بہار میں اردو صحافت: مسائل، حل اور امکانات

بہار میں اردو صحافت: مسائل، حل اور امکانات

کامران غنی صبا 
اسسٹنٹ پروفیسر، نتیشور کالج، مظفرپور، بہار، ہند

عام طور پر ”صحافت“ لفظ ذہن میں آتے ہی جو تصور سب سے پہلے ابھرتا ہے وہ ”اخبار“ ہے۔ اس کی ایک منطقی وجہ بھی ہے۔ ٹکنالوجی کے اس ترقی یافتہ عہد میں بھی کہ جب انٹرنیٹ کے توسط سے چشم زدن میں خبریں دنیا کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچ جاتی ہیں، اخبارات کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اخبار کی حیثیت دستاویزی ہوتی ہے۔ ویب سائیٹس پر شایع شدہ مواد میں رد و بدل کیا جا سکتا ہے۔ ریڈیو یا ٹیلی وژن سے نشر شدہ چیزوں کو رکارڈ میں رکھنا مشکل ہے۔ معیار کے اعتبار سے بھی ترجیح اخبار کو ہی دی جا تی ہے۔ یہی وجہ کہ جس قدر خبروں اور معلومات کی ترسیل کی نت نئی ایجادات سامنے آرہی ہیں اُسی قدر اخبارات کی اشاعت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ بہار میں اس وقت تقریباً دو درجن سے زائد اردو اخبارات شایع ہو رہے ہیں۔ درجن بھر اخبارات مارکٹ میں دستیاب بھی ہیں۔ ان میں قومی تنظیم، انقلاب، راشٹریہ سہارا، پندار، فاروقی تنظیم، سنگم، امین، ہمارا سماج، تاثیر، پیاری اردو، انقلاب جدید، ہمارا نعرہ، سہارا اکسپریس، ایک قوم، گھر گھر کی آواز، وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ یقینا اتنے سارے اخبارات کی اشاعت یہ ظاہر کرتی ہے کہ اردو اخبارات پڑھے بھی جاتے ہیں لیکن تصویر کا ایک دوسرا رُخ بھی ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ صرف بہار ہی نہیں بلکہ قومی سطح پر اردو اخبارات کا کوئی مشن یا نصب العین نہیں ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ مشن یا نصب العین کے بغیر بھی اردو اخبارات ہندستان کی سب سے بڑی اقلیتی آبادی کی نمایندگی کر رہے ہیں۔ نیز زبان و ادب کی سطح پر بھی اردو اخبارات کسی نہ کسی صورت میں اپنا مثبت کردار ادا کر رہے ہیں۔
بہار سے شایع ہونے والے اردو اخبارات کی صورت حال بہ ظاہر اطمینان بخش نظر آتی ہے۔ کارپوریٹ میڈیا کے اخبارات (راشٹریہ سہارا اور انقلاب) کی اشاعت کے بعد سبقت کی دوڑ میں تیزی بھی آئی ہے۔ تاہم اردو اخبارات کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ اخبارات کے مالکان اور کارکن صحافیوں کے درمیان کی خلیج ہے۔ میرے خیال میں اس خلیج کے ذمہ دار مالکان اور کارکن صحافی دونوں ہیں۔ کارپوریٹ میڈیا کے اخبارات کو چھوڑ دیا جائے تو یہاں کے تمام اخبارات کے ایڈیٹر خود مالکان ہیں۔ میرے خیال میں یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس پر بحث کی جائے۔ مالکان کے ذریعہ کارکن صحافیوں کا استحصال ایسا سنگین مسئلہ ہے جو اردو اخبارات کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ ایک عام شکایت ہے کہ اردو اخبارسے وابستہ صحافیوں کو ان کی محنت کے حساب سے مناسب اجرت نہیں ملتی۔ ایسے میں نوجوان طبقہ اس شعبہ میں قدم رکھنے سے گریز کرتا ہے تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔ لیکن ایک دوسری تلخ حقیقت یہ بھی ہے؛ جس کا اعتراف کارکن صحافی نہیں کرتے کہ اخبارات سے وابستہ زیادہ تر صحافی ایسے ہیں جنھوں نے بہ حالتِ مجبوری اس شعبہ میں قدم رکھا۔ اخبار کے مالکان نے دھوپ کے عالم میں انھیں سائبان عطا کیا اور جب وہ کسی قابل ہو گئے تو مالکان کے خلاف ہی علم بغاوت بلند کرنے لگے۔ مالکان اور کارکن صحافیوں کی اس خلیج کو ختم کیے بغیر بہار میں اردو صحافت کی ترقی نا ممکن ہے۔ آج اردو اخبارات کے پاس نہ تو پیسوں کی کمی ہے اور نہ وسائل کی۔ سنہ 2010 ء میں آر ٹی آئی کے ذریعہ حاصل شدہ اعداد و شمار کے مطابق حکومت بہار کی جانب سے اپریل 2010 سے اگست 2010 کے دوران قومی تنظیم، راشٹریہ سہارا، فاروقی تنظیم، پندار، انقلاب جدید اور سنگم کو مجموعی اعتبار سے30846211 (تین کروڑ آٹھ لاکھ چھیاسی ہزار دو سو گیارہ) روپے کے اشتہارات جاری کیے گئے۔ ہندی اور انگریزی اخبارات کو ملنے والی اشتہارات کی رقم سے موازنہ کیا جائے تو یہ رقم تھوڑی کم ضرور ہے لیکن اسٹاف کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ہندی اور انگریزی اخبارات کے دفاتر میں اردو اخبارات کے دفاتر سے کہیں زیادہ رونقیں ہوتی ہیں۔ یعنی اردو اخبارات کے مالکان کم اسٹاف سے کام چلانے کا ہنر جانتے ہیں۔ اردو اخبارات کے مالکان اگر چاہیں تو تھوڑی سی فراخ دلی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔
بہار میں اردو صحافیوں کی کوئی منظم تنظیم نہیں ہے۔حالیہ چند دنوں میں ”اردو میڈیا فورم“ کی سرگرمیاں کسی حد تک قابل ذکر ضرور ہیں۔ کچھ پرانی تنظیمیں ہیں بھی تو عملی طور پر ان کی کوئی سرگرمی نہیں ہے، پھر صحافیوں کی ذاتی چشمک اور منافقانہ رویہ خود ان کے لیے ہی سم قاتل ہے۔ بہار کے صحافی چاہیں تو مشترکہ طور سے اپنے مطالبات اخبار کے مالکان کے سامنے رکھ سکتے ہیں، لیکن صحافیوں کا اتحاد ایک ایسا خواب ہے جو شاید کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ چھوٹی چھوٹی پرائیوٹ کمپنیوں کے ملازمین یہاں تک کہ بس اور آٹو رکشا ڈرائیوروں کی بھی یونین ہوتی ہے۔ جب ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیے جاتے تو وہ اسٹرائک پر چلے جاتے ہیں۔نتیجے کے طورپر مالکان کو ان کے مطالبات کے آگے جھکنا پڑتا ہے۔ لیکن افسوس کہ دنیا کو اپنے قلم کی طاقت سے جھکانے والی صحافیوں کی جماعت اپنے حقوق حاصل کرنے کی جنگ میں شکست خوردہ نظر آتی ہے۔
بہار کے اردو اخبارات سے وابستہ صحافیوں کا ایک اور اہم مسئلہ فن صحافت سے ناواقفیت ہے۔ دوسری ریاستوں خاص طور سے دہلی میں اب پیشہ ور صحافیوں کو ہی شعبہ ادارت میں جگہ دی جاتی ہے۔ بہار میں نئی نسل کو صحافت کے فن و تکنیک سے واقف کرانے کے لیے کوئی مناسب بندوبست نہیں ہے۔ کچھ سال قبل پٹنہ یونی ورسٹی نے اردو صحافت میں ڈپلوما کورس شروع کیا تھا لیکن چند سال بعد ہی اس کورس کو بند کرنا پڑا۔ نوجوان صحافیوں کو فن صحافت کے رموز و نکات اور تکنیکی معلومات فراہم کرانے کے لیے مثبت پیش رفت ضروری ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ کام تعلیمی ادارے ہی انجام دیں۔ اخبار کے دفاتر میں بھی نوجوان صحافیوں کی تربیت کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔ سینئر اور تجربہ کار صحافی تربیت کا کام بخوبی انجام دے سکتے ہیں۔ صحافتی تربیت نہیں ہونے کی وجہ سے نئے صحافی فاش غلطیاں کر بیٹھتے ہیں۔ اردو اخبارات کی بیشتر خبریں ہندی یا انگریزی سے ترجمہ کر کے شائع کی جاتی ہیں۔ اشتہارات بھی زیادہ تر ہندی یا انگریزی میں ہی موصول ہوتے ہیں۔ ترجمہ نگاری بھی ایک فن ہے۔ نئے صحافیوں کو اس فن سے واقف کرانا انتہائی ضروری ہے۔
یہ سچ ہے کہ بہار میں اردو صحافت ہندی اور انگریزی صحافت سے کافی پیچھے ہے لیکن حالیہ چند برسوں پر نظر ڈالی جائے توصبح کاذب کے بعد کی سی دھندلی سفیدی کا احساس بھی ہوتا ہے۔ حالیہ چند برسوں میں اردو اخبارات کی اشاعت میں اضافہ ہوا ہے۔ اردو اخبارات اب دور دراز کے علاقوں میں بھی پہنچنے لگے ہیں۔ مواد اور گیٹ اپ وغیرہ کے اعتبار سے اردو اخبارات پہلے سے کہیں زیادہ دیدہ زیب اور معیاری شائع ہونے لگے ہیں۔ صحافی برادری اور اخبار کے مالکان و ذمہ داران چند بنیادی مسائل پر توجہ دے دیں اور ان مسائل کے حل کی سنجیدہ کوششیں کی جائیں تو بہار کے اردو اخبارات بھی قومی اور بین الاقوامی سطح کے اخبارات سے کسی طرح کم نہیں ہوں گے۔ بس ضرورت اتنی سی ہے کہ اخبار کے مالکان ہوں یا کارکن صحافی سبھی اپنی ذمہ داری، ایک دوسرے کی مجبوری اور مسائل کو سمجھیں۔ منافقت کا رویہ ترک کر کے خلوص نیت اور جذبۂ اخلاص کے ساتھ صحافت کو اسی طرح مشن بنائیں جیسا مشن مولوی محمد باقر، مولانا محمد علی جوہر، مولانا آزاد، سرسید احمد خاں جیسے اکابرین نے بنایا تھا ؎
شکوۂ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
(احمد فرازؔ)
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش: کتاب: مدارس اسلامیہ اور عصری تقاضے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے