پروفیسر صالحہ رشید کی کتاب جد و جہد آزادی کی رسم اجرا

پروفیسر صالحہ رشید کی کتاب جد و جہد آزادی کی رسم اجرا

ضیائے حق فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام پروفیسر صالحہ رشید کی کتاب جد و جہد آزادی (چند آزادی خواہوں کے قصے) کی رسم اجرا

١٧ اگست، پریاگ راج( پریس ریلیز) پریاگ راج اُتر پردیش کی سرزمین سے تعلق رکھنے والی پروفیسر صالحہ رشید (صدر شعبہ عربی و فارسی الہ آباد یونی ورسٹی ) کی کتاب جد و جہد آزادی (چند آزادی خواہوں کے قصے) کا ضیائے حق فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام شعبہ عربی و فارسی الہ آباد یونی ورسٹی میں عمل میں آئی۔ اس تقریب کا اہتمام ڈاکٹر صالحہ صدیقی صاحبہ (چیئرپرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن و اسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو سمستی پور کالج ) اور ان کی ٹیم نے کی، واضح رہے کہ ضیائے حق فاؤنڈیشن وہ تنظیم ہے جو سماجی، فلاحی کاموں کے ساتھ ساتھ تعلیمی کاموں میں بھی پیش پیش رہتی ہے، اس کے زیر اہتمام شہر پٹنہ کے پھلواری شریف میں ایک ادارہ مدرسہ ضیاء العلوم کے نام سے چل رہا ہے، جہاں بچے بچیاں اپنی علمی پیاس بجھا رہے ہیں، اس کے علاوہ اس ادارے نے اب پبلیکیشن کا کام بھی شروع کیا ہے جس کے تحت دو کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں. پروفیسر صالحہ رشید کی کتاب اس میں شامل ہے۔
پروفیسر صالحہ رشید بہترین معلمہ ہونے کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی زبانوں پر عبور رکھتی ہیں، لیکن وہ اُردو میں بھی دست آزمائی کرتی رہتی ہیں۔ اس سے قبل ان کی کئی تصانیف بھی منظر عام پر آچکی ہیں، جنھیں ادبی حلقوں نے سراہا ہے اور علمی حلقوں میں داد و تحسین حاصل کر چکی ہیں۔ اسکالر بھی اس سے استفادہ کر رہے ہیں.
تازہ تصنیف جد و جہد آزادی  جنگ آزادی کی تاریخ و تحریک پر مبنی ایک نایاب اور شاہ کار تصنیف ہے، جو ایک سو سولہ صفحات پر مشتمل ہے، جس میں کئی اہم مضامین ہیں، جو اردو ادبی رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے ہیں، لیکن اب منظم انداز میں ایک کتابی شکل میں مصنفہ نے شائع کیا ہے۔ جس کی قیمت دو سو روپے ہے، آپ اس کتاب کو ضیائے حق فاؤنڈیشن پبلکیش پریاگ راج اور پٹنہ بہار سے بھی حاصل کر سکتے ہیں. رسمِ اجرا کے موقع پر اس خوب صورت پروگرام کی نظامت اور کتاب کا تعارف ڈاکٹر صالحہ صدیقی صاحبہ (چیئرپرسن ضیائے حق فاؤنڈیشن) نے پیش کرتے ہوئے ضیائے حق فاؤنڈیشن کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ضیائے حق فاؤنڈیشن 2011 سے سر گرم ہے، یہ تنظیم سماجی، اصلاحی، اور فلاحی کاموں کے ساتھ ساتھ علمی، ادبی، لٹریری پروگرام میں بھی ہمیشہ سرگرم رہی ہے، ادبا و شعرا کی حوصلہ افزائی کے واسطے گاہے بہ گاہے آن لائن، آف لائن پروگرام کا انعقاد کرتی رہتی ہے، اس تنظیم کے تحت بہار کے دارالحکومت شہر عظیم آباد (پٹنہ) میں ایک ادارہ مدرسہ ضیاء العلوم کے نام سے قیام میں آیا ہے، جہاں طلبہ و طالبات کی جماعت علمی پیاس بجھا رہی ہے، اس کے علاوہ یہ ادارہ اُن قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کرنے اور اُن کو پلیٹ فارم مہیا کرانے میں پیش پیش رہتی ہے جن کو نظر انداز کیا جاتا ہے یا جن کو موقع نہیں مل پاتا۔ اس کے بعد کتاب کا تعارف و کتاب کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ آزادی کی جد و جہد میں نمایاں ناموں کے ساتھ ایسے مجاہدین بھی شامل تھے جن کو تاریخ میں کبھی جگہ نہیں مل سکی، جن کی قربانیوں، کوششوں اور لافانی خدمات نے آزادی کی تاریخ میں نمایاں کردار ادا کیا لیکن افسوس ان کی خدمات کا اعتراف کبھی نہیں ہو سکا یا ہوا بھی تو رسما۔۔ان تمام باتوں کی کمی پروفیسر صالحہ رشید نے اپنی اس تازہ تصنیف میں دورِ کر دی ہے. انھوں نے اُن لافانی شخصیات کو بہت ہی خوب صورت انداز میں پیش کیا ہے جن کے مطالعہ سے نئے نئے انکشافات ہوتے ہیں اور یہ معلومات کہیں اور نہیں ملتیں، یقینا ان کا یہ تحقیقی کارنامہ لافانی ہے، جسے پڑھنے، سمجھنے اور آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
مہمان خصوصی کے طور پر ڈاکٹر نیلوفر حفیظ صاحبہ نے بھی اپنے تاثرات کا اظہار کیا، انھوں نے کہا کہ صالحہ رشید صاحبہ کی تصنیف کردہ جد و جہد آزادی یہ جنگ آزادی کی تاریخ و تحریک کو اجاگر کرتی ہے، اور صحیح تاریخ سے آگاہ کراتی ہے، میں اُن کو اس کاوش کے لیے مبارکباد پیش کرتی ہوں۔
تاثرات پیش کرنے والوں میں محمد امجد، اسامہ جلال، رضوان بھی شامل رہے، محد اسامہ نے اس کتاب کو آزادی کی تاریخ میں اہم اضافہ بتایا۔
اس پروگرام میں عتیق احمد نے بہت خوب صورت انداز میں نظمیں پڑھیں. چند اشعار پیش کیے جاتے ہیں:
مشکل دیکھ کر مسکرایا کرو
حوصلے آپ بھی آزمایا کرو
شوق اور خواہشیں تُم بھلے کم کرو
دو نوالے بھلے کم ہی کھایا کرو
علم کی شمع بھیتر جلائے رکھو
پروگرام کے آخر میں پروفیسر صالحہ رشید نے تفصیل سے اس کتاب کو لکھنے کے پیچھے کی کہانی، مقصد، اور اہمیت پر بھر پور روشنی ڈالتے ہوئے اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہماری گورنمنٹ آف انڈیا نے آزادی کے امرت مہو تسو کے ذریعہ یہ موقع دیا کہ ہم اپنی آزادی میں قربان اسلاف کو یاد کریں، ان کی مٹ چکی تاریخ کو دہرائیں، ان کو نئے سرے سے جاننے سمجھنے کی کوشش کریں، اسی لیے میں نے اس کتاب میں شامل تیرہ مضامین میں آزادی کے تیرہ متوالوں کو اپنے طور پر جاننے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ ساتھ ہی اُنھوں نے فاؤنڈیشن کا بھی شکریہ ادا کیا اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے یہ بات بھی کہی کہ شعبہ فارسی و عربی کے لیے یہ فخریہ لمحہ ہے کہ جشن آزادی کے موقع پر ہمارے شعبے کی نمائندگی یہ کتاب کر رہی ہے.
اس پروگرام میں بڑی تعداد میں سامعین، اسکالر، طلبہ و طالبات شامل رہے۔ اس پروگرام کے منتظمین میں ڈاکٹر صالحہ صدیقی، محمد ضیاء العظیم پٹنہ، اسماء، سہراب، نشی موہنی، ہریش چندر یادو، ابھیشیک راہی، کا نام قابل ذکر ہے.
آخر میں اظہار تشکر کے ساتھ ڈاکٹر صالحہ صدیقی صاحبہ نے پروگرام کے اختتام کا اعلان کیا.
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے