کتاب: تماشائے اہل کرم

کتاب: تماشائے اہل کرم

تبصرہ نگا: رپروفیسر ذوالفقار احمد ساحر

مرنجان مرنج مگر قدرے زود رنج، خندہ لب جیسے کوکب نیم شب، چہرہ سنت نبوی سے مزین، لہجے میں ایک باوقار تفنن کبھی دھان پان ہوا کرتے تھے مگر کچھ عرصے سے مائل بہ فربہی ہیں۔ اور اب تو "تماشائے اہل کرم" جیسی تصنیف ہاتھ میں لیے اپنے احباب کو پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ اللہ عمر دراز فرمائے اور علم و عمل سے مزید سرفراز فرمائے۔
بات ہو رہی تھی برادر عزیز اور رفیق دیرینہ پروفیسر ایاز کیانی کی۔ جو مستقبل کے ڈاکٹروں، انجینئروں، وکلا اور سیاست دانوں کو اُردو کی کتاب ہاتھ میں لیے دہائیاں دیتے نظر آتے ہیں کہ کم بختو نمبروں کی دوڑ میں حالی و اقبال کو کیوں بھول رہے ہو؟
سر سیّد و شبلی کے ناموں کے ہجے تو لکھنا سیکھ لو کہیں اوکھے وقتوں میں کام آئیں گے۔ کم از کم غالب یا فیض کے چار پانچ اشعار ہی یاد کر لو شاید کل اپنی بیوی کو سنانا پڑیں۔
تو صاحبو! بات ہو رہی تھی اس سفرنامے کی جو آپ کو مطالعے کے دوران راولاکوٹ کی حسین وادی سے اپنے ساتھ لے کر چلتا ہے اور ارض پاک کے پانچ بڑے شہروں کی کچھ جھلکیاں دکھاتے ہوئے بحیرۂ عرب کے ساحل پر ختم ہوتا ہے۔ ہمارے دوست (انھوں نے بھی صغیہ جمع متکلم کی ضمیر کا سہارا لیا ہے) نے 15 جنوری کو سردی سے ٹھٹھرتا ہوا راولاکوٹ چھوڑا۔
سڑک کے راستے سفر کے دوران جو جو چیز دیکھی اس کا ذکر کیا۔ اس کی تاریخ بیان کی اپنے دوستوں ہم سفروں اپنے شاگردوں سے ملاقات اور ان کے ساتھ بیتے لمحات کا احوال لکھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ایک بے فکرے سیاح کی طرح مصنف کو ہوٹل، ہاسٹل، آفیسر لاجز، کرسیوں والے چائے خانے، کھاٹ اور چارپائیوں والے ہوٹلز، ڈھابے والوں الغرض ہر ایک ماحول سے دو دو ہاتھ کرنے کا ملکہ اور سلیقہ حاصل ہے۔
سفر نامے میں ایک عمدہ چیز وہ تصاویر ہیں جو مختلف جگہوں، تاریخی عمارتوں، مساجد، جامعات، لائبریریوں سٹیڈیم، مزارات حتیٰ کہ روٹیوں اور درختوں کی بھی ہیں۔ اگر یہ رنگین ہوتیں تو زیادہ اچھا تاثر چھوڑتیں مگر تصاویر واضح اور صاف ہیں۔ تقریباً ہر شہر کی نمائندہ تصاویر جیسے عالمگیری دروازہ لاہور، مقبرہ شاہ رکن عالم ملتان، مزار قائد کراچی موجود ہیں۔ انگریز کے زمانے کا فرئیر ہال اب (قائد میوزیم) گھنٹہ گھر ملتان، عجائب گھر لاہور میں پرانی جھلک ہے تو میلسی کا سائفن، فورٹ منرو کا شان دار پل، مینار پاکستان وہ علامتیں ہیں جو آزادی کے بعد تیزی سے ترقی کرتےہوئے پاکستان کا حوالہ بنیں۔ پتہ نہیں اس تیز رفتار پاکستان کو ترقی معکوس کی طرف کس نے موڑ دیا۔۔۔۔
لاہور کا بیان پڑھتے ہوئے قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اس کے ہاتھ میں ایک مکمل ٹورسٹ گائیڈ ہے۔جس سے وہ تاریخ لاہور کے ساتھ ساتھ دکان داروں کے رویے، بزرگوں کے جلال، میٹرو، رکشہ، ریل، بس اڈا، ریستوران، کھیل کے میدان، پاک ٹی ہاؤس، ہسپتالوں کے ذکر سے فائدہ اٹھا کر خود لاہور کی سیر کر سکتا ہے۔
اوکاڑہ اور ملتان کی سیر کے دوران مصنف نے کمال ہی کر دیا۔ ماضی کی سیاست میں رہنے والے کچھ راؤ، وٹو لغاری، بخاری، دولتانے ممدوٹوں کے تعارف کے ساتھ ایشیا کی پہلی خاتون فائر فائٹر، شعرا ادبا کے ذکر کے ساتھ ساتھ مختلف قبائل، پیداور، پھل، سبزیوں کا حوالہ قاری کے لیے معلومات کے بیش بہا خزانے لیے ہوئے ہے۔
ملتان میں مصنف کو اپنا دور طالب علمی یاد آتا ہے. بہاءالدین زکریا یونی ورسٹی میں گزرے ماہ و سال، حالیہ دنوں میں یونی ورسٹی کے ماحول کا بیان اور تقابلی جائزہ بھی ملتا ہے۔
ملتان کو مدینۃ الاولیاء کہا جاتا ہے. اس لیے مزارات کا بھی تفصیلی ذکر سفرنامے میں موجود ہے۔
اس کے بعد مصنف نے ڈیرہ غازی خان کا سرسری ذکر کیا ہے۔۔۔ آج کل یہ علاقے بدترین حالات کی زد میں ہیں۔سیلابوں اور طغیانیوں نے تباہی کی ایک انوکھی داستان رقم کی ہے۔ اللہ پاک نجات عطا فرمائے۔ یہاں سے گزر کر مصنف لورالائی جیسے تاریخی اور دفاعی نوعیت کے علاقے سے گزرتا ہے۔ قلعہ سیف اللہ سے پشین اور بالآخر کوئٹہ میں وارد ہوتا ہے۔ جہاں ان کے کچھ عزیز ان کو لینے پہنچ جاتے ہیں۔ یہ صفحات بھی معلومات سے بھرپور ہیں۔ کوئٹہ کے ذلزلے اور دیگر کچھ چیزوں کے ذکر کے بعد ہنہ جھیل اور اڑک آبشار کا ذکر کیا گیا ہے۔جامعات، میڈیکل کالج، سکولز، ہوٹل ‘کھانے، مشروبات، معدنیات، پھلوں کی پیداوار ہر ایک کا مناسب ذکر موجود ہے۔
سفرنامے کا آخری پڑاؤ عروس البلاد کراچی ہے۔ مصنف نے کراچی کی تاریخ بھی بیان کی ہے۔ انگریزوں کے دور کی چند عمارتوں کا ذکر بھی موجود ہے۔ فرئیر ہال، کوٹھاری پریڈ، سوامی نرائن مندر، گورا قبرستان اسی طرح حبیب بینک پلازہ، اوشئین ٹاور، ایم سی بی ٹاور کا ذکر کیا گیا ہے۔ کراچی یونی ورسٹی اور ڈاکٹر جمیل جالبی لائبریری کا ذکر خصوصی طور پر موجود ہے۔ قابل ذکر سیر گاہیں یعنی سفاری پارک، چڑیا گھر، ہل پارک، عزیز بھٹی پارک، کلفٹن، منوڑہ وغیرہ کے بارے میں مصنف نے اپنے مشاہدات کو قلم بند کیا ہے۔
اس مختصر مگر جامع سفرنامے میں قاری کے لیے بہت کچھ موجود ہے۔ جو مصنف کے لیے بھی ایک تحریک ہے کہ وہ اس جہت کو (لکھنے کی صلاحیت) کبھی کمزور نہ ہونے دیں۔ مجھے امید ہے کہ ان کی آنے والی تخلیقات اس سے زیادہ دل نشیں اور معلومات افزا ہوں گی۔
کتاب کا ٹائٹل دیدہ زیب ہے۔ جسے دیکھ کر غالب کا یہ شعر یاد آ جاتا ہے۔
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
ٹائٹل پر برفانی پہاڑ، ہریالی سے لدے کوہستانی سلسلے اور ان کے قدموں میں بچھی وادی میں جھنڈ کی صورت کھڑے درخت ایک پس منظر بناتے ہیں۔ پنجاب کی سونا اگلتی زمینوں انواع و اقسام کی فصلوں اور پھل دار درختوں کو ظاہر کیا گیا ہے۔ اس کے نیچے مزار قائد، بادشاہی مسجد، مینار پاکستان، باب خیبر اور زیارت کی علامتی تصویریں ہیں۔ لاہور کی دو علامتوں کی بجائے اگر ایک علامت ملتان کی ہوتی تو تصویر زیادہ مکمل ہوتی۔ باب خیبر کی ضرورت اس لیے نہ تھی کہ مصنف نے اس طرف رخ ہی نہ کیا۔
پریس فار پیس فاؤنڈیشن( یوکے ) نے کتاب کی پبلشنگ کی۔
***
آپ یہ تبصرہ بھی پڑھ سکتے ہیں :کتاب : تماشائے اہل کرم (سفرنامہ)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے