کتاب : علی پور بستی (ناول)

کتاب : علی پور بستی (ناول)

نام کتاب : علی پور بستی(ناول)
مصنف : امتیاز غدر
ضخامت : 204 صفحات
قیمت : 300 روپے
ملنے کا پتا : مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، دہلی
تبصرہ نگار : ڈاکٹر داؤد احمد، اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو، فخرالدین علی احمد گورنمنٹ پی جی کالج محمودآباد، سیتاپور(یو۔پی)
: daudahmad786.gdc@gmail.com

امتیاز غدر کا ناول ”علی پور بستی“ کئی اعتبار سے انفرادیت کا حامل ہے۔ مردم شماری کے موضوع پر لکھا گیا یہ ناول اپنے آپ میں آئینہ دار ہے۔ بالخصوص مسلم علاقوں میں مردم شماری کا نظام، مسلمانوں کی صحیح تعداد کا تعین، سیاسی، سماجی، تہذیبی، اقتصادی سطح پر ہندستان کی تصویر دکھائی گئی ہے۔
مصنف نے ناول کے پیش لفظ میں لکھا ہے:
”ناول ’ علی پور بستی‘ میں زندگی کے نچلے پائیدان میں رہ کر زندگی گزارنے والوں کے اندر خانوں میں جھانکنے کی کوشش کی گئی ہے“۔
204 صفحات اور 25 ابواب پر مشتمل اس ناول کی کہانی بنیادی طور پر دو کرداروں ’جون‘ اور ’جولی‘ کے گرد گھومتی ہے۔ چند ضمنی کردار بھی وقتاً فوقتاً پلاٹ کو آگے بڑھانے میں معاونت کرتے ہیں۔ ناول کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ناول نگار کا مطالعہ و مشاہدہ انتہائی وسیع ہے لیکن کہیں کہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے مطالعات و مشاہدات کو بیان کرنے کے لیے اضافی مکالمات اور واقعات کا سہارا لیا ہے۔ ’علی پور بستی‘ امتیاز غدر کا پہلا ناول ہے۔ موضوع اور پیش کش کے اعتبار سے یہ ایک اچھوتا ناول ہے۔ ناول کا پلاٹ بہت ہی مربوط ہے۔ ناول کا ہر باب پچھلے باب سے پیوستہ ہے یعنی ہر باب میں ناول کی کہانی کو آگے بڑھایا گیا ہے۔اس ناول میں ایک اچھے اسکرین پلے کی بھی ساری خصوصیات موجود ہیں۔
مشہور و معروف ناول نگار مشرف عالم ذوقی امتیاز غدر کے ناول ’علی پور بستی‘ میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
” امتیاز غدر نے اپنے پہلے ناول کے طور پر اچھا تجربہ کیا۔ وہ ہمیں غربت زدہ گھروں میں لے گئے، مسلم بستیوں میں زندگی گزارنے والے مردم شماری کی اہمیت سے واقف نہیں ہیں۔ ہم اس غیر ترقی یافتہ سماج کو دیکھتے ہیں جس کے بارے میں سچر کمیٹی اور رنگ ناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا کہ مسلمان دلتوں سے زیادہ بد تر زندگی گزارتے ہیں۔ اس زندگی کی جھلک یہاں آسانی سے دیکھنے کو ملتی ہے“۔ (صفحہ۔9)
امتیاز غدرنے اپنے تجربے اور مشاہدات کے حوالے سے اکہرے پلاٹ پر شان دار ناول نما محل تعمیر کیا ہے۔ قاری اگر اس ناول کو ایک بار پڑھنا شروع کرے تو آخر تک اس کے سحر میں خود کو بندھا ہوا محسوس کرتا ہے۔ ناول میں منظر نگاری کا کمال یہ ہے کہ جون، جولی، کریم شاہ اور کیلو میاں کے جذبات کی عکاسی کو امتیاز غدر نے حقیقت کی چاشنی میں لپیٹ کر پیش کیا ہے۔موصوف نے ناول کے پہلے باب سے لے کر آخر تک پوری کہانی کو بیانیہ انداز میں پیش کیا ہے۔ ناول کا بیانیہ اتنا دل چسپ اور پر اثر ہے کہ قاری ناول مکمل کرنے کے بعد ہی فرصت پاتا ہے۔ اس ناول میں حقیقت اور فسانے کے سفر میں جزئیات نگاری اور منظر کشی، زبان و بیان کی روانی اور سلاست کچھ اس طرح قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے کہ ایک ہی نشست میں پڑھ کر ختم کرنا چاہتا ہے۔ تجسس کے ساتھ ساتھ قاری زبان و بیان سے بھی لطف اندوز ہوتا جاتا ہے۔
زیر تبصرہ ناول ’علی پور بستی‘  میں جون اور جولی دو مرکزی کردار ہیں جو پڑھے لکھے ہیں اور کمپیوٹر کی تعلیم سے آراستہ بھی۔ دونوں ایک پس ماندہ بستی علی پور کی اقتصادی اور تہذیبی مردم شماری کی مہم پر نکلے ہیں اور اپنے کام کے دوران انھیں جن کرداروں سے سامنا ہوتا ہے وہ ہمارے سامنے کے کردار ہیں جو ہمارے معاشرے میں چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ جون اور جولی کو اپنے کام کے دوران بہت سے تجربات اور مسائل سے آگہی ہوتی ہے جو علی پور کے باشندوں کو درپیش ہیں۔ اس کے علاوہ بستی میں رہنے والے لوگوں کی عادات و اطوار اور طور طریقوں کو بھی اس ناول میں پر اثر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
بہ قول سلیم انصاری ”ناول ’علی پور بستی‘  انسانوں کے ایک ایسے معاشرے کی حقیقی کہانی کو بیان کرتا ہوا نظر آتا ہے جو موجودہ عہد میں سیاسی بے توجہی اور سماجی بے یقینی کا شکار ہے۔ امتیاز غدر کا یہ ناول حقیقی زندگی سے قریب تر ہے اور قابل مطالعہ بھی ہے“۔(صفحہ۔11)
امتیاز غدر بنیادی طور پر ایک افسانہ نگار ہیں لیکن کہانی کو بڑے کینوس پر پھیلا کر ناول اور ناولٹ بنانے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔ ان کے یہاں تصنع اور تکلف کی جگہ بےباکی، صاف گوئی اور جرأت اظہار کی خصوصیت پائی جاتی ہے۔ امتیاز غدر نے زندگی کے ٹوٹتے بکھرتے لمحوں کی کہانی بھی لکھی ہے اور بنتے سنورتے وقتوں کی داستان بھی، لیکن ہر جگہ خالص اپنے تجربات و مشاہدات کو اپنا رہ نما بنایا ہے۔ انھوں نے جو کچھ دیکھا، محسوس کیا یا بھوگا اسے ہو بہو کہانی بنا دیا بلکہ ایسے نجی اور خانگی معاملات بھی کھل کر بیان کر دیے جنھیں چھپانے کے لیے دوسرے لوگ سو سو جتن کرتے ہیں۔ میری دانست میں امتیاز غدر کی یہ بڑی خصوصیت ہے۔
قصہ کے بعد یہ ناول فلیش بیک میں اس بستی اور اس میں رہنے والوں کی داستان بیان کرتا ہے۔ جون اور جولی اقتصادی مردم شماری کے لیے عوام کے گھروں میں جاکر سوال کرتے ہیں اور فرحت بخش جواب کو اپنی ڈائری میں نوٹ کرتے جاتے ہیں۔ کرداروں کے اعتبار سے مکالمے بھی فطری اور مانوس ہیں۔ ناول نگار نے مکالموں کی مدد سے کئی جگہ بہت ہی اہم سوالات بھی جنم دیے ہیں۔ چند مثالیں پیش ہیں:
” آپ لوگ سرکار کے آدمی ہیں، ذرا بتائیے تو کیا سرکار کی جانب سے ہم کو کان میں لگانے والی مشین نہیں مل سکتی ہے؟ بھائی ماری سب بہت گالیاں دیتی ہیں لیکن سن ہی نہیں سکتے ہیں تو جواب کیسے دیں گے“۔
”نہیں ہم لوگ آدمی کی مالی حالت کیسی ہے، وہ کیا کام کرتا ہے وغیرہ کی جانکاری لینے آئے ہیں، اس کو اقتصادی مردم شماری کہتے ہیں“۔
امتیاز غدر نے اپنے افسانوں کی طرح ناول میں بھی اپنا سروکار سماج کے ایک ایسے طبقے سے رکھا ہے جو معاشرے میں نہ صرف ایک بہت عام سی زندگی گزارنے پر مجبور ہے بلکہ وہ اپنی زندگی میں آسائشوں اور آسودگیوں سے بھی محروم ہے۔ ناول کا موضوع اگر چہ اقتصادی، سماجی اور نسلی مردم شماری کو بنایا گیا ہے جو غالباً سرکار کے کسی اقتصادی منصوبے کا حصہ ہے۔موصوف نے ایک پورے طبقے کی اقتصادی، تہذیبی اور ثقافتی صورت حال کو نہایت خوب صورتی سے بیان کیا ہے۔ انھوں نے ناول میں اس تلخ حقیقت کو بھی واضح کیا ہے کہ اگر قوم و ملک میں تمام طبقات کی مساوی ترقی نہ ہو تو دوسروں کے مقابلے کم ترقی یافتہ رہ جانے والا طبقہ نہ صرف ایک ناسور بن جاتا ہے بلکہ دوسروں اور خود کے لیے بھی ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔
امتیاز غدر نے ’علی پور بستی‘ کے بد نصیب خاندانوں کا جو المیہ پیش کیا ہے، وہ قابل تحسین ہے۔ علی پور بستی سے مردہ انسانوں کی جو چیخ گونجتی ہے، اس کیفیت کو درد مندی کے ساتھ اپنے قاری تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ موصوف نے اس موضوع کے بہانے مرتے ہوئے ہندستانی سماج کا جائزہ پیش کیا ہے جس کی طرف نہ حکومت کا دھیان ہے اور نہ مسلم تنظیموں کا۔ یہ کوئی چھوٹا کام نہیں۔
اردو ناول اپنے عہد کی پیداوار ہے کیوں کہ آج بھی بہتر سے بہتر ناول تخلیق کیے جا رہے ہیں اور بہترین تخلیق کاروں میں امتیاز غدر نے اپنی منفرد شناخت قائم کر لی ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ ان کایہ ناول اکیسویں صدی میں اردو ناول نگاری کے باب میں اپنی علاحدہ پہچان قائم کرے گا۔
صاحب تبصرہ کی گذشتہ نگارش:نام کتاب : قفس سے آشیاں تک(جدید ایڈیشن)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے