ترنم ریاض کے تحقیقی و تنقیدی مضامین: ایک جائزہ

ترنم ریاض کے تحقیقی و تنقیدی مضامین: ایک جائزہ

ڈاکٹر محمد ذاکر حسین
خدا بخش لائبریری، پٹنہ
Email: zakirkbl@gmail.com
Mobile: 09199702756

ترنم ریاض نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز تخلیقی ادب سے کیا اور فکشن اور شاعری میں اپنی ایک الگ پہچان بنائی۔ وہ ایک بامقصد، سنجیدہ تخلیق کار اور غیر معمولی صلاحیتوں کی حامل فن کارہ تھیں۔ انھوں نے مختلف سماجی مسائل کو بڑی ہنرمندی اور فن کارانہ چابک دستی سے اپنے افسانے، ناول اور شاعری میں پیش کیا۔ اُن کے یہاں بے باکی اور جرأت مندی اپنا جلوہ بکھیرتی نظر آتی ہے۔ یہ خوبی انھیں فن کے بنیادی اصولوں کی پاس داری کی بدولت ہاتھ آئی۔ اُن کی تحریروں میں تانیثیت کی آواز بہ بانگ دہل سُنائی دیتی ہے۔ یہ درست ہے کہ وہ فکشن اور شاعری کے لیے بنی تھیں، لیکن ان کا قلم یہیں تک محدود نہیں تھا بلکہ وہ ترجمہ، تبصرہ، تحقیق اور تنقید کی وادیوں کا بھی بڑے سلیقے سے سفر کرچکا ہے۔ اُن کی فکشن نگاری اور شاعری اردو ادب کے افق پر اپنا وجود منواچکی ہے۔ ایک تخلیقی فن کار جب کسی ادبی فن پارہ کو تحقیق کے خراد اور تنقید کی کسوٹی پر پرکھتا ہے تو یہ دیکھنا بڑا دل چسپ ہوتا ہے کہ کس نظریے اور کس زاویے سے اس فن پارہ کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ ترنم ریاض کے کئی تحقیقی و تنقیدی مضامین شائع ہوئے ہیں جو ’چشم نقش قدم‘ کے نام سے طبع ہوچکے ہیں۔ اس مجموعہ میں کُل سات مضامین ہیں جن میں سے چار تانیثی اور نسائی ادب سے متعلق ہیں، جیسے اردو ادیبائیں اور ترقی پسند تحریک، خواتین اردو ادب میں تانیثی رجحان: مغربی تانیثیت کے پس منظر میں، ہم عصر شاعرات کے کلام میں تانیثی رویّے، غالب اور صنف نازک۔بقیہ تین مضامین مشترکہ قومی تہذیب اور اردو زبان، منٹو: نظریے اور سماج، مرزا داغ دہلوی: ایک سماجیاتی پس منظر ہیں۔
’مشترکہ قومی تہذیب اور اردو زبان‘ میں اردو زبان کو در پیش مسائل اور صورت حال سے آگاہ کیا گیا ہے۔ مشترکہ تہذیب جو ’برداشت‘ اور ’قبولیت‘ کی مضبوط بنیاد پر قائم ہے، اُس بنیاد کو متزلزل کرنے کی کوششیں بھی بارہا ہوتی رہیں ہیں اور مشترکہ تہذیب کی نمائندہ علامت اردو کو بھی نیست و نابود کرنے کی سازشیں مسلسل جاری ہیں۔ اسی ضمن میں اردو کو ایک خاص طبقہ یعنی مسلمانوں سے منسلک کرنے میں بھی کامیابی ملتی نظر آرہی ہے۔ اسی پس منظر میں ترنم ریاض مشترکہ تہذیب کی نمائندہ علامت اردو کے سامنے جو مسائل درپیش ہیں، ان کی نشان دہی کرتے ہوئے لکھتی ہیں:
”لیکن مایوس کن حقیقت یہ بھی ہے کہ اردو پڑھنے والوں کا حلقہ وسیع ہونے کی بجائے سکڑ رہا ہے۔ میرے خیال میں اس کی سب سے بڑی وجہ رسم الخط سے عدم واقفیت ہے۔ اس عدم واقفیت کو دور کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات بھی نہیں کیے جارہے ہیں۔۔۔صورت حال یہ ہے کہ ریاست جموں و کشمیر میں جہاں اردو سرکاری زبان ہے، اردو پڑھنے والوں کی تعداد میں بھی کمی واقع ہوئی ہے“۔ (ص٣٠۔٣١)
ترنم ریاض نے اس مضمون میں صرف مسائل ہی سے واسطہ نہیں رکھا ہے بلکہ ان مسائل سے کیسے نپٹا جائے اور کون سا لائحہ عمل اختیار کیا جائے جس سے حالات پر قابو پایا جا سکے۔ اس سلسلے میں وہ اپنے خیالات پیش کرتی ہوئی لکھتی ہیں:
”مشترکہ تہذیب کے خلاف جو قوتیں سرگرم عمل ہیں، ان کا مقابلہ دو سطحوں پر ممکن ہے۔ اول یہ ہے کہ اردو زبان کو اس کا آئینی حق دلانے کے لیے ایک آئینی اور قانونی جد وجہد کی ضرورت ہے۔ دوم یہ کہ مشترکہ تہذیب میں اردو زبان نے جو شان دار رول ادا کیا ہے، اس کو مختلف سطحوں پر مرکزیت میں لانے کے لیے سرگرم ہونا بھی وقت کی اہم ترین مانگ ہے۔ اس سلسلے میں ان روایات کو جن میں صدیوں کا ایک تسلسل ہے، پھر سے اجاگر کرنا لازمی بن گیا ہے“۔ (ص۲۲)
منٹو شناسی کے تعلق سے ’منٹو: نظریے اور سماج‘ ایک بہترین مضمون ہے۔ ترنم ریاض نے منٹو کے ہر پہلو پر نگاہ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ اپنے مطالعہ کی روشنی میں انھوں نے منٹو کے تعلق سے جو نتائج اخذ کیے ہیں، وہ دل چسپ بھی ہیں اور برمحل بھی اور منٹو کی تفہیم میں مددگار بھی۔ آئیے ایک نظر ان کے اخذ کردہ نتائج پر  ڈالتے چلیں:
٭بادی النظر میں ان کی کہانیوں اور تحریروں میں ایک تضاد بھی نظر آتا ہے، لیکن بہ غور مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ ان میں کوئی تضاد نہیں، بلکہ ایک ربط مسلسل ہے۔
٭منٹو نعرہ باز نہیں ہیں۔ نہ ہی وہ ادب کے نام پر سیاست کا کاروبار کرتے ہیں۔۔۔انھوں نے اپنے آپ کو باضابطہ طور پر کسی سیاسی نظریے کا پابند نہیں بنایا تھا۔
٭منٹو کو اپنے عہد میں وہ پذیرائی جس کے وہ حق دار تھے، محض اس لیے حاصل نہیں ہوئی کہ ترقی پسند تحریک کے چند کرم فرماؤں نے انھیں رجعت پسند قرار دیا تھا۔
٭وہ افسانہ نگاری کی فنی اور تکنیکی بندشوں کا حد درجہ احترام کرتے تھے۔ ان کے افسانوں میں ایک بھی فاضل لفظ کی گنجائش نہیں ہے۔
٭منٹو کے موضوعات سماجی بھی ہیں، نفسیاتی اور سیاسی بھی۔ ان کا قلم زندگی کے تقریباً ہر پہلو کو چھوتا ہے۔
٭’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘،’ٹھنڈا گوشت‘ اور’کھول دو‘ کا ایک نئے زاویے سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ تینوں افسانے مخصوص سیاسی حالات کے سماجی رد عمل ہیں۔ ان تینوں کہانیوں میں منٹو ایک سماجی ماہر نفسیات کے طور پر ابھر کر سامنے آتے ہیں۔
٭منٹو کی کہانیوں کے کردار عصمت فروشی کے اڈوں اور جرائم پیشہ دنیا سے تعلق رکھتے ہیں لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ آج تک اس بات پر دھیان نہیں دیا گیا ہے کہ منٹو نہ صرف اس دنیا کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ ان جرائم کے محرکات، ان کے پروان چڑھنے اور اصلاح احوال کی طرف سے بھی غافل نہیں ہیں۔
٭منٹو بیرونی سیاسی نظریات سے متأثر ضرور نظر آتے ہیں مگر ان کی رو میں بہتے نہیں، ان سے استفادہ کرتے ہیں، مگر ان کو حرف آخر نہیں مانتے۔
٭منٹو نظریوں کے دائروں سے بالکل آزاد نہیں ہیں۔۔۔ان کی تحریروں اور ان کے افسانوں سے یہ بات بالکل عیاں ہے کہ وہ مختلف نظریوں سے خاصے متأثر ہیں۔
’مرزا داغ دہلوی: ایک سماجیاتی پس منظر‘ میں ترنم ریاض نے جس عہد میں داغ دہلوی کی شخصیت پروان چڑھی، اُس عہد کا ذکر کرتے ہوئے چند سوالات قائم کر یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اگر ہم نے ان سوالات کا جواب ڈھونڈ نکالا تو یہ سمجھنے میں کوئی پریشانی نہ ہوگی کہ ہم عصر ہونے کے باوجود وہ غالب کے مقام تک کیوں نہیں پہنچ پائے:
٭یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ اپنے عہد میں مقبولیت کے باوصف مرزا داغ، غالب کا مقام کیوں حاصل نہ کرسکے۔٭ ابھی تک یہ تحقیق نہ ہوسکی کہ مرزا داغ نے کس حد تک ذوق کی استادی کا فیض حاصل کیا۔
٭غدر کی تفصیلات مرزا غالب نے بھی اپنے خطوط میں تحریر کی ہیں۔ ان کا رویہ بھی محتاط ہے، لیکن ان کے کرب و درد کا اندازہ ’دلّی کی تباہی کا تذکرہ‘ جیسی تحریروں کو پڑھ کر خوب محسوس کیا جاسکتا ہے۔ جانے کیا وجہ ہے کہ داغ کے ’شہر آشوب‘ کو پڑھ کر اس شدت کا احساس نہیں ہوتا۔
٭مرزا داغ نے غالباً غالب سے زیادہ اشعار کہے۔ کیا ان اشعار میں وہی معنی آفرینی، گہرائی اور سنجیدگی ہے جو غالب کے اشعار میں پائی جاتی ہے۔ یہ معاملہ اب بھی بحث طلب ہے۔
٭کیا وجہ ہے کہ مرزا داغ کے کلام میں وہ آفاقیت اور فلسفیانہ گہرائی اس شدت سے موجود نہیں جو غالب کے یہاں ہے۔ یہ سوال بھی مزید تحقیق طلب ہے۔
٭ان سوالات کے جواب میں ہمیں اس بات کا سراغ مل سکتا ہے کہ ہم عصر ہونے کے باوصف مرزا داغ، غالب کا مقام کیوں حاصل نہیں کرپائے۔
ترقی پسند تحریک اپنے وقت کی سب سے فعّال اور سرگرم تحریک تھی۔ دیگر ادبی امور کے ساتھ یہ تانیثی ادب کے لیے بھی Turning Pointثابت ہوئی۔ جس کے طفیل خواتین کو آزادیِ فکر و نظر کا ماحول ملا۔ ترنم ریاض نے اپنے مضمون ’اردو ادیبائیں اور ترقی پسند تحریک‘ میں ترقی پسند تحریک کے تعلق سے خواتین کی خدمات کا جائزہ لیا ہے۔ ابتدا میں انھوں نے ترقی پسند تحریک اور سجاد ظہیر کی نسبت ایک اہم نکتہ کی جانب اشارہ کیا ہے کہ ترقی پسند سوچ مارکسی طرز فکر سے ہم آہنگ ہے اور انسانی سماج کے تجزیے میں سجاد ظہیر نے بھی مارکسی اپروچ کو اپنایا ہے۔ لیکن وہ تمام تر اسی پر منحصر نہیں تھے بلکہ اپنی کھڑکیاں کھلی رکھنا چاہتے تھے۔ ترنم ریاض اس سلسلے میں لکھتی ہیں:
”اس لحاظ سے وہ مہاتما گاندھی کی طرح کھڑکیاں اور روشن دان کھلے رکھنے کے قائل تھے تاکہ تازہ ہوائیں آتی جاتی رہیں، لیکن ان کے پیر مضبوطی کے ساتھ اپنی زمین پر ٹکے ہوئے تھے“۔(ص ١٠)
ترقی پسند تحریک کے طرزِ فکر سے خواتین قلم کار بھی کافی متأثر ہوئیں، جنھیں دو زمروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک وہ جو باضابطہ کمیونسٹ پارٹی کی ممبر بن کر ترقی پسند تحریک کو سرگرم اور فعّال بنانے میں تن من دھن سے لگ گئیں۔ دوسرا طبقہ اُن خواتین کا ہے جن کی سوچ اور فکر ترقی پسند تحریک سے متأثر ضرور تھی لیکن پارٹی اور تنظیمی سطح پر اُن کا اس تحریک سے کوئی لگاؤ نہیں تھا۔ میرے خیال سے اس میں کوئی اعتراض کی بات نظر نہیں آتی۔ اصل چیز فکر سے متأثر ہونا ہے بہ ذات خود تحریک میں شمولیت کوئی ضروری تو نہیں ہے۔ لیکن ترنم ریاض کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی تحریک کی فکر سے متأثر ہونے کے ساتھ ساتھ تحریک میں ذاتی شمولیت بھی ضروری ہے، ورنہ وہ چُٹکی لیتے ہوئے یہ تحریر نہیں کرتیں کہ:
”ترقی پسند ادبی مجالس، کانفرنسوں اور سیمیناروں میں یہ ادیبائیں باقاعدگی کے ساتھ شرکت کرتی تھیں۔ یہ اور بات ہے کہ اُس دور میں ان مجالس میں شرکت کو باعث افتخار سمجھا جاتا تھا، حالانکہ کچھ معروف ادیبائیں ان مجالس میں شرکت سے گریز بھی کرتی تھیں۔ ان میں سے غالباً کچھ نے اسے اللہ میاں سے جُڑا کوئی کوئی معاملہ سمجھ لیا ہوگا، حالانکہ یہ دونوں معاملے الگ الگ ہیں“۔ (ص ١٣)
ترقی پسند تحریک اور تانیثی و نسائی ادب کے تعلق سے رشید جہاں، رضیہ سجاد ظہیر، عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر، جیلانی بانو، صالحہ عابد حسین، واجدہ تبسم، ساجدہ زیدی، زاہدہ زیدی کی خدمات کا جائزہ لیتے ہوئے ترنم ریاض نے یہ اعتراف کیا کہ پدری سماج میں خواتین جس گھٹن سے گزر رہی تھیں، وہ سارے موضوعات ترقی پسند تحریک میں شامل تھے اور انھی موضوعات کے ارد گرد اِن خواتین قلم کاروں نےاپنے جوہر دکھائے۔ وہ اس پر روشنی ڈالتی ہوئی لکھتی ہیں:
”پدری سماج کی وضع کردہ قدریں، جنھیں خواتین کو دبائے رکھنے اور ان کا استحصال کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا، سامراجی اور جاگیردارانہ نظام میں خواتین کی کم تر سماجی حیثیت اور سب سے بڑھ کر خانگی سطح پر خواتین پر جبر و قہر، یہ سب ترقی پسند سوچ کے موضوعات تھے، جن پر اردو ادیباؤں نے اپنی تخلیقات کو وضع کیا، یہ موضوعات رشید جہاں اور رضیہ سجاد ظہیر کے بھی تھے اور عصمت چغتائی، قرۃ العین حیدر، جیلانی بانو کے بھی تھے۔ یہاں تک کہ صالحہ عابد حسین کے بھی تھے۔ انداز بیان میں یقیناً فرق ہے، لیکن کئی موضوعات مشترک نظر آتے ہیں۔ یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑے گی کہ ترقی پسند تحریک نے ایک ایسی علمی و ادبی فضا پیدا کی جس میں ان موضوعات پر قلم اٹھانے کا معاملہ ادیباؤں کے لیے قدرے آسان ہو گیا۔ ترقی پسند تحریک نے انھیں ایک ایسا ماحول فراہم کیا، جس میں وہ قدامت پسند بیمار سماج کی وضع کردہ اقدار کی بے باکی کے ساتھ دھجیاں اڑا سکیں“۔ (ص۴۱)
’خواتین اردو ادب میں تانیثی رجحان (مغربی تانیثیت کے پس منظر میں)‘ میں ترنم ریاض نے مغربی تانیثی تحریک پر روشنی ڈالتے ہوئے اردو ادیباؤں کی تخلیقات اور نگارشات میں مغربی تانیثیت کے اثرات تلاش کرنے کی کوشش کی ہے اور اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ:
”خواتین اردو قلم کاروں نے مغربی تانیثاؤں کی طرح دانستہ یا نادانستہ طور پر اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ سماجی تبدیلیوں کا عمل اتنا آسان نہیں۔ اس لیے انھوں نے اُن سماجی قدروں کو نظرانداز کرکے ایک متبادل دائرہ کار دریافت کیا ہے۔ مردوں کو ہدف ملامت بنائے بغیر انھوں نے براہ راست اُن سماجی قدروں کو نشانہ بنایا ہے جو عورتوں کو زیر اور استبداد میں رکھتی تھیں۔ انھوں نے اُن Domains میں بھی طبع آزمائی کی، جو کہ خالصتاً مردوں کے قبضے میں تھیں“۔ (ص ٥٢)
تانیثیت کے تحت خواتین قلم کاروں نے جو زبان، اسلوب اور ساختیات وضع کی ہیں، اس کی نشان دہی کرتے ہوئے ترنم ریاض لکھتی ہیں:
”تانیثی زبان، اسلوب اور جملوں کی ساخت کا آغاز تو رشید جہاں اور عصمت چغتائی کے دور سے ہی شروع ہوا تھا۔ قرۃ العین حیدر نے سماجیاتی، ثقافتی اور سیاسی و فلسفی پس منظر میں اپنی تخلیقات رقم کیں۔ ساجدہ زیدی اور زاہدہ زیدی، اور شفیق فاطمہ شعری نے فلسفیانہ موضوعات کو اپنایا ہے۔ ان خواتین کی تخلیقات سے اندازہ ہوتا ہے [کہ] اُن میں خودبینی اور جہاں بینی کا ایک نیا انداز موجود ہے۔ انھوں نے شجرِ ممنوعہ کو بھی ہاتھ لگایا اور لکشمن ریکھائیں بھی پار کیں“۔ (ص ٥٢)
تانیثی اور نسائی ادب کے تعلق سے اب تک جو بھی تنقید اور تحقیق منظر عام پر آئی ہیں، اس سے ترنم ریاض مطمئن نہیں دکھائی دیتی ہیں۔ یہ شکایت ان کو مرد کے ساتھ خواتین محققین و ناقدین سے بھی ہے کہ انھوں نے مرد کے وضع کردہ اصول و ضوابط کے تحت ہی تانیثی و نسائی ادب کا جائزہ لیا ہے۔ اُن کا ماننا ہے کہ تانیثی پس منظر میں اس کا جائزہ لیا جانا چاہئے۔ اُن کا یہ شکوہ افراط و تفریط پر مبنی ہے جو مرد فوبیا کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ لیجیے اُن کے اقوال ملاحظہ فرمائیں:
”اردو ادیباؤں کی تخلیق کے تجزیے، تنقید اور تشریح آج تک مرد حضرات نے کی ہے۔ چند خواتین تجزیہ نگاروں جنھوں نے تنقید کے میدان میں قدم رکھا ہے، مرد ناقدین کے وضع کردہ اصولوں کے تحت ہی خواتین کی تخلیقات کا جائزہ لیا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ خواتین تنقیدنگار تانیثی پس منظر میں ان فن پاروں کا از سر نو جائزہ لیں۔ مجھے یقین ہے کہ اس طرح خواتین اردو ادب کا ایک نیا منظر نامہ سامنے آئے گا“۔(ص۲۵)
’ہم عصر شاعرات کے کلام میں تانیثی رویّے‘ کے تحت پروین شاکر، ادا جعفری، رفیعہ شبنم عابدی، فہمیدہ ریاض، بلقیس ظفیر الحسن کی شاعری میں تانیثیت اور نسائیت کا عمل دخل کتنا طاقتور ہے اور اس کی جڑیں کتنی گہرائی میں پیوست ہیں، اس کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہاں ترنم ریاض نے تانیثیت اور نسائیت کو دو الگ معنوں میں استعمال کیا ہے۔ اُن کے خیال میں ”وہ تجربات، خیالات اور احساسات، جو خواتین کی جسمانی ساخت، گھریلو ماحول اور مخصوص پرورش کا نتیجہ ہیں، نسائیت کے زمرے میں شمار کیے جاسکتے ہیں۔ اس کے بر عکس تانیثیت حیاتیاتی جبر کو رد کرتی ہے۔ سماج کی طرف سے عائد کردہ مروجہ تعریفوں کو ماننے سے انکار کرتی ہے‘۔ بہ ظاہر اس تشریح میں کوئی قابل اعتراض بات نظر نہیں آتی لیکن اس تشریح سے دونوں کا دائرہ کار محدود ہوجاتا ہے۔ تانیثی ادب کا جائزہ لیتے وقت پدری سماج اور مرد کی بلا شرکت غیرے ملکیت جیسے جملوں کا استعمال کر یہ بتانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہی تانیثیت اور نسائیت کے راستے کے روڑے ہیں جو ان حد بندیوں کو توڑ دے وہی تانیثیت اور نسائیت کی معراج ہے۔ اس ضمن میں وہ لکھتی ہیں:
”پدری سماج میں ذہنی، خانگی، سماجی اور ثقافتی سطحوں پر جو حدبندیاں صدیوں سے کھڑی ہیں، اُن حد بندیوں کا گہرا اثر احساسات و خیالات کے اظہار پر پڑا ہے۔ ان حصاروں نے شاعرات کو اظہار کے معاملے میں نہایت محتاط بنادیا تھا۔۔۔لیکن رفتہ رفتہ ان حصاروں پر دھاوا بول کر اُس زمین پر قدم جمالیتی ہیں جو مرد حضرات کی بلا شرکت غیرے ملکیت تھی۔ زبان و بیان اور موضوعات کے اعتبار سے یہ شاعری ایک طرح سے اعلان جنگ ہے“۔(ص۵۵)
’غالب اور صنف نازک: ایک سماجیاتی اور نفسیاتی جائزہ‘ میں بعض ناقدین کے اس خیال سے ترنم ریاض اتفاق نہیں رکھتی ہیں کہ’ادیبوں یا شاعروں کی زندگیوں اور ان کے اعمال کو پیمبرانہ معیاروں کے مطابق جانچا اور پرکھا جائے۔ اتنا ہی نہیں، بلکہ ان کی شاعری اور ان کے فن کا بھی ان ہی معیاروں کے پیش نظر تجزیہ کیا جائے‘۔ یہاں انھوں ایک بنیادی تنقیدی نکتہ سے پردہ اٹھایا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ادبا اور شعرا کا جائزہ انسانی اوصاف و خصائل کے تحت ہی کیا جانا چاہئے کیونکہ فرشتہ بننا تو آسان ہے لیکن انسان بننا مشکل ہے۔ جب کسی ادیب و شاعر کا تجزیہ بہ حیثیت انسان کیا جاتا ہے تو اس کے اوصاف اور محاسن آئینہ کی مانند جھلکتے ہیں۔ غالب بھی انسان ہیں، دقت اس وقت پیش آتی ہے جب انھیں فرشتہ صفت بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس نظریہ کے تحت اگر غالب کے یہاں صنف نازک کی موجودگی کا جائزہ لیا جائے تو حقائق خود بہ خود سامنے آجاتے ہیں۔اسی نکتہ کو نگاہ میں رکھ کر ترنم ریاض نے صنف نازک کے تعلق سے غالب کے احساسات و خیالات، رد عمل اور کیفیات کا تجزیہ تین حوالوں؛ غالب کی عشقیہ شاعری، ذاتی زندگی، غالب کا سماجی ماحول، سے کیا ہے۔ غالب کی عشقیہ شاعری کا جائزہ لیتے وقت وہ اس نتیجہ پر پہنچتی ہیں کہ:
”صنف نازک کے حسن کی پیکر تراشیاں، غالب کے ذوق جمال کا ایک اہم جز ہیں۔ ان کے عشقیہ اشعار ان کی اعلا جمالی حس کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ حسن کی جلوہ سامانیاں ان کے ذوق جمال کی تسکین کا سبب معلوم ہوتی ہیں۔ اس لحاظ سے وہ جلوؤں میں گم ہیں نہ کہ گوشت پوست کی دل فریبیوں میں گرفتار“۔ (ص۸۶)
تانیثی اور نسائی ادب کے باب میں ترنم ریاض کے طرز تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ پدری سماج اور مرد حضرات کی اجارہ داری کے سبب تانیثی اور نسائی ادب کا وہ جوہر سامنے نہیں آسکا ہے جس سے اس کا فکری اور فنی معیار ابھر سکے۔ حالانکہ خود انھوں نے اعتراف کیا ہے کہ ”دل چسپ بات ہے کہ اُس دور میں خواتین ادیبوں کی تحریروں کا ایجنڈا کسی خاتون نے نہیں بلکہ ایک مرد نے تیار کیا اور وہ شخصیت ہیں ڈپٹی نذیر احمد“۔ تانیثی ادب اور مردوں کی اجارہ داری کے تعلق سے شکایت صرف ترنم ریاض ہی کو نہیں ہے بلکہ قرۃ العین حیدر جن کے فکر و فن پرمرد حضرات نے خوب لکھا ہے، انھیں بھی یہ شکایت ہے، وہ لکھتی ہیں:
”بر سبیل تذکرہ ’اداس نسلیں‘ کے متعلق انٹرویو میں مصنف نے ارشاد کیا کہ وہ عاجزہ کو ایک قابل ذکر ناولسٹ نہیں سمجھتے۔ اس بیان کی روشنی میں یہ بات تعجب خیز معلوم ہوتی ہے کہ ’اداس نسلیں‘ کے متعدد ابواب میں میرے بھی صنم خانے، سفینۂ غم دل، آگ کا دریا، اور شیشے کے گھر کے چند افسانوں کے اسٹائل کا گہرا چربہ اتارا گیا ہے۔ خفیف سے رد و بدل کے ساتھ پورے پورے جملے اور پیراگراف تک وہی ہیں۔ لیکن آج تک سوائے پاکستانی طنز نگار محمد خالد اختر کے کسی ایک پاکستانی یا ہندوستانی نقاد کی نظر اس طرف نہیں گئی۔ نہ کسی نے اشارۃً بھی اس کا ذکر کیا۔ کیا یہ MaleChuavinism نہیں ہے؟‘ (کار جہاں دراز ہے، جلد دوم، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، ٢٠٠١ء، ص ٦٩٢)
بہر کیف ترنم ریاض کے مذکورہ بالا مضامین کے مطالعہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کا مطالعہ وسیع ہے اور اخذ نتائج میں بڑی مہارت ہے۔ چنانچہ اپنے مطالعات کی روشنی میں جو نتائج وہ اخذ کرتی ہیں، ان میں معنویت پائی جاتی ہے۔ لیکن ان کی تحقیق و تنقید میں فکشن اور شاعری کی طرح وہ بلندی نظر نہیں آتی جس کی بدولت کوئی بھی تحریر اعتبار کا درجہ حاصل کر لیتی ہیں۔ وہ خود بھی اس کا اعتراف کرتی ہیں کہ:
”میں ناقد یا محقق ہونے کی دعوے دار نہیں ہوں۔ میں ایک ادیبہ ہوں۔ کہانیاں لکھتی ہوں، شاعری سے بھی شغف ہے۔ میری تحریریں میری اپنی سوچ کی آئینہ دار ہیں“۔ (ص٢٠)
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش: افکار اکبر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے