کتاب : نقوش و افکار

کتاب : نقوش و افکار

طیب فرقانی
رابطہ: ali1taiyab@gmail.com

میرا خیال ہے کہ تبصراتی تحریر میں تعلقات کا ذکر جانب داری کی طرف لے جانے کے خطرات پیدا کرتا ہے.
خاص طور سے ان تحریروں میں جو کسی یار دوست کی کتاب کے لیے لکھی گئی ہو، ترازو کے کسی پلڑے کے بھاری ہونے کے امکانات پیدا ہوجاتے ہیں.
محمد منظر حسین (اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو مولانا آزاد کالج ، کولکاتا) نے ہمارے ساتھ جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی سے بی ایڈ کیا ہے. تب سے جو انھوں نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا پھر کبھی نہیں چھڑایا. مجھے کبھی گمان نہیں تھا کہ ہماری دوستی اس قدر آگے بڑھ جائے گی کہ وہ مجھے عزیز دوست کہیں گے. اور اپنی پہلی کتاب میں میرا شکریہ بھی ادا کریں گے. اس کی وجہ یہ ہے کہ میں کبھی ان کے کسی کام نہ آیا. آتا بھی کیسے کہ میں آوارہ منش اور وہ اصولوں کے پکے. چائے کی دکان میں، میں اگر بائیں ہاتھ سے کپ اٹھا لوں تو فوراً ٹوک دے کہ دائیں ہاتھ سے پیو یار. بہت سی باتوں میں، میں مشرق وہ مغرب / میں مغرب وہ مشرق مگر انھوں نے کبھی مجھے اکیلا نہیں چھوڑا. اچھے وقت میں بھی ساتھ اور برے وقت میں بھی اسی محبت و تکریم کے ساتھ. اور دن گزرنے کے ساتھ یہ تعلق مزید مستحکم کرنا ان کا خاص کردار ہے. مہمان نوازی کرنا، حوصلہ دینا، آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرنا اور جو بن پڑے؛ دامے درمے قدمے سخنے ہر موڑ پر کام آنا. محنت، لگن، وقت کی پابندی، ایمان داری، بے لوثی جیسی بہت سی خوبیاں ان میں ایسی ہیں جن کی وجہ سے ان کے اساتذہ بھی ان سے خوش رہتے ہیں. وہ بی ایڈ میں ٹیم لیڈر بنائے گئے تھے. ان کے استاد ڈاکٹر دبیر احمد نے ان کی پہلی کتاب پر بارہ صفحات پر مشتمل ایک مستقل مضمون لکھا ہے.
یہ کتاب ہے "نقوش و افکار" ان کے ان مضامین و مقالات کا مجموعہ جو انھوں نے مختلف سیمیناروں اور رسائل کے لیے لکھے تھے. اس میں اٹھارہ مضامین ہیں. (فہرست کا عکس ذیل میں منسلک ہے) محمد منظر حسین کی زبان سادہ اور غیر مصنوعی ہے. وہ سپاٹ لہجے میں بات کرتے ہیں اور اسی لہجے میں تحریر لکھتے ہیں. اردو زبان اور معاشرے پر لکھتے ہوئے ان کی تحریر میں ایک قسم کا درد چھلک جاتا ہے.
اس کتاب کے کئی مقالات اشتراک ڈاٹ کام پر بھی شایع ہوچکے ہیں. ان مقالات کے تعارف میں لکھے گئے نوٹس کو یہاں کچھ ضروری ترمیم کے ساتھ مشترک کر رہا ہوں :
(مقالہ : اکیسویں صدی میں اردو ناول اور ہمارا معاشرہ)
محمد منظر حسین نے اپنے مقالے میں ناولوں اور معاشرے کے تعلق کو مختلف نقادان ادب (مشرقی و مغربی) کے حوالے سے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کے علاوہ اکیسویں صدی کے اہم ناول نگاروں : مشرّف عالم ذوقی، عبد الصمد، غضنفر، فہمیدہ ریاض، محمد حسن وغیرہ کے ناولوں میں معاشرے کے بیان اور پیش کش پہ روشنی ڈالی ہے…..
محمد منظر حسین سادگی، صفائی اور وضاحت سے لکھتے ہیں.
***
(مقالہ : اردو تنقید کا شمس : شمس الرحمن فاروقی)
ضو بار اسی سمت ہوئے شمس و قمر بھی
اس شوخ نے پھیرا رخ پر نور جدھر بھی
شمس الرحمن فاروقی نے اردو دنیا کو جو دیا، اردو دنیا ان کی زندگی میں اس کا قائل بھی رہی اور معترف بھی. بہ قول مقالہ نگار لطف الرحمن اور وارث علوی جیسے لوگ بھی تھے جنھوں نے شمس الرحمن فاروقی کو نہ صرف رد کیا بلکہ انھیں فیک تک کہا. یہ تو فطرت کا نظام ہے. لیکن کسی کا کارنامہ اور حقیقی کارنامہ ہی اسے دیر تک زندہ رکھ سکتا ہے. شمس الرحمن فاروقی کی وفات نے جو خلا پیدا کیا، یہ سچ ہے کہ اسے پر کرنے میں کتنا وقت لگے ہم نہیں جانتے لیکن ان کے اعتراف کا سلسلہ جاری رہے گا.
زیر نظر مقالہ محمد منظر حسین نے ان کی زندگی میں ہی لکھا تھا. محمد منظر حسین مولانا آزاد کالج کولکاتا میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر متمکن ہیں. انھوں نے اسی کالج میں تعلیم پائی. جامعہ سے بی ایڈ کیا اور حیدر آباد سے ایم فل….
اس مقالے میں انھوں نے شمس الرحمن فاروقی کی تنقیدی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے ان کو عہد ساز شخصیت قرار دیا ہے…..
***
(مقالہ: اردو مرثیے کا ایک معتبر نام: علامہ جمیل مظہری)
علامہ جمیل مظہری کثیر الوصف اور متنوع ادبی جہات کی حامل شخصیت کا نام ہے. اردو شعر و نثر میں انھوں نے گراں قدر سرمایہ چھوڑا ہے. جدید مرثیہ نگاری میں انھیں بلند مقام حاصل ہے.
محمد منظر حسین نے ان کی مرثیہ نگاری کو پیش نظر رکھ کر ان کی ادبی شخصیت کا تعین کیا ہے. اس ضمن میں انھوں نے مرثیہ اور مرثیہ نگاری اور جمیل مظہری کی ادبی شخصیت پر بھی مختصر روشنی ڈالی ہے. انھوں نے پروفیسر عبدالمغنی، ڈاکٹر ہلال نقوی اور شمس الرحمن فاروقی کے حوالے سے اپنی گفتگو مدلل کی ہے. جمیل مظہری کے مرثیوں میں انیس و غالب کے آہنگ کی تلاش کی ہے.
***
(مقالہ : مولانا محمد علی جوہر اور ہمدرد)
عقل کو ہم نے کیا نذر جنوں
عمر بھر میں یہی دانائی کی
مولانا محمد علی جوہر
سیاست، سیادت اور صحافت کے علاوہ مولانا محمد علی جوہر کو شاعری سے بھی شغف تھا. ان کا مذکورہ شعر ان کی جد و جہد بھری زندگی کا ترجمان ہے.
زیر نظر مقالے میں محمد منظر حسین نے ان کی زندگی اور ہمدرد اخبار کے حوالے سے ان کی شخصیت کا عمدہ خاکہ پیش کیا ہے. بنیادی طور سے یہ مقالہ ہمدرد اخبار کے آغاز و ارتقا، نوعیت ،کیفیت اور کمیت پر روشنی ڈالتا ہے. اور اس کے تناظر میں مولانا کی شخصیت کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے. مقالے میں اصل ماخذ کے حوالے بھی موجود ہیں. (یہ مقالہ کتاب میں شامل نہیں)
***
(مقالہ : سر سید کا تصور تعلیم)
سر سید احمد خان کی شخصیت اور ہندستانی قوم کے لیے پیش کی گئیں ان کی خدمات کے تعلق سے گاہے گاہے بازخوانی ضروری امر ہے کہ نئ نسل کو ان سے آشنائی، آگہی اور استفادے کے تعلق کو مضبوط بنائے رکھا جاسکے.
زیر نظر مقالے میں محمد منظر حسین نے سر سید کے تصور تعلیم پر گفتگو کرتے ہوئے ان کے خطبات، مقالات، مکتوبات، تہذیب الاخلاق کی فائلوں کے حوالے سے ایک جامع مقالہ ترتیب دیا ہے. انھوں نے مقالے کے نکات کو خلاصے کے طور پر بھی پیش کیا ہے اور اپنی گفتگو مولانا آزاد کے بیان پر ختم کی ہے.
(مقالہ : میر ثانی : کلیم عاجز کی غزلیہ شاعری)
سلگنا اور شے ہے جل کے مرجانے سے کیا ہوگا
جو ہم سے ہو رہا ہے کام پروانے سے کیا ہوگا
کلیم عاجز نے اپنی حیات میں ہی اعتبار و شہرت حاصل کی. ان کے کلام کی سادگی، دردمندی اور ایک خاص انداز گفتگو دامن دل کشید کرتے ہیں.
زیر نظر مقالے میں محمد منظر حسین ( اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو مولانا آزاد کالج، کولکاتا) نے ان کے کلام کی خصوصیات کو اپنی بحث میں رکھا ہے. انھوں نے کلیم الدین احمد کے حوالے سے کلیم عاجز کو میر ثانی گردانا ہے. ان کی شاعری کے سبب پر بھی روشنی ڈالی ہے. صاحب مقالہ نے کسی جذباتی غلو کے بغیر فراق گورکھ پوری، کلیم الدین احمد اور دوسرے اہم نقادوں کے حوالے سے اپنی گفتگو مدلل کی ہے.
***
(مقالہ: دلتوں کے مسیحا پریم چند)
پریم چند نے اپنا افسانوی سفر حب الوطنی کے موضوع سے شروع کیا تھا. بعد میں ان کے افسانوں میں گاؤں دیہات کے حقیقی کردار پیش ہونے لگے. ان کرداروں میں سماج کا دبا کچلا اور حاشیائی کردار اہم ہے.
زیر نظر مقالے میں محمد منظر حسین نے پریم چند کے منتخب و مشہور افسانوں ( کفن، پوس کی رات، سوا سیر گیہوں، نجات وغیرہ) کے حوالوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ پریم چند نے دلت سماج کی آزادی و مساویانہ حقوق کی لڑائی اپنے قلم سے خوب لڑی.
اس ضمن میں انھوں نے قمر رئیس، شمس الرحمٰن فاروقی اور دوسرے نقادوں کے حوالوں کے ساتھ پریم چند کی افسانہ نگاری کا مجموعی جائزہ بھی لیا ہے اور ان کے مقام و مرتبے پر بھی گفتگو کی ہے. "`
کتاب : نقوش و افکار
مولف : محمد منظر حسین (اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو مولانا آزاد کالج، کولکاتا)
صفحات : ٢٢٤
قیمت : ٤٠٠ روپے
سنہ اشاعت : ٢٠٢١ (غالباً تاخیر سے منظر عام پر آئی)
ناشر: جویریہ پبلی کیشنز، گارڈن ریچ، کولکاتا
***
طیب فرقانی کی گذشتہ نگارش:کتاب: آبیاژہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے