کتاب : گلشن افسانچہ (منتخب افسانچے)

کتاب : گلشن افسانچہ (منتخب افسانچے)

مرتب کار : خالد بشیر تلگامی
مبصر : عارفہ خالد شیخ

دیدہ زیب رنگوں اور خوب صورت تزئین کاری سے مزین افسانچوں کا مجموعہ "گُلشن افسانچہ" صنفِ افسانچہ کو فروغ دیتا نظر آیا۔
عزت مآب جناب خالد بشیر تلگامی صاحب جو اس کتاب کے مرتب کار ہیں کی کاوش اور ادب کے تئیں ان کے خلوص کا ثمرہ ہے کہ آج یہ کتاب ہمارے ہاتھوں میں ہے۔
اپنی اس تخلیق کے ذریعے انھوں نے اپنے ساتھ دیگر کئی اہلِ قلم کے افسانچوں كو شامل کر کے نہ صرف اُنھیں عزت دی بلکہ ان کی تحریروں کو دوام بھی بخشا۔
اس میں جہاں 54 اديبوں و قلم کاروں کے 105 افسانچوں کو ترتیب وار پیش کیا گیا ہے وہیں 17 ادیبہ و اہل ذوق خواتین کے 31 افسانچوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
عالمی سطح پر پہلا ادبی گروپ "گلشنِ افسانچہ" جس کا کہ قیام 8، جون 2020 کو عمل میں آیا، ایک ایسا گروپ ثابت ہو رہا ہے جو مُلک کے کونے کونے سے ادبا اور اہلِ قلم کو دعوتِ تخلیق دے رہا ہے۔ مقصد صنفِ افسانچہ کو فروغ دینا ہے۔ مجھے یہ کہتے ہوئے بے حد خوشی ہو رہی ہے کہ یہ اپنے ہدف کی طرف تیزی سے گامزن ہے۔ جس کی مثال یہ عمدہ تخلیق ہے۔ جناب خالد بشیر تلگامی صاحب کے افسانچے اکثر نظر نواز ہوتے رہتے ہیں۔ جن میں اُن کا تخلیقی شعور جھلکتا ہے۔ ان کے افسانچوں کا مجموعہ”دکھتی رگ" 2021 میں شائع ہو چکا ہے۔ وہ ایک افسانچہ نگار اور قابل ایڈمن ہیں یہ تو میں جانتی تھی لیکن ایک اچھے مرتب کار بھی ہیں یہ میں نے آج جانا۔ یہ ان کا حُسن ظن ہی ہے کہ اُنھوں نے اپنی اس تصنیف میں اپنے ساتھ دیگر قلم کاروں کے افسانچوں کو جگہ دے کر نہ صرف اُنھیں عزت دی بلکہ ان کی تخلیقات کو دوام بھی بخشا. اُنھوں نے گلشنِ افسانچہ گروپ کے زیرِ سایہ نئے افسانچہ نگاروں کو ایک پلیٹ فارم فراہم کیا اور ان کی سراہنا و حوصلہ افزائی کی۔
دونوں اجناس کی تخلیقات نے فہم و ادراک کے وہ در وا کیے کہ تشنگی کا احساس جاتا رہا۔
سب سے پہلے نامور ادیب و افسانچہ نگار مرحوم ایم اے حق صاحب کے دو افسانچے نظر نواز ہوئے۔
پہلا افسانچہ”میں" اور دوسرا "سمجھوتہ"۔ افسانچہ "میں" عنوان سے ہی انا و تکبر کی بو باس لیے محسوس ہوا۔ پھر پڑھتے ہی گمان پر حقیقت نے مہر ثبت کر دی۔ اس میں تخلیق کار نے ذاتی مفاد، ہے مروتی اور انسانی بے رُخی کو ظاہر کیا ہے۔ آج کا انسان یہاں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ خوشامد اور چاپلوسی پر اُتر آئے تو حد سے تجاوز کر جانے میں بھی عار محسوس نہ کرے اور جب بے مروتی دکھائے تو آئینے تک کو جھٹلا دے۔ حالتِ حاضرہ کی عکاسی کرتا افسانچہ اپنے مقصد میں کامیاب رہا۔
افسانچہ "سمجھوتہ" دوستی کے اُس حق کو ادا کرتا دکھائی دیا جو مذہب سے بالا تر ہو کر رواداری کا عملی نمونہ پیش کرتا ہے۔
اس کے بعد مرحوم اشفاق احمد صاحب کے بھی افسانچے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا ۔ "اپنا گریبان" اور "فرق" دونوں ہی سماجی مسائل پر مبنی ہیں۔ ترقی کے اس پُر فتن دور میں بے راہ روی نے جائز اور نا جائز کی حد بندی کو مسمار کر دیا ہے۔
‘اپنا گریبان" میں قابل افسانچہ نگار نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ کسی اور کے دامن کو داغ دار کرنے سے پہلے اپنے دامن کی خبر گیری کر لینی چاہئے۔ گر ہم کسی اور کی عزت سے کھیلیں گے تو ہمارے گھر کی آبرو کو بھی گرہن لگ سکتا ہے۔ اسے ہم مکافات عمل بھی کہہ سکتے ہیں۔
” فرق" افسانچہ، حرام اور حلال کے فرق کو ظاہر کرتا ہے۔ سماج میں پھیلی اُس برائی کو ظاہر کرتا ہے، جسے رشوت، گھوس، باجرہ (یہ میں نے اب جانا) جیسے ناموں سے پہچانا جاتا ہے۔ یہ ایسی وبا ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں ناسور کی طرح پھیلتی جا رہی ہے اور جس پر قدغن لگانا بے حد ضروری ہے۔
ڈاکٹر اشفاق احمد صاحب مرحوم کے افسانچے شامل کر ان کے اُس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنا بھی نظر آیا جسے کاتبِ تقدیر نے ان سے چھین لیا اور جس سے جناب خالد بشیر تلگامی صاحب بھی وابستہ رہے۔ خراج عقیدت کا یہ انداز اُن خواہشوں کو عملی جامہ پہناتا محسوس ہوا جس سے تسکین و آسودگی کشید کرنا مقصود تھا۔
کہتے ہیں، تخلیق کار مر کر بھی زندہ رہتے ہیں۔ مرحومین کے افسانچے اس بات کے شاہد ہیں۔ اس کے بعد دیگر مایہ ناز افسانچہ نگاروں کی تخلیق کا سلسلہ شروع ہوا۔
جیسے کہ محترم ابوذر صاحب، محترم حنیف قمر صاحبِ، محترم احمد کمال حشمی صاحب، محترم اسداللہ صاحب، محترم اسلم جمشید پوری صاحب، محترم تنویر اختر رومانی صاحب، محترم محمد علی صدیقی صاحب، محترم علیم اسماعیل صاحب اور گلشن افسانچہ گروپ کے ایڈمن و مرتب کار جناب خالد بشیر تلگامی صاحب نیز ایڈمن ثانی محترم رونق جمال صاحب وغیرہ ۔۔۔۔ اسی طرح خواتین قلم کاروں میں محترمہ تبسم اشفاق صاحبہ، محترمہ نعیمہ جعفری صاحبہ، محترمہ قاضی صبیحہ صاحبہ، محترمہ یاسمین اختر صاحبہ وغیرہ کے علاوہ اس ناچیز کے بھی افسانچے اس کتاب میں شامل ہیں۔ اس کے لیے میں محترم خالد بشیر تلگامی صاحب کی ممنون ہوں۔
صنف افسانچے کی روز بروز بڑھتی شہرت نے ہر خاص و عام کو اپنی جانب متوجہ کر لیا ہے۔ ایسے میں افسانچہ نگار کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ تآکہ اس صنف کو ضرر نہ پہنچے اور اس کے عروج و ارتقا میں بتدریج اضافہ ہوتا رہے۔
زیر نظر کتاب اپنی طرز کی منفرد کتاب ہے۔ جس میں ہر قسم کے اور تقریباً بر موضوع کے افسانچے درج ہیں۔
پھر چاہے وہ سماجی ہوں یا سیاسی، معاشی ہوں یا معاشرتی۔ ہر انداز جدا ہر خیال ندرت فکر سے پر. اس میں پیار بھی ہے اقرار بھی۔ ماں کا دلار ہے تو مکافات عمل کا پچھتاوا بھی۔ معصوم فرشتہ صفت کہانی بھی ہے توضمیر کو کچوکے لگاتے تازیانے بھی۔ ازدواجی زندگی کے اسرار ہیں تو ماڈرن زمانے کے بچوں کی تربیت بھی، کوئی افسانچہ ڈرامے کی طرح منظر بدلتا ہوا بھی نظر آیا اور ایسا لگا جیسے صدیوں کا سفر منٹوں میں طے ہو گیا ہو. کچھ افسانچے سیاست کی پول کھولتے ہیں تو کہیں کسی افسانچے میں رسم رواجوں کی بھینٹ چڑھتے سماجی مسائل بھی منہ چڑاتے رہے۔ کچھ رونگٹے کھڑے کر دینے والے تو کچھ انسانیت کو شرمسار کردینے والے بھی نظر نواز ہوئے۔ چند افسانچے مکالموں کی صورت تو ایک آدھ پر لطیفے کا گمان بھی غالب آنے لگا۔
افسانچوں کے اس میلے میں” دیوار"، "حساب"، "کھول دو"، "رانگ سائیڈ"، "برتھ ڈے"، "فرما بردار"، "دلدل"، "تیسری آنکھ" وغیرہ نے دل موہ لیا۔
اس دھنک رنگ مجموعے میں طنز و مزاح، سنجیدہ مسائل، محبت، سسکتے ارمان، آس و یاس میں ڈوبی آرزوئیں، نصیحت، حکایت اور واقعات بھی نظر آئے۔ غرض افسانچوں کے اس گلدستے میں دل فریب رنگوں کے امتزاج کا ایسا ملاپ نظر آیا کہ دل عش عش کر اٹھا. اس میں غنچے بھی ہیں، پُھول بھی ہیں اور ہرے بھرے پتے بھی۔
ہر افسانچہ مختلف اُس کے رنگ ڈھنگ دوسرے سے جدا اور اپنا آپ منواتا ہوا۔
کل 136 افسانچوں کی یہ برقی لڑی رنگ برنگی قمقموں کی طرح فروزاں نظرآئی۔ افسانچوں کی یہ حسین و انقلابی صورت دیکھ کر دل ہے اختیار پکار اٹھا کہ اب افسانچوں کا مستقبل روشن ہے۔ بیک وقت کئی نامور ادیب و قلم کاروں کی زندہ افسانچوں کو ترتیب وار پیش کر خالد بشیر تلگامی صاحب نے ہم اہل ذوق پر بڑا احسان کیا ہے۔ اللہ اُنھیں اس کا اجر عظیم عطا فرمائے اور صنف افسانچہ کو بدر کامل کی طرح منور و روشن کرے نیز اسے عروج کی بے پایاں بلندیاں عطا فرمائے۔
آمین یارب العالمین!
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :خالد بشیر تلگامی کی افسانچہ نگاری: ایک جائزہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے