بہاولپور میں اجنبی یا بہاولپور میں ابن بطوطہ؟

بہاولپور میں اجنبی یا بہاولپور میں ابن بطوطہ؟

تبصرہ نگار: قانتہ رابعہ

تشہیر کسی بھی چیز کو فروخت کرنے کا سب سے بہترین نسخہ ہے اور ہر زمانے میں کارگر رہا ہے۔برصغیر میں جب ککڑیاں ( پنجابی زبان میں انھیں تر کہا جاتا ہے) بیچی جاتیں تو ان دبلی لمبی ککڑیوں کے لیے ( کاف پر زبر ہے پیش کے ساتھ یہ مرغی کے لیے) بیچنے والے صدا لگاتے.
لیلی کی انگلیاں ہیں مجنوں کی پسلیاں ہیں
لے لو یہ ککڑیاں ہیں
ایسے خوب صورت انداز اور شاعرانہ انداز میں بیچی جانے والی چیز کو کون نہیں خریدے گا؟
مجھے بھی تشہیر کی گئی تمام اشیا سے بہ طور خاص رغبت ہوتی ہے تاہم ایک دو چیزوں کی زبردست تشہیری مہم سے متاثر ہو کر جب منگوائیں تو ایک ہی محاورہ ذہن میں آیا "اونچی دکان پھیکا پکوان".
پبلسٹی تو بہاولپور میں اجنبی کی بھی سوشل میڈیا پر خوب ہوئی اور کئ مرتبہ منگوانے کا ارادہ کیا لیکن عملی نوبت آنے سے پہلے یہ کتاب پریس فار پیس کی طرف سے غیر متوقع طور پر مجھے موصول ہوئی۔
اچھی خوراک ہو یا اچھی کتاب دونوں ہی اشتہا میں اضافے کا باعث بن سکتی ہیں بالکل اس کتاب کی طرح۔
کتاب کی جامع صفات گنوانے کے لیے کئی صفحات درکار ہیں تاہم جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ خوشی دی وہ کتاب کا مواد ہے اور مجھے اپنی کم علمی کا اعتراف ہے کہ اس سے پہلے مجھے کتاب کے مصنف جناب مظہر اقبال صاحب کا تعارف نہیں تھا۔کتاب بہاولپور کا سفر نامہ تو ہے ہی لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ فاضل مصنف ایک سیاح کی حیثیت سے نہیں ایک امتحان کی غرض سے جانے والے طالب علم کی حیثیت سے بہاولپور میں داخل ہوتے ہیں۔ فرید گیٹ سے شروع ہونے والے اس شہر میں وہ سیاح کی آنکھ، مصنف کا قلم اور محقق کے مشاہدے کے ساتھ داخل ہوتے ہیں۔ ایک طالب علم اگر چار چھے سالہ قیام میں دل چسپی لیتے ہوئے ایسی کتاب تصنیف کرے تو چنداں حیرانی کی بات نہیں لیکن امتحان کی غرض سے مختصر سے قیام کے لیے جانے والا امتحان کی تیاری بلکہ ٹینشن کے ساتھ ساتھ شہر کے کونے کھدروں میں جا پہنچے، اس کا تاریخی ورثہ بھی کھوج نکالے، ان کے باشندوں کی بودوباش، انداز گفتگو، ان کی کشمیری زبان سے مماثلت اور ان کی تہذیب کو بھی اعلا ادبی پیرایے میں قارئین کے سامنے پیش کر دے تو اسے صرف طالب علم سیاح نہیں ادب کے میدان کا آل راؤنڈر کہا جائے گا۔سرائیکی زبان سے واقفیت نہ رکھنے کے باوجود سرائیکی و سیب سے دلتچسپی ان کی زبان کو سمجھنا اور ان کے فقروں کو جوں کا توں نقل کرنا کمال مہارت اور مصنف کے بیش بہا شوق کی نشان دہی کرتا ہے۔ کتاب میں سرائیکی زبان کی مٹھاس کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں:
بہاولپور کی سرائیکی بڑے بوڑھوں کی زبان پر آئے تو اس لہجہ کی تاریخ سمیٹے. نوجوانوں کی زبان سے پھسلے تو عشق و سرمستی میں ڈوبےتار چھیڑے، صنف نازک کے ہونٹوں سے نکلے تو شیرینی اور مٹھاس کے سوتے پھوٹنے لگیں، کوچوانوں، ریڑھی والوں اور ٹھیلے والوں کی روزمرہ بول چال میں ٹھٹھے اڑاتی یہ زبان علمی درس گاہوں کی راہ داریوں میں سنیں تو کانوں میں جلترنگ سی بج اٹھتی ہے۔
کتاب میں بہاولپور کا وکٹوریہ ہسپتال ہو یا جامع مسجد صادق، فوارہ چوک ہو یا جامعہ اسلامیہ بہاولپور وہاں کا فرید گیٹ ہو یا مچھلی بازار، سب پر چند لفظوں میں سمندر کو کوزے میں بند کردیا گیا ہے. وہاں کے مخصوص بولے جانے فقروں پر اتنی بھر پور مزاح کی چاشنی میں لب کشائی کی گئی ہے کہ قاری مسکرائے بغیر نہیں رہتا. کچھ چیزوں کا تو شاید وہاں کے باشندوں کو بھی کہنے کا ہنر نہ آتا ہوگا جو مصنف نے کر دکھایا۔ مچھلی بازار کا تعارفی قصیدہ شاید کوئی ریاستی ( مقامی ) بھی نہ کہہ پایا ہو. کتاب کی خوبی اس کا اختصار ہے۔ بہت منے منے فقروں میں شہر کےنوابوں سے تعلق رکھنے والے ورثے کی توصیف کی گئی ہے کہ قاری داد دیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ صرف فقرے مختصر نہیں۔ باب بھی ایک ورقی دو ورقی ہیں. کتاب کی زبان ادب کی تاریخ میں منفرد ہے، دل چسپ ہے، روانی ہے، مزاح کے تڑکے سے خوشبو اڑاتی ہے لیکن ایک بات حیران کرتی ہے۔ بہاولپور میں اجنبی سے سفرنامہ اندلس میں اجنبی یاد آجاتا ہے۔ ان دو کا آپس میں کوئی مقابلہ نہیں۔ سفرناموں کی تاریخ میں یہ ایک کبھی نہ بھولنے والا اضافہ ہے۔ کتاب کی طباعت اور اشاعت بہترین ہے. اردو ادب کی تمام اصناف سے دل چسپی رکھنے والوں کو یہ کتاب پڑھنی چاہئے کیونکہ اس میں ادبی اصناف کے سارے ہی رنگ موجود ہیں۔ یہ شاعرانہ مزاج رکھنے والوں کو بھی خوش کرتی ہے اور افسانوی انداز والے بھی مایوس نہیں ہوں گے۔انشائیے کا رنگ موجود ہے تو مشتاق احمد یوسفی صاحب کی بھی کئی جگہوں پر یاد دلاتی ہے. بہرحال اس کتاب میں عمدہ سفرنامے کے تمام لوازمات موجود ہیں.
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :کتاب : بہاولپور میں اجنبی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے