ایک گم شدہ کردار

ایک گم شدہ کردار

غضنفر

اردو کی بیشتر تصانیف مصنّف کی سنجیدگی، ناشر کی نیک نیتی، مواد و موضوع کی عمدگی، اچھّی لاگت، نفیس کاغذ، خوب صورت طباعت اور معقول تزئین کاری کے باوجود اچھّی اور معیاری نہیں بن پاتیں۔ اس لیے کہ اردو اشاعتی اداروں کے پاس وہ جادوئی کردار نہیں جس کے تنتر منتر سے مسودے متناسب، متوازن، مستند اور معتبر صورت اختیار کرتے ہیں، منتشر خیالات متحد ہوتے ہیں، بے ترتیبی ترتیب پاتی ہے، جس کی پھونک سے تحریروں میں جان پڑتی ہے، کتابیں سجتی، سنورتی اور نکھرتی ہیں۔ مستند، معتبر، معیاری اور مفید بنتی ہیں اور ان کے جمال و کمال کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔
کتاب کا یہ وہ کردار ہے جو مصنف تو نہیں ہوتا مگر مصنّف کے موضوع اور منشا تک رسائی ضرور رکھتا ہے بلکہ اپنی دوربیں بصارت اور ساحرانہ بصیرت کی بدولت ایک قدم آگے بڑھ کر یہ بھی دیکھ لیتا ہے کہ مصنّف کا موضوع تناسب اور توازن کے ساتھ پیش ہوا ہے یا نہیں؟ تفصیلات بے جا طوالت کی شکار تو نہیں ہوگئی ہیں؟ اختصار کے چکر میں ضروری باتیں چھوٹ تو نہیں گئی ہیں؟ مصنف کا منشا متن کی دبازت کے نیچے کہیں دب تو نہیں گیا ہے؟ تصنیف کا مقصد انشا و اسلوب کی بھول بھلیوں میں کہیں کھو تو نہیں گیا ہے؟ اس کی باریک بیں نظریں ان کھانچوں کو بھی دیکھ لیتی ہیں جو مصنف کی نگاہوں سے بچے رہ جاتے ہیں اور جن سے کتاب کا توازن بگڑ جاتا ہے اور حسن مجروٗح ہوجاتا ہے۔ وہ کردار اُن کمیوں اور کوتاہیوں کو صرف دیکھتا ہی نہیں بلکہ مصنف کی مدد سے انھیں دور کرنے کا جتن بھی کرتا ہے۔ وہ ان کی جانب مصنف کی توجہ اس خوش اسلوبی سے دلاتا ہے کہ اس کی گرفت مصنّف پر گراں نہیں گزرتی اور مصنّف بغیر کسی نفسیاتی الجھن اور احساس کا شکار ہوئے اُن حصّوں کی اصلاح، نظرثانی یا ازسرنو لکھنے کے لیے آمادہ ہوجاتا ہے۔
وہ کردار نقاد بھی نہیں ہوتا لیکن ایسا زبردست تنقیدی شعور رکھتا ہے کہ کتاب کے آغاز سے لے کر اختتام تک کے مراحل کو ایک اچّھے اور سچّے پارکھی کی طرح پرکھ لیتا ہے۔ وہ ایسا باذوق ہوتا ہے کہ شعر کا سقم اس کے سامنے خود بخود بول پڑتا ہے۔ بے وزن مصرع اپنی بے وزنی یا کم ارکانی کا فوراً اقرار کرلیتا ہے۔ وہ کردار اس قدر علم رکھتا ہے کہ عبارت پر نظر پڑتے ہی حقائق کی غلطیاں اپنی آنکھیں کھول دیتی ہیں۔ معلومات کی کمیاں اپنا سچ اگل دیتی ہیں۔ وہ اس درجہ باریک بیں ہوتا ہے کہ زبان و قواعد کی معمولی سے معمولی غلطی بھی اس کی آنکھوں میں آجاتی ہے اور اس طرح اس کا تنقیدی شعور مناسب اور موزوں ترمیم و تنسیخ کرکے کتاب کو غلطیوں، کمیوں، کوتاہیوں اور بے اعتدالیوں سے بچالیتا ہے۔
وہ ایک باخبر اور ہمہ داں کردار ہے جو مواد و موضوع کے متعلقات کے ساتھ ساتھ فنِ تحریر، رسمُ الخط، اصولِ املا، رموزِ اوقاف، مخفّفات و علامات اور تدوین و ترتیب کے دیگر امور سے بھی واقف ہوتا ہے۔ وہ ایک ایسا مہم جو کردار ہے جو راہ کی مشکلوں، مصیبتوں اور صعوبتوں کی پرواہ کیے بغیر مسودے کو مسائل کے گھیرے سے نکال کر نشر و اشاعت کی کھلی فضا میں پہنچانے کا کام کرتا ہے۔ وہ ایک ایسا میکانک ہوتا ہے جسے مسودے کی گاڑی کے بگڑے ہوئے ایک ایک کل پُرزے کو ٹھیک کرنا اور انھیں ان کی جگہ پر کسنا آتا ہے۔ اسی لیے وہ عنوان بندی، پیرابندی اور ابواب بندی سے لے کر تحشیہ کاری، حوالہ نگاری، اشاریہ سازی، ببلوگرافی، طباعتی و اشاعتی سرگرمی سبھی پر ناقدانہ نظر ڈالتا ہے اور جہاں بھی کوئی خامی یا خرابی نظر آتی ہے اسے گرفت میں لے کر درست کردیتا ہے اور ایسا وہ اس لیے کرپاتا ہے کہ وہ ایک ایک کی حقیقت اور ماہیئت سے پوری طرح واقف ہوتا ہے۔ وہ یہ جانتا ہے کہ عنوان، پیراگراف اور باب یہ تینوں ایسے دروازے ہیں جو قاری کو کتاب کے اندر تک داخل ہونے، اس کے تمام تر گوشوں تک پہنچنے اور اس کی مکینوں سے متعارف ہونے میں راہ نمائی کا کام کرتے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ صحیح رہ نمائی کے لیے ان تینوں دروں کو کیسا ہونا چاہیے؟ اسے یہ معلوم ہے کہ عنوان اگر نمایاں، واضح، پرکشش، مختصر اور موضوع کے مطابق اور مواد سے ہم آہنگ ہے تو کتاب پوری طرح کھل جاتی ہے اور اگر مبہم، مجرّد، غیر واضح اور موضوع و مواد سے ہم آہنگ نہیں ہے تو کتاب کے بہت سے باب بند رہ جاتے ہیں۔ بہت سے دریچے بے کھلے رہ جاتے ہیں۔ اسے پتا ہے کہ ایک باب کے ایک ایک خیال اور ایک خیال کے ایک ایک پہلو اور ایک پہلو کے ایک ایک نکتے کو واضح کرنے اور انھیں ایک دوسرے سے ممتاز و منفرد دکھانے کے لیے پیرابندی کی ضرورت پڑتی ہے اور پیرابندی کا کمال یہ ہے کہ پیراگراف ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے جڑے رہیں۔ ساتھ ہی مرکزی خیال کے دھاگے سے بندھے رہیں تاکہ مضبوطی اور بھرپور معنویت کے ساتھ مرکزی خیال کا سرا آگے بڑھ سکے۔
پیرابندی کی طرح وہ ابواب بندی کے ہنر سے بھی واقف ہوتا ہے اور یہ جانتا ہے کہ جس طرح پیراگراف باب کی اکائی ہے اسی طرح باب کتاب کی اکائی ہے۔ پیراگراف میں خیال کو آگے بڑھانے کا کام جملے کرتے ہیں اور باب میں یہ کام پیراگراف انجام دیتے ہیں۔ ابواب بندی میں بھی وہی ہنرمندی کام آتی ہے جو پیرابندی میں استعمال ہوتی ہے البتہ یہاں عنوان کے تقاضے کے مطابق تمام کوائف کا احاطہ کرنا ضروری ہوتا ہے اور اس فن کاری کا اہتمام بھی جس سے شوق بے قرار اور پھر اور پھر یعنی (Then & Then) کی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے تاکہ باب کے آخر میں ایک تشنگی باقی رہ جائے جو قاری کے دل و دماغ میں تجسّس ابھار سکے اور وہ تجسّس اسے اگلے باب تک پہنچا سکے۔
وہ جانتا ہے کہ رسمِ خط کی باریکیاں کیا ہوتی ہیں؟ کہاں حروف ٹوٹ کر جُڑتے ہیں اور کہاں بغیر ٹوٹے ملتے ہیں؟ بمباری میں ب کی دونوں شکلیں ایک دوسرے سے مختلف کیوں ہیں؟ باد اور بد میں د کی شکل الگ الگ کیوں بنائی جاتی ہے؟ کس کس لفظ کا املا آج چلن سے باہر ہوگیا ہے؟ (اور اب ان کی شکل و صورت کیسی دکھائی دیتی ہے) مثلاً اسے معلوم ہے کہ درد، دوا اور داروٗ میں حروف نہیں ٹوٹتے۔ ان کے برعکس، بیمار، علاج اور شفا میں حروف شکستہ ہوجاتے ہیں۔ (غنڈا، غٹاغٹ اور فٹافٹ کا املا آج بھی رائج ہے جب کہ یہ تینوں انڈک (ہندوستانی) الفاظ ہیں۔ اس لیے کہ ان میں معکوسی آوازیں ٹ اور ڈ شامل ہیں اور اصولاً ان میں غ اور ف کے بجائے گ اور پھ کا استعمال ہونا چاہیے جب کہ اسی اصول کے تحت اڈّا، باڑا اور اکھاڑا کو” ہ ” مختفی کے بجائے” ا ” سے لکھنے کی سفارش کی گئی ہے اور اس پر عمل بھی ہورہا ہے) لیے، دیے، کیے وغیرہ ہمزہ کے بغیر لکھے جانے لگے ہیں اور چائے، گائے، بھاؤ تاؤ اور مائل، مسائل جیسے الفاظ ہمزہ سے لکھے جارہے ہیں۔ اسے معلوم ہے کہ سَن، سِن، سُن، رو، رَو، روٗ اور بیل، بَیل، بیٖل میں فرق کرنے کے لیے کیا کیا جاتا ہے؟ کہاں کون سے اعراب و علامات لگائے جاتے ہیں؟ اسے یہ بھی معلوم ہے کہ
ع بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل
میں کہاں اور کیوں اضافتِ زیر کا استعمال ہوگا؟ کہاں ہمزہ کی علامت لگے گی اور کس جگہ علامت یائے مہموز بنائی جائے گی؟
رسمِ خط اور املا کی باریکیوں کے ساتھ ساتھ اسے اِس راز کا بھی علم ہے کہ تحریر میں وقفوں کے رموز کیا ہیں؟ ان کے ہونے سے کیا ہوتا ہے اور نہیں ہونے سے کیا ہوجاتا ہے؟ جب وہ ہوتے ہیں تو تحریر میں کیسے روانی اور آسانی پیدا ہوجاتی ہے؟ ان سے ناسمجھی اور غلط فہمی کیسے چٹکیوں میں دور ہوجاتی ہے؟ اور جب وہ نہیں ہوتے ہیں تو کیسے سب کچھ گڈمڈ ہوجاتا ہے۔ عبارت میں گھال میل پیدا ہوجاتا ہے۔ جملے الجھ جاتے ہیں۔ پڑھنے والوں کی الجھنیں بڑھ جاتی ہیں۔ لکھنے والا بعض وقت پریشانیوں میں پڑجاتا ہے اور چھاپنے والا بھی کبھی کبھی قانون کے شکنجے میں آجاتا ہے۔
وہ کردار جس کا یہاں ذکر ہورہا ہے ایسی صورتِ حال میں نجات دہندہ کا کام کرتا ہے اور قاری، مصنّف اور ناشر تینوں کو مصیبتوں سے چھٹکارا دلاتا ہے۔ اس لیے کہ وہ یہ بھید جانتا ہے کہ تحریر میں:
سکتہ ، کہاں روکتا ہے؟
وقفہ ؛ کہاں ٹھہراتا ہے؟
ختمہ ۔ کس جگہ پہنچاتا ہے؟
رابطہ : کسے اور کس طرح جوڑتا ہے؟
سوالیہ ؟ کیسے پکارتا ہے؟
ندائیہ ! کیسے بولتا ہے؟
فجائیہ ! کا اظہار کب اور کس طرح ہوتا ہے؟
واوین” “ کہاں اور کس کو بند کرتے ہیں؟
قوسین ( ) کیسے اور کہاں گھیرتے ہیں؟
مثلاً اسے پتا ہے کہ آنا، تو خفا آنا؛ جانا، تو رُلا جانا۔
جو کرے گا، سو پائے گا؛ جو بوئے گا سو کاٹے گا۔
میں کہاں سکتہ استعمال ہوگا؟ کہاں وقفہ لگے گا وار کس جگہ ختمہ کا نشان لگایا جائے گا؟
(اسی طرح اسے یہ بھی علم ہے کہ اس عبارت میں:
سرسید خود تہذیب الاخلاق میں لکھتے ہیں:
”جہاں تک ہم سے ہوسکا ہم نے اردو زبان کے علم و ادب کی ترقی میں اپنے ان ناچیز پرچوں کے ذریعے کوشش کی۔ مضمون کی ادائگی کا ایک سیدھا اور صاف طریقہ اختیار کیا۔“
میں کہاں کون سا نشان لگے گا اور اس کی منطق کیا ہوگی؟)
رموزِ اوقاف کے علاوہ وہ ان مخفّفات سے بھی متعارف ہوتا ہے جو زیادہ کو مختصر کرکے لکھنے کے ہنر کا حسن دکھاتے ہیں۔ جن سے تحریر میں ایجاز و اختصار کا وصف تو پیدا ہوتا ہی ہے ادب و احترام کے آداب بھی آتے ہیں اور مختلف طرح کے ناموں اور شخصیتوں کے درجات کا امتیاز بھی واضح ہوتا ہے۔ مثلاً وہ یہ جانتا ہے کہ یونین پبلک سروس کمیشن کو یو-پی-ایس-سی اور نیشنل کونسل آف ریسرچ سنٹر اینڈ ٹریننگ کو این-سی-ای-آر-ٹی لکھ کر وقت، جگہ اور لائن تینوں کی بچت کرتے ہیں اور ان مخفّفات میں ہر حرف کے بعد ختمہ کا نشان لگاتے ہیں۔ محترم ناموں کے ساتھ جو تعلیمی کلمات استعمال ہوتے ہیں انھیں پورا نہ لکھ کر ان کے مخفّفات کا نشان بناتے ہیں۔ مثلاً محمدؐ کے ساتھ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ اس کلمہ کا مخفف ؐ اور صحابہ کے ناموں کے ساتھ رضی اللہ عنہ یا عنہا کے بجائے ان کا مخفف ؓ لکھا جاتا ہے۔
وہ کردار اس حقیقت سے بھی باخبر ہوتا ہے کہ کتابیں محض مصنّف کے اپنے خیالات و تجربات سے مکمل نہیں ہوتیں۔ صرف اسے اپنے بیانات انھیں معتبر اور مستند نہیں بناتے اور وہ صرف املا و علامات کی درستگی سے بہتر نہیں بن پاتیں بلکہ انھیں تکمیلیت تک پہنچانے میں دوسروں کے بیانات و اقوال بھی اہم رول ادا کرتے ہیں۔ انھیں اعتبار بخشتے ہیں، استناد کا درجہ عطا کرتے ہیں اور ان کتابوں کی افہام و تفہیم اور تحسین و تقویم میں متن کے علاوہ کچھ دوسری وضاحتیں بھی معاونت کرتی ہیں جنھیں حاشیوں پر درج کیا جاتا ہے۔ چنانچہ وہ حواشی اور حوالوں پر بھی نظر رکھتا ہے۔ حواشی اور حوالوں پر اس لیے نظر رکھتا ہے کہ وہ یہ راز جانتا ہے کہ ان میں وہ چابیاں رکھی جاتی ہیں جن سے پیشِ نظر افکار و خیالات کے خزانے کا قفل آسانی سے کھل جاتا ہے اور ان کی مدد سے فکر و نظر کے کچھ دوسرے گنجہائے گراں مایہ بھی ہاتھ لگ جاتے ہیں۔ اس لیے وہ ان کے ایک ایک اندراج پر نظریں جماتا ہے اور اس بات کی پوری طرح تسلی کرتا ہے کہ تمام ضروری اندراج موجود ہیں اور وہ بنیادی مآخذ تک رسائی کے لیے کافی ہیں۔ اس جانب وہ اس لیے بھی زیادہ متوجہ ہوتا ہے کہ وہ یہ جانتا ہے کہ اخلاقی اور قانونی دونوں اعتبار سے یہ ضروری ہے کہ مصنّف اپنے مآخذ کی صحیح نشان دہی کرے۔ خصوصاً اس وقت جب وہ براہِ راست کسی مآخذ کا حوالہ دے رہا ہو اور اگر مصنف کے اندراج میں کسی قسم کی کوئی غلطی راہ پاگئی ہے تو اس کردار کا یہ فرض ہے کہ وہ اسے درست کرانے کا جتن کرے۔
وہ یہ بھی جانتا ہے کہ حواشی کا مواد متن کے متضاد کا درجہ رکھتا ہے اس لیے اسے حاشیوں پر درج کیا جاتا ہے۔ حاشیوں پر درج یہ مواد متن میں موجود ان نکات و اصطلاحات وغیرہ کی وضاحت ہے جس کے بغیر متن کی تفہیم آسان نہیں مگر یہ وضاحت متن کے اندر ممکن نہیں کہ ایسا کرنے سے متن بے ربطگی اور گنجلک پن کا شکار ہوسکتا ہے۔ بیان کی روانی رُک سکتی ہے۔ حواشی کے اندراج کے طریقوں کا بھی اسے علم ہے کہ کچھ کتابوں میں حواشی کا اندراج صفحہ کے چاروں طرف چھوڑے گئے حاشیوں پر ہوتا ہے۔ کچھ میں صفحے کے نچلے حاشیے پر، بعض تصانیف میں ہر ایک باب کے بعد اور بعض میں کتاب کے آخر میں اور اسے یہ بھی معلوم ہے کہ اس میں کون سا بہتر طریقہ ہے۔ وہ اس بات سے بھی واقف ہے کہ مآخذ کے حوالے میں کن کن امور کا اندراج ضروری ہے اور بنیادی مآخذ مصنّف ہوتا ہے یا تصنیف؟ کچھ لوگ بنیادی مآخذ مصنف کو سمجھتے ہیں اور حوالوں کے اندراج میں یہ طریقہ اپناتے ہیں:
مصنّف، تصنیف، جلد، اڈیشن، ناشر، جائے اشاعت، سنِہ اشاعت، صفحہ۔ مثلاً کسی کتاب میں شبلی نعمانی کے شعرالعجم سے کوئی حوالہ آگیا ہے تو اس کا اندراج یوں کرتے ہیں:
شبلی نعمانی، شعرالعجم، جلد چہارم، پہلا اڈیشن، مطبوعہ معارف پریس، اعظم گڑھ، ١٩٥١ء ص ۲۔
اور کچھ لوگ تصنیف کو بنیادی مآخذ قرار دیتے ہیں اور حوالوں کا اندراج یوں کرتے ہیں:
شعر العجم، جلد چہارم، پہلا اڈیشن، شبلی نعمانی، مطبوعہ معارف پریس، اعظم گڑھ، ١٩٥١ء، ص ۲۔
مگر وہ سمجھتا ہے کہ اصل یا بنیادی مآخذ مصنف ہوتا ہے، تصنیف نہیں۔ اس لیے کہ مصنف ہی اس کتاب کی تخلیق یا تصنیف کا سبب ہوتا ہے اور اس میں پیش کیے جانے والے مواد و موضوع کا ذمّے دار بھی۔ چونکہ شعرالعجم میں فراہم کی جانے والی معلومات کا اصل مآخذ مصنف ہے اس لیے مآخذ میں شبلی کا اندراج ہونا چاہیے۔ اس لیے بھی کہ یہ عین ممکن ہے کہ ایسے ہی خیالات جو اس کتاب میں مصنف نے پیش کیے ہیں اپنی کسی اور تصنیف یا تحریر میں بیان کیے ہوں جیسا کہ شعر و شاعری کی اہمیت اور ماہیت کے بارے میں جو بعض باتیں شعرالعجم میں بیان کی ہیں وہی باتیں موازنہ انیس و دبیر میں بھی لکھی گئ ہیں۔ اس صورت میں بنیادی وسیلہ مصنّف ہی کا ہے۔
اس کردار کو یہ بھی معلوم ہے کہ حوالے کو مختصر ہونا چاہیے تاکہ غیر ضروری تفصیلات سے بچا جاسکے اور بہت کم جگہ میں زیادہ اندراج ہوسکے۔ حوالے کو صرف بنیادی تفصیلات تک محدود رہنا چاہیے۔ مولانا، مولوی، ڈاکٹر، حکیم وغیرہ اصل نام کا حصّہ نہیں ہوتے اس لیے انھیں حوالہ دیتے وقت چھوڑ دینا چاہیے۔
کتاب کی حیثیت اگر تصنیف کے بجائے ترتیب یا ترجمے کی ہے تو اس صورت میں بنیادی حوالہ مصنّف کا دیا جائے گا یا مرتّب کا یا دونوں کا؟
(کسی ایسی کتاب کو استفادے میں لایا جارہا ہے جس کو ایک سے زیادہ مصنّفین نے لکھا ہے یا مرتّب کیا ہے تو حوالے میں کیا سبھی ناموں کا اندراج ہوگا یا کچھ اوّلین ناموں کا؟)
تصنیف یا ترتیب میں کسی رسالے یا جریدے میں چھپے کسی مضمون سے استفادہ کیا جارہا ہے تو اس کا حوالہ کس طرح دیا جائے گا اور گمنام مصنّف کے سلسلے میں کیا کیا جائے گا؟ ان تمام باتوں سے بھی وہ کردار واقف ہوتا ہے اور انھی کی روشنی میں اپنا کردار نبھاتا ہے۔
وہ کردار اشاریہ ساز تو نہیں ہوتا مگر وہ یہ جانتا ہے کہ کسی کتاب کے معنی و مفہوم تک رسائی کے لیے جو امور قارئین کی رہ نمائی کرتے ہیں ان میں اشاریہ بھی ایک ہے۔ اشاریہ وہ قطب نما ہے جو ہر ایک قاری کو اس کے اپنے قبلے تک پہنچاتا ہے۔ اس کی موجودگی میں قاری کو اپنے قبلے کی تلاش میں ادھر اُدھر بھٹکنا نہیں پڑتا۔ یعنی اشاریہ دنیائے تصنیف کا وہ خضر ہے جسے پتا رہتا ہے کہ کس کتاب میں کہاں کیا درج ہے؟ کون سا مضمون کہاں بیان ہوا ہے؟ کون سی بات کہاں لکھی گئی ہے؟ کون سا مقام کہاں آیا ہے؟ کس شخص کا تذکرہ کہاں ہوا ہے؟ کس کردار نے کہاں کہاں اپنا رول ادا کیا ہے؟ کون سی اصطلاح کہاں کھلی ہے؟ کون سا نکتہ کہاں واضح ہوا ہے؟ گویا اشاریے میں تمام اشارے موجود ہوتے ہیں۔ کتاب کے آخر میں کتابیات سے پہلے ایک طویل فہرست ہوتی ہے جس میں بہ اعتبارِ حروف تہجی کتاب کے تمام اہم مندرجات و مشمولات درج ہوتے ہیں اور ہر ایک کے سامنے صفحہ نمبر دیا گیا ہوتا ہے جن پر ان اشاروں کی تفصیل موجود ہوتی ہے۔
اشاریہ اس لیے بھی ضروری ہوتا ہے کہ بعض اوقات قاری ایک کتاب میں صرف ایک مضمون یا کسی خاص موضوع کے بارے میں جاننا چاہتا ہے۔ ایسی صورت میں وہ اشاریے میں درج متعلقہ صفحات کی مدد سے مطلوبہ مضمون یا موضوع سے متعلق اندراجات آسانی سے ملاحظہ کرسکتا ہے۔ اس کے لیے پوری کتاب پڑھنے یا چھان بین کرنے کی زحمت نہیں اٹھانا پڑتی۔ گویا اشاریہ ٹیلی وژن کے ریموٹ کی طرح ہوتا ہے جس پر مختلف نوعیت کے پروگراموں سے متعلق مخصوص چینلوں کے بٹن بنے ہوتے ہیں۔ جس ناظر کو جس نوعیت کے پروگرام دیکھنا ہوتا ہے وہ اس مخصوص بٹن کو دباتا ہے اور اس کا مطلوبہ پروگرام آسانی سے اس کے سامنے آجاتا ہے۔
وہ کردار یہ بھی جانتا ہے کہ اشاریے میں صفحوں کے نمبروں کا اندراج احتیاط کا تقاضا کرتا ہے۔ اس لیے کہ یہ کام شیشہ گری کی طرح نازک ہوتا ہے۔ ذرا سی بداحتیاطی سے کام بگڑ سکتا ہے۔ دونمبروں کے درمیان سکتہ (،) اور ختمہ (۔) کے نشان کے فرق سے مطلب کچھ کا کچھ ہوسکتا ہے۔ یعنی کسی مضمون یا موضوع کے حوالے کے لیے دو صفحوں مثلاً ایک اور تین کے درمیان سکتہ ہے تو اس کا مطلب ہوگا کہ صفحہ ایک اور تین دونوں کا مطالعہ کرنا ہے اور اگر ان نمبروں کے بیچ ختمے کا نشان ہے تو اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ اس مضمون کا ذکر صفحہ ایک سے تین تک جاری ہے اور تینوں صفحوں کا پڑھنا ضروری ہے۔ لہذا احتیاط سے کام نہیں لیا گیا تو خضر کی موجودگی میں بھی منزل کو پانا دشوار ہوسکتا ہے۔
اشاریے کے ساتھ ساتھ وہ ببلوگرافی یعنی کتابیات کے فن سے بھی واقف ہوتا ہے اور یہ جانتا ہے کہ ایک اچھی، معیاری اور مستند کتاب کے لیے ضروری ہے کہ اس تصنیف میں جن مآخذات سے اسفادہ کیا گیا ہے اور جو حوالے دیے گئے ہیں ان کی تفصیل بھی دی جائے تاکہ قارئین اس کتاب کی قدر و قیمت سے اچھی طرح واقف ہوسکیں اور اگر مآخذ کو دیکھنا چاہیں اور حقائق کو پرکھنا چاہیں یا مزید معلومات حاصل کرنا چاہیں تو ان کی رہ نمائی ہوسکے۔ اچھے مصنفین اس بات کا پورا خیال رکھتے ہیں اور اپنی کتاب کے آخر میں اپنے مآخذ اور حوالوں کی تفصیلی فہرست ضرور شامل کرتے ہیں اور اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ ہر وہ بات درج ہو جائے جس کا ہونا مآخذ تک رسائی کے لیے ضروری ہے۔ عام طور پر کتابیات کی ترتیب حروف تہجی کے اعتبار سے کی جاتی ہے۔ اور وہ امور بھی شامل کیے جاتے ہیں جو حوالے اور حواشی میں رہ جاتے ہیں۔ رسائل اور جرائد کی ببلوگرافی میں دیگر اندراجات کے ساتھ رسالہ کی نوعیت یعنی وہ ماہ نامہ ہے یا دو ماہی، سہ ماہی ہے یا ششماہی یا سالانہ، تاریخِ اشاعت، شمارہ نمبر، جلد نمبر اگر اخبار ہے تو کالم اور پیراگراف نمبر بھی درج کیے جاتے ہیں.
وہ کردار کاتب یا کمپوزر تو نہیں ہوتا مگر فنِ کتابت اور کمپوزنگ کے تمام مرحلوں، گُروں، باریٖکیوں اور خطوں کے نمونوں سے واقف ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ فنِِّ کتابت خیالات و تجربات کی ترسیل کی تحریری صورت کا بہتر، موثر اور خوب صورت وسیلہ ہوتا ہے۔ اس کا تعلق جمالیاتی اور فنی خوبیوں سے بھی ہوتا ہے اور طلبہ اور عام لوگوں کے روز مرّہ کے خط و کتابت کے معیار کو بہتر بنانے سے بھی۔ اس کا فنی اور جمالیاتی کمال یہ ہے کہ حروف میں پھول کھل جاتے ہیں۔ لکیروں سے نگار خانہ بن جاتا ہے۔ خامے سے خطوں کے مرقعے ابھر آتے ہیں۔ سادہ کاغذ پر خوش رنگ پرندے اتر آتے ہیں۔ لفظ تصویروں میں ڈھل جاتے ہیں۔ اشعار بولنے لگتے ہیں اور اس کی افادی ہنرمندی یہ ہے کہ مصنفوں کی ٹیڑھی میڑھی تحریریں بھی سیدھی ہوجاتی ہیں۔ خراب لکھاوٹ بھی اچھی بن جاتی ہے۔ بیان سنور جاتا ہے۔ خیال نکھر آتا ہے۔ خط و کتابت کا معیار بہتر اور پرکشش ہوجاتا ہے۔ کتابت کئی خطوں میں کی جاتی ہے۔ نسخ اور نستعلیق زیادہ مقبول ہیں۔ نستعلیق بہتر خط ہے اس لیے کہ اس کا پڑھنا آسان ہوتاہے۔ نظر کو پڑھنے میں دِقّت محسوس نہیں ہوتی۔ یہ آنکھوں کو بھلا بھی لگتا ہے۔
وہ یہ بھی جانتا ہے کہ متن میں کہاں جلی حروف میں کتابت کی جاتی ہے اور کہاں باریک قلم کا استعمال ہوتا ہے۔ ایک صفحے میں کتنی سطریں لکھی جاتی ہیں۔ مضمون کہاں سے شروع ہوتا ہے اور کہاں پر ختم کیا جاتا ہے؟ صفحوں کی سیٹنگ کس طرح ہوتی ہے اور ان پر نمبر کس طرح درج کیے جاتے ہیں؟ کتابت کے جدید یعنی مشینی روپ اور اس کے استعمال سے بھی وہ واقف ہوتا ہے۔
وہ آرٹسٹ بھی نہیں ہوتا مگر کتاب کے آرٹ، حطّاطی کے فن اور رنگوں کے ہنر سے اچھی طرح آشنا ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کسی کتاب کا سرورق کیسا ہونا چاہیے؟ اسے معلوم ہے کہ تخلیقی کتابیں مصوّرانہ سرورق کا تقاضا کرتی ہیں اور علمی و تحقیقی تصانیف سادگی پسند کرتی ہیں۔ وہ رنگوں کے مزاج کو بھی پہچانتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ کون سا رنگ کس موضوع پر پھبتا ہے اور کون سا رنگ کس مواد سے میل نہیں کھاتا۔ اسے رنگوں کے Combination کا پتا ہوتا ہے۔ کس تصویر کے لیے کون کون سے رنگ ضروری ہوتے ہیں؟ کس رنگ کو کہاں گہرا اور کہاں ہلکا ہونا چاہیے وہ یہ بھی جانتا ہے اور وہ اس حقیقت سے بھی واقف ہوتا ہے کہ رنگ صرف سرورق، عنوان، کتاب کے مشمولات اور مصنف کے خیالات کو ہی روشن نہیں کرتے بلکہ قاری کے دل و دماغ میں بھی نور بھرتے ہیں۔
ہمارا یہ کردار اندرونی سرورق پر بھی نظر رکھتا ہے اور یہ دیکھتا ہے کہ کوائف نامہ ضروری معلومات پر- مشتمل ہے یا نہیں – یعنی اس پر حقوقِ کتاب، کتاب کا نام، مصنف کا نام، سالِ اشاعت، تعداد، اڈیشن، مطبع، کاتب یا کمپوزر، تزئین کار، مقامِ اشاعت، تقسیم کار وغیرہ درج ہیں یا نہیں اور کوئی اندراج رہ جاتا ہے تو اسے وہ مسودے میں درج کرادیتا ہے۔
جس کردار کا اب تک ذکر ہوا، آپ نے اندازہ لگایا ہوگا کہ وہ ایک غیرمعمولی کردار ہے۔ وہ غیر معمولی اس لیے ہے کہ اس کی شخصیت کشادہ ذہنی، حسّاس دلی، اعلا ذوقی، خوش فکری، میانہ روی، توازن پسندی، مستقل مزاجی، سلیقہ مندی، بردباری، نکتہ سنجی، دقیقہ رسی، باریک بینی، تبحّرِ علمی، بلند حوصلگی، روشن بینائی، تنقیدی بصیرت اور بالیدہ شعور سے تعمیر ہوتی ہے۔ وہ اپنے انھی اوصاف و عناصر والی شخصیت کے ساتھ میدانِ نشر و اشاعت میں اترتا ہے اور کتابوں کو ان کی اشاعت سے قبل کئی کئی انداز سے پڑھتا ہے۔ کبھی وہ ان پر مفکرانہ نگاہ ڈالتا ہے۔ کبھی انھیں معلمانہ نظر سے دیکھتا ہے۔ کبھی مصوّرانہ انداز سے ان کا جائزہ لیتا ہے اور کبھی تاجرانہ نقطۂ نظر سے ان کا مطالعہ کرتا ہے۔ کبھی وہ ایک عام قاری کا انداز اپناتا ہے بلکہ شروع اسی سے کرتا ہے اور اس دوران اسے جہاں جہاں بیان میں ابہام، گنجلک پن، ناتمامی اور تشنگی کا احساس ہوتا ہے اور عبارت میں کھانچا، غیر ضروری تفصیل، بے جا اختصار، تسلسل اور ربط کا فقدان نظر آتاہے اور بات غیرموثر لگتی ہے۔ اسے نوٹ کرکے مصنف کے پاس لے جاتا ہے۔ (اور ایک دوستانہ ماحول میں اپنے نوٹس کی روشنی میں مذکورہ حصّوں کے متعلق اپنے نقطۂ نظر کو سلیقے سے واضح کرتا ہے اور ایسا خوب صورت اور خوش گوار انداز اختیار کرتا ہے کہ مصنف یہ نہ محسوس کرے کہ اس کی علمیت کو چیلنج کیا جارہا ہے اور اس کی کمیوں کی گرفت کی جارہی ہے؟ مصنّف کے پاس سے اصلاح ہوکر مسودہ جب دوبارہ اس کے پاس آتا ہے تو اسے پڑھتے وقت ان تمام باتوں کو مدّنظر رکھتا ہے جو اس کے فرائض میں شامل ہیں۔ اس دوران وہ ضروری اصلاح کرتا ہے۔ رموزِ اوقاف اور صحتِ املا کا خیال رکھتا ہے اور اس بات پر خاص طور سے دھیان دیتا ہے کہ ابتدا سے آخر تک املا میں یکساں روی ہو۔ یہ بھی طے کرتا ہے کہ کس معنوی حصّے کو مزید معنی خیز اور موثر بنانے کے لیے گراف، چارٹ یا تصویر کا شامل کیا جانا ضروری ہے۔ اسی دوران وہ ان حصّوں اور باتوں پر بھی نشان کے لیے اگر ضروری محسوس کرتا ہے تو حوالوں کی طرف رجوع کرتا ہے اور ضروری اصلاح کرتا ہے۔ اس سلسلے میں ضرورت محسوس ہونے پر مصنف سے بھی رابطہ قائم کرتا ہے۔ اس طرح اصلاح اور درستگی کے بعد مسودے کو دوبارہ صاف صاف لکھا جاتا ہے۔ مسودہ جب صاف اور درست ہوکر اس کے پاس آجاتا ہے تو اس پر وہ ایک مرتبہ پھر باریکی سے نظر ڈالتا ہے۔ جہاں کہیں کوئی لفظ، اعراب، علامت، رموزِ اوقاف درست کرنے ہوں تو درست کردیتا ہے۔ عنوان کے خط یا سرورق کے ڈیزائن کے متعلق کوئی ترمیم یا اضافے کی ضرورت محسوس کرتا ہے تو اس کی ہدایت کے ساتھ مسودے کو فائنل صورت دے کر طباعت کے لیے پریس کے پاس بھیج دیتا ہے۔
اس طرح یہ کردار طباعت و اشاعت کی دنیا کا ایک طویل سفر طے کرتا ہے۔ اگر اس کے سفر کی روداد کو سمیٹ کر بیان کیا جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ
—- مسودے کی تراش خراش اس طرح کرتا ہے کہ مصنف نے جو کچھ کہا، بغیر کسی رکاوٹ کے ہوبہو قاری تک پہنچ سکے۔ قاری کتاب کو دل چسپی سے پڑھ سکے۔
—- اس سے علم اور حظ حاصل کرسکے۔
—- ابواب کی تقسیم سے لے کر پیراگراف کی ترتیب تک تسلسل قائم کرتا ہے۔
—- غیر ضروری تکرار و طوالت کو حذف کرتا ہے۔
—- بے جا اختصار کو متوازن کرتا ہے۔
—- دقیق، گنجلک اور مبہم بیانات کو سہل اور قابلِ فہم بناتا ہے۔
—- روانی کو روکنے اور ذہن کو جھٹکا دینے والے کھانچوں کو ختم کرتا ہے۔
—- قاری کی توجہ کو بھٹکانے یا متاثر کرنے والے عناصر کو دور کرتا ہے۔
—- قاری کے لیے سہولتوں کی صورتیں اور دل چسپی کے وسیلے پیدا کرتا ہے اور
اس امر کو یقینی بناتا ہے کہ کتاب میں دی گئی معلومات صحیح اور مستند ہیں اور درج کیے گئے حوالے درست ہیں اور اس سلسلے میں اصل یا بنیادی مآخذ سے رجوع کیا گیا ہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ کتاب کی دنیا کا یہ کون سا کردار ہے جو اتنی ساری معلومات رکھتا ہے۔ اتنے سارے کام کرتا ہے اور اس قدر اہم ہوتے ہوئے بھی ہمارے اشاعتی اداروں سے غائب ہے۔ ہمارے یہاں سے یہ کردار غائب ضرور ہے مگر دوسری زبانوں کے اداروں میں یہ اس طرح براجمان ہے جیسے کہ یہی سب کچھ ہے۔ وہاں اسے ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔ اس کے ناز نخرے اٹھائے جاتے ہیں۔ اسے بڑی بڑی قیمتیں دی جاتی ہیں مگر افسوس کہ ہمارے یہاں اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔ کوئی اہمیت نہیں۔ حالانکہ ہمیں یہ اگر مل جائے تو ہماری کتابوں کی بھی کایا پلٹ سکتی ہے۔ ہماری کتابیں جو انتشار، بے ترتیبی، بے صناعتی، بدہیئتی، بد رنگی، پھوہڑپن، بے توجہی، غیر سنجیدگی اور طرح طرح کی غلطیوں اور خامیوں کی شکار رہتی ہیں، سب سے نجات پاسکتی ہیں۔ ہماری تصانیف بھی مفید، کارآمد، معیاری، معتبر، خوب صورت اور جاذبِ نظر بن سکتی ہیں اور ہم بہت سی غلط فہمیوں، الجھنوں، پریشانیوں اور مصیبتوں سے بچ سکتے ہیں۔ یہ کردار جہاں رہتا ہے وہاں اسے اڈیٹر کہا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں یہ آجائے تو اسے مدیر یا تدوین کار کہا جائے گا یا ممکن ہے اس کا ہم کوئی اور مناسب اور موزوں نام رکھ لیں۔ مانا کہ یہ مدیر مہنگا ہے مگر جس مہم جوئی پر یہ نکلتا ہے اور جس طرح کے معرکے سر کرتا ہے اور کتابوں کے خالق، ناشر اور قاری تینوں کو جن مشکلوں اور مصیبتوں سے نجات دلاتا ہے ان سب کے عوض، کچھ زیادہ دام دے کر اسے اپنے پاس رکھنا کوئی زیادہ مہنگا سودا نہیں ہے.
کاش ہم اس کردار یعنی مدیر یا تدوین کار کی قدر و قیمت کو پہچاننے میں کامیاب ہوجاتے! اور اسے تلاش کرکے اپنے گھر میرا مطلب ہے اپنے اشاعتی اداروں میں بھی لے آتے!
***
غضنفر کی گذشتہ تخلیق :چِپ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے