوں نے ظفر کمالی کی شخصی رباعیات کو بھی اپنی گفتگو کا موضوع بناتے ہوئے بتایا کہ یہاں ان کا نقّاد اور محقّق کبھی پسِ پُشت نہیں پڑتا اور وہ اپنی ان صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اِن رباعیات سے ایک نئے جہانِ معنی کی تخلیق کرتے ہیں۔
امیتاز وحید نے ظفر کمالی کی ادبی خدمات کے مرکز میں اُن کی ظرافت نگاری کو رکھا اور یہ کہا کہ اُن کی ادبی تخلیقات کی رگوں میں جو گرم لہو دوڑ رہا ہے، وہ حقیقت میں ظرافت کا ہُنر ہے۔ ظرافت کے اوصاف اُن کی ہر صنف میں خدمات کے حوالے سے ملاحظ کیے جا سکتے ہیں۔ انھوں نے ظفر کمالی کی ظریفانہ شاعری کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ان کے مجموعوں ’ظرافت نامہ‘، ’ڈنک‘، ’نمک دان‘،’ضربِ سخن‘ میں موجود سرمایۂ ادب کی قدر و قیمت کے تعیّن کی کوشش کی اور خاص طَور سے اُن کے مرکزی موضوعات کی نشان دہی کرنے میں وہ کامیاب ہوئے۔ ادب میں نقلی اور جعلی افراد کے داخلے پر احتجاج کو ظفر کمالی کا طُرّہَ امتیاز قرار دیا اور متشاعر سلسلے کی تین نظموں ’پیٖرِِ ادب‘، ’ادب اور سی بی آئی‘، ’انعام مبارک ہو‘ جیسی ان کی مشہور نظموں کے اقتباسات پیش کرتے ہوئے اپنے خطبے کو انجام تک پہنچایا۔
سے می نار میں استقبالیہ کلمات پیش کرنے کے لیے بزمِ صدف کے ڈائرکٹر پروفیسر صفدر امام قادری نے بتایا کہ ظفر کمالی جیسے گوشہ گیٖر اور مجلس بے زار آدمی کو ایسی تقریب میں شامل کرنا آسان کام نہیں تھا۔ ساہتیہ اکادمی کے انعام کے بعد یہ راستا ہم وار ہُوا۔ انھوں نے بتایا کہ بزمِ صدف نے بہ عجلت اس تہنیتی پروگرام کو منعقد کرنے کا فیصلہ کیا اور جن ماہرین کو اس سے می نار میں دعوت دی گئی، ان میں سے صد فی صد افراد کی تشریف آوری یہ ثابت کرتی ہے کہ ظفر کمالی کی قدر دانی کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ انھوں نے ظفر کمالی کے فن کی بنیادی بات یہ تسلیم کی کہ وہ مستقل مزاجی کے ساتھ ترتیب وار اپنے علمی کام انجام دینے کے لیے خاص پہچان رکھتے ہیں۔ انھوں نے سرسری اندازسے زندگی میں کسی علمی موضوع کو اپنے تصرّف میں لینے کی کاوش نہیں کی بل کہ مکمّل سنجیدگی، انہماک اور مشقّت سے ان کوٗچوں کی سیّاحی کرتے رہے، اس کی وجہ سے ان کے یہاں ایک پختگی اور کمال کے اوصاف نظر آنے لگے ہیں ۔
اس سے می نار کے افتتاحی اجلاس کی صدارت ویر کنور سنگھ یونی ورسٹی آرا کے سابق صدر شعبۂ اردو پروفیسر سید شاہ حسین احمد نے کی۔ انھوں نے ظفر کمالی سے اپنے دیرینہ تعلّقات اور ان کی محقّقانہ شخصیت کے تشکیلی عناصر کے باب میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس جلسۂ اعتراف کو انھوں نے وقت کی ایک خاص ضرورت قرار دیا۔
ڈاکٹر ظفرکمالی کو اس موقعے سے اظہارِ خیال کی جب دعوت دی گئی تو انھوں نے اپنے خطاب میں اپنے اساتذہ کو یاد کرتے ہوئے ان کے ذریعہ بیان کردہ بعض سنہرے اصول بھی پیش کیے اور بتایا کہ اِنھی راستوں پر وہ آج تک چلتے رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے اساتذہ میں مرحوم احمد جمال پاشا کا خاص طَور سے تذکرہ کیا اور ان کی اُن نصیحتوں کو یاد کیا جو عمر کے کچّے دور میں اُستاد کی طرف سے ایسی عطایات کے طور پر حاصل ہوئیں جنھیں وہ اپنا سرمایہَ حیات تسلیم کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ احمد جمال پاشا نے مرحوم صلاح الدین احمد کا ایک قول بتایا تھا کہ ’’ادب میں جب چور دروازے سے مصلحت داخل ہوتی ہے تو صدر دروازے سے فن رُخصت ہو جاتا ہے۔‘‘ انھوں نے کہا کہ یہ قول میں نے گِرہ میں باندھ لی۔ خدا کا فضل ہے کہ قلم کی حُرمت کا خیال ہر تخلیق کے مرحلے میں قایم رہا اور اساتذہ کے بتائے اُن راستوں سے گُریز کرنے کا مَیں نے کبھی کوئی موقع نہیں آزمایا۔
پروگرام کی نظامت اردو ڈائرکٹوریٹ کے ترجمان ’بھاشا سنگم‘ کی نائب مدیر ڈاکٹر افشاں بانو نے کی۔ انھوں نے نظامت کے دوران مقرّرین اور بالخصوص ظفر کمالی کے حوالے سے تعارفی اور تنقیدی شذرات پیش کیے۔ جناب زاہد سیوانی، ڈاکٹر التفات امجدی اور جناب شکیل سہسرامی نے ظفر کمالی کو مرکز میں رکھا کر اپنی نظمیں، قطعات و رباعیات پیش کیں۔
یہ سے می نار تین اجلاس میں مکمل ہوا۔ افتتاحی اجلاس میں شمع روشن کرکے جناب عامر سبحانی نے سے می نار کا افتتاح کیا۔ اس کے بابرکت آغاز کے لیے بی این منڈل یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو کے ری سرچ اسکالر محمد شوکت علی نے قرآنِ پاک کی تلاوت کی۔ مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی اور جناب مشتاق احمد نوری کی صدارت میں یہ اجلاس ظفر کمالی کی شخصیت، ادبِ اطفال اور رُباعی گوئی کے تعلّق سے خدمات کے لیے وقف تھا۔ ڈاکٹر ظفر کمالی کی شخصیت کے حوالے سے ڈاکٹر تسلیم عارف (ڈالٹن گنج ، پلامو)، ڈاکٹر اظہار خضر، ڈاکٹر امتیاز سرمد، ڈاکٹر انوار الحسن، جناب جاوید اقبال اور جناب مشتاق احمد نوری نے مضامین پیش کیے۔ ان مضامین میں ایک نئے ظفر کمالی سے ہمارا سابقہ پڑا۔ مقالہ نویسوں نے ذاتی مشاہدے، علم اور اپنے تجرِبات کی بنیاد پر یہ مقالے سُپردِ قلم کیے تھے۔ بچّوں کے ادب کے حوالے سے ڈاکٹر منی بھوشن کمار، جناب محمد شوکت علی، محترمہ نازیہ تبسم، جناب محمد مرجان علی نے اپنے مقالے پیش کیے اور ظفر کمالی کی ادبِ اطفال کے ماہر کی حیثیت سے ایک مکمّل شبیہہ واضح ہوئی۔ ظفر کمالی کی رُباعی گوئی کے حوالے سے محترمہ صالحہ پروین، محترمہ شفگتہ ناز اور ڈاکٹر ظفر امام قادری نے اپنے مقالے پیش کیے۔
سے می نار کے دوسرے تکنیکی اجلاس میں ظفر کمالی کی تنقید و تحقیق اور ظرافت نگاری زیرِ بحث رہی۔ دوسرے جلسے کی صدارت ڈاکٹر اظہار خضر اور ڈاکٹر ظفر امام قادری نے فرمائی۔ جناب اسفر فریدی، جناب محمد عارف اقبال، جناب عبدالوہاب قاسمی، محترمہ شاذیہ حسن نے ظفر کمالی کی ظرافتی خدمات کو مرکزِ گفتگو بنایا۔ مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی، ڈاکٹر محمد ذاکر حسین، ڈاکٹر افشاں بانو، مفتی محمد ولی اللہ قادری اور ڈاکٹر ریحان غنی نے ظفر کمالی کی تنقید و تحقیق کے تعلّق سے خدمات پر بہ تفصیل روشنی ڈالی۔ مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی نے اپنے خطبہَ صدارت میں ظفر کمالی کی شخصیت اور ان کی تحریر کی سنجیدگی کو موضوعِ بحث بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ خلوص اور ایمان کے بل پر ظفر کمالی نے اپنی محقّقانہ شخصیت کی تعمیر و تشکیل کی ہے۔ لفظ و بیان میں ان کی احتیاط پسندی اور علمی گہرائی کو بہ طَورِ خاص تذکرے کا حصّہ بنایا۔ دوسرے جلسے کی صدارت کرتے ہوئے ڈاکٹر ظفر امام قادری نے بتایا کہ ظفر کمالی کی شخصیت کس طرح ہشت پہلوٗ ہے اور اُن کے حوالے سے جو سے می نار میں مقالے پیش کیے گئے وہ کس قدر با معنیٰ اور علمی اعتبار سے پختہ قلم تھے۔ سینیر صحافی اور ادیب ڈاکٹر ریحان غنی نے اپنی تقریر میں ادب، صحافت اور تنقید و تحقیق کے رِشتوں کے اشتراک پر گفتگو کرتے ہوئے یہ بتایا کہ ظفر کمالی نے اپنی علمی شخصیت کو بڑے سلیقے سے تشکیل دیا ہے۔ ریحان غنی نے دبستانِ عظیم آباد کی تاریخ اور خاص طَور سے صاحبانِ طنز و ظرافت کے حوالے سے ایک اعلا اور مستقل روایت کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ رضا نقوی واہی کی کوششوں سے کم از کم تین بار عظیم آباد میں بڑے پیمانے پر جشنِ ظرافت کا اہتمام ہوا تھا۔ اب بہار کے حوالے سے ایسی بڑی تقریبات کا انعقاد نہیں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ریحان غنی نے محفل کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ ظفر کمالی کے یومِ پیدایش ۳ اگست کو ہر سال ہم کیوں نہ یہاں جشنِ ظرافت کا انعقاد کرنے کی ایک نئی روایت کی داغ بیل رکھیں۔ بزمِ صدف کی جانب سے یہ اعلان بھی کیا گیا کہ ۳ اگست کو ہر سال ظرافت کے لیے وقف بڑی تقریب کا اہتمام کیا جائے گا۔
اس تقریب میں تین کتابوں کا اجرا عمل میں آیا۔ مفتی ثناء الہدیٰ قاسمی کی کتاب ’یادوں کی کتاب‘ (جلد چہارم)، رہبر مصباحی کی مترجمہ کتاب ’سب رنگ‘ اور شکیل اختر کے شعری مجموعے ’شعر کی خوش بو، فکر کے جگنو‘ کتابوں کا افتتاحی اجلاس میں اجرا عمل میں آیا۔ بزمِ صدف کے اس ایک روزہ سے می نار میں صوبۂ بہار اور جھارکھنڈ کی مختلف یونی ورسٹیوں کے اساتذہ، ری سرچ اسکالرس اور دیگر طلبہ و ادبا و شعرا کی شمولیت رہی۔ پروگرام میں شروع سے آخر تک بڑی تعداد میں شائقین کی شرکت اس بات کا ثبوت رہی کہ ظفر کمالی سے محبّت کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور یہ بات بھی ظاہر ہوئی کہ بزمِ صدف کی گزارش پر عظیم آباد اور بہار جھارکھنڈ اور دوسرے صوبوں سے شائقینِ ادب بہ شوق تشریف لاتے ہیں اور علمی مذاکرے میں شریک ہو کر پروگرام کے وقار میں اضافہ کرتے ہیں۔ بزمِ صدف انٹرنیشنل کی جانب سے پروگرام کے اختتام کے موقعے سے پروفیسر صفدر امام قادری نے تمام مہمانوں اور مقالہ نگارحضرات اور سامعینِ کرام کا صمیمِ قلم سے شکریہ ادا کیا۔
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :بزمِ صدف انٹر نیشنل کی ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ ادیب کے لیے تہنیتی پراگرام

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے