ترنم ریاض کی افسانوی ریاضت وانفرادیت

ترنم ریاض کی افسانوی ریاضت وانفرادیت

ڈاکٹر قسیم اختر
اسسٹنٹ پروفیسر، مارواڑی کالج، کشن گنج (بہار)
موبائل:9470120116
qaseemakhtar786@gmail.com

ترنم ریاض نے نہ صرف خواتین تخلیق کاروں میں اپنی منفرد شناخت قائم کی ہے بلکہ انھوں نے نوّے کی دہائی کے بعد کی نسل کے افسانہ نگاروں میں اپنا دبدبہ قائم کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی افسانوی آواز مرد اور عورت تخلیق کاروں کے درمیان بہ آسانی سنی جاسکتی ہے۔ ان کی انفرادیت کی کئی وجوہات ہیں۔ اول، یہ کہ انھوں نے تواتر سے افسانے لکھے۔ تقریباً نصف درجن ان کے افسانوی مجموعے شائع ہوئے۔ گویا ترنم ریاض کی افسانوی ریاضت نے ان کے لیے تجربات کی راہیں ہموار کردیں۔ تجربات کی جدت اور موضوعات کی ندرت کی بنا پر فن کار اپنی انفرادیت قائم کرتا ہے۔ ترنم ریاض اس پہلو سے آگاہ تھیں۔ انھوں نے تجرباتی سطحوں پر پھونک پھونک [کر] قدم رکھا اور تہذیبی پگڈنڈیوں پر چلتے ہوئے قدیم تہذیب اور جدید احساسات کو مدغم کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں جہاں پرانے معاملات تہذیبی پس منظر میں ابھرتے ہیں، وہیں نئے طور طریقوں سے پیدا شدہ المیہ ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ کیوں کہ ترنم ریاض نے کشمیری معاملات کے اظہار کے ساتھ ساتھ شہری رویوں کو ترجیحی بنیاد پر اپنے فکشن میں شامل کیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ موجودہ عہد کے افسانہ نگاروں میں ترنم ریاض خصوصی مسائل برتنے کی وجہ سے اپنی منفرد شناخت رکھتی ہیں۔ یہ واقعہ ہے کہ انھوں نے اکیسویں صدی کی برق رفتار ترقیوں اور گم ہوتی پرانی تہذیبوں سے اپنا بیانیہ خلق کیا ہے۔ ان کے بیانیے میں شہری مسائل نے اپنا وافر حصہ طے کیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ترنم کے افسانوں میں کشمیر کا دیہی پس منظر اور کشمیر سے باہر کا شہر، مکمل آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صارفیت کے زیر اثر پیدا ہونے والے خیالات بھی ان کے یہاں بہت پائے جاتے ہیں۔ ترنم ریاض نے صارفیت اور مادیت سے شادی کے نظام کو بھی جوڑا ہے۔ گویا آج شادی بیاہ میں مادیت پرستی ایک توانا عنصر بن کر سامنے آتا ہے۔ اس توانائی میں سماج کا مکمل نقشہ تتر بتر نظر آتا ہے۔ ذیل میں ہم ترنم ریاض کے چند افسانوں کے فکری، فنی، لسانی اور موضوعاتی سروکار کا تجزیہ کریں گے، تاکہ ان کی انفرادیت سامنے آسکے۔
ترنم ریاض کا ایک افسانہ ”مائیں“ ہے جس میں انھوں نے ممتا کی پیکر تراشی کی ہے کہ ماں کے اندر جو ترحم کا جذبہ پایا جاتا ہے، وہ بڑھتی عمر کے ساتھ کم نہیں ہوتا ہے۔ ماں ہمیشہ ماں ہی رہتی ہے۔ بچوں کی شادی بھی ہوجائے تو بھی ماں کے سامنے بچہ بچہ ہی رہتا ہے۔ ترنم بنیادی طور پر اس افسانے میں دو ماؤں کو پیش کرکے معاشرتی طور پر ہمیں گدگدایا ہے۔ ایک ماں ہے، دوسری ان کی بیٹی ہے۔ بیٹی کی شادی ہوگئی ہے اور بیٹی کے پاس بھی بچے ہیں۔ گرمی سے بے حال ہونے والی بیٹی کے لیے ماں پریشان ہوجاتی ہے اور بیٹی اپنے بچوں کے لیے پریشان رہتی ہے۔ جب بیٹی اپنی ماں کی کیفیت دیکھتی ہے کہ وہ کس طرح پریشان ہے تب بیٹی کے اندر ماں کی محبت جاگ جاتی ہے۔ اس افسانے میں ترنم ریاض نے کوئی فلسفہ پیش نہیں کیا بلکہ سادگی سے ایک کہانی پیش کی ہے اور افسانے کے کردار جذبۂ ترحم کے ارد گرد گھومتے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو ترنم ریاض گہرائی میں اترتی ہیں اور کرداروں پر غور و فکر کرنے کے بعد کہانی بنتی ہیں۔ گویا وہ آپ بیتی میں جگ بیتی کے عناصر پیوست کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ترنم ریاض نے تخیلات یا پھر دور ازکار تشبیہات کے سہارے اپنی کہانیوں کو ماورائی کیفیتوں سے دوچار کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ انھوں نے عام فہم لفظوں اور عام واقعات میں غیر معمولی فکر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کہانیاں تفہیم کے لحاظ سے بھی آسان ہوتی ہیں اور لفظی ساخت کے لحاظ سے بھی۔
ترنم ریاض کے مذکورہ افسانے میں سماجی رویہ، پرانی قدریں، ممتا کی کیفیتیں، عورتوں کی نفسیات اور بچوں کی پرورش کے معاملات کو انتہائی شان دار طریقے سے پیش کردیا گیا ہے۔ کہانی پڑھتے پڑھتے کبھی کبھی ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ترنم ریاض نے کوئی کہانی نہیں پیش کی ہے بلکہ اپنے نجی واقعے کو تخلیقی پیراہن عطا کیا ہے۔ کیوں کہ ترنم ریاض ہندستانی قدروں کی پرستار تھیں۔ انھوں نے اپنی کہانیوں اور تقریروں میں ہمیشہ ہندستانی تہذیب کو بیان کیا ہے۔ انھوں نے ہمیشہ ایسے خیال کو پیش کیا جس سے سماج میں طمانیت کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ گویا وہ سماج میں اترتی ہیں اور سماجی مسائل پر توجہ کرتی ہیں۔ اس کے بعد حالات کا تجزیہ کرتی ہیں۔”مائیں“ افسانہ سے ایک اقتباس دیکھیں:
”آئیے اس چار پائی پر لیٹ جائیے۔ میں نے دیوار کے ساتھ چارپائی جلدی سے بچھائی۔ آئیے۔ میں تو بھول ہی گئی“۔ امی چارپائی پر لیٹ گئیں تومیں نے ایک اطمینان بھری نظر ان پر ڈالی۔ لیکن مجھے اپنے حلق میں کچھ اٹکا سا محسوس ہورہا تھا۔ پھر پل بھر کے بعد میں نیچے کو چل دی“۔(۱)
مذکورہ اقتباس میں دیکھیں کیسے ترنم ریاض نے جذبات اور ممتا کو تصادم آشنا بنا دیا ہے۔ بیٹی پہلے اپنے بچوں کو سکون پہنچانے میں مصروف تھی اور اسے ماں کا خیال نہیں تھا، مگر جب اس کو ماں کا خیال آیا اور ماں کی کیفیت دیکھی تو ماں کی خدمت میں لگ گئی۔ ماں کی حالت تھوڑی بحال ہوئی تو وہ پھر اپنے بچوں کی خدمت میں مصروف ہوگئی۔ اس طرح دیکھیں تو ترنم ریاض نے اس افسانے میں دو نسلوں کے جذبات اور ممتا کو اچھی طرح پیش کیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ترنم ریاض نے محسوسات کی بنیاد پر کہانیاں نہیں لکھیں بلکہ تجربات کو کہانی کا پیراہن عطا کیا ہے۔
ترنم ریاض کی دوسری کہانی ”بابل“ ہے۔ اس کہانی میں انھوں نے غیر برابری کی شادی کو انتہائی شان دار طریقے سے پیش کیا ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ اس میں مادیت کا زور نظر آتا ہے تو زیادہ مناسب بات ہوگی۔ کیوں کہ ماں باپ بھی ایسی شادیوں کے ذمے دار ہوتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ بچیوں سے کہیں زیادہ ماں باپ بیٹی کی شادی میں مادیت کو نگاہ میں رکھتے ہیں۔ ترنم ریاض نے گویا اس کہانی میں غیر برابری کی شادی کو نشانۂ تنقید بنایا ہے اور پرسکون انداز میں مادیت پرست والدین کو نشانۂ تنقید بنایا ہے۔ اس لیے انھوں نے اس افسانے کو غیر برابری کے مرکز پر لاکر چھوڑ دیا ہے:
”بہر حال چشمے والا آدمی لڑکی کا ہاتھ پکڑ کر اسے پلیٹ فارم سے لے جانے لگا۔ اس نے لڑکی کا سر دوسرے ہاتھ سے اپنے اس شانے پر ٹکادیا تھا جہاں لڑکی کے والد نے پہلے سے ایک شال رکھا ہوا تھا۔… اوہ… تو وہ اس کا جیٹھ نہیں شوہر تھا۔ مجھے سینے کے اندر اپنا دم قید ہوا محسوس ہونے لگا۔ لڑکی سوگوار سی چل رہی تھی۔ دونوں دیوار سے کچھ فاصلے پر ہنستے ہوئے آرہے تھے۔“(۲)
مذکورہ اقتباس سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ کس طرح ترنم ریاض نے غیر برابری کی شادی کو نشانۂ تنقید بنایا ہے۔ اس افسانے میں ترنم ریاض نے درد بھرنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے یہ دکھایا ہے کہ اکیسویں صدی میں مسلم سماج کی لڑکیاں کس قدر بے دست و بازو ہیں کہ انھیں شادی کے معاملے میں بھی پسند اور ناپسند کا اختیار نہیں ہے۔ ترنم نے یقینا موجودہ عہد کی ایسی کہانی میں درد بھر کر سماج کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ ترنم نے افلاطونی خیالات اور ملکوتی انداز سے سروکار نہیں رکھا ہے، بلکہ ان کے موضوعات سوال بن جاتے ہیں اور سماج سے سوال کرتے ہیں کہ ایسے حالات میں ایک لڑکی کی کیا قدر و قیمت ہے۔ گویا ترنم ریاض زبان حال سے کہہ رہی ہیں کہ اُس عہد کی لڑکیاں بہتر تھیں، جب انھیں زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔ انھیں ایک دفعہ ہی ختم کردیا جاتا تھا، مگر آج تو غیر برابری کی شادی سے ایک لڑکی ہزار دفعہ مرتی ہے۔ ترنم ریاض نے اسی خیال کو مرکزی نکتہ عطا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترنم ریاض اپنی کہانی میں ایک سوال بن جاتی ہیں اور سماج سے باربار پوچھتی ہیں۔
”ابابیلیں لوٹ آئیں گی“ میں شامل افسانہ ”شہر“ ایک انتہائی کام یاب افسانہ ہے اور ترنم ریاض کے تخیل کی بے مثال کہانی ہے۔ کیوں کہ انھوں نے اس افسانے میں شہری معاملات کی علتوں اور پریشانیوں کو انتہائی شان دار رخ دیا ہے۔ اس کہانی میں ترنم ریاض نے شہر کی خوف ناکی کو ایک الگ زبان دی ہے۔ شہری زندگی میں لوگوں سے لاتعلقی اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ لوگ اپنی غرض سے ہی مطلب رکھتے ہیں۔ افسا نے سے پہلے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
”ممی“اس نے ممی کو پوری طاقت سے جھنجھوڑا مگر ممی بے حس وحرکت پڑی رہیں۔ وہ کچھ دیر گم سم سا بیٹھا رہا۔ پھر ثوبیہ کے قریب جاکر اس نے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے آنسو پونچھے۔”نہیں رونا ثوبی“ ممی سورہی ہیں، مگر ثوبی تھی کہ چپ ہی نہیں ہورہی تھی۔
”چپ ہوجا“۔ وہ چیخا اور ساتھ ہی ڈھاریں مار مار کر رونے لگا۔“
جانے کب تک دونوں بہن بھائی روتے رہے مگر امی نے چپ ہی کرایا نہ کچھ بولیں۔“(۳)
اس افسانے کی کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک ماں اپنے دو بچوں کے ساتھ نئے شہر میں آئی ہیں۔ وہ برسر روز گار ہیں۔ ان کے دو چھوٹے بچے ہیں۔ بند فلیٹ میں ماں کا انتقال ہوگیا ہے۔ دونوں بچے اس قابل نہیں ہیں کہ موت کے مفہوم کو سمجھ سکیں۔ اس لیے وہ بچے ماں ماں چیختے ہیں، چلاتے ہیں کہ ماں ان کو کچھ کھانے پینے کو دیں، مگر ماں کی موت واقع ہوگئی ہے۔ جب ماں کی بو ادھر ادھر پھیلتی ہے تو ماں کی موت کا پتا چلتا ہے۔
ترنم ریاض کی یہ کہانی ان کی اکثر کہانیوں پر بھاری ہے۔ کیوں کہ انھوں نے نہ صرف شہری مزاج کا تجزیہ کیا، بلکہ خوف ناکی کے ساتھ آنے والے زمانے کی پیشین گوئی بھی کردی کہ آئندہ فلیٹوں کی کیا صورت حال ہوگی۔ دیہی تہذیب میں لاکھ خود غرضیاں ہوں، تاہم دیہات میں یک گونہ محبت و مؤدت احساس ہوتا ہے۔ اپنائیت ہوتی ہے۔ انسان ایک دوسرے کے درد میں شریک ہوتا ہے، تاہم شہر نے انسانوں سے انسانیت چھین لینے کی قسمیں کھالیں۔ اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ترنم ریاض نے شہر کے مسائل کا جس انداز سے تذکرہ کیا، اس کی مثالیں خال خال ہی ملتی ہیں۔ کیوں کہ انھوں نے شہری مزاج سے اپنے مزاج کو ہم آہنگ کرلیا ہے اور امکانی مسائل پر افسانہ بننے کی کوشش کی ہے۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ ترنم ریاض نے لکھنے سے زیادہ سوچنے پر وقت خرچ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں کی فضا خوف ناکی اور امکانی مسائل سے لبریز ہے۔
کام یاب تخلیق دراصل وہی ہوتی ہے جو اپنی حس کی بنیاد پر آئندہ کے حالات کی جھلکیاں دکھادے۔ ترنم ریاض کی یہ خوبی ہے کہ انھوں نے حالات سے پیدا شدہ معاملات سے مستقبل میں برآمد ہونے والی خطرناکی کا اندازہ کرلیا ہے اور اپنے قاری کو زمانے کی سنگلاخی سے باخبر کردیا ہے۔
یہ واقعہ ہے کہ ترنم نے شہری مسائل پر گہرائی سے غور و فکر کیا ہے اور کشمیر کے دیہات اور وہاں کے نازک حالات کی عکاسی کی ہے۔ رہی بات زبان و بیان کی تو یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ وہ ناولوں سے کہیں زیادہ افسانوں میں کام یاب نظر آتی ہیں۔ کیوں کہ ان کے افسانوں کی زبان میں جو سلاست ہے وہ ان کے ناولوں میں نظر نہیں آتی ہے۔ ان کے اسلوب کے بارے میں وارث علوی لکھتے ہیں:
”ان کے اسلوب میں شاعرانہ ہتھ کنڈوں کا استعمال نہیں۔ وہ سازینہ بھی نہیں جو کھنکتے لفظوں کے جل ترنگ سے پیدا ہوتاہے۔ رومانی تخیل کی وہ فضا آفرینی بھی نہیں جس میں مدھر میٹھے لفظوں کی رِم جھم برسات ہوتی ہے۔ ایسی کوئی چیز ترنم ریاض کے یہاں نہیں، غنائیت ہے گو ہم نہیں جانتے ہیں کہ اس کا سرچشمہ کہاں ہے۔“(۴)
سچی بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنے اسلوب کو ثقیل کرنے یا پھر لفظی طور پر دھونس جمانے کی کوشش نہیں کی ہے، بلکہ فطری انداز سے انھوں نے اپنے افسانوں کو آگے بڑھایا ہے۔ ان کے اسلوب کا فطری پن ایک بڑی نعمت ہے۔کیوں کہ انھوں نے ہر جگہ کہانی کے تقاضے کے مطابق زبان استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔
ترنم ریاض نے مکالمے کے ذریعے غیر ضروری طور پر کہانی کو آگے بڑھانے کی کوشش نہیں کی ہے بلکہ کہانی کی فنی ضرورتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی بات کہنے کی کوشش کی ہے۔ ترنم ریاض یقینا اپنی معاصر عورتوں میں حددرجہ نمایاں ہیں۔ ان کی افسانوی فضا میں ہمارا سماج اس قدر رچا بسا ہوا معلوم ہوتا ہے کہ ہم اپنے معاملات کو انگیز کرنے لگ جاتے ہیں۔ کیوں کہ ترنم ریاض نے اپنی کہانیاں کتابوں سے اخذ کرنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ انھوں نے اپنی نظر سے واقعے کو دیکھا اور محسوس کیا ہے اور دیکھے ہوئے واقعات میں اپنا نظریہ شامل کردیا ہے۔ اس طرح ان کی کہانیاں تجربات اور مشاہدات کے تصادمات سے سامنے آتی ہیں۔ پروفیسر عتیق اللہ نے ان کے افسانوں کے متعلق لکھا ہے:
”ترنم ریاض کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو وہ کسک ہے جسے ایک ٹیس کی طرح ان فسانوں کے بطن میں محسوس کیا جاسکتاہے۔ اگرچہ ان افسانوں کا ماحول اور سارا سیاق بے حد خاموش آگیں ہے، لیکن اسی خامشی کے اندر جو بلا کا شعور برپا ہے، اسے ان کا قاری بہت جلد محسوس کرلیتا ہے۔ ترنم ریاض میں چیزوں کو ان کے اندر اتر کردیکھنے کی جو صلاحیت ہے وہ ایک افسانہ نگار کے لیے بڑی نیک فال ثابت ہوتی ہے۔“ (۵)
قاری کو متاثر کرنے میں افسانے کی زبان اور موضوع اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ترنم ریاض کے یہاں موضوعات کی جدت ہے بلکہ یوں کہیں کہ پرانے موضوعات کو باندھنے کا نیا انداز انھیں آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے موضوع میں خوف ناکی پیدا ہوجاتی ہے۔ کیوں کہ ہمارا موجودہ معاشرہ ایک خوف ناک معاشرہ ہے۔ اس معاشرے کی سچی تصویر کھینچنے کے لیے خوفنا کی کا سہارا لینا ضروری ہے۔ الغرض ترنم ریاض نے شہری معاملات سے جو نتائج اخذ کیے ہیں اور نتائج کو جو تخلیقی رنگ عطا کیا ہے، وہ انتہائی خوب ہے۔ کیوں کہ انھوں نے تہہ داری میں اتر کر مسائل کو انگیز کیا ہے اور اس انگیزی سے ان کے افسانوں میں اثر پذیری پیدا ہوگئی ہے۔
حواشی:
(۱)ترنم ریاض، ابابیلیں لوٹ آئیں گی، ایم آرپبلی کیشنز دہلی، 2002، ص 137۔
(۲)ترنم ریاض، ابابیلیں لوٹ آئیں گی، ایم آرپبلی کیشنز دہلی، 2002،،ص108۔
(۳)ترنم ریاض، ابابیلیں لوٹ آئیں گی، ایم آرپبلی کیشنز دہلی، 2002،،ص167۔
(۴)وارث علوی، گنجفہ باز خیال، مورڈن پبلشنگ ہاؤس دہلی،2007، ص123۔
(۵) ماخوذ فلیپ، ابابیلیں لوٹ آئیں گی۔

صاحب مضمون کی یہ نگارش بھی پڑھیں: حقانی القاسمی: ایک تخلیقی نقاد

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے