نام کتاب : نامہ جو میرے نام آئے(خطوط کا مجموعہ)

نام کتاب : نامہ جو میرے نام آئے(خطوط کا مجموعہ)

نام کتاب : نامہ جو میرے نام آئے (خطوط کا مجموعہ)
مرتب : آفتاب انجمی انصاری گورکھپوری
ضخامت : 112 صفحات
قیمت : 200 روپے
ملنے کا پتا : مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ،دہلی۔۶
تبصرہ نگار : ڈاکٹر داؤداحمد، اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو، فخرالدین علی احمد گورنمنٹ پی جی کالج، محمودآباد، سیتاپور(یو۔پی)

زیر تبصرہ کتاب”نامہ جو میرے نام آئے“ کثیر الجہات شخصیت’ظہیر کیفی امروہوی‘ کے خطوط کا مجموعہ ہے جسے انھوں نے موقع در موقع اپنے مخلص دوست آفتاب انجمی انصاری گورکھپوری کے نام تحریر کیے ہیں۔مکتوبات کا یہ مجموعہ ۷/مئی ١٩٩٧ء سے ٣١/دسمبر ٢٠٠١ء تک آفتاب انجمی انصاری کو لکھے گئے ۲۴ خطوط پر مشتمل ہے، جو ظہیر کیفی امروہوی کے ذاتی اور نجی نگارشات ہیں، جسے آفتاب انجمی انصاری نے یکجا کر خطوط کا مجموعہ”نامہ جو میرے نام آئے“ کے عنوان سے کتابی شکل میں حالی پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی سے شائع کرایا ہے۔
خط لکھنا نہ صرف یہ کہ ہماری ایک پرانی، مگر شان دار روایت رہی ہے، بلکہ یہ ہر دور میں ایک من پسند شغل بھی رہا ہے۔ خطوط زندگی کی قدروں کے امین و آئینہ دار ہوتے ہیں جن میں زمان و مکاں کے عکس کو بہ خوبی دیکھا جاسکتا ہے۔ خطوط ادب کی تشہیر و تعمیر کا نمایاں اور بنیادی حصہ ہے۔ مرزا غالب اور داغ دہلوی کے علاوہ جن شعرا و ادبا نے اپنی صلاحیتوں اور وسائل کے ساتھ ان گنت ادبی کارنامے کو آگے بڑھایا ہے اس میں ظہیر کیفی امروہوی کا بھی شمار کیا جاسکتا ہے۔
ظہیر کیفی امروہوی کے خطوط کے زیر تبصرہ مجموعے میں کئی ایسے خطوط بھی شامل ہیں جن کو پڑھ کر مجھے مرزا غالب کا گمان ہونے لگا۔ اس مجموعے میں شامل پہلا خط ٢٥/فروری ١٩٩٧ء کو لکھا گیا، جب کہ آخری خط ٣١/دسمبر ٢٠٠١ء کو تحریر کیا گیا۔ مجموعے کو اول تا آخر پڑھ کر مجھے یوں محسوس ہوا کہ اگر تحریر موثر اور جان دار ہو تو قاری ہر گز بوریت محسوس نہیں کر سکتا۔ وہ اپنے تجربات و مشاہدات کو چابک دستی اور فن کاری سے خطوط کے قالب میں ڈھال دیتے ہیں۔ قاری ان کے خطوط کا مطالعہ کرتے ہوئے اپنی ہی دنیا میں ایک نئی دنیا کے درشن کرسکتا ہے۔خطوط کے موضوعات اپنے گرد و پیش میں روزانہ وقوع پذیر ہونے والے حادثات و سانحات سے اخذ کیے گئے ہیں۔خطوط کا یہ مجموعہ ہمارے اس زمانے کے ادبی، سماجی اور اقتصادی حالات کی منھ بولتی تصویریں ہیں۔ ان خطوط میں نامہ نویسندہ نے اپنے ذاتی احساسات اور جذبات و کیفیات کا اظہار کیا ہے۔ جیسا کہ ١٢/دسمبر ١٩٩٧ء کو لکھے گئے اس خط سے ظاہر ہوتا ہے:
”میری صحت انحطاط پذیر اور زوال آمادہ ہوتی جا رہی ہے اور حالات ان سے بھی ابتر، پوری زندگی حالات سے نبرد آزما رہا ہوں، جدو جہد میں بسر کی ہے۔ چاردانگ عالم کی خاک چھانی ہے۔ پردۂ غیب سے کوئی معجزہ، کوئی کرامت ظہور میں نہیں آئی۔ عمل اور جد و جہد میری زندگی کا مقصد اور نصب العین ہے“۔ (صفحہ۔٤٣)
”حرف تمہید“ کے تحت آفتاب انجمی انصاری گورکھ پوری رقم طراز ہیں ”ظہیر کیفی کی خطوط نگاری کا سب سے اہم وصف ان کا طرز استدلال ہے جسے وہ اپنی صلاحیتوں سے مستحکم بناتے ہیں۔ وہ کسی نظریہ پر نہ پوری طرح کاربند ہیں اور نہ کسی تھیوری پر [کو] انھوں نے کلی صداقت پر محمول کیا ہے“۔ (صفحہ۔۲۲)
آج کا زمانہ وہ زمانہ ہے جب سماجی رابطے کے مختلف وسائل جیسے فیس بک، واٹس ایپ کے علاوہ موبائل فون ہر ایک کے دسترس میں ہے اس کے باوجود بھی خطوط کے ذریعے اپنے روز و شب کی احوال نویسی نہ صرف یہ کہ قابل تحسین ہے بلکہ قابل تقلید بھی ہے۔یہاں میں ایک بات بھی ضمناً عرض کرتا چلوں کہ الیکٹرانک میڈیا کچھ بھی ہو، آخر یہ سب کچھ ہوا میں اڑتا ہی جاتا ہے، اس کے برعکس پرنٹ میڈیا کتاب ایک زندہ ریکارڈ ہے جو آسانی سے مٹنے والا نہیں ہے۔ علاوہ ازیں کتاب پڑھنے کا اپنا ایک الگ ہی مزہ ہے۔
ظہیر کیفی امروہوی نے اپنے ذاتی مسائل، پریشانیوں اور اذیتوں کو اپنے خطوط میں سمونے کی کوشش کی ہے۔ ایک خاس قسم کی شگفتگی اور شستگی سے مزین ان کی تحریریں قاری کو کیف اور سکون کا احساس دلاتی ہیں۔ ان کے خطوط سماجی حالات اور معاشرہ میں موجودہ کج روی کو ہدف طنز بھی بناتے ہیں۔ جہاں تک ان کے خطوط کی زبان کا سوال ہے تو بلا شبہ ان خطوط میں ایسی اردو زبان استعمال کی گئی ہے جو اردو خطوط نگاری کا خاصہ ہے، جیسے:
” خط لکھتے رہو، بدگمان نہ ہوں۔ ان شاء اللہ مجھے آپ خود غرض اور کمینہ فطرت کبھی نہیں پائیں گے۔ میں اپنے دوستوں اور محسنوں کو ہمیشہ یاد رکھتا ہوں اور عزیز از جان سمجھتا ہوں اور آپ بھی میرے مخلص اور بہترین دوست ہیں، کسی قسم کے تردد و تفکر اور تشویش میں مبتلا نہ ہوں“۔(صفحہ۔٧٨)
ظہیر کیفی امروہوی رنگارنگ شخصیت کے مالک تھے اور انھوں نے مختلف شعبوں میں اپنی کار کردگی کے نقوش ثبت کیے ہیں۔ ان کا تعلق فلمی دنیا، افسانہ نویسی، کالم نویسی، ماہ نامہ شمع، سشما اردو ہندی فلمی میگزین کے ایڈیٹوریل ڈپارٹمنٹ سے بھی رہا۔ شمع گروپ آف پبلی کیشن نئی دہلی میں معاون مدیر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ نثر نگاری پر انھیں زبردست مہارت حاصل تھی۔افسانہ نگاری کے علاوہ خطوط نگاری میں بھی اپنی شناخت قائم کی ہے۔
خطوط کا مجموعہ ”نامہ جو میرے نام آئے“ میں اپنے زمانے کے مشاہیر ادب، دوستوں اور عزیزوں کی رنگا رنگ تصویریں نظر آتی ہیں اور ان کے ساتھ ظہیر کیفی کے تعلقات کی نوعیت معلوم ہوتی ہے۔ کھٹے میٹھے تجربات، ہدایات کا سخت لہجہ، کاروباری گفتگو کا انداز، پیار و محبت کے سریلے نغمے غرض یہ ایک ایسا آئینہ خانہ ہے جس میں ظہیر کیفی کی شخصیت اپنی تمام خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی ہے۔ ان خطوط کے ذریعے ان کی شخصیت کے کچھ ایسے پہلو بھی سامنے آتے ہیں جو ان کی دیگر تحریروں میں تمام و کمال نہیں آسکے تھے۔ مثلاً ہم عصر شاعروں اور ادیبوں کے ساتھ ان کے تعلقات، بے راہ روی کے لیے ان کی مذمت، جرأت اظہار کی مدافعت وغیرہ کا ذکر بڑی تفصیل کے ساتھ ان خطوط میں ملتا ہے۔ خطوط میں عبرتؔ بہرائچی، قمرؔ بہرائچی، ایم کوٹھیاوی راہیؔ، شاطرؔ گورکھپوری، شبنمؔ گورکھپوری، عبید اللہؔ چودھری، ظفرؔ گورکھپوری، پیامؔ گورکھپوری، ایم ایل اے خورشید انصاری سے مراسم کا بھی ذکر ہے۔
”نامہ جو میرے نام آئے“ یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے، اس میں نئی نسل کے لیے سبق بھی ہے اور نصیحت بھی۔ یہ کتاب لائبریریوں میں رکھے جانے کے لائق ہے۔ یہ صرف خطوط نہیں ایک زمانہ کی روداد ہیں۔ آفتاب انجمی انصاری صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے ظہیر کیفی امروہوی کے اتنے سارے خطوط کو اتنے دنوں تک سنبھال کر رکھا اور اسے کتابی جامہ پہنا کر ایک بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ قوی امید ہے کہ موصوف کا ترتیب دیا ہوا خطوط کا مجموعہ’نامہ جو میرے نام آئے‘ اردو ادب کے قاری کی خاطر خواہ پذیرائی کرے گا۔
Email:daudahmad786.gdc@gmail.com
Mob. 8423961475
صاحب تبصرہ کی گذشتہ نگارش: کتاب : علی پور بستی (ناول)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے