نجات چاہنے والے

نجات چاہنے والے

رفیع حیدر انجم
گاچھی ٹولہ،وارڈ نمبر24، ڈاک خانہ/ضلع ارریہ- 854311 (بہار) انڈیا

امداد علی کے ذہن و دل پر آج صبح سے اداسی کی کیفیت مسلط تھی۔ اداسی کی ایک ایسی بوسیدہ چادر جس میں انجانے خدشات کے پیوند چپکے ہوئے تھے۔ اس نے محسوس کیا کہ اس پیوند کاری میں بستی کا ہر فرد شامل ہے۔ ہر آدمی چیتھڑے میں لپٹا ہوا ہے اور ہر شخص کو رفو کی حاجت ہے۔
گھر سے وہ مقررہ وقت پر دفتر جانے کا ارادہ کرکے نکلا تھا لیکن بس اڈے پر پہنچ کر اسے لگا کہ غلطی سے وہ کسی اور سمت نکل آیا ہے۔ اس نے دیکھا کہ سڑکیں ویران پڑی ہیں اور گھروں کے دروازے اور کھڑکیاں بند ہیں۔ ویرانی کا یخ بستہ احساس اس کی نسوں میں اترتا چلا گیا۔ وہ اور آگے بڑھا تو یہ دیکھ کر خوف زدہ ہوگیا کہ چوراہے پر ٹریفک کا بڑا سا گول چبوترہ ملبے میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ملبے کے درمیان ایک پتھریلی سی شبیہ ابھر آئی ہے جس کے چاروں طرف دھوئیں کی سرمئی لکیریں پھیلی ہوئی ہیں۔ اس نے یہ بھی دیکھا کہ کچھ لوگ زعفرانی چغہ پہنے اور ہاتھوں میں لوبان سلگائے اس شبیہ کی طرف آہستہ آہستہ بڑھتے چلے آرہے ہیں۔ اسے فضا میں بارودی مہک کا بھی احساس ہوا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کچھ ہی دیر میں ساری چیزیں جل کر خاکستر ہو جائیں گی۔ گھبراہٹ میں اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو فکر زدہ سا ہوکر رہ گیا۔ اس طرف کی زندگی میں بہ ظاہر کوئی فرق پیدا نہیں ہوا تھا۔ سڑک زیادہ بھری پری نہیں تھی لیکن بیش تر دکانیں آباد تھیں اور گاڑیوں کا شور اپنی جگہ پر قائم تھا۔ پیش منظر اور پس منظر کے اس انوکھے تضاد نے اسے اس وسوسے میں ڈال دیا کہ کیا واقعی اس نے چند ثانیہ قبل ایک وحشت ناک منظر دیکھا تھا یا لاشعوری طور پر وہ اس منظر کے فریب میں آگیا تھا۔ اس کا فیصلہ وہ فوری طور پر نہیں کر پایا لیکن اس نے واپس گھر لوٹنے کا فیصلہ ضرور کرلیا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ آج پوری بستی ایک تاریخ ساز فیصلے کا انتظار کر رہی ہے۔ بابری مسجد اور رام جنم بھومی کے تنازعہ کا فیصلہ جسے اس عرصے میں وہ تقریباً بھول چکا تھا۔
امداد علی گھر پہنچا تو وحشت کے سائے اس کے چہرے سے ہویدا تھے جسے اس کی بیوی نے فوراً محسوس کرلیا۔
”میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا، آج گھر سے باہر نہ نکلیں۔ مگر میری……“ اس کی بیوی نے آب زم زم کا گلاس اس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔
”اسے کھڑے ہوکر تین بار میں پی لیں۔“ امداد علی نے ندامت محسوس کی اور گلاس اٹھاکر ہونٹوں سے لگا لیا۔ وہ تھوڑی دیر صوفے پر بیٹھا رہا، پھر کچھ سوچ کر اٹھا اور باہری کمرے کی کھڑکیاں بند کرتے ہوئے سڑک کی طرف جھانک کر دیکھا۔ اسے پولس کے کچھ جوان گشت کرتے ہوئے نظر آئے۔ اس نے قدرے اطمینان کی سانس لی اور بیوی سے ایک پیالی چائے کے لیے کہا۔ چائے پیتے ہوئے اسے اپنے پڑوسی مرلی دھر کا خیال آگیا۔ شاید وہ بھی آج اپنی دکان پر نہیں گیا ہوگا۔ شہر کے صدر بازار میں اس کی سائیکل کی بڑی سی دکان ہے۔ کوئی اور دن ہوتا تو وہ مرلی دھر کو آواز دے کر اپنے گھر بلاتا اور چائے پر ضرور شریک کرتا۔ لیکن آج……
”آج آپ مرلی دھر کے گھر نہیں جائیں گے۔ بس اب کچھ گھنٹے بعدہی……“ اس کے آگے کے الفاظ نے اس کی بیوی کا ساتھ نہیں دیا۔ وہ تشویش کی خاردار جھاڑیوں میں لپٹی ہوئی تھی اور ایسا لگ رہا تھا کہ آج اس کا ساتھ کوئی بھی نہیں دے گا۔
امداد علی کے ذہن میں بھی کچھ ایسی ہی باتیں گونج رہی تھیں۔ آج جو کچھ بھی ہوگا اسے تنہا ہی جھیلنا پڑے گا۔ اس گھر میں اس کی بیوی کے سوا ہے کون؟ بڑا بیٹا دوسرے شہر میں رہ کر نوکری کر رہا ہے اور چھوٹے بیٹے کو گذشتہ سال میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا ہے۔ اس کے لیے بیٹے کو میڈیکل کالج میں داخلہ دلوانا آسان نہیں تھا لیکن بڑے بیٹے کی نوکری نے بڑا سہارا دیا۔ ایک ہفتہ قبل اس کے بڑے بیٹے نے فون پر کہا کہ اگر آپ کو کسی قسم کا اندیشہ ہو تو ممی کو لے کر یہاں آجائیے، لیکن اس نے منع کردیا کہ وہ اس کی طرف سے کسی تردد میں نہ رہے۔ اس شہر میں کم از کم مرلی دھر جیسا پڑوسی تو ہے۔ یوں تو اس محلے کے کئی لوگوں سے اس کے خوش گوار تعلقات ہیں لیکن نہ جانے کیوں اُسے مرلی دھر سے ایک خاص انسیت کا احساس ہوتا ہے۔ وہ اس کا ہم سایہ بھی ہے اور اس کے سکھ دکھ میں برابر کا حصہ دار بھی۔ آج اسے مرلی دھر کی ضرورت زیادہ محسوس ہو رہی تھی لیکن بیوی کے وسوسے کو وہ یکسر خارج بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اس کا ذہن مختلف خیالات کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ دفعتاً اسے ایسا لگا کہ وہ مرلی دھر کو تب سے جانتا ہے جب سے اس نے ہوش سنبھالا ہے، لیکن اگلے ہی لمحے اسے اپنے اس خیال کے بے تکے پن پر ہنسی آئی۔ مرلی دھر سے اس کی پہلی ملاقات اس مکان کو کرائے پر لینے کے بعد ہوئی تھی۔ ہاں، اتنا وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ اس محلے میں گذشتہ پچیس برس سے وہ دونوں ساتھ ساتھ رہ رہے تھے، لیکن ادھر چند دنوں سے اس نے اکثر محسوس کیا ہے کہ مرلی دھر اس کے لاشعور میں برسوں سے رہ رہا ہے اور زندگی کے کسی بھی مرحلے میں وہ اس شخص کے وجود سے غافل نہیں ہوا ہے۔ یہ ایک عجیب سا احساس تھا جس نے آج کے دن کچھ زیادہ ہی شدت اختیار کرلی تھی۔ آخر آج کے دن کیا خاص بات ہونے والی ہے؟ بس ایک فیصلہ ہی تو آنا ہے۔ اس نے اس پہلو پر سوچنا شروع کیا تو اس کی نگاہوں میں بس اڈے کا وحشت ناک منظر دوبارہ متحرک ہونے لگا۔ ملبے کا ڈھیر……ایک پتھریلی شبیہ……دھوئیں کا غبار…… تمتمائے ہوئے چہرے……جشن……شور…… متوحش ہوکر اس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور صوفے پر نیم دراز ہوگیا۔ لیکن ایک ناگہانی سانحے کا منحوس سایہ اس کے وجود پر مسلط رہا، جس سے نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی۔
کیا اس طرح کا کوئی دل سوز منظر اس نے پہلے بھی دیکھا تھا؟
امداد علی نے اپنی یادداشت کے اوراق پلٹے تو ماضی کے دھندلکے میں ایک اجڑی ہوئی عمارت کے نقوش واضح ہونے لگے۔ اس عمارت تک پہنچنے کے لیے دو چار زینے طے کرنے کے بعد اس کے قدم لڑکھڑانے لگے۔ آگے کے زینے اتنے مخدوش اور کائی زدہ تھے کہ ان پر پیر جماکر چلنا دشوار ہورہا تھا۔ اس نے قرآن شریف کی کچھ آیتوں کا ورد کیا اور پھر اپنے قدم آگے بڑھا دیے۔ اس نے کچھ اور زینے طے کیے لیکن اٹھارویں زینے تک پہنچتے پہنچتے اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگا۔ تا حد نظر ملبے کا دھول اور گرد و غبار کا ایک ہیولا سا پھیلا ہوا تھا۔ صرف ہولناک چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔ ہزاروں بے چہرہ لوگوں کی بے شمار چیخیں …… ڈھول اور نگاڑوں کی کریہہ آوازیں ……کچھ سر پھرے لوگوں نے عقیدت کی اینٹ سے کھڑی کی گئی ایک عمارت کو مسمار کردیا تھا۔ یہ عمارت وہی بابری مسجد تھی جس کا وجود اب کہیں نہیں تھا۔ اس لاوجود شے کے حق ملکیت کا فیصلہ ہونا آج مقرر تھا۔ انسانوں کے تفرقہ کے بعد اب زمینوں کی تقسیم کا مرحلہ در پیش تھا جو باد سموم کی آہٹ پاتے ہی لرز اٹھتا ہے۔ ان حالات میں مرلی دھر نے اسے بہت سہارا دیا تھا۔ دلاسہ دینے والوں میں دوسرے لوگ بھی شامل تھے لیکن مرلی دھر کی اپنائیت کا انداز دوسروں سے مختلف تھا۔ کئی برس گزر گئے لیکن اس شام کی یاد آج بھی اس کے ذہن میں تازہ ہے۔
وہ ایک حبس بھری شام تھی۔ برسات کا موسم ہونے کے باوجود کئی دنوں سے بارش نہیں ہوئی تھی۔ مغرب کی نماز سے فارغ ہوکر وہ برآمدے میں بیٹھا ہوا چائے پی رہا تھا کہ حسب معمول مرلی دھر وہاں پہنچا۔ چائے پینے اور کچھ دیر حالات حاضرہ پر گفتگو کرنے کے بعد اخباری کاغذ سے لپٹی ہوئی کوئی شے اس کے سامنے رکھتا ہوا مرلی دھر گویا ہوا۔
”اسے کھول کر دیکھو تمہارے لے لایا ہوں۔“ مرلی دھر کے چہرے پر رنج و مسرت کے مشترکہ تاثرات نمایاں تھے۔ امداد علی نے اس شے کو اخباری کاغذ سے آزاد کیا تو اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ پرانے ساخت کا بنا ہوا سرخ رنگ کے اینٹ کا نصف حصہ اس کے سامنے پڑا تھا۔
”یہ اینٹ بابری مسجد کی ایک دیوار کی ہے۔ میرا ڈرائیور رام بلی سنگھ اسے ایودھیا سے لے کر آیا ہے۔ اس اینٹ کا آدھا حصہ میرے پاس ہے، میں نے سوچا آدھا تمھارے پاس ہونا چاہیے۔ آخر وہ مسجد تمہارے پوروجوں کی یادگار تھی۔ تمھیں بھی اس سے آستھا رہی ہوگی……“ مرلی دھر جاچکا تھا لیکن امداد علی کی نگاہیں اینٹ کے ٹکڑے پر مرکوز ہوکر رہ گئی تھیں۔
امداد علی کی بیوی پر اس اینٹ کا انکشاف ہوا تو فرط مسرت سے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس نے اینٹ کے اس ٹکڑے میں اپنے آنسوؤں کو جذب کیا اور اسے سرخ رنگ کے ریشمی کپڑے میں لپیٹ کر گھر میں سب سے اونچی جگہ پر رکھ دیا، جس طرح جزدان میں قرآن شریف کو رکھا جاتا ہے۔
”آپ اس کمرے میں کیوں بیٹھے ہیں؟ ادھر آئیے، ٹی وی پر فیصلہ سنایا جارہا ہے۔“ بیوی نے اطلاع دی تو امداد علی جیسے ماضی کے اندھیروں سے نکل کر حال کے روشن کمرے میں آگیا۔ نہ جانے اس فیصلے کے بعد مستقبل میں کیا ہوگا؟ اندیشوں میں ڈوبا ہوا امداد علی ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر فیصلہ سننے میں محو ہوگیا۔ ٹی وی اینکر بار بار فیصلے کو دہرا رہا تھا اور وہ سوچ رہا تھا کہ اس فیصلے کے بعد وہ جیت گیا ہے یا ہار گیا ہے؟ یہ کیسا فیصلہ ہے جہاں نہ جیتنے کی خوشی ہے اور نہ ہارنے کا غم؟ امداد علی کسی حتمی نتیجے تک پہنچنے سے قاصر تھا۔
امداد علی بستر پر لیٹا تھا لیکن نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ اب ان آنکھوں میں کسی وحشت ناک منظر کا عکس بھی موجود نہیں تھا۔ وہ دیر تک ٹی وی دیکھتا رہا تھا۔ کہیں سے کسی ناخوش گوار واقعہ کی خبر نہیں ملی تھی۔ اس نے گھڑی دیکھی تو معلوم ہوا کہ وہ دوسرے دن کی تاریخ میں پہنچ چکا ہے۔ گویا کل کا دن بغیر کسی ماتم یا جشن کے گزر چکا ہے۔ اچانک اسے سب کچھ خالی خالی سا لگنے لگا۔ اس نے خود کو بے حد سبک اور ہلکا محسوس کیا۔ جس طرح چاند کی سطح پر آدمی نے خود کو پہلی بار محسوس کیا ہوگا۔ دفعتاً اس کا دھیان اینٹ کے اس نصف ٹکڑے پر گیا جو کبھی بابری مسجد کا ایک اٹوٹ حصہ رہا تھا۔ پہلی بار اسے اینٹ کا یہ ٹکڑا بے مصرف سا لگنے لگا۔ وہ بستر سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ اس کی بیوی گہری نیند میں ہلکے ہلکے خراٹے لے رہی تھی۔ اس نے اینٹ کا وہ ٹکڑا اٹھایا اور کمرے کا دروازہ کھول کر باہر آگیا۔ سڑک پر اسٹریٹ لائٹ کی ملگجی روشنی خاموشی کا دامن پکڑے کھڑی تھی۔ وہ اس موڑ تک جانا چاہتا تھا جہاں نالی کے ایک حصے کا ڈھکن کھلا ہوا تھا۔ اس تنگ سی جگہ پر روشنی کا گزر مشکل سے ہورہا تھا۔ آہستہ آہستہ وہ اسی جانب بڑھ رہا تھا کہ دفعتاً اس کے قدم جم سے گئے۔ امداد علی نے دیکھا کہ مدھم سی روشنی کے دائرے میں مرلی دھر اپنے ہاتھوں میں اینٹ کا نصف ٹکڑا لیے پہلے سے موجود ہے۔***
(غیر مطبوعہ/غیر نشریہ اور طبع زاد)
RAFI HAIDER ANJUM
AT. GACHHI TOLA, WARD NO. 24
P.O/DIST. ARARIA-854311 (BIHAR) INDIA.
MOB. +91-8002058079
EMAIL: rafih4031@gmail.com
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں : پرانی بستی کی نئ کہانی از رفیع حیدر انجم 

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے