ثالث کا شوکت حیات نمبر: ایک جائزہ

ثالث کا شوکت حیات نمبر: ایک جائزہ

کامران غنی صبا
شعبۂ اردو نیتشورکالج، مظفرپور، بہار ، ہند

شوکت حیات مرحوم (اللہ انھیں غریق رحمت کرے) بحیثیت انسان مجھے کبھی پسند نہیں آئے. وہ بہتوں کو پسند نہیں تھے لیکن پھر بھی صاحب سلامت کی حد تک مخالفین سے اُن کے مراسم تھے۔ میں تعلق ڈھونے کا قائل نہیں ہوں۔ مجھے اپنا یہ شعر بہت پسند بھی ہے ؎
منافقت نہیں آتی سو، رنجشوں کے بعد
تعلقات کا ہم اختتام کرتے ہیں
شوکت حیات صاحب سے فون پر کبھی کبھار میری بات چیت ہو جایا کرتی تھی۔ جب سے انھوں نے "پندار" میں اپنے اوپر خصوصی گوشہ کی اشاعت کے لیے اصرار کرنا شروع کیا اور بار بار تقاضا کرنے لگے تب سے میں نے اُن سے گریز کرنا شروع کر دیا۔پھر ایک بار کچھ ایسا ہوا کہ میں نے مکمل طور پر اُن سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ اب اُن کی وفات کے بعد اُس واقعہ کا ذکر مناسب نہیں ہے۔
شوکت حیات ذاتی طور پر مجھے گرچہ کبھی پسند نہیں آئے لیکن ادبی حوالے سے میں نے ہمیشہ ان کا احترام کیا۔ دربھنگہ ٹائمز کے ناول نمبر میں اشاعت کے لیے جب اُن کے ناول "زہریلا پمفلٹ" کا ایک باب موصول ہوا تو میں نے کوئی مخالفت نہیں کی۔ اُن کا کوئی بھی افسانہ قرات کا حصہ بنے بغیر میری نظر سے نہیں گزرا۔ ان کی شخصیت کی پُر اسراریت نے اوروں کی طرح مجھے بھی ہمیشہ حیران کیا۔ میں تو ادب کا ایک ادنیٰ سا طالب علم ہوں۔ میری رائے کی اہمیت ہی کیا ہے لیکن اِس حقیقت سے انکار کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے کہ شوکت حیات اردو فکشن کا ایک معتبر نام تھا، ہے اور رہے گا۔ ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ شوکت حیات کو سب سے زیادہ نقصان اگر کسی نے پہنچایا تو وہ خود اُن کا وجود ہے۔ یہ شعر ان کی شخصیت پر پوری طرح صادق آتا ہے ؎
میں اپنے آپ سے آگے نکل سکا نہ کبھی
مرا وجود مرے راستے کا پتھر تھا
یہ سچ ہے کہ شوکت حیات کی قدر اُن کی زندگی میں نہ ہو سکی اور یہ بھی سچ ہے کہ اُن کی وفات کے بعد بھی انھیں اس طرح یاد نہیں کیا گیا جس کے وہ مستحق تھے۔ قابلِ مبارکباد ہیں ڈاکٹر اقبال حسن آزاد کہ انھوں نے "ثالث" کا پورا ایک شمارہ شوکت حیات کے لیے وقف کر دیا۔ "ثالث" کا تازہ شمارہ 496 صفحات پر مشتمل شوکت حیات نمبر ہے۔ اِس خصوصی شمارہ میں شوکت حیات کے فن پر 20 مضامین، 07 خاکے، 04 افسانوں کے تجزیے، 02 انٹرویو، شوکت حیات کے 07 منتخب افسانے، ایک ناولٹ (سرپٹ گھوڑا) اور شوکت حیات کے تین مضامین شامل ہیں۔ مضامین، تجزیے، خاکے، افسانے اور انٹرویو کا تناسب اقبال حسن آزاد کے حُسن ادارت کا ثبوت پیش کرتا ہے۔
مضامین کے حصے میں پروفیسر وہاب اشرفی، وارث علوی، فاروق ارگلی، ڈاکٹر ابرار رحمانی، پروفیسر صفدر امام قادری، ڈاکٹر سید احمد قادری، ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی، ڈاکٹر صغیر افراہیم، ڈاکٹر سید اشہد کریم، ڈاکٹر حامد علی خاں، ڈاکٹر منصور خوشتر، ڈاکٹر صالحہ صدیقی، عرفان رشید، ڈاکٹر قسیم اختر، ایم خالد فیاض، ڈاکٹر زرنگار یاسمین، ڈاکٹر وصیہ عرفانہ، ڈاکٹر گلاب سنگھ اور ڈاکٹر نزہت پروین نے شوکت حیات کی افسانہ نگاری کا مختلف زاویوں سے جائزہ لیا ہے۔ شوکت حیات کے فن کو سمجھنے میں یہ مضامین انتہائی کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔
میری نظر میں "شوکت حیات نمبر" کا سب سے خاص حصہ خاکوں پر مشتمل ہے۔ ان خاکوں کو پڑھنے کے بعد شوکت حیات کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہمارے تصور میں ابھرتی ہے۔ مشتاق احمد نوری ، شوکت حیات سے بہت قریب رہے ہیں۔ انھوں نے شوکت حیات کے آخری سفر تک ان کا ساتھ نبھایا، یہاں تک کہ اُس وقت جب ان کے انتہائی قریبی دوستوں اور رشتہ داروں نے بھی اُن کا ساتھ چھوڑ دیا، نوری صاحب نے حق دوستی ادا کیا۔ وہ کووڈ 19 کی دہشت کے دور میں شوکت حیات کے جنازے میں شامل ہوئے۔ مشتاق احمد نوری نے اپنے خاکے میں تمام جزئیات کے ساتھ شوکت حیات کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کی تصویر کشی کی ہے۔ یہاں تک کہ بعض ایسی باتیں بھی لکھ گئے ہیں جن سے شوکت حیات کے ساتھ ساتھ خود خاکہ نویس کا خاکہ بھی ابھر کر سامنے آجاتا ہے۔ مثلاً:
” میں نے اُسے اطمینان دلایا اور یہ بھی کہا کہ بڑا بابو کی مٹھی گرم کر دو تاکہ وہ تمھارے خلاف آئندہ سے نہ لکھے۔"
"شدید غصے کی حالت میں اکثر میں الف ننگا ہو جاتا ہوں اور کیا کیا بک جاتا ہوں مجھے معلوم نہیں رہتا. "
"اس کی حماقت بھری معصومیت پر مجھے بہت غصہ آیا، اس کے ساڑھو کو کچھ گالیاں دیں اور اسے کہا کہ بھولے راجہ دوستوں کو پہچاننا سیکھو، ساڑھو کی(۔۔۔۔۔۔) پر لات مارو۔"(قوسین کے بیچ کا لفظ کیا ہوگا، سمجھا جا سکتا ہے۔)
مشتاق احمد نوری کے خاکے کا آخری حصہ شوکت حیات کی زندگی کی وہ دردناک حقیقت ہے جسے پڑھتے ہوئے بدن پر رعشہ طاری ہو جاتا ہے۔ شوکت حیات کی زندگی کو قریب سے سمجھنے کے لیے مشتاق احمد نوری کا خاکہ ضرور پڑھنا چاہیے۔ عبدالصمد، ڈاکٹر ابرار رحمانی، غضنفر، ڈاکٹر منظر اعجاز، اقبال حسن آزاد اور نشاط پروین کے خاکے بھی اہم ہیں۔ ان خاکوں کے مطالعہ سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ شوکت حیات سے ذاتی طور پراُن کے ہم عصروں کوشکایتیں ضرور رہی ہیں لیکن ان کے فن کا اعتراف اُن کے مخالفین نے بھی کیا ہے۔
"شوکت حیات نمبر" میں دو انٹرویو بھی شامل ہیں۔ یہ انٹرویو نثار احمد صدیقی اور ڈاکٹر محمد غالب نشتر نے لیے ہیں۔ دونوں انٹرویو میں کل ملا کر 15 سوالات پوچھے گئے ہیں لیکن ان میں اکثر سوالات عمومی نوعیت کے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ شوکت حیات سے کچھ ایسے سوالات بھی پوچھے جانے چاہیے تھے جن سے ان کے ذہنی رویے بلکہ ذہنی انتشار کی وجوہ کی گرہیں کھلتیں۔
شوکت حیات کے سات افسانے اور ایک ناولٹ (سرپٹ گھوڑا) کو ثالث کے اس خصوصی شمارے میں جگہ دی گئی ہے۔ ساتھ ہی شوکت حیات کے کچھ خطوط بھی اس نمبر میں شامل کیے گئے ہیں۔ کُل ملا کر مدیر رسالہ ڈاکٹر اقبال حسن آزاد نے شوکت حیات پر ایک بھر پور نمبر نکال کر اپنا ادبی اور اخلاقی فریضہ ادا کیا ہے۔ ثالث کا یہ خاص نمبر 500 روپے میں بک امپوریم پٹنہ یا ڈاک کے ذریعہ ثالث کے دفتر شاہ کالونی، شاہ زبیر روڈ مونگیر سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
***
کامران غنی کی یہ نگارش بھی پڑھیں :بہار میں اردو صحافت: مسائل، حل اور امکانات

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے