کتاب: دیواروں کے راز (افسانوی مجموعہ)

کتاب: دیواروں کے راز (افسانوی مجموعہ)

رفیع حیدر انجم 

کمتر درجے کا ادب اپنے مالک و مختار اور ان کے حواریوں کے درمیان سکڑ سمٹ کر رہ جاتا ہے جب کہ اعلا اقدار کی حامل ادبی تخلیقات سرحد کی بندشوں کو توڑ کر ان دور افتادہ مقامات تک پہنچ جاتی ہیں جہاں ادب کا ایک بھی قدردان موجود ہے. محترم خالد فتح محمد کے افسانوں کا مجموعہ "دیواروں کے راز" مجھ تک پہنچ گیا ہے. پاکستان کے عصری ادبی منظر نامہ میں بہ طور فکشن رائٹر خالد فتح محمد کا نام عزت و احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے. وہ ناول نگار بھی ہیں اور فکشن کے نمائندہ رسالہ "ادراک" کے مدیر بھی. ایک مترجم کی حیثیت سے بھی ان کی شناخت مستحکم ہے. ان کی جوہر شناسی کا شکریہ اور ان کی ان متجسس بصیرت افروز نگاہوں کے لیے مبارکباد جو قدرت کی طرف سے انھیں خاص ودیعت ہوئی ہیں جس کے پرتو ان کے افسانوں کے اوراق میں بکھرے ہوئے ہیں.
"دیواروں کے راز" کے افسانے حیات انسانی کے راز و نیاز اور کائنات کے اسرار و رموز کے افسانے ہیں. سنہ 2022 میں شائع اس مجموعہ میں انیس افسانے شامل ہیں جنھیں پڑھتے ہوئے میں ایک منفرد تخلیقی ذائقے سے آشنا ہوا. ذہن کی بھوک اگر اپنا وجود رکھتی ہے تو اسے مٹانے کے عمل میں کسی نہ کسی ذائقے کا تجربہ یقینی ہوتا ہے. یہ انوکھا ذائقہ ان کے افسانوں میں ایک سیچوریٹیڈ پوائنٹ تک پہنچا ہوا ہے. میں نے تخلیق کار کو ہر افسانہ میں اس کی سالمیت اور تکمیلیت کے ساتھ موجود پایا. یہ احساس اپنے آپ میں متحیر کر دینے والا تھا. ان افسانوں کے موضوعاتی ڈسکورس اور متنی تشریحات و انتقاد کے روایتی فارمولے سے گریز کرتے ہوئے ان کے فنی اختصاص و امتیاز کے بارے میں کہنا چاہوں گا کہ خالد فتح محمد نے نام نہاد جدیدیت سے الگ اپنا ایک ایسا تخلیقی پیٹرن اختیار کیا ہے جو مجھ جیسے قاری کے لیے مقام مسرت بھی ہے اور پیغام بصیرت بھی. مجھے لگتا ہے کہ ان کے تمام افسانے مختلف تخلیقی وقوعے ہیں جو افسانے کی ماجرا سازی میں قوس قزح کا سا رنگ بھرتے رہتے ہیں اور یوں زندگی کے تلخ و شیریں حقائق کو تخلیق کے مجازی منظر نامہ پر پیش کرنے کا ہنر خالد فتح محمد کا خاص وصف ہے.
"دیواروں کے راز" کے افسانوں پر اپنے تاثرات قلم بند کرنے سے قبل اعتراف کرتا چلوں کہ میں نے خود کو ادب کا ایک ادنا سا قاری ہی تصور کیا ہے اور میرے پیش نظر فکشن کے ناقد وارث علوی کی یہ عبارت ہمیشہ رہتی ہے کہ "اچھے فن کار یا فن پارے پر لکھنا مشکل کام ہے. کیوں کہ شعر و افسانے کا حسن اور معنویت فن کے ہزار پردوں میں پنہاں ہوتی ہے اور صاحب نظر نقاد کی ہنر شناس نظریں ہی ان تک پہنچ سکتی ہیں."
"دیواروں کے راز" کے افسانوں میں مصنف کی دانش مندانہ فکر و نظر اور ان افسانوں کے کرداروں کے اعمال و افعال قاری کو جذب دروں کا احساس کراتے ہیں. شروع کے چار افسانے ایک الگ داستان، جو نظر نہ آئے، شرینہہ کے پھولوں کی مہک اور مراجعت، انسان کے جبلی تقاضے، جنس کے مادی تصور سے ماورائی حقیقت تک کا سفر اور لمحاتی لذت کوشی کے مختلف شیڈس کو بیان کرتے ہیں مگر ایک محتاط رویے کے ساتھ کہ تقاضائے بشریت سے انکار نہیں کیا جا سکتا. بشری تقاضوں کے مختلف النوع زاویے ان افسانوں کی بنیادی کلید ہے شاید. میں قطعیت کے ساتھ کہہ نہیں سکتا کہ نفسیات کے باریک دھاگوں میں الجھے ہوئے may be اور may not کی ذہنی تکرار تمام افسانوں پر سایہ فگن ہے. یہاں کبھی راوی اور کبھی دیگر کرداروں کے باطن سے ابھر کر آنے والا ہر بیانیہ تشکیک کی دھند میں لپٹا ہوا ہے مگر معاشرتی سچائیوں سے scattered بالکل بھی نہیں ہے اور یہی ان افسانوں کا حسن ہے.
نشاط و الم اگر زندگی کے چھاؤں دھوپ ہیں تو افسانہ "بات کچھ اور تھی" سے بہتر بیانیہ اور کیا ہو سکتا ہے جہاں غیر متوقع اور المناک سچویشنز میں روشنی کی امید افزا کرن در آتی ہے. تحیر کی کیفیت کو سلیقے سے برتنے کا یہ انداز واقعی جداگانہ ہے. افسانہ "اندھیروں کا سراغ" جدید تر نسل کی لائف اسٹائل اور فکر و نظر کا شفاف بیانیہ ہے. "دکھ اور سکھ کے بیچ" ایک عورت کی شخصیت میں رچی بسی فکر و عمل، حوصلہ مندی، تحمل اور غیبی صلاحیتوں سے عبارت بےحد موثر افسانہ ہے. ٹائٹل افسانہ "دیواروں کے راز" میں عورت اور مرد ہمارے معاشرے کے حاشیائی کردار ہیں. عورت اپنے مرد کی حاجت پوری کرنے کے لیے جسم کا سودا کر لینے پر آمادہ ہو جاتی ہے اور ایسا کرنے کے لیے مرد کی رضامندی بھی اسے حاصل ہے. مگر جب وہ حاملہ ہو جاتی ہے تو مرد اس بچے کا باپ بننے سے انکار کر دیتا ہے.
"مجھے پتہ ہے کہ بچے کا باپ کون ہے؟ بچے کا باپ تمھارا آشنا صاحب ہے اور میں ایک ناجائز بچے کو اپنا نام نہیں دے سکتا. میں کسی کے بھی ناجائز بچے کو اپنا نام نہیں دے سکتا." (دیواروں کے راز)
بہ ظاہر تو یہ افسانہ عورت کے جنسی استحصال اور مرد ذات کی خود غرضی و ذہنی برتری پر محمول نظر آتا ہے مگر اس افسانے کے کرداروں (فضلاں اور محمد دین) کے سابقہ ماحول اور پس منظر سے جو hidden message کشید ہو کر آرہا ہے وہ یہ ہے کہ احساس کمتری کی عمارت کی بنیاد میں جذبۂ احساس برتری پہلی اینٹ ہوتی ہے. جہاں تک عورت ذات کی لا حاصلی اور بے دخلی کی بات ہے تو حاشیائی کمیونیٹی ہی کیوں، اعلا تعلیم یافتہ اور روشن خیال طبقے سے تعلق رکھنے والی ایک صحافی اور افسانہ نویس خاتون (افسانہ "اندھیرے کا سراغ" کی ایک کردار ماریہ) بھی مرد تفوق معاشرہ (male dominated society ) سے پٹ کر آجاتی ہے. ہمارے معاشرے کے اس دوہرے معیار سے نجات کی صورت کوسوں دور ہے. افسانہ "راہ گم کردہ مسافر" کا ذکر میں خاص طور پر کرنا چاہوں گا. اس افسانے کا آغاز محبت آمیزی کے ساتھ کسی خوش گوار فلم کی طرح ہوتا ہے مگر اختتام تک پہنچتے پہنچتے کوئی بھی قاری خود کو اداسیوں کے گہرے بھنور میں ڈوب جانے سے بچا نہیں سکتا. اس بھنور کی تشکیل اتنی فن کاری سے کی ہے اور ایک عورت کی نفسیات کے اس پہلو کو اجاگر کیا ہے جس سے ایک شاطر مرد بھی انجانا رہ جاتا ہے. اس افسانہ میں مصنف کا فن اپنے معراج پر ہے. انسانی نفسیات کو سلیقے سے کریدنے کا ہنر خالد فتح محمد کی وہ تجسس آمیز اور بصیرت افروز نگاہ ہے جس کا ذکر میں نے شروع میں کیا ہے.
کچھ افسانے مثلاً پیراں دا پراگا موڑ, بارش کا دوسرا قطرہ پڑھ کر عام قاری کو مغالطہ ہو سکتا ہے کہ کہیں کچھ نامکمل رہ گیا. دراصل یہ افسانے اور ان سے جڑی حکایتیں ختم ہو کر بھی ختم نہیں ہوتیں کہ زندگی تسلسل کا نام ہے. یوں بھی بہترین افسانے وہی ہوتے ہیں جو اپنے اختتام کے بعد قاری کے ذہن کی شاہ راہ پر محو سفر ہوں. جن افسانوں (تسلسل، مرزا کا گھر، سلائی کی مشین، ایک دکھ، ہمراز، راکھ میں چنگاری) کا ذکر یہاں ہونے سے رہ گیا وہ بھی میرے ذوق مطالعہ کا حصہ بنے ہیں اور یہ تمام افسانے اپنے متعلق کچھ کہنے سے زیادہ پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں. ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ ان افسانوں کی قرات سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے مصنف اندرون ذات میں در آئے کسی خلا کو بھرنے میں مصروف عمل ہیں.
خالد فتح محمد یقیناً فن افسانہ نگاری کے فتح یاب کمانڈر ہیں جنھیں مجھ جیسے بہترین افسانوں کے متلاشی قاری کا مودبانہ سیلیوٹ.
***
رفیع حیدر انجم کی یہ افسانہ بھی پڑھیں: نجات چاہنے والے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے