سنگ دل سے عشق گر ہوتا نہیں

سنگ دل سے عشق گر ہوتا نہیں

نعمت اللہ پیغمبرپوری

سنگ دل سے عشق گر ہوتا نہیں
پھر بچھڑنے کا تو ڈر ہوتا نہیں
وہ جو کرتا میری اُلفت کو قبول
پھر غموں کا تو اثر ہوتا نہیں
وہ شجر کس کام کا ہے دوستو
سایہ جس کا اور ثمر ہوتا نہیں
چھوڑ کر دُنیا یہ جاتا کون پھر
یہ سفر گر مختصر ہوتا نہیں
قدر اُلفت کی اگر ہوتی یہاں
تو پھر انساں در بدر ہوتا نہیں
ماں کی”نعمت" تم دُعا لیتے رہو
یہ نہ سمجھو کے اثر ہوتا نہیں
***
نعمت اللہ پیغمبر پوری کی گذشتہ غزل:میں بیج اُلفت کا بونا چاہتا ہوں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے