کتاب : پاگل پن  (افسانے و افسانچے)

کتاب : پاگل پن (افسانے و افسانچے)

کتاب : پاگل پن ( افسانے و افسانچے)
مرتب : حسین قریشی
ضخامت : 128صفحات
قیمت : 160روپے
نا شر : ایجو کیشنل پبلشنگ ہاﺅس ، دہلی
تبصرہ نگار: فردوس انجم شیخ آصف ( ریسرچ اسکالر سنت گاڑگے با با امراوتی یونی ورسٹی، امراوتی)
فون : 9960922510
ضلع بلڈانہ کے مقام موتلہ سے تعلق رکھنے والے نئی نسل کے ابھرتے ہوئے افسانہ و افسانچہ نگار حسین قریشی صاحب ادب کی دنیا میں اپنا منفرد مقام بنانے کی کو شش کر رہے ہیں۔ اب تک ان کے متعد افسانے، افسانچے، ادب اطفال، سائنسی اور اخلاقی کہانیاں منظر عام پر آ کر سند مقبولیت حا صل کر چکی ہیں۔ حال ہی میں ان کی کہانیوں کا مجموعہ ”پا گل پن“ منظرِ عام پر آ یا ہے۔ کتاب کا عنوان ہی قاری کو اپنی طرف متوجہ کرانے والا ہے۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ جنون، جیت، منزل کو پانے، مقصد کو حاصل کرنے ، نام روشن کر نے، حوصلوں کو پر واز دینے، مہارتوں کو حاصل کر نے کا نام پا گل پن ہے۔ کتاب کو مصنف نے اپنے والدین کے نام منتسب کیا ہے۔ کتاب کی شروعات میں مصنف نے اپنی بات کا اظہار کیا ہے۔ عہدِ حاضر کے معروف افسانہ و افسانچہ نگار محمد علیم اسماعیل کا مضمون ”حسین قریشی اور ان کا فن“ شامل ہے، جس میں محمد علیم اسماعیل نے حسین قریشی صاحب کے فن پر بحث کی ہے اور ساتھ ہی ان کے فن کا اعتراف بھی کیا ہے۔ ادبِ آسمان کا ایک جھلملاتا ستارہ کے عنوان سے ’ رعنا شریں ‘( حیدر آباد ) کا ایک مضمون بھی کتاب میں شامل ہے، جس میں انھوں نے حسین قریشی کے افسانوں کے متعلق اپنے خیالات قلم بند کیے ہیں۔ کتاب کے مشمولات میں کل ۴۱ افسانے اور ۶۴ افسانچے ہیں۔
کتاب میں موجود پہلا افسانہ "دلچسپی" ہے۔ جو نہایت عمدہ افسانہ ہے۔ موصوف ایک استاد ہیں. اس لیے خوب جانتے ہیں کہ بچوں میں دل چسپی کس طرح پیدا ہو تی ہے اور کس طرح اس کو پروان چڑھایا جا تا ہے۔ جس بھی بچے میں دل چسپی ہو وہ اپنی مہارتوں کو حاصل کرنے کی حتی الامکان کوشش کر تا ہے، موصوف رقم طراز ہیں:
” دل چسپی انسان میں سچی لگن، کڑی محنت کرنے کا جذبہ اور مسائل سے نپٹنے کا ہنر پیدا کر تی ہے۔" (پاگل پن ، حسین قریشی ، صفحہ ٢٠ )
حسین قریشی کی کہانیاں متا ثر کن ہیں. کچھ کہانیاں تو اتنی زبر دست ہیں کہ اختتام پر ہم حیران رہ جا تے ہیں۔ کتا ب میں شامل افسانوں میں، دوڑ، انتظار، کورٹ میرج، فیشن پرستی، میرے اپنے، کلین چٹ اور آخری افسانہ "آ نسو" بہترین افسانے ہیں، جو واقعہ نگاری کی اچھی مثال ہے۔ ساتھ ہی اخلاقی باتوں کو بھی پیش کر تے ہیں. آنسو افسانے میں ایک نیک خاتون کی معاشرے میں عزت اور اس کے کاموں کی پذیرائی کو پیش کیا گیا ہے۔ حسین قریشی صاحب کے افسانچے بھی قاری کے ذہن پر ایک گہرا تا ثر چھوڑ جا نے والے ہیں، کتاب میں شامل افسانچے سوچ، مدد، خوشی، کریٹیوٹی ایسے افسانچے ہیں جو قوم و ملت کو شخصیت سازی کا درس دیتے ہیں، تو تعریف، علم دین، دوسروں کے نظریات، فریب ایسے افسانچے ہیں جو معاشرے کی تلخ و نا گوار نظریات کو اجاگر کر تے ہیں۔ اسی طرح موبائل و اخلاق، پردہ، خدمتِ خلق، آن لائن تعلیم، معاشرے کی اصلاح کے پر وردہ افسانچے ہیں۔ جس سے مصنف کی حساسیت کا اندازہ ہو تا ہے کہ انھوں نے ادب کے ذریعے معاشرے کی اصلاح پر زور دیا ہے۔
حسین قریشی صاحب کی تمام کہانیاں پڑھنے کے بعد مجھے یہی محسوس ہوا کہ یہ تمام کہانیاں کاغذ پر تو ختم ہو گئی ہیں لیکن میرے ذہن میں ابھی بھی شروع ہے۔ یہ ایک اچھے فن کار کی نشانی ہے کہ کہانی تو ختم ہو جائے لیکن قاری سوچتا رہے۔ حسین قریشی کی تمام کہانیوں میں حقیقت کا عکس نمایاں ہے. جو تلخ تجربات و مشاہدات کا ثمرہ ہے۔ ان کے موضوعات بالکل نئے ہیں جنھیں موصوف نے پورے اعتماد کے ساتھ قارئین کی نذر کیا ہے۔ انھوں نے اپنی کہانیوں میں موجودہ معاشرے میں عورتوں کے حالات سے بھی آ گاہی کرائی ہے کہ کس طرح ترقی یافتہ دور میں رہتے ہو ئے بھی لڑکیوں کی پیدائش کو منحوسیت سے تعبیر کیا جا تا ہے۔ دوسری طرف جدت پسندی کی حامل لڑکیاں فیشن پرستی کے نام پر کس طرح اخلاقی قدروں کو پامال کر رہی ہیں۔ اس کے کس قدر مضر اثرات معاشرے پر ہو رہے ہیں، موصوف نے سماج کو اس سے بحسن و خوبی آ گاہ کیا ہے۔
حسین قریشی صاحب خالص اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے افسانہ و افسانچہ نگار ہیں۔ جو بہت تیزی سے ادب میں اپنا مقام بنا رہے ہیں۔ لیکن اس تیزی میں فنی مہارتوں کی کمی محسوس کی جا سکتی ہے۔ وہ اپنے مشاہدہ، مطالعہ اور ذوق کو تھوڑا اور پروان چڑھائیں تو یقینا ایک موثر ادیب کے روپ میں مہاراشٹر کے افق پر جلوہ افروز ہوں گے۔ انھوں نے خود کہا ہے کہ ” حا لا ت نہیں، خیالات بدلو۔۔۔ کامیاب ہو جا ﺅ گے۔“ میں ان سے یہی کہنا چا ہوں گی کہ خیا لات کو اسلوب کی دل کشی اور بیان میں روانی کی روش کے ساتھ صفحہ قرطاس پر بکھیریں، تب آپ کا فن بھی موتی کی مانند بیش قیمت ہو جائے گا۔
حسین قریشی نے اپنی کہانیوں کے مو ضوعات اپنے گرد و پیش کی زندگی سے منتخب کیے ہیں۔ جو بالکل نادر ہیں اور جدت پسند بھی۔ ان میں معاشرتی ومذہبی برائیوں پر طنز نظر آ تا ہے، تو کہیں اخلاقی قدروں کو کھونے کا خوف بھی عیاں ہیں۔ قدرت نے حسین قریشی صاحب کو ایسی صلاحیتیں ودیعت کی ہے جو سماج کا گہرائی اور باریک بینی سے مشاہدہ کرتی ہے. اسی لیے ان کی کہانیوں میں ہمارے گرد و پیش کے واقعات اور کردار چلتے پھر تے نظر آتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ حسین قریشی صاحب جس طرح آج معاشرے کی اصلاح کا فریضہ بحسن و خوبی انجام دینے کی سعی کر رہے ہیں مستقبل میں بھی اپنی قلم سے نئے باب مرتب کریں گے۔
کتاب میں شامل تاثرات: اس حصے میں، شاہ نواز اختر ( ممبئی)، قاضی صبیحہ( احمد نگر)، راج محمد آفریدی ( پشاور پاکستان)، سید اسماعیل گوہر، فہیم ادیب فاروقی( اورنگ آباد) کے تاثرات شامل ہیں۔ جنھوں نے حسین قریشی کا کھلے دل سے خیر مقدم کیا ہے اور ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ کتاب کاسرورق جاذب نظر ہے، کاغذ بہترین، طباعت اور جلد بندی عمدہ ہیں۔ فلیپ پر مصنف کی تصویر اور ایم۔ اے ۔ حق صاحب، نعیمہ جعفری ( دہلی) کے تاثرات موجود ہیں۔ قارئین اس کتاب کو رعایتی قیمت پر مصنف سے حاصل کر سکتے ہیں.
٭٭٭
Address:
Firdaus Anjum Shaikh Aasif Limbu Wale
K.G.N. Dairy, Ward no 6, Iqbal Nagar
Buldhana- 443001
Maharashtra
Mobile No : 9960922510
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :حسین قریشی صاحب کی کتاب پاگل پن

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے