کتاب کا نام : پرواز غزل

کتاب کا نام : پرواز غزل

مصنف کا نام : ڈاکٹر محمد اسلم پرویز اسلم
ضخامت : 112
قیمت : 300 روپے
مبصر : محمد انعام برنی
ریسرچ اسکالر
دہلی یونی ورسٹی، دہلی

میں اس سے قبل بھی اپنے کئی تبصروں میں اس بات کی طرف اشارہ کر چکا ہوں کہ سرزمین بہار نے ہر دور میں اردو زبان و ادب کو ایک سے بڑھ کر ایک کوہ نور دیا ہے۔ جنھوں نے اپنی شعری و ادبی روشنی سے پوری اردو دنیا کو روشن کیا۔۔۔۔ انھی ستاروں میں سے ایک ستارہ ہیں جناب ڈاکٹر محمد اسلم پرویز اسلم۔ آپ کا تعلق بھاگل پور بہار سے ہے۔ حال ہی میں آپ کی ادبی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے امریکا کی معروف ادبی تنظیم "ادبی سنگم" نے آپ کو بین الاقوامی ادبی اعزاز سے نوازا ہے۔ جس کی تعریف نہ صرف ہندستانی ادبی حلقوں میں ہوئی بلکہ ہندستان سے باہر بھی جہاں جہاں اردو داں طبقہ مقیم ہے، سب نے اس خبر پر مسرت کا اظہار کیا۔
موصوف کا شمار عہد حاضر کے ان فعال قلم کاروں میں ہوتا ہے جن کی تخلیقات آۓے دن ہمیں ملک اور بیرون ملک سے شائع ہونے والے رسائل و جرائد میں دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں۔ یوں تو جناب اسلم صاحب نے اردو زبان کی تقریباً سبھی اصناف پر خامہ فرسائی کی ہے۔ جن میں خاص طور پر حمد، نعت، منقبت، رباعی اور غزل قابل ذکر ہیں۔ تاہم ان کو صنفِ رباعی سے خاص دل چسپی ہے۔ تخلیقی سفر ابھی اپنے ابتدائی ایام میں ہے، مگر اس قلیل مدت میں انھوں نے جو کچھ لکھا اس پر عہد حاضر کے نامور ناقدین ادب نے جو رائیں پیش کی ان کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نئے لکھاری کا مستقبل بڑا تابناک ہے۔ اسلم پرویز کی شاعری سے متعلق جن علماے ادب کی آرا شامل کتاب ہیں، ان میں مرحوم شمس الرحمٰن فاروقی، ناوک حمزہ پوری، جیلانی بانو، باصر سلطان کاظمی، مظفر احمد مظفر اور علقمہ شبلی جیسے حضرات کے نام قابل ذکر ہے۔ اب تک اسلم پرویز اسلم کی پانچ کتابیں زیور طباعت سے آراستہ و پیراستہ ہو کر ادبی حلقوں میں داد و تحسین حاصل کر چکی ہیں۔ ان میں "پرواز" جو رباعیات و قطعات پر مشتمل ہے، "شخصیات" یہ شخصی رباعیات پر مبنی ہے، "رباعیات اسماعیل میرٹھی" اس کتاب کو مرتب نے بڑی ہی تلاش و جستجو کے بعد ترتیب دیا ہے، "آہنگ" یہ بھی آپ کی رباعیات پر مبنی کتاب ہے جو ضخامت کے اعتبار سے تو بہت چھوٹی ہے لیکن اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ "آہنگ" کی تمام رباعیات، رباعی کے سب سے مشکل وزن مفعولن مفعولن مفعولن فع/ فاع میں تخلیق کی گئی ہیں۔ رباعی کی شکل میں اس میں جو کلام ہے اس میں ایک سے ایک گوہر نایاب چھپا ہوا ہے جو اپنے قاری سے جوہری کی طرح پرکھنے کا تقاضا کرتا ہے۔ چھٹی کتاب مضامین پر مشتمل یوگی جو اس وقت طباعت کے مرحلے میں ہے. امید ہے کہ عن قریب وہ کتاب بھی ہم سب کے ہاتھوں میں ہوگی۔
زیر نظر مجموعہ بہ عنوان پرواز غزل 112 صفحات پر مشتمل ہے جس کے ابتدائی 13 صفحات ان مشاہیر ادب کے مضامین کے لیے مختص کیے گئے ہیں جنھوں نے متعلقہ مجموعے کے مسودے کا مطالعہ کر اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔ کتاب کا انتساب اردو زبان کی مشہور و معروف شاعرہ جو دیارِ غیر میں اردو زبان کی شیرینی سے لوگوں کو عرصہ دراز سے محظوظ کر رہی ہیں، میری مراد عابدہ شیخ صاحبہ سے ہے، کے نام کیا ہے۔ جب کہ کتاب کی پشت کو اپنے احساسات کی زینت بخشی ہے اردو زبان و ادب کی نابغہ روزگار شخصیت ناصر کاظمی کے صاحب زادے باصر سلطان کاظمی صاحب نے۔ جن کے تاثرات کسی بھی کتاب یا مجموعے کے لیے سند کا حکم رکھتے ہیں۔ کتاب کا پہلا مضمون معتبر نوجوان شاعر جناب محمد اسلم پرویز کی دل کش اور وقیع شاعری کے نام سے جناب تنویر پھول صاحب کی نوک قلم سے نکلا ہے۔ جس میں موصوف نے نہ صرف صاحب کتاب کے کلام کی تعریف و توصیف بیان کی ہے بلکہ ان کے فنی نکات پر بھی سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ دوسرا مضمون بہ عنوان غزل کی پرواز کا شاعر ڈاکٹر اسلم پرویز اسلم کے نام سے جناب شفیق مراد صاحب نے قلم بند کیا ہے. اس مضمون میں شفیق صاحب نے صاحب کتاب کی غزلوں سے چیدہ چیدہ اشعار کا انتخاب کر ان کا بھر پور جائزہ لیا ہے۔ تیسرا مضمون پرواز غزل کے نام سے محترمہ ثریا شاہد صاحبہ نے تحریر کیا ہے، جس میں آپ نے جناب اسلم صاحب کا اس میدان خار دار میں اپنی غیر معمولی عروضی صلاحیتوں سے گزر جانے کا بے لاگ لپیٹ اعتراف کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں انھی کے الفاظ میں:-
” وہ غزل کی بساط پر طبع آزمائی کرتے ہوئے غزل کے تمام لوازمات کو لے کر چلتے اور عروض کی شرائط کی تکمیل کرتے ہوئے سلیقے سے قدم جماتے ہیں۔" ( ص 13 )
چوتھا مضمون بہ عنوان نوجوان نسل کے نمائندہ شاعر : ڈاکٹر محمد اسلم پرویز کے نام سے عالی جناب پروفیسر ڈاکٹر قمر الطاف صاحب حال مقیم اسلام آباد پاکستان نے تحریر کیا ہے، جس میں انھوں نے ایک طرف کتاب کے انتساب پر شاد مانی اور مسرت کا اظہار کیا ہے وہیں دوسری اور اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ موصوف کے کلام میں خداے سخن میر تقی میر کا اثر نمایاں طور پر معلوم ہوتا ہے۔ شامل مجموعہ کچھ غزلیں ایسی ہیں کہ جو سہل ممتنع کی عمدہ ترین مثال ہیں۔ مزید وضاحت کے لیے ملاحظہ فرمائیں نمونہ کلام:-
(1) کاش! پہلے بدل گیا ہوتا
دن بھی بدلا تو آج بدلا ہے
(2) بے ارادہ کچھ نہیں ملتا یہاں
جس نے چاہا اس کو حاصل ہو گیا
علاوہ ازیں صفحہ نمبر 16 تا 78 مختلف رنگوں کا رنگ لیے ہوئی الگ الگ موضوعات کا احاطہ کرتی ہوئی خوب صورت غزلیں ہیں جن میں ماضی، حال اور مستقبل ہماری آنکھوں میں رقص کرتا ہوا کبھی نہ مٹنے والے نقوش ثبت کرتا چلا جاتا ہے۔ اس مجموعے کے وہ اشعار جنھوں نے دوران مطالعہ مجھے بہت متاثر کیا، میں چاہتا ہوں کہ ان تمام کا اشتراک آپ قارئین کے ساتھ کروں تاکہ آپ تمام کو بھی یہ سمجھنے میں آسانی ہو جائے کہ متعلقہ مجموعے میں کس طرح کے کلام کو ضبط تحریر میں لایا گیا ہے۔
(1) سر قلم اتنی صفائی سے کیا کرتے ہیں
اپنے سر وہ کوئی الزام نہیں لیتے
(2) مسجدیں توڑ کے مندر کو بنانے کے لیے
آپ لیتے ہیں زمیں رام نہیں لیتے ہیں
(3) جھوٹ کو پھر جتا دیا اس نے
سچ کو آخر ہرا دیا اس نے
(4) سمندر کہاں میں نے مانگا ہے اسلم
فقط ایک قطرے کی خواہش تو کی ہے
بقیہ صفحات 79 تا 112 متذکرہ کتاب اور مصنف کی دیگر کتب پر ادب پرور اور شائقین اردو کے تاثراتی مکتوبات کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ ان سے یہ اندازا لگانا قطعی مشکل نہیں کہ صاحب کتاب ادبی حلقوں میں اپنی الگ پہچان اور منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ آپ کے شعری درک کا اعتراف کرتے ہوئے جناب عظیم الرحمٰن اپنے ایک مضمون میں یوں حق بہ جانب ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:-
"اسلم پرویز اردو کا سب سے کم عمر پختہ رباعی گو شاعر ہی نہیں بلکہ اردو شعر و ادب کا ایک مستقل ادارہ ہے۔ اخلاقیات اور ایمانیات کے میدان میں ایک قندیل رہبانی ہے۔ اتنی کم عمری میں ایسا روشن ستارہ کم ہی نمودار ہوتا ہے۔ " ( ص نمبر 85 )
حاصل کلام یہ ہے کہ موصوف آنے والی نسلوں کے لیے ادب کے لحاظ سے ایک بہت بڑا سرمایہ ہیں، جن کے اندر منجھا ہوا قلم کار چھپا ہوا ہے۔ میرے ناقص علم کے مطابق آپ نے جتنی بھی اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے اس میں نہ صرف آپ کامیاب ہیں بلکہ سرخروئی کے جھنڈے بھی گاڑ دیے ہیں۔ اردو کے ادیبوں سے درخواست ہے، جن میں ہمارے قارئین اور ناقدین دونوں شامل ہیں کہ وہ اپنے مطالعہ اور تنقید کا مرکز معدودے چند شعرا اور قلم کار ہی کو نہ بنائیں بلکہ نئے شعرا اور قلم کاروں کی نگارشات کو بھی زیر مطالعہ لائیں اور ببانگ دہل اپنی مثبت اور منفی رائے کا اظہار کریں۔ امید کرتا ہوں کہ آپ تمام ڈاکٹر اسلم پرویز اسلم کے اس مجموعے کو بھی ہمیشہ کی طرح دیگر مجموعوں کی سی شرف قبولیت بخشیں گے۔ مطالعہ کے شوقین حضرات کتاب کی حصولیابی کے لیے مندرجہ ذیل نمبر پر رابطہ قائم کر سکتے ہیں۔
6205628961
***
محمد انعام برنی کی گذشتہ نگارش:کتاب: روداد قفس

شیئر کیجیے

One thought on “کتاب کا نام : پرواز غزل

  1. اردو رباعی کی بے نظیر شاعرہ: عابدہ شیخ
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    ڈاکٹر محمد اسلم پرویز اسلمؔ
    محلہ راج پور، ڈاکخانہ سبور
    ضلع بھاگل پور، پن-813210
    رابطہ نمبر: 6205628961

    اردو میں متعدد اصناف سخن ہیں۔ مثلاً غزل،نظم،قصیدہ،مثنوی،مرثیہ اور رباعی وغیرہ۔غزل ہر زمانے میں اردو شاعری کی جان رہی ہے۔غزل کے سامنے کسی اور صنفِ ادب کا چراغ روشن نہیں ہو سکا۔غزل کی مقبولیت میں روز بروز اظافہ ہی ہوتا گیا۔اس صنفِ سخن نے قلی قطب شاہ سے لے کر خورشید اکبر اور ادا جعفری سے لے کر کہکشاں تبسم تک سینکڑوں معتبر شعرا اور ہزاروں لازوال اشعار سے اردو ادب کے دامن کو مالامال کیا ہے۔اسی طرح نظم،قصیدہ، مثنوی اور مرثیہ نے بھی اردو شعر و ادب کو کئی بہترین نظمیں، مثنویاں،قصیدے اور مرثیے دیے ہیں۔یہ فن پارے یقیناً ہماری خوبصورت روایت کا حصہ ہیں اور ہمارا انمول خزانہ بھی،جنہیں کسی صورت فراموش نہیں کیا جا سکتا۔اسی لیے غزل، نظم،قصیدہ،مرثیہ اور مثنوی آج بھی ہمارے نصاب میں شامل ہیں۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے، جس سے کسی کو انکار نہیں کہ صنف مثنوی اور قصیدہ کا رواج قریب قریب ختم ہو چکا ہے۔اس کے باوجود ان اصناف کاآج تک ہماری جامعات کے نصاب میں شامل ہوناقابل غور ہے۔اس کے بر عکس تمام اصناف سخن میں رباعی وہ بدنصیب صنفِ شاعری ہے جس نے اردو شاعری اور اردو ادب کی ہمیشہ خدمت کی ہے۔ خواجہ بندہ نواز گیسو دراز راز جو اردو کے پہلے رباعی گو شاعر تھے، سے آج تک کے تمام شعرا نے اس صنف میں بہترین تخلیقات بھی پیش کی ہیں اور کئی ایسی رباعیات اردو میں موجود ہیں جو زبان زد خاص وعام ہیں مگرصورت حال تو یہ ہے کہ بعض اوقات تقریر و تحریر میں اپنے خیالات کو تقویت پہنچانے کے لیے مثال کے طور پر رباعی کا حوالہ تو دیا جاتا ہے لیکن مقرر یا محرر کو یہ احساس بھی نہیں ہوتا ہے کہ وہ حوالے کے طور پر رباعی پیش کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر درج ذیل رباعی کسے یاد نہیں ہوگی؛
    پڑھتا ہوں تو کہتی ہے یہ خالق کی کتاب
    ہے مثل یہودی یہ سعودی بھی عذاب
    اس قوم کے بارے میں قمر کیا لکھے
    کعبے کی کمائی سے جو پیتے ہیں شراب
    جوش ملیح آبادی کی ایک حمدیہ رباعی اس طرح ہے؛
    یہ نار جہنم یہ سزا کچھ بھی نہیں
    یہ دغدغۂ روزِ جزا کچھ بھی نہیں
    اللہ کو قہار بتانے والے
    اللہ تو رحمت کے سوا کچھ بھی نہیں
    اور مولانا الطاف حسین حالی کی یہ رباعی تو آپ کو ضرور یاد ہوگی؛
    دنیائے دنی کو نقش فانی سمجھو
    رودادِ جہاں کو اک کہانی سمجھو
    پر جب کرو آغاز کوئی کام بڑا
    ہر سانس کو عمر جاودانی سمجھو
    لیکن اس قدیم صنف کو وہ مقام آج بھی نہیں ملا جس کی وہ بجا طور پرمستحق ہے۔ جبکہ اس کے برخلاف قصیدہ اور مثنوی جیسی مردہ اصناف آج بھی ہماری جامعات کے نصاب میں شامل ہیں۔ جبکہ جمہوریت کے اس دور میں کم از کم تمام قصیدوں کو نصاب سے خارج کر دیا جانا چاہیے۔ اس لیے کہ بادشاہ وقت کی شان میں تخلیق کیے گئے قصائد ہمیں جمہوریت کے دور میں آمریت کی یاد دلاتے ہیں اور خوشامد کرنے کی ترغیب دے کر حرکت و عمل سے بھی روکتے ہیں۔
    ہم سب جانتے ہیں کہ اردو کی مثنویوں میں کن خیالات کا اظہار کھلے لفظوں میں کیا گیا ہے۔اگر میں یہ کہوں کہ جن خیالات کا اظہار داستان میں موجود ہے، انہی خیالات کا اظہار، جو فطرت کے بالکل خلاف ہے مثنویوں میں موجود ہے بلکہ کچھ مثنویاں تو ایسی ہیں جن کو کوئی مہذب شخص پڑھنے سے بھی گریز کرے تو بے جا نہ ہوگا۔پریوں، جنات، علاء الدین کا چراغ اور شہزادے ،شہزادیوں کے غیر فطری اور فرضی معاشقے کی کہانیاں سنا کرہم اپنے بچوں کو کس طرح کی تعلیم دینا چاہتے ہیں؟ میرا ماننا یہ ہے کہ قصیدہ اور مثنوی جیسی صنفیں ہمارے بچوں کو بےعملی کی ترغیب دیتی ہیں اور چاپلوسی کرنے کا قبیح ہنر سکھاتی ہیں۔اس لیے دور جدید کے تقاضے کے مطابق ان دونوں اصناف شاعری،قصیدہ اور مثنوی کو خارج از نصاب کیا جانا چاہئے۔ اور ان کی جگہ پر اس صنف شاعری کو نصاب میں شامل و داخل کیا جانا چاہئے جو ہر دور میں سدا بہار رہی، جس نے ہر دور میں ہمیں مہذب بننے کی طرف راغب کیا، جس نے ہر زمانے میں ہماری اخلاقی تربیت کی، جو ہر وقت ہمیں عمل کرنے کی ترغیب دیتی رہی۔
    یہاں اس بات کی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ میں قصیدہ اور مثنوی یا کسی اور صنف شاعری کی مخالفت اس طرح نہیں کر رہا ہوں جس طرح کبھی غزل کے لئے ’نیم وحشی‘ تو کبھی ’ گردن زدنی‘ جیسے الفاظ استعمال کیے گئے۔ اردو میں تنقید کا وجود محض فرضی قرار دی دیا گیا اور ہم اردو والے ایسے اردو مخالف جملوں پربھی واہ واہ کرنے لگے۔اتنا ہی نہیں ہم تو ان بدترین جملوں میں علم، حکمت اور دانائی بھی تلاش کرنے لگے ۔ ان کی تردید کرنے اور ان جملوں کو نصاب سے دور رکھنے کے بجائے ان کی تائید میں تاویلیں پیش کرنے میں مصروف ہو گئے اور شاید آج تک ہیں ۔ برسو ںسے قصیدہ پڑھتے پڑھاتے اس کا منفی اثر ہمارے ذہن پر پڑنا ہی تھا۔ شاید ان قصیدوں نے ہماری سوچ کو زنجیروں میں اس طرح جکڑ دیا کہ ہم اردو مخالف بلکہ اردو کی آبرو پر حملہ کرنے والے جملوں کا بھی معقول اور ترکی بہ ترکی جواب نہیں دے سکے۔
    میں دوبارہ کہنا چاہوں گا کہ میں صنف قصیدہ اور صنف مثنوی کا ہرگز مخالف نہیں ہوں ۔میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ یہ دونوں اصناف عہد حاضر میں اپنی معنویت کھو چکی ہیں۔البتہ حفیظ جالندھری کی مثنوی ’’شاہنامہ اسلام ‘‘ اور اس نوع کی مثنویاں آج بھی قابل احترام ہیں۔لیکن معلوم نہیں کیوں ہم نے آج تک ان مثنویوں کو نصاب میں شامل نہیں کیا ہے۔
    بہر حال میں کسی غیر ملکی یا اجنبی صنف شاعری کی وکالت نہیں کر رہا ہوں۔بلکہ میں اس قدیم صنف کی بات کر رہا ہوں جس نے ہمیشہ زندگی کی ٹھوس سچائی پیش کی ہے۔اور وہ صنف،رباعی ہے۔اس صنف نے کبھی اپنے موضوعات میں کسی مافوق الفطری خیال کو جگہ نہیں دی بلکہ ہمیشہ حرکت و عمل، پند ونصیحت اور تصوف واخلاق کی تعلیم دی ہے۔ہمارے اخلاق وکردار کو بگاڑنے کی بجائے نکھارنے اور سنوارنے میں اس صنف نے اہم کردار ادا کیا ہے۔
    کیا ہم اس حقیقت سے انکار کر سکتے ہیں کہ سن 1869 سے اردو میں ناول نگاری اور اس کے بھی بعد افسانہ نگاری وجود میں آئی۔ لیکن ان دونوں نثری اصناف نے اپنے تقریباََ 153 سالہ سفر میں ترقی کی بلندیوں کو چھو لیا۔ اس کی وجہ صرف یہ نہیں ہے کہ داستان کے مقابلے میں ناولوں اور افسانوں میں حقیقی زندگی کی تصویر پیش کی جاتی ہے بلکہ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے عام نقادوں اور اساتذہ نے ان اصناف کی خوب سرپرستی کی۔ بخلاف اس کے رباعی کو محض چند عروضی دشواریوں کی وجہ سے بہت سے جامعات کے نصاب میں بھی شامل نہیں کیا گیا۔ جبکہ جس طرح ناول اور افسانہ حقیقی زندگی کی تصویر پیش کی جاتی ہے، ٹھیک اسی طرح رباعی بھی زندگی کی سچائی مثلاً تصوف واخلاق اور حرکت وعمل جیسے موضوعات پر مبنی ہوتی ہے۔لیکن صرف اور صرف عروضی دشواریوں کے سبب اس قدیم اور زندہ صنف شاعری کے ساتھ ہمیشہ تعصب برتا گیا ہے۔ لیکن آج ہماری زندگی پہلے سے زیادہ مصروف ہوگئی ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ مصروف تر ہو گئی ہے۔ ہمارے پاس آج طویل نظمیں پڑھنے یا سننے کا وقت نہیں ہے اور نہ ہی ہم ضخیم ناولوں کا مطالعہ کرنے کا وقت نکال پاتے ہیں۔اس لیے ہیئت اور طوالت کے اعتبار سے رباعی مختصر بھی ہے اور قدیم بھی اور دوسری اصناف شاعری کی بنسبت زندگی سے سب سے زیادہ قریب بھی ہے۔بلکہ رباعی کے موضوعات ہمیشہ حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں۔اس لئے فی زمانہ رباعی کی اہمیت و افادیت مسلم ہے، اور یہ قدیم صنفِ شاعری جدید دور کی اہم ضرورت ہے۔رباعی نے کبھی اپنے دامن پر وہ داغ نہیں لگنے دیا جو اردو مثنویوں کے دامن پر ہر جگہ نظر آتا ہے۔اس صنف نے ہمیشہ اپنے آپ کو شہنشاہ وقت کی جھوٹی مداحی سے محفوظ رکھا۔لیکن چند عروضی مشکلات کے پیش نظر اس قدیم، پاکیزہ اور زندگی سے قریب تر صنف شاعری کے ساتھ ہمیشہ ہمارے نقادوں اور اساتذہ نے ناانصافی کی اور تعصب سے کام لیا ۔اور ٹھیک یہی رویہ علم عروض کے ساتھ بھی اختیار کیا گیا ہے جو انتہائی افسوسناک ہے۔
    علم عروض کا معاملہ رباعی سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔لیکن صد افسوس کہ چند ایک کو چھوڑ کر تقریباً تمام نقادوں اور اساتذہ نے رباعی اور علم عروض کی معمولی مشکلات کا سامنا کرنے کے بجائے اس سے راہ فرار اختیار کرنے ہی میں عافیت محسوس کی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ علم عروض کو بیشتر حضرات نے یہ کہہ کر نظر انداز کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس علم کو سیکھنے کی ضرورت صرف شاعروں کو ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔جو لوگ فطری شاعر ہیں ان کی طبیعت قدرتی طور پر موزوں ہوتی ہے۔اس لیے اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ کوئی فطری شاعر ناموزوں کلام کہے اور اسے اس کا احساس نہ ہو۔ ایسا ممکن ہی نہیں اس لیے کہ ناموزوں مصرعے شاعر کی طبیعت پر گراں گزرتے ہیں۔ اس لیے علم عروض کا جاننا شاعر کے لیے اتنا ضروری نہیں ہے جتنا ہمارے نقادوں اور اساتذہ کے لیے ہے۔ کسی کلام پر تنقید کرنے کے لیے اور درس و تدریس کے دوران، شعر کی صحیح قرأت کرنا ضروری ہے۔ یہ کام علم عروض کی تعلیم حاصل کیے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔
    علم عروض سے دوری ہی کے نتیجے میں رباعی جیسی باوقار صنف شاعری کے ساتھ نا انصافی کی گئی ہے۔ یہ ہماری ادبی بددیانتی کا ثبوت ہے۔جسے ادب کا غیر جانب دار مورخ ہمیشہ سیاہ حروف ہی سے تحریر کرے گا۔
    عالمی شہرت یافتہ رباعی گو شاعرہ عابدہ شیخ نے دوران گفتگو کہا تھا کہ رباعی کا اختصار اور اس کے موضوعات کا زندگی سے قریب تر ہونا اس صنف کی بنیادی خوبی ہے۔ ان کا یہ قول کہ رباعی اردو شاعری وہ واحد صنف ہے ، جو عام زندگی کے مسائل سے نظر چرانے کے بجائے اس کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ میں ان کے اس خیال سے متفق ہوں ۔ غالباً یہی وجہ ہےکہ اس صنف کو دور حاضر کے شاعروں نے زیادہ اہمیت دی ہے۔امجد حیدر آبادی ، جوش ملیح آبادی، فراق گورکھپوری، علقمہ شبلی ، ظہیر غازی پوری ، ناوک حمزہ پوری، طلحہ رضوی برق،قمر سیوانی، مامون ایمن اور تنویر پھول وغیرہ نے صنف رباعی کے موضوعات کو وسیع تر کر دیا ہے۔
    اس کے علاوہ یہ بھی درست ہے کہ ہر زمانے کے شاعروں نے رباعی کے سرمائے میں کچھ نہ کچھ اضافہ ضرور کیا ہے۔میر تقی میر، مرزا غالب، انیس و دبیر اور حالی و اسمٰعیل میرٹھی نے اس صنف میں اتنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں جنھیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔
    اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اردو رباعی پستی و بلندی کی منزلوں سے گزر کر کامیابی کے ساتھ دور جدید میں داخل ہوتی ہے۔اس قدیم صنف شاعری کو جدید دور کے شاعروں نے خوب ترقی بھی عطا کی۔جدید دور کے شاعروں میں کی شعرا تو صاحب دیوان رباعی گو ہیں۔ان میں علامہ ناوک حمزہ پوری،شاہ حسین نہری،عاصم شہنواز شبلی،شمیم انجم وارثی، مقبول احمد مقبول وغیرہ کی رباعیات کا دیوان منظر عام پر آکر ارباب علم و فن سے داد و تحسین وصول کر رہا ہے۔یہ شعرا یقیناََ مبارک باد کے مستحق ہیں۔
    ان حقائق کے پیش نظر جب ہم اردو شاعری کے خزانے میں شاعرات کی رباعیات تلاش کرتے ہیں تو ہمارے ہاتھ مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں آتا ہے۔ ایک طرف جہاں غزل گو اور نظم نگار شاعرات کی بہتات ہے تو وہیں رباعی گو شاعرات دال میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں۔مجھے اردو شاعری کی تاریخ میں صرف تین رباعی گو شاعرات کی رباعیات پر مبنی کتابوں کا علم ہے۔ یہ ممکن ہے کہ میری تلاش و تحقیق نامکمل اور ادھوری ہو! لیکن بہت تلاش و جستجو کے بعد بھی مجھے زیب النساء زیبی (کراچی)،عابدہ شیخ (مانچسٹر) اور خوشبو پروین(بہار) کے علاوہ کسی اور شاعرہ کی رباعیات کا مجموعہ دستیاب نہ ہو سکا ان میں خوشبو پروین تو میری شاگردہ ہی ہیں۔چند سال قبل ’’خوشبو کی آواز‘‘کے نام سے ان کی رباعیات پر مبنی کتاب شائع ہوئی ہے۔اس میں ایک سو ایک رباعیات شامل ہیں۔اس طرح خوشبو پروین اس وقت اردو کی سب سے کم عمر صاحب کتاب رباعی گو شاعرہ ہیں اور دہلی یونیورسٹی سے ’’اردو رباعی:فن اور امکانات‘‘ کے موضوع پر پوری محنت اور لگن کے ساتھ پی ایچ ڈی کرنے میں مصروف ہیں۔نمونے کے طور پر ان کی چند رباعیات درج ذیل ہیں۔
    میں شاخ کی مانند لچک جاتی ہوں
    اک آہ نکلتی ہے سسک جاتی ہوں
    ہے لمس میں اس شخص کے ایسی حدت
    خوشبو کی طرح میں بھی مہک جاتی ہوں
    ——
    ملتا نہیں سچ بولنے والا خوشبو
    خاموش ہیں سب لب پہ ہے تالا خوشبو
    کاذب کی ریاکار کی سرداری ہے
    دنیا کا ہے انداز نرالا خوشبو
    ان رباعیات سے خوشبو پروین کے باشعور ہونے اور رباعی کے فن سے واقف ہونے کا احساس جاگتا ہے۔خوشبو کی آواز میں شامل رباعیات اس بات کا احساس کراتی ہیں کہ خوشبو پروین کی شاعری فطری ہے اکتسابی نہیں۔اس لیے ممکن ہے کہ مستقبل میں خوشبو پروین رباعی کی مسند شاعرہ کے طور پر اپنی الگ پہچان بنا لے۔
    زیب النساء زیبی اردو دنیا کی مقبول و معروف اور معمر شاعرہ ہیں۔ان کی رباعیات پر مبنی کتاب ’’یاد کے موسم‘‘ میں تقریباََ 200 رباعیات ہیں۔ان کی رباعیات کے موضوعات میں تنوع بھی ہے اور رباعی کے فن پر ان کی گرفت بھی مضبوط ہے۔ مثال کے طور پر چند رباعیات درج ذیل ہیں۔
    الفت کی میں باندی ہوں حیا دار کنیز
    مجھ کو نہیں کہنا کبھی زردار کنیز
    دنیا میں ہیں مطلب کے ہزاروں ہی غلام
    سکھ دکھ کی میں ساتھی ہوں وفادار کنیز
    ——
    اب کون سنے گا مری رودادِ سفر
    انساں پہ تو ہوتا ہی نہیں کوئی اثر
    جس شاخ پہ پنچھی کا ٹھکانہ تھا سنو!
    ظالم نے وہی کاٹ دی ہے شاخ شجر
    ——
    ہے پیار تجھے پیار کا احساس نہیں
    کس حال میں ہے یار کا احساس نہیں
    ہر پھول کے دامن میں سدا خار ملے
    اس گل میں چھپے خار کا احساس نہیں
    زیب النساء زیبی کی رباعیات اردو رباعی کے خزانے میں قابل قدر اضافہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ان کی رباعیات فنی اعتبار سے بھی چست درست ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ زیب النساءزیبی کی شخصیت اتنی رنگا رنگ ہے اور ان کے کمالات کی فہرست اتنی طویل ہے کہ ان پر تفصیلی گفتگو کرنے کے لیے ایک مضمون کافی نہیں ہے اور نہ ہی یہ میرے مضمون کا موضوع ہے۔ البتہ یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں کئی تحقیقی مقالے قلمبند کیے گئے ہیں۔غالباًان تحقیقی مقالوں کی تعداد ایک درجن سے بھی زیادہ ہے۔کراچی میں ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں وہاں کی حکومت نے ایک سڑک کا نام ’’زیب النساء زیبی روڈ‘‘ رکھا ہے۔اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ زیب النساء زیبی جو سو کتابوں کی مصنفہ ہیں، کی ادبی حیثیت دوسری شاعرات سے مختلف اور ممتاز ہے۔
    ان تمام حقائق کے باوجود اردو کی رباعی گو شاعرات میں سب سے اہم اور قابل احترام نام معمر و معتبر شاعرہ عابدہ شیخ کا ہے۔عابدہ شیخ برطانیہ کے تاریخی شہر مانچسٹر میں برسوں سے مقیم ہیں۔ان کی شخصیت بہت نمایاں اور ممتاز ہے۔وہ محض مشاعرہ نہیں ہیں بلکہ ماہر نفسیات اور سماجی کارکن کی حیثیت سے بھی ان کا مقام بہت بلند ہے۔
    عابدہ شیخ کا پہلا شعری مجموعہ ’’دل ہی تو ہے‘‘ جنوری 2022 عیسوی میں دنیاے اردو پبلیکیشنز، اسلام آباد سے پروفیسر قمر الطاف کی نگرانی میں شائع ہوا ہے۔اس کتاب کے سرورق پر یہ رباعی درج ہے۔
    کونین کا پرتو بھی چھپا ہے اس میں
    دریائے محبت بھی بسا ہے اس میں
    دنیا بھی مقید ہے اسی کوزے میں
    یہ ’’دل ہی تو ہے‘‘ رہتا خدا ہے اس میں
    دل ہی تو ہے عابدہ شیخ کی غزلوں کا مجموعہ ہے لیکن اس کتاب کے سرورق پر رباعی کی موجودگی اس صنف سے ان کے مضبوط تعلق کی نشاندہی کرتی ہے۔دل ہی تو ہے میں شامل ان کی سب سے طویل غزل 101 اشعار پر مبنی ہے۔اسی ایک غزل سے عابدہ شیخ کی زود گوئی اور قادرالکلامی کا ثبوت مل جاتا ہے۔اس کتاب کے دیباچے میں ڈاکٹر تسلیم الٰہی زلفی رقمطراز ہیں’’عابدہ کی الہامی شاعری بالعموم اعتقادی شاعری ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ فلسفہ اور حکمت کی طرح عارفانہ تصوف کو بھی ماہیت اور اصلیت وجود و عدم کے ادراک کی طلب ہوتی ہے یعنی عقیدت کی تہہ میں بھی تحقیقی جبلت کارفرما ہوتی ہے۔ اس عارفانہ کشف کو بینش اور حکیمانہ فکر کو دانش کہہ سکتے ہیں۔ شاعر کے لیے ضروری ہے کہ وہ شب و روز اور زمان و مکان کے مشاہدوں اور معاملوں کو اس انداز سے احاطہ شعر میں سمیٹ لے کہ آنے والے کل کے دامن میں شاعر کا عکس موجود رہے۔ وہ نام نہاد پارسائی کے نام پر منافقت ہرگز نہیں کرتیں۔
    وصل کی شب درمیاں کوئی نہیں تھا تیسرا
    ذہن کی وادی میں لیکن تیسرا باقی رہا
    ——
    مجھ کو ہیروں سے تولنے والو
    میرا رشتہ خودی سے ملتا ہے
    عابدہ شیخ کی شاعری کے تعلق سے مقبول و معروف شاعر و ادیب تنویر پھول لکھتے ہیں”عہد حاضر کے معتبر شعراء میں محترمہ عابدہ شیخ کا نام خصوصی اہمیت کا حامل ہے، وہ شاعری برائے شاعری نہیں کرتیں بلکہ اپنی خدا داد صلاحیت کو کام میں لا کر بنی نوع انسان کی اخلاقی تربیت اور فلاح و بہبود کا راستہ دکھانے کا اہم فریضہ انجام دے رہی ہیں، یہی خصوصیت ان کو ہم عصر شعراء میں ممتاز کرتی ہے۔’’شریف اکیڈمی جرمنی کے صدر شفیق مراد عابدہ کی شاعری کے تعلق سے گویا ہیں کہ عابدہ کی شاعری میں بہت سے موضوعات ہیں جو دل کے دروازے پر دستک دیتے ہیں جن پر تفصیل سے روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے۔ تاہم جب ان کی شاعری کو اسی محبت و عقیدت سے پڑھا جائے گا جن جذبات سے انہوں نے لکھی ہیں تو یقیناً علوم کے کئی در آپ پر وا ہوں گے۔‘‘
    عابدہ شیخ کی شاعرانہ عظمت کے اعتراف میں متعدد مشاہیر ادیبوں کی آرا موجود ہیں جن میں مظفر احمد مظفر،زیب النساء زیبی اور پروفیسر قمر الطاف کا نام خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔تاہم یہ موقع ان پر تفصیلی گفتگو کرنے کا نہیں ہے اس لیے میں اپنے موضوع کی طرف لوٹتا ہوں۔
    میں نے اوپر ذکر کیا ہے کہ اردو کی رباعی گو شاعرات میں سب سے معتبر اور محترم نام عابدہ شیخ کا ہے۔ اس لئے ان کی رباعیات کی اہمیت و انفرادیت کا ذکر ناگزیر ہے۔ "دل ہی تو ہے” کے بعد آپ کا دوسرا شعری مجموعہ "بال و پر”کے نام سے حال ہی میں شائع ہوا ہے. اس کتاب میں عابدہ شیخ کی تقریباً 200 رباعیات،چند غزلیں اور کچھ دوہے شامل ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مختلف اصناف ادب پر طبع آزمائی کرتی ہیں لیکن ان کو صنف رباعی سے خاص شغف ہے۔ ’’بال و پر‘‘ کی چند خوبصورت رباعیات در ج ذیل ہیں۔
    شاعر کے تخیل میں سخن میں تو ہے
    ہر پھول کی خوشبو میں چمن میں تو ہے
    تجھ سے ہی منور ہے بساطِ ہستی
    تو فرش زمیں پر ہے، گگن میں تو ہے
    ——
    نفرت کو مٹا دو کہ نیا سال ہے یہ
    الفت کو بڑھا دو کہ نیا سال ہے یہ
    جو بیت گئی عابدہ وہ بات گئی
    ماضی کو بھلا دو کہ نیا سال ہے یہ
    ——
    ہے پیار، وفا اور محبت عورت
    تہذیب و تمدن کی ہے مورت عورت
    سونی ہے بنا اس کے حیاتِ آدم
    اس گلشنِ ہستی کی ہے زینت عورت
    درج بالا رباعیات کے موضوعات سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عابدہ شیخ نے مختلف موضوعات پر رباعیات کہی ہیں۔ان کی رباعیوں میں فصاحت و روانی کے ساتھ ساتھ وحدت تاثر قابل صد تحسین ہے۔انہوں نے اپنے والد مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے متعدد رباعیات کہی ہیں جو ان کی کتاب بال و پر کے حسن میں اضافے کا سبب ہیں۔چند رباعیات ملاحظہ ہوں۔
    میں جاگتی رہتی ہوں نہیں سکتی ہوں
    میں رنج سے بےحال بہت ہوتی ہوں
    جب یاد مجھے آتی ہے شفقت ان کی
    والد کی محبت میں بہت روتی ہوں
    ——
    تو ان کے گناہوں کو مٹا کر مولا
    تو بخش دے ان کو تو رہا کر مولا
    تو اپنی کریمی سے مرے والد کو
    جنت میں محل ایک عطا کر مولا
    ——
    عزت ہے مری ماں کے قدم کے نیچے
    دولت ہے مری ماں کے قدم کے نیچے
    جنت کا اگر در ہیں مرے والد تو
    جنت ہے مری ماں کے قدم کے نیچے
    شاعر مشرق ،حکیم الامت علامہ اقبال سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے عابدہ شیخ نے ایک درجن سے زیادہ رباعیات تخلیق کی ہیں۔ان میں سے چند درج ذیل ہیں۔
    آغاز کی انجام کی تعظیم کرو
    وحدت سے بھرے جام کی تعظیم کرو
    شاہیں ہو خودی ہو کہ ہو اسرار خودی
    اقبال کے پیغام کی تعظیم کرو
    ——
    احساس خودی ہم کو کرایا اس نے
    تہذیب و تمدن بھی سکھایا اس نے
    اقبال کا احسان ہے امت پہ بہت
    تحریکِ عمل دے کے جگایا اس نے
    درج بالا رباعیات فن کے معیار پر بھی پوری اترتی ہیں اور ان میں بھرپور وحدت تاثر بھی ہے جو قاری کو دیر تک اپنی گرفت میں رکھتا ہے۔خاص طور پر عابدہ شیخ کی رباعیات کا چوتھا مصرع انتہائی چست اور مکمل ہوتا ہے۔ اعلیٰ درجے کی ہر رباعی کے چوتھے مصرعے کا مکمل اور بھرپور ہونا لازمی ہے۔یہ خوبی عابدہ شیخ کی اکثر رباعیات میں پائی جاتی ہے۔
    عابدہ شیخ کی رباعیات کا مجموعہ ’’ماورا‘‘کے نام سے اشاعت کے مرحلے میں ہے۔ بقول عابدہ شیخ اس کتاب میں ان کی چار سو سے زیادہ رباعیات شامل ہیں۔اس زیر ترتیب کتاب پر اظہار خیال کرنے کے لیے مجھے ان کی تقریباً دو سو رباعیات موصول ہوئی ہیں۔ان رباعیات کے مطالعے سے عابدہ شیخ کے شریف النفس ہونے،برطانیہ میں رہ کر بھی پرانی تہذیب سے وابستہ ہونے، دل میں خدمتِ خلق کا جذبہ رکھنے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی بے پناہ محبت کا احساس ہوتا ہے۔ چند رباعیات ملا حظہ ہوں:
    عالم ہیں علیم ہیں وہ فاضل بھی ہیں
    علم الایمان بھی ہیں کامل بھی ہیں
    حق یہ ہے کہ خاتم ہیں اماموں کے امام
    عاقب ہیں امین ہیں وہ عادل بھی ہیں

    یہ ذکر کیا کرتا ہے لب میرا شدید
    اوصاف و کمالات کی دنیا ہے مرید
    محبوبِ خدا صرف محمد احمد
    محمود خطاب ان کا لقب ان کا حمید
    درج بالا نعتیہ رباعیات میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اسمائے مبارکہ کو رباعی میں جس خوبصورتی سے پرویا گیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشار ان رباعیات کو پڑھ کر ہر عاشقِ رسول کی زبان بے اختیار سبحان اللہ، الحمد اللہ کی صدا بلند کرنے پر مجبور ہوجائے گی۔ایک اور رباعی ملاحظہ ہو۔
    دل کی صدا ہر ایک رباعی میری
    ہے اِک ضیا ہر ایک رباعی میری
    یہ اس کے تخیل سے فزوں تر ہے بہت
    ہے ماورا ہر ایک رباعی میری
    ایک اورنعتیہ رباعی دیکھیے۔یہ رباعی شاعرہ کے تخیل کی پرواز اور مصوری یا منظر نگاری کی خوبصورت مثال ہے۔
    قدموں کو بہت چوم رہا ہے دیکھو
    گردش میں ہے وہ گھوم رہا ہے دیکھو
    آقا نے قدم اپنا جو رکھا اس پر
    مستی میں فلک جھوم رہا ہے دیکھو
    ایک نصیحت آمیز رباعی اس طرح ہے۔
    ساتھی نہ بنو بگڑے ہوئے بچوں کے
    صحبت میں ہمیشہ ہی رہو اچھوں کے
    تم عابدہ آپی کی نصیحت سن لو
    رب سے ڈرو اور ساتھ رہو سچوں کے
    درج بالا رباعی کا چوتھا مصرع قرآن حکیم کی سورۃ توبہ کی آیت یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ(۱۱۹)(ترجمہ-اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ) کا رباعی کے وزن میں خوبصورت ترجمہ ہے۔اس خوبصورت اور موثر رباعی کا دوسرا مصرع بھی قابل غور ہے۔میں اس کی نشاندہی کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔متذکرہ رباعی کی ردیف ’’کے‘‘ ہے، جو علامت تذکیر ہے۔رباعی کے دوسرے مصرعے میں’ صحبت ‘کا لفظ استعمال ہوا ہے جو تانیث ہے۔اس سے قاری کو یہ دھوکا نہ ہو کہ اس رباعی میں شاعرہ سے سہو ہوا ہے۔اس لیے کہ شمس الرحمان فاروقی لغات روزمرہ کے تیسرے ایڈیشن کے صفحہ نمبر 71 پر رقمطراز ہیں’’اگر اضافت کی علامت(کا/کے/کی) اپنے مضاف سے دور پڑ جائے تو اردو میں بہتر یہ ہے کہ علامت اضافت مذکر استعمال ہو، چاہے مضاف مونث ہی کیوں نہ ہو‘‘۔آتش
    معرفت میں اس خدائے پاک کے
    ہوش اڑتے ہیں یہاں ادراک کے
    بقول میر انیس:
    کٹ کٹ گئے سب نیزے بھی اقبال سے اس کے
    میدان میں تھا حشر بپا چال سے اس کے
    بقول میر تقی میر:
    کیا جانوں لذت درد اس کی جراحتوں کے
    یہ جانوں ہوں کہ سینہ سب چاک ہو گیا ہے
    بہرحال اس سے پتہ چلتا ہے کہ عابدہ شیخ محض شاعرہ نہیں ہیں بلکہ کلاسیکی ادب کا ان کا مطالعہ بھی وسیع ہے۔
    رباعی کے مقررہ چوبیس اوزان میں مفعولن مفعولن مفعولن فع/فاع سب سے مشکل وزن ہے۔ اس وزن میں فصاحت سے بھرپور رباعی تخلیق کرنا مشاق شاعر/شاعرہ ہی سے ممکن ہے۔لیکن عابدہ شیخ نے اس مشکل وزن میں بھی فصیح رباعیات تخلیق کی ہیں۔ چند مثالیں درج ذیل ہیں۔
    حق ہے یا باطل ہے جیسا بھی ہے
    منصف ہے، قاتل ہے جیسا بھی ہے
    دیوانہ ہے دیوانہ رہنے دے
    آخر میرا دل ہے جیسا بھی ہے
    ٹیڑھا میڑھا الٹا سیدھا کیا ہے
    کچا پکا جھوٹا سچا کیا ہے
    جو کچھ ہے رب ہی کا ہے دنیا میں
    بھائی اس میں تیرا میرا کیا ہے
    یہ تمام شعری محاسن اس بات کی شہادت کے لیے کافی ہیں کہ عابدہ شیخ کا مقام رباعی گو شاعرات میں سب سے بلند ہے۔ بلاشبہ ان کو صنف رباعی سے فطری لگاؤ اور دلچسپی ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ ہر موضوع پر رباعی کی ہیئت میں باآسانی اظہار خیال کرتی ہیں۔عابدہ شیخ کی رباعیات پر مبنی کتاب ’’ماورا‘‘ اردو رباعی کے سرمائے میں بیش بہا اضافہ ہو گی اور یہ عابدہ شیخ کا ایسا لازوال کارنامہ ہے جس کی نظیر دنیائےاردو میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی ہے۔میں نے مختصراََ ان کی رباعی گوئی کی خصوصیات بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔عابدہ شیخ کی رباعیات کی خصوصیات کا تفصیلی جائزہ پیش کرنے کے لیے یہ مضمون کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے باضابطہ مقالہ قلمبند کرنے کی ضرورت ہے۔اس کتاب کی اشاعت کے بعد اردو شاعری بالخصوص اردو رباعی کا تذکرہ عابدہ شیخ کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔
    ٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے