دکھتی رگ ایک جائزہ

دکھتی رگ ایک جائزہ

 صدیقی صائم الدین
اورنگ آبا، دکن
فون نمبر: 8623903034

جہان ادب میں تخلیق از خود اپنی حصیر بانی کرتی ہے۔اس کی بنت اور اس میں پیدا ہونے والا حسن دونوں ہی مصنف کے عمیق و تعمیق کا نتیجہ ہوتا ہے۔ قلم کو بینائی مصنف عطا کرتا ہے۔ اس کا مطالعہ، شوق، فراست، مشاہدہ اور پھر اس کے بعد اس کا تجزیہ کرنے کی استطاعت ہی اسے ادب کی زمینوں میں پرچم لہرانے کی اجازت دیتے ہیں۔ مصنف کے لیے ادب کی کاکل پیچاں سے استفادہ ایسا عمل ہے جس کے لیے ذلاقت ذاتی کے علاوہ تحریر کی فرحت زا کو ملحوظ رکھنا، ضابطہ ادب کی وا کو زندگی عطا کرتا ہے۔ گویا ایسا رشتہ الفت ہے جس میں خم داری و غم خواری کے علاوہ خیالات ذاتی اور حالات خفی کے اظہار کا موقع ملتا ہے۔ ادب کے پُرزوں میں ایک افسانچہ بھی ہے۔ اس صنف کے لیے بہت کچھ کہا گیا اور اب بھی اس کی شناخت کو مستحکم کرنے کی خاطر بہت کچھ کہا جاتا ہے۔ افراد ادب نہ جانیں کتنی باتیں کتنے زاویوں سے کہہ رہے ہیں۔ تنقیدی و تحقیقی ذرائع استعمال کر اس طرز تحریر کو صنف ادب کے معیارات پر پذیرانیدن کی ممکن کوشش ہو رہی ہے۔ اس صنف کے لیے جتنی تحقیق ہو اتنا بہتر لیکن اسی کے ساتھ اس صنف پر طبع آزمائی کرنے والوں پر بھی روشنی ڈالی جانا صنف کے لیے مثبت عمل ہے۔
منٹو اور ان کے بعد جوگیندر پال صاحبان نے جس طرح اس صنف کے اسرار و رموز کو برتا ہے اس سے صنف افسانچہ کے بھید مزید اوثق ہوئے ہیں۔ پال کے زمانے میں ان کی تقلید کی گئی لیکن کوئی ایسا بڑا مصنف نہیں رہا جس نے اس صنف کو باضابطہ مشق تحریر کر اپنے لیے اس میں خاص مقام بنا لیا ہو۔ کچھ کہتے ہیں خلیل جبران کے پاس افسانچے کی ابتدائی ساخت ملتی ہے تو کچھ منٹو کے سیاہ حاشیے کو پیش کرتے ہیں۔ لگو کتھا اور شنک کتھا جیسے ہندی اور مراٹھی کی مختصر کہانیوں نے کہاں سے استفادہ کیا اس پر اردو میں زیادہ تحقیق نہیں کی گئی. البتہ قاضی سلیم نے ڈاکٹر عظیم راہی کی مشہور زمانہ تحریر ”پھول اور آنسو“ کے اجرا کے وقت جو مضمون پڑھا تھا اس میں انھوں نے دلائل کے ساتھ جو بات کہی ملاحظہ کیجیے:
”پرانی حکایات، لطائف سے منی کہانی اور افسانچوں کو جوڑلیں تو ان کی جڑیں اپنی روایات میں دھنسی ہوئی مل جائیں گی۔ تازہ بہ تازہ یورپ سے در آمد کیے جانے کا الزام اپنے سے کیوں لیا جائے۔“
کتاب: منی افسانچہ کی روایت۔ تنقیدی مطالعہ، مصنف: ڈاکٹر عظیم راہی، صفحہ نمبر: 36
مناظر عاشق ہر گانوی، م۔ ناگ بھی قاضی سلیم ہی کی طرح اس صنف کو ہند ہی کی اُپج کہتے ہیں۔ ساخت مغرب سے اور لہجہ مشرق سے اس صنف کے لیے موزوں ترین جملہ ہے۔ اب بحث یہاں شروع ہوتی ہے کہ یہ صنف خلیل جبران کی کوشش سے یا منٹو کی تحریروں کے مرہون منت حاصل ہوئی۔ بہ قول ڈاکٹر عظیم راہی اس کا سارا سر پیچ منٹو کے حصے ہے۔ متفرق محققین اسے ان دونوں کے درمیان ہی سند کرتے ہیں۔ لیکن یہ کہنا درست ہوگا کہ اس صنف کی بختاوری دیکھیں کہ کن دو کے درمیان سے خود کی ساخت تیار کر لائی ہے۔
کہانی کی پرداخت کرنا اور اسے نہج حقیقی سے برتنا کمال مصنف کہلاتا ہے۔ جہان ادب میں اسی ایک پُرس سے فن پارے کی قدر و منزلت طے کی جاتی ہے اور تحریر کی پرتو سے مصنف کی شخصیت کو سمجھنے کی ممکن کوشش ہوتی ہے۔ زمانوں کے ساتھ بدلتے ادب میں لکھنے والوں نے بہت کچھ تبدیل کیا ہے لیکن اسے ایک جملے میں پیش کرنا ہوتو بس اتنا کہا جا سکتا ہے کہ یہ محض کہانی کہنے کا طرز ہے جو بدلتا جا رہا ہے ورنہ مسائل فرد اول تا آخر جو ں کے توں جاری۔۔۔
صنف افسانچہ پر طبع آزمائی کرنے والوں میں ایک نام خالد بشیر تلگامی کا بھی ہے۔ ان کی کتاب دکھتی رگ در اصل ان کے 106 افسانچوں کا مجموعہ ہے جس میں نئی نسل کے قلم کار نے نہ صرف سیاسی و سماجی حالات کو پیش کیا ہے بلکہ کچھ ایسے داخلی مشاہدات کو بھی قلم بند کیا ہے جس سے مصنف کی فکری اساس کی نشان دہی بھی ہوتی ہے۔ ان کی تحریروں میں زیادہ تر سیاست اور سماج کی زبوں حالی کا احساس موجود ہے۔ بشیر تلگامی کی اکثر کہانیوں میں آپ کو معاشرہ بولتا نظر آئے گا۔ ان کی کہانیوں میں نہ صرف فرد کی زندگی کا تراشیدہ ملتا ہے بلکہ اس فرد کے اطراف میں پھیلے معاشرے کا بیورا بھی مبہم لیکن [؟] طریقے سے پیش ہوتا ہے۔ میرے خیال میں تلگامی کی کہانیوں کے کل تین جزو ہیں۔ فرد، حقیقی معاشرہ اور خیالی معاشرہ۔ یعنی ان کی کہانیاں کسی بھی قاری کو تین کیفیات سے روشناس کرواتی ہیں۔ پہلی کیفیت۔۔ بہ طور فرد آپ کہاں ہیں اور آپ کے ساتھ حالات کس طرح کے ظہور پذیر ہیں۔ دوسری کیفیت معاملات جن میں فرد (آپ) شامل ہیں اس کے لیے اطراف (حقیقی معاشرہ) کیا کچھ محسوس کرتا اور کیا محسوس کرواتا ہے۔ تیسری کیفیت جس سے خالد بشیر تلگامی کی کوئی سی بھی کہانی کبھی فرار نہیں پاتی وہ ہے ایک آئیڈیل معاشرہ، جس میں فرد اپنے مزاج اور خواہش کے مطابق اس کا اکناف چاہتا ہے۔ ان سہ رنگی کہانیوں میں خالد بشیر تلگامی بہت کچھ کہتے ہیں۔ لیکن حاصل مختتم خیالی دنیا ہی ہے۔ اس پر شاید اعتراض کیا جائے کہ خیالی دنیا کیا بہتر نتیجہ پیش کرے گی۔ لیکن بشیر تلگامی کی تحریریں اس دنیا کی جانب مبہم اشارے رکھتی ہیں جہاں ادب آپ کو چاہتا ہے۔ جہاں فرد کو معاشرہ اور معاشرے کو فرد جالب کرتا ہے۔
بشیر احمد کا قلمی نام خالد بشیر تلگامی ہے۔ اس مصنف نے اپنے تعارف میں خصوصی طور پر یہ قلم بند کیا ہے کہ ان کا ادبی نظریہ ”ادب برائے ادب“ ہے۔ حالانکہ اب اس طرح کی بحثوں کی گنجائش کم ہی رہ گئی ہے لیکن اس کے باوجود اب بھی اس طرح کی اصطلاحوں سے اپنی تحریرکی راہوں کی نشان دہی کرنا شاید ٹھیک عمل نہیں. اس کی وجہ آج کا قاری ہے جسے کہانی کار سے ما سوائے واقعے کے کچھ درکار نہیں۔ وہ کہانی پڑھتا، سنتا اور سوائے اپنے فکری ذائقے کے مطابق کم و زیادتی کو طے کر قبول کرتا ہے۔ افسانوں پر طبع آزمائی کرتے ہوئے خالد تلگامی نے افسانچوں کی جانب بھی توجہ دی ہے۔ ان کے افسانچوں کی ابھی تک کی تعداد جو مصنف نے خود بتلائی وہ تقریباً 150سے زائد ہیں۔ لکھنے کا شوق کیسے ہوا اس بارے میں کہتے ہیں:
”میری خوش بختی یہ بھی ہے کہ میں ایسی ہستیوں کے سایے میں بڑا ہوا ہوں، جس کا فائدہ یہ ہوا کہ میرا رجحان ادب کی طرف بڑھ گیا اور میرے اندر کا ادیب جاگ اٹھا اور مجھے لکھنے پر مجبور کیا، جب میرے ادبی سفر کا آغاز 2010 میں ہوا۔“
دکھتی رگ، خالد بشیر تلگامی، صفحہ نمبر 39
مصنف نے افسانچے لکھنے کا آغاز 2016 میں کیا اور پہلی کہانی ”روح“ لکھی۔ اس کے بعد اس صنف پر زور دیتے رہے ہیں۔ ان کا ایک وہاٹس ایپ گروپ ”گلشن افسانچہ“ ہے جس میں درون و بیرون ملک کے افسانچہ نگار اور ناقدین شامل ہیں۔ ان کے اکثر افسانچے میں نے اس گروپ میں پڑھے ہیں اور جب کتاب ہاتھ لگی تو اس پر اپنی رائے قلم بند کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ یوں تو خالد بشیرتلگامی کی تحریروں پر اس سے قبل ”نورشاہ، ڈاکٹر نعیمہ جعفری، تنویر اختر رومانی، ایم مبین، پروفیسر اسلم جمشید پوری“ جیسے محب ادب لکھ چکے ہیں۔ لیکن میرا مقصد خالد بشیر کی کہانیوں میں موجود معاشرے کے زحف، فرد کی دہقانیت و فہمائش اور خالی خط کی نشان دہی کی ممکنہ کوشش ہے جسے مصنف نے اپنی کہانیوں میں عنکبوت کے جال کی مانند تیار کر نذر قاری کیا ہے۔
”گفتاری کا آغاز“ ایک معاشرتی افسانچہ ہے۔ اس افسانچے میں ایک خاص تہذیب کے پیروکاروں اور ان کے طرز زندگی کے مثبت و منفی [پہلو] کو  عمدگی سے پیش کیا گیا ہے۔ مسلم معاشرے میں ایک بڑی خامی جسے شاید ہند و سندھ سے کبھی دور نہ کیا جا سکے وہ ہے دوغل ذات۔ ہم میں سے بیشتر مزاج مختلف لوگوں، حالات، مسائل و مجبوری کے تحت دوغلے ہوجاتے ہیں۔ واضح کردوں کہ یہ کوئی منفی بات نہیں۔ کیوں کہ منافقت پسند دنیا میں گر جینا ہو تو کیا کریں؟؟؟؟۔لیکن معاملات اس وقت بہت حساس ہو جاتے ہیں جب ہم مذہب کو اپنی اس فطرت کے ساتھ تجرید کر چھوڑتے ہیں۔ یعنی ہم دین حق میں اپنے دوغلے ہونے کا ثبوت اس طرح جواز کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ بس کیا کہنے!!!!!۔ عش عش کرنا اور حیرت زدہ رہ جانا جیسی اصطلاحیں بھی بعض معاملات میں کم محسوس ہوتی ہیں۔ مذہب اسلام کے پیروکار جب دہری زندگی گزارنے لگتے ہیں تو ان کے پاس ظاہر اور باطن کے علاوہ درون و بیرون مکان جیسی زندگی بھی پنپنے لگتی ہے اور یہ لوگ اپنے گھر کے اندر کچھ اور باہر کچھ کے اس قدر عادی و معاملہ شناس ہو چکتے ہیں کہ ان کی زندگی کا دہرا پن ان کے لیے کوئی عیب نہیں رہ جاتا۔ حد تو یہ ہوتی ہے کہ یہ لوگ اس کے لیے مذہب سے ایسے ایسے جواز کھوج لاتے ہیں جس کا جواب عام پیروکار دے ہی نہیں سکتا۔ ”گفتار کا غازی“ در اصل ایک ایسے ہی مذہبی پیشوا کی کہانی ہے۔ اس کہانی میں جہاں یہ پیغامبر دین حق کے مسائل و فضائل کو جگ ظاہر کر رہا ہے۔ لوگوں کو اپنی خوش لحن طرز ادا سے دین کا کم اور اپنا زیادہ گرویدہ کر رہا ہے وہیں یہ اپنی گھریلو زندگی میں ایسی فکری کج روی کا شکار ہے جس سے فرار اس کی فطرت کے عین منافی ہے۔ یہاں ایک اہم بات یہ بھی بتلادوں کہ اس کی اس فطرت کا نقصان اس کی اپنی ذات کو کم اس سے متصل افراد کو زیادہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ معاشرہ ایسے مثالوں سے بھرا پڑا ہے۔ اگر کہوں ہم میں سے اکثر ایسے ہیں تو ناگواری اور پیشانی کی سلوٹیں کوفت کا احساس ضرور کروائیں گی۔ لیکن حقیقت یہی ہے۔ ہا ہم ایسے ہی ہیں۔ کہانی کاحاصل یہ ہے کہ ایک مذہبی پیشوا اپنے ہم مذہبوں کو جوان لڑکیوں کی شادی اور جلد شادی کو عین دین بتلا کر انھیں متاثر کر رہا ہے لیکن خود اس کے گھر میں اس کی جوان بیٹی اپنے خیالات اور امیدوں کے شہزادے کا انتظار کرتی کرتی اس دیو ہیکل کی قید میں وقت حیات کاٹ رہی ہے۔ افسانچہ ملاحظہ کیجئے:
”اقرا۔!۔۔۔ تمھارے ابو کا لائیو پروگرام، نکاح کی فضیلت ٹی۔ وی پر چل رہا ہے۔ کیا تم بھی دیکھ رہی ہو؟“
اقراء کی خاص سہیلی شبنم موبائیل پر اس سے پوچھ رہی تھی۔
”ہاں یار۔۔۔۔ میں بھی دیکھ رہی ہوں۔“ اقرا نے جواب دیا۔
”گڈ!۔۔۔۔ نکہت اور ارم کا فون آیا تھا۔۔۔ وہ دنوں بہت خوش ہیں۔۔۔ ان کے گھر والے تمھارے ابو کا پروگرام دیکھ کر کافی متاثر ہوئے ہیں اور ان کی چٹ منگنی اور پٹ بیاہ کرنے کو راضی ہو گئے۔۔۔۔‘ ادھر شبنم کی آواز آئی۔
لیکن شبنم کی بات پوری ہونے سے قبل ہی جمشید صاحب کی جواں سال اکلوتی بیٹی اقرا نے سرد آہ بھرتے ہوئے فون کاٹ دیا۔“
کتاب: دکھتی رگ، مصنف: خالد بشیر تلگامی، صفحہ: 49
جیون ساتھی مل جانا اور اچھا والا مل جانا ایسا مرحلہ نہیں جسے سہل جانا جائے۔ مرد کے لیے بہترین عورت اور خاص کر ایک اچھی عورت کے لیے بہترین رفیق زندگی ملنا مشکل ترین معاملات ہیں۔ مرد اپنے تئیں یہ محسوس کرتا رہتا ہے کہ وہ اپنی شریک کے لیے سب کچھ کر رہا ہے اور وہ اس کا خیال اس طرح نہیں رکھ پا رہی جیسا کہ مرد کا حق تھا۔ جب کہ یہی معاملہ شریک کا ہوتا ہے کہ اس کی شکایت کے مطابق اسے وہ حق حاصل نہیں ہو پاتا جو اس کا تھا یا اس کا عہد سامنے والے نے اس کے نفس کو علی الاعلان مسجد یا مجمع میں حاصل کرتے وقت کیا تھا۔ یہ مسئلہ بحث طلب ہے لیکن یہاں میرا مقصد ایک اور مسئلہ کی جانب توجہ مبذول کروانا ہے جسے بشیر تلگامی نے اپنی کہانی میں برتا ہے۔ یہ مسئلہ ہے نیک بیوی اور اچھے شوہر کے درمیان کا وہ رشتہ جو آہستہ آہستہ ماند پڑ کر بس رشتہ ازدواج یا جنسی ضرورت بن کر رہ جاتا ہے۔ اس میں شوہر کسی بغیر مغز کی مانند کام کرتا اور رقم اکھٹی کرتا اور گھر والوں کو پالتاہے۔ جب کہ بیوی ایک ٹرانس زدہ زندگی گزارتی بس صبح و شام گھر سنبھالتی ہے۔اس زندگی میں کوئی اتار چڑھاؤ کی گنجائش کم ہی نظر آتی ہے۔ مختصر خوشیاں اور اکتفا والی زندگی کا منظر نامہ۔ اس طرز زندگی کو ہم میں سے اکثر جیتے ہیں لیکن اُف کرنے یا محسوس کرنے سے حاصل کچھ نہ ہونے پر ما سوائے ذہن و قلب کو اس فکر سے دور کرنے کے کچھ نہیں کرتے۔ لیکن حقیقت کا کیا کیجیے وہ تو حقیقت ہے۔ ہاں ہم جیتے ہیں اور اس طرز پر ہمیشہ جیتے ہیں۔ البتہ جب اس رد کردہ یا دبی ہوئی کیفیت کو کوئی کرید دیتا ہے تب آنکھ کھلنے کے بجائے آنکھ چرانے والی حس زیادہ کارگر ثابت ہوتی ہے۔کہانی”روبوٹ“ملاحظہ کیجئے:
”بچہ موبائیل فون پر کارٹون دیکھ رہا تھا۔ اسکرین کو غور سے دیکھتے ہوئے اچانک چہک کر بولا۔”پاپا، پاپا۔۔۔۔ دیکھیے یہ عورت اس موبائیل میں کیسے فٹا فٹ روٹی، سبزی، چاول، چائے، سب کچھ تیار کر رہی ہے۔۔“
باپ نے سمجھایا۔”ارے بیٹا۔!۔۔۔ یہ عورت نہیں ہے۔۔۔ یہ ایک روبوٹ ہے۔۔۔۔ اس کو جو حکم دیا جائے بس کام پر لگ جاتا ہے۔۔۔ کسی بات کا انکار نہیں کرتا۔۔۔۔ اس کو نہ کبھی غصہ آتا ہے اور نہ کبھی تھکن محسوس کرتا ہے۔“
اتنا کہہ کر اس نے بیٹے سے پوچھا۔”جانتے ہو ربوٹ کیسا ہوتا ہے؟“
بچے نے فوراً جواب دیا۔”ہاں پاپا۔۔۔۔ ممّا جیسا۔“
کتاب: دکھتی رگ، مصنف: خالد بشیر تلگامی، صفحہ: 54
اس کہانی میں ماں کی مشقت و تکلیف اور اس کی کفایت شعاری اور شوہر سے اس کی وفاداری کو بہت واضح طور پر بیان گیا ہے۔ لیکن اسی کہانی میں مصنف گر چاہتا تو اس ذات کی محنتوں کو بھی عمدگی سے پیش کر سکتا تھا جسے باپ کہا جاتا ہے۔ کہانی کے اختتام کو کیا ہی بہتر طریقے سے ختم کیا جا سکتا تھا۔ جس میں دونوں افراد کو زندگی اور ان کے مسائل پر صبر و قناعت کے ساتھ ساتھ ان کے ایک دوسرے سے کیے عہد و پیماں بھی ظاہر ہو سکتے تھے۔ لیکن یہ میری ذاتی رائے ہے وگرنہ مصنف کی کہانی کا وضاحتی اختتام بھی عمدہ ہے۔ بچے کے پاس عمدہ فون موجود ہے جس میں نیٹ بھی چل رہا ہے یہ سب کہاں سے آیا۔۔۔ بچہ انتہائی اخلاق کے ساتھ والد سے بات کر رہا ہے۔ اس کے اندر محسوس کرنے اور سب کچھ دیکھنے کی حس موجود ہے۔ گویا ایسا ماحول اسے میسر ہے جہاں اس کی ذہن سازی عمدگی سے ہو رہی ہے۔ وہ مثبت و منفی اعمال دونوں کو سمجھنے پر قادر ہے۔ یہ سارا کچھ اسے صرف ماں سے نہیں مل سکتا۔ اس میں باپ کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ لیکن کہانی اس سمت کہیں اشارہ نہیں کرتی مجھے خلق ہے کہ مصنف نے اس سمت توجہ کم اور ماں کے گراں کردار کو زیادہ دی ہے۔ پھر اس کہانی کا اختتام مکمل وضاحتی ہے جب کہ لڑکا صرف ماں کی سمت دیکھ کر اگر اپنے فون میں دوبار نظریں گاڑ لیتا تو شاید ایک شان دار اور جامع اختتام حاصل ہو سکتا تھا۔ جس سے باپ کا ظلم و جبر اور اس کے خوف کو پیش کر اس کے کردار کو ظالم اور ماں کو حقیقی طور پر مظلوم بنایا جا سکتا تھا۔ لیکن جیسے میں نے کہا خیالی دنیا بہت کچھ پیش کرتی ہے. شرط ہے کہ آپ اسے اخذ کس طرح کرتے ہیں۔ اسی طرز کا ایک اور افسانچہ جو کہ انتہائی مختصر لیکن میری اوپر کہی بات کو ثابت کرتا ہے ملاحظہ کیجئے:
”پاپا، یہ ایوارڈ آپ کو کس لیے ملا ہے؟“ بیٹے نے سوال کیا۔
”گھریلو ہنسا روکنے کے لیے میں نے جو کام کیے ہیں، ان کے لیے“۔
بیٹے نے اور کچھ نہیں کہا، صرف اپنی ماں کے مایوس چہرے کو دیکھتا رہا۔“
کتاب: دکھتی رگ، مصنف: خالد بشیر تلگامی، صفحہ: 123
بشیر تلگامی کا ایک اور افسانچہ”بلیدان“ ہے۔ اس کہانی میں جس طرح کی منظر نگاری ہوئی ہے وہ واقعی قابل تعریف ہے۔ اوپر کے تبصرے کے بعد فوری اس کہانی کو پیش کرنے کا مقصد ایک ایسی ذات کی حالت زار کو پیش کرنا ہے جسے معاشرے نے کبھی اس کا مقام دیا ہی نہیں۔ وہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود وہ حاصل نہیں کر پاتا جس کی اسے خواہش ہے۔ اس کی مجبوریوں اور اس کے ساتھ بیتی تمام وارداتوں کا حال بہت کم پیش کیا جاتا ہے۔ اس سے متصل حالات اور اس کے مسائل کو پیش کرنے کی ضرورت شاید معاشرے کو اس لیے لازمی نہیں لگتی کیوں کہ وہ بھی ایک مرد ہے۔ اور جیسا کہ لازم ہے کہ مرد کو ہمت اور حوصلے کا ایسا پیکر ہونا چاہیے جو مثالی ہو۔ افسوس کا مقام ہے۔ ہم سماج کے ایسے فرد کو در گزر کرتے ہیں جو اس کی بنیادوں میں ایسا رچا بسا ہے کہ اس کے بغیر سماج کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ میں یہاں جس کردار کی بات کر رہا ہوں وہ ”باپ“ کا ہے۔ ہم اس کردار کو عموماً اس طرح پیش کرنے کے عادی ہیں کہ یہ یا تو شوہر ہوتا ہے۔ یا ظالم باپ، یا کہ مشقت و محنت کش فرد۔۔۔۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسے کبھی انسان کا درجہ ہی نہیں دیا جاتا۔ اس کی حسوں کو اس کی محسوسات کو اس کے فکر و نظر کو اس طرح کچلا جا تا ہے کہ وہ بے چارہ کسی خر سے زیادہ فعال کردار نہیں رہ پاتا۔ ایک مرد جو بچپن سے یہ سنتا ہے کہ وہ ماں پاپ کا سہارا ہے۔ پھر بہن ہو تو اس کا بوجھ بھی اس کے حصے آتا ہے۔ پھر شوہر ہوا تو ماں اور بیوی کے درمیان مسلا جاتا ہے۔ کچھ بچا تو اولاد کی خدمت حصے آتی ہے۔ لیکن یہیں سے اس کردار کی زندگی کا اصل آغاز بھی ہوتا ہے۔ وہ جب باپ بنتا ہے اس کے لیے تمام دنیا اور خواہشات سمٹ کر ایک جسم ایک ہالے میں آجاتی ہیں جو کہ اس کا اپنا خون ہوتا ہے۔ یہاں سے ایک ایساکردار ابھرتا ہے جو ہر اچھے اور برے کام کر لیتا ہے تا کہ اس کے اُس گوشت کے لوتھڑے کو آسانی فراہم ہو سکے جسے اس نے پیدا کیا ہے۔ وہ ایسا اپنے جسم کے تجویف تک کرتا چلا جاتا ہے اور پھر اس کی جگہ ایک اور باپ لے لیتا ہے۔ بشیر تلگامی کے افسانچے میں اس کردار کی محنت و مشقت کو بہت سادگی سے پیش کیا گیا ہے۔ جو کہ میرے نزدیک مناسب نہیں. لیکن کمال ہے ان کی فکر پر کہ انھیں اس فرد کا احساس تو رہا کہ اس پر بیتنے والی کیفیات کو وہ پیش کرنے میں کامیاب رہے۔باپ کی محنتوں اور اس کی مشقتوں کو رد کر جب اولاد دوسروں کی تعریف کرتی ہے اس وقت باپ کے دل پر جو گزرتی ہے اسے سمجھنے والا دل صرف باپ ہی کا ہو سکتا ہے. غربت اور اس کے مسائل کے بیچ میں اولاد کو پڑھانا اور قابل بنا دینا اور بدلے میں کچھ نہ مانگنے پر بھی اولاد کا اس بے ضرر پر ظلم۔ افسانچہ ”بلیدان“ ملاحظہ فرمائیے:
”وہ ایک غریب کسان ہے، دو کنال زمین کا مالک۔ دن رات محنت مزدوری کرتا تھا، کیونکہ وہ بیٹے کو خوب پڑھانا چاہتا تھا۔ اس لیے اس نے اپنی دو کنال زمین بیچ دی اور بیٹے کو پڑھایا لکھایا۔ آج آئی پی ایس کا نتیجہ آیا۔ اس کے بیٹے نے دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ وہ بہت خوش تھا۔ محلے بھر میں مٹھائیاں بانٹتا پھر رہا تھا۔ ہم سایے، رشتے دار مبارکبادی دینے پہنچ رہے تھے۔ میڈیا کو پتا چلا تو وہ بھی آ دھمکے۔ انٹرویو لیتے ہوئے ایک میڈیا والے نے بیٹے سے پوچھ لیا۔
”آپ اپنی کامیابی کا سہرا کس کے سر باندھنا چاہیں گے؟“
بیٹے نے بڑے فخر سے جواب دیا۔”اپنے اساتذہ کے“۔“
کتاب: دکھتی رگ، مصنف: خالد بشیر تلگامی، صفحہ: 59
استاد پر ان کا ایک اورافسانچہ ہے جسے ”عقیدت“ عنوان سے مصنف نے پیش کیا ہے۔ جس میں امر جیت کا کردار یوپی ایس ای میں چوتھی پوزیشن لینے کے بعد بجائے گھر جاکر ماں باپ کو خوشخبری سنانے اور ان سے آشیر واد حاصل کرنے کے اپنے استاد کے گھر کی جانب جا رہا ہے۔ مصنف بہ طور کردار اس سے پوچھتا بھی ہے کہ کدھر کو چل دیے اس کا جواب ہوتا ہے ”ماتھا ٹیکنے“ مصنف حیرت سے پوچھتا ہے ”لیکن گرو دوارہ تو ادھر ہے“۔ اسے جواب ملتا ہے ”میں ماسٹر جی کے گھر جا رہا ہوں“۔ غور کریں تو اس افسانچے کی فضا کچھ مختلف ہے جس باعث اس کا اثر بھی الگ محسوس ہوتا ہے۔ یہاں گھر والوں کی اہمیت سے کہیں زیادہ استاذ کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے جو کہ مثبت عمل ہے۔ لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ اپنے استاذ سے ملنے ان کا آشیر واد لینے چلا جاتا۔ جیسا کہ میں عرض کر چکا بشیر تلگامی کے یہاں افسانچے کا اختتام اسی طرح کی صالح قدروں پر ہوتا ہے جس بڑے مبہم انداز میں ایک خیالی معاشرے کی تصویر بنتی اور ذہن میں گھر کر جاتی ہے جس کے بعد قاری کا پڑھا گیا افسانچہ اسے اپنے ذہن کو کریدنے پر مجبور کرتا ہے۔
تلگامی مختلف موضوعات پر افسانچے لکھتے ہیں۔ تعلیمی میدان پھر ان سے کیونکر چھوٹتا۔ آج کل تعلیمی شعبہ جات میں کیا کچھ نہیں ہو رہا۔ ایسی بہت ساری باتیں ہیں جن کو واضح طور پر بیان نہیں کیا جا سکتا۔ بس اشارتاً ہی کہا جاسکتا ہے۔ مصنف نے ان شعبوں میں ہو رہی اُس برائی کی جانب اشارہ کیا ہے جو آج کل اداروں میں عام ہو چلی ہے اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ اسے معیوب تو کجا اس جانب اشارہ کرنے والوں کی دھجیاں اڑادی جاتی ہیں۔ انھیں کج روی کا شکار اور غلط بیان کہا جاتا ہے. جب کہ حقیقت سے ہر کوئی واقف ہے۔ بعض ایسی باتیں ہوتی ہیں جو ایک حساس فرد کو معاشرے سے جدا کر تی ہوئی ایک نکتہ چیں بنا دیتی ہیں۔ اسے مجبور کرتی ہیں کہ وہ کچھ کہے و گرنہ اس کی اپنی نسلیں تباہی سے ہم کنار ہوجائیں گی۔ جب ایسا فرد تلملا کر کہتا ہے تو اس طرح کی کہانی”ڈھیل“ سامنے آتی ہے. ملاحظہ کیجئے:
”ارے! دائیں بائیں دیکھنا بند کردو ورنہ ابھی پییر چھین لوں گا۔“
ماسٹر جی نے امتحان ہال میں شاذیہ کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔
”سر پلیز۔۔۔۔ تھوڑی سی ڈھیل۔۔۔۔۔“
”ہرگز نہیں، شاید تمھیں معلوم نہیں کہ میں اس معاملے میں بہت سخت ہوں۔“
”تو پھر سر!۔۔۔ عابدہ آپ کی کیا لگتی ہے جس کو آپ نے ڈھیل دے رکھی ہے؟۔“
کتاب: دکھتی رگ، مصنف: خالد بشیر تلگامی، صفحہ: 63
غور طلب ہے کہ یہ شخص ایمان دار ہے جیسا کہ اس نے خود واضح کیا ہے۔ اس کی کسی مجبوری کا احساس بھی افسانچے میں موجود نہیں مثلاً پیشے کی تنگی وغیرہ، پھر وہ کسی لڑکے کو تو کیا کسی دوسری لڑکی کو بھی وہ نقل کی اجازت نہیں دے رہا. آخر اس طالبہ اور اس استاذ کے درمیان کیا راز و نیاز ہے کہ وہ اپنی بنی بنائی امیج کو داؤ پر لگا چکا ہے۔ تعلیمی شعبے میں اس طرح کی لغویات عام ہو چکی ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ اس جانب کسی کی توجہ نہیں بلکہ اسے تو اب عیب بھی نہیں گردانا جاتا۔ اور جب کبھی آپ اس پر معترض ہوں گے لڑکی ہو یا لڑکا استاد ہو یا استانی تمام اس سے پہلے تو انکار کریں گے پھر ان کا ذاتی مسئلہ کہہ کر ناظر یا معترض کے خلاف ہو جائیں گے۔ افسوس صد افسوس اس مسئلے کی جانب کوئی حتمی کوشش نہیں ہو رہی۔
تلگامی کی کہانیوں میں وقت اور موقع کے مطابق رونما ہونے والے اہم واقعات بھی جگہ پاتے ہیں، مثلاً ان کا افسانچہ ”اعتماد“ جو کہ در اصل دو چاہنے والوں کے درمیان ایک ایسی کہانی پیش کرتا ہے جس میں محبت و رغبت کے علاوہ حقیقت اور مطلب پرستی کا عنصر موجود ہے۔ ایک لڑکی جو اپنے محبوب سے کچھ وقت تک بات نہیں کر پاتی، جس وجہ سے اس کا عاشق بے چارہ اس طرح بے چین نظر آتا ہے جیسے روح جسم سے جدا ہو رہی ہو اور پھر جب وہ بات نہ ہونے اور ملنے نہ آنے کی وجہ جانتا ہے تو اس طرح اس سے کنارہ کشی کرلیتا ہے جیسے وہ اور اس کی محبت ما سوائے ایک حباب کے کچھ نہ تھی۔ وجہ صرف اتنی ہوتی ہے کہ اس لڑکی اور اس کے گھر والوں کو کورونا جیسے مرض نے اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ اس کہانی کا اختتام اس لڑکے کے منفی دفاعی نظام کی جانب متوجہ کرتا ہے۔ اسے اپنی اور اپنے خاندان کی اس قدر فکر لاحق ہوتی ہے کہ وہ اپنی محبوبہ، اپنی معشوقہ، اپنی جان قلب، اپنی روح بہار، اپنی زندگی کو جسے حاصل کرنے کے لیے وہ اسی سے سب کچھ کر گزرنے کا وعدہ کیے بیٹھا تھا اس کی کال اس آسانی سے کاٹ دیتا ہے جیسے وہ اسے جانتا ہی نہیں۔
ان کی بیشتر کہانیاں اسی طرز ادا سے متاثر ہیں۔ ان کے پاس معاشرہ اور اس کے افراد دونوں ہی زندہ اور زندگی سے بھرپور ہیں۔ ان کے کردار اچھائی اور برائی دونوں کا سر چشمہ ہیں۔ نہ تو وہ مکمل فرشتے ہیں نا ہی ان کے اندر شیطان رہتا ہے۔ بلکہ وہ بس ہمارے معاشرے کے سیدھے سادے انسان ہیں جو ہماری ہی طرح سانس لیتے ہیں، جو چلتے پھرتے ہیں، جو سوچتے اور سمجھتے ہیں اور جو ہماری طرح عیوب کے ساتھ عمل در عمل کرتے چلے جاتے ہیں۔
الغرض خالد بشیر تلگامی کی کہانیوں میں افکار وتدبر کے خوب صورت اظہاریے موجود ہیں۔ ان کے افسانچوں میں زمانے کی کئی ایسی حقیقتوں کا بیان موجود ہے جسے کہنا، سننا اور جاننا زندہ معاشرے کی دلیل ہے۔ ان کے افسانچوں کے کردار چلتے پھرتے بولتے اور سوچتے نظر آتے ہیں۔ ان کی منظر نگاری در اصل حقیقت اور فریب کے درمیان کی دنیا کو پیش کرتی ہے۔ پلاٹ بہت وضاحتی ہوتا ہے لیکن اس کی وجہ ان کی وہ خیالی دنیا ہے جس میں وہ فرد و معاشرے کو لے جانا چاہتے ہیں جہاں سب کچھ ستھرا اور گندگی سے پاک ہے۔ میں مصنف کو ان کی کتاب دکھتی رگ پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وہ اپنی تحریروں میں مزید ابہام کا استعمال کرنے کی کوشش کریں گے۔
٭
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :سماجی دکھوں کو اپنا سمجھنے والا فن کار: خالد بشیر تلگامی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے