کتاب: آدھی ملاقات

کتاب: آدھی ملاقات

انوارالحسن وسطوی

زیر نظر کتاب ’’آدھی ملاقات‘‘ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کے ان خطوط کا مجموعہ ہے جنھیں انھوں نے اکابرین، معاصرین اور متعلقین کے نام وقتا فوقتا ارسال کیے تھے، اس سے قبل مفتی صاحب موصوف اپنے نام آئے خطوط کا مجموعہ ’’نامے میرے نام‘‘ (جلد اول، مطبوعہ ۲۰۱۶ء ) نذر قارئین کر چکے ہیں، خطوط کو سنجوگ کر رکھنا مکتوب نگار اور مکتوب الیہ دونوں کے لیے مشکل کام ہے، لیکن اس موبائل اور انٹرنیٹ کے دور میں بھی کچھ ایسے باذوق مل جائیں گے جو خطوط کی اہمیت کے معترف بھی ہیں اور اس کی حفاظت بھی کرتے ہیں، ایسی ہی نادر روزگار شخصیتوں میں ایک نام مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی صاحب کا بھی ہے۔ تقریبا چار درجن کتابوں کے مصنف مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں، ان کے تعلق سے میرے لیے کھ کہنا یا لکھنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے، انھوں نے مضمون نگاری، تنقید نگاری، سوانح نگاری، صحافت نگاری کے ساتھ ساتھ مکتوب نگاری کے میدان میں بھی اپنا کمال دکھایا ہے جس کا اندازہ ان کی پیش نظر کتاب ’’آدھی ملاقات‘‘ کے مطالعہ سے لگایا جا سکتاہے۔
’’آدھی ملاقات‘‘ تین ابواب پر مشتمل ہے، باب اول میں وہ خطوط شامل ہیں جو مکتوب نگار کے ذریعہ اکابرین کے نام ارسال کیے گئے تھے، اس فہرست میں کل تیرہ نام شامل ہیں، جو اس طرح ہیں: مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی، مولانا سید نظام الدین ، مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی، مولانا مفتی سعید احمد پالن پوریؒ، مولانا سعید الرحمن اعظمی، مولانا سید محمد ولی رحمانی، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مولانا سید جلال الدین عمری، مولانا سید محمد شمس الحق، مولانا سید سلمان الحسینی ندوی، مولانا عمید الزماں کیرانویؒ، قاری مشتاق احمد اور ڈاکٹر منظور عالم (جنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل)
اکابرین کے نام لکھے گئے ان خطوط میں سب سے زیادہ نو (۹) خطوط حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب امیر شریعت سادس کے نام ہیں، اس کے بعد حضرت مولانا محمد ولی رحمانیؒ امیر شریعت سابع کے نام خطوط ہیں، جن کی تعداد آٹھ (۸) ہے، ان خطوط کے مطالعہ سے مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کی علمی، دینی، فلاحی اور ملی خدمات اور اکابرین کی نظر میں ان کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ باب دوم میں خطوط کی تعداد کل اڑسٹھ (۶۸) ہے۔ یہ خطوط وہ ہیں جنھیں مکتوب نگار نے اپنے معاصرین کے نام ارسال کیے ہیں، ان معاصرین میں علما، ادبا، اساتذہ، دانشور، سیاست داں اور صحافی سب شامل ہیں، ہر خط کا مزہ اور لہجہ جداگانہ ہے، جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے، یہ خطوط ذاتی نوعیت کے بھی ہیں اور کچھ کا تعلق علمی، ادبی، لسانی اور ملی سر گرمیوں سے ہے، اس فہرست میں راقم السطور کے نام بھی مفتی صاحب کے پانچ (۵) خطوط شامل ہیں۔
باب سوم کے خطوط اہل خانہ اور متعلقین کے نام ہیں، جن میں مکتوب نگار کے والد، والدہ، بڑے بھائی، چھوٹے بھائی، اہلیہ، بیٹی اور دیگر رشتہ دار شامل ہیں، اس فہرست میں ان کے ابا جان ماسٹر محمد نور الہدیٰ رحمانیؒ کے نام بھیجے گئے خطوط کی تعداد تیس (۳۰) ہے، اس کے بعد چھوٹے بھائی ماسٹر رضاء الہدیٰ کے نام بھیجے گئے خطوط ہیں جن کی تعداد انیس (۱۹) ہے، خطوط کے اس ہجوم میں اہلیہ (عشرت خاتون) کے نام ارسال کیے گئے بھی دو (۲) خطوط شامل ہیں، جن کی نوعیت ذاتی ہوتے ہوئے بھی آفاقی ہے، ایک خط کی افادیت کے پیش نظر اسے یہاں نقل کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہر شوہر اپنی شریک حیات سے اس کے وفادار ہونے کی توقع رکھتا ہے، تاکہ ازدواجی زندگی خوش وخرم گزرے، مختصر سے اس خط میں ڈھیرساری نصیحتیں موجود ہیں، جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ اس خط کا مطالعہ قاری کے لیے سود مند ہوگا۔
’’زندگی کی پریشانی اور الجھنوں کو ہنس ہنس کر جھیلنا سیکھو، یاد رکھو! زندگی ایک امتحان ہے اور اس میں وہی کامیاب ہوتا ہے جو اپنی انانیت اور کبر کو ختم کرنے کے لیے تیار رہے، جو دوسروں کی بڑائی کو تسلیم کرکے چلے، یہاں جیتے جی اپنے کو ہلاک کرنا پڑتا ہے اور کبھی تو اپنے ہاتھوں قبر بنا کر اس میں لیٹ جانا پڑتا ہے، جب زندگی اس ایثار کی عادی ہوجائے تب جا کر آدمی کامیاب ہوتا ہے، خصوصا عورت کی تو پوری زندگی ایثار و قربانی سے عبارت ہوتی ہے، زندگی بھر وہ گھر لگاتی رہتی ہے، اور پگڑی کسی اور کی اونچی ہوتی ہے، لیکن یقین جانو، اسی ایثار سے گھر بنتا ہے، اونچے اونچے گنبد اور فلک بوس عمارتیں جب ہی کھڑی ہو سکتی ہیں جب کچھ اینٹیں اپنے کو زمین میں دفن کرنے کو تیار ہو سکیں، وہ اینٹ کسی کو نظر نہیں آتی، لیکن صحیح اور سچی بات یہ ہے کہ اسی پر ساری عمارت اور گنبد کھڑا ہوتا ہے، اس لیے میری جان! قربانی یہ نہیں ہے کہ آدمی لڑکر مرجائے، گھریلو جھگڑوں سے عاجز ہو کر خود سوزی اور خود کشی کرلے، اختلاف کی وجہ سے الگ دنیا آباد کرے، قربانی یہ ہے کہ آدمی ان تمام کو انگیز کرکے ایک ایسے نتیجہ خیز عمل کا آغاز کردے جس میں وہ غیر مشہور ہوکر خود چاہے دفن ہوجائے لیکن اپنے خاندان کی پگڑی کو اوپر رکھے۔‘‘ (صفحہ ۲۱۸)
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی کا ایک خط اپنی بیٹی حافظہ رضیہ عشرت کے نام بھی ہے، وہ خط بھی بہت خوب اور قابل مطالعہ ہے، بیٹی کی جدائی ہر باپ پر کس قدر شاق گزرتی ہے، یہ وہی محسوس کر سکتا ہے جو اس مرحلہ سے گزرا ہو، جدائی پر بیٹی کو باپ کی جانب سے کیا نصیحت ملنی چاہیے اس کی عکاسی مکتوب نگار کے اس خط سے ہوتی ہے، ملاحظہ ہو مذکورہ خط کا ایک اقتباس:
’’… یہ تو سسرال والوں کی باتیں تھیں، اس علاقے میں تمھارا پالا ایک اور شخص سے پڑے گا جسے عورتیں سرتاج کے نام سے تعبیر کرتی ہیں، وہ واقعی سرتاج ہوتا بھی ہے، جسے عام اصطلاح میں شوہر کہتے ہیں، یہ کچھ زیادہ ہی نازک مزاج ہوتے ہیں، ذرا سی بات کا بُرا مان جاتے ہیں اور پھر نوبت کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے، ان کے معاملات میں لچک پیدا کرنا، اتنی لچک کہ تم خود کو ان کی مرضی کے مطابق ڈھال سکو، ان کے پسندیدہ رہن سہن، طور طریقے، نظریات و خیالات کو اپنانے کی کوشش کرنا، باہمی اختلافات، نرمی اور آپس کی بات چیت سے سلجھا لینا کہ کامیاب زندگی کے لیے یہ نیک شگون ہے، خدا کرے کہ تمھاری پوری زندگی پھولوں کی سیج کی طرح خوشگوار گزرے، تم زندگی کی مسافر ہو اور تمھارا غریب باپ رہنمائی کے لیے یہ ہدایات دے رہا ہے۔‘‘ (صفحہ ۲۲۱-۲۲۲)
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ایک جید عالم دین اور کہنہ مشق صحافی کے ساتھ ساتھ ایک معروف انشا پرداز بھی ہیں، ان کی انشا پردازی کا ایک عمدہ نمونہ ان کی دیگر کتابوں کی طرح یہ کتاب بھی ہے۔ ’’ آدھی ملاقات‘‘ کا علمی و ادبی رنگ و آہنگ مسلم ہے، چنانچہ قاری کو اس سے محظوظ اور مستفیض ہونے کے لیے ایک بار اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے، مفتی صاحب نے اپنی اس کتاب کے ذریعہ موبائل اور انٹر نیٹ کے اس دور میں خطوط کی اہمیت سے نئی نسل کو روسناش کرانے اور اس ورثہ کو نئی نسل کو منتقل کرنے کی ایک عمدہ کاوش کی ہے، جس کے لیے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں، مفتی صاحب نے اپنی اس کتاب کے تعلق سے اپنے ’’حرف چند ‘‘میں بجا تحریر فرمایا ہے:
’’گویا آدھی ملاقات سے موسوم خطوط کا یہ مجموعہ قوس قزح کی طرح ہے، جس کا ہر رنگ آنکھوں میں نور اور دل میں سرور پیدا کرتا ہے، بعض خطوط کے مندرجات سے ادارے کی اس دور کی سرگرمیوں اور افراد کی مشغولیت کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، کم وبیش پچاس سال کے دورانیہ میں لکھے گئے یہ خطوط میری انداز نگارش اور بدلتے ہوئے اسلوب سے بھی آپ کو واقف کراتے ہیں۔‘‘ (صفحہ ۱۰)
۲۳۶ صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت صرف ایک سو پچیس روپے ہے، جسے مکتبہ امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ، نور اردو لائبریری، حسن پور گنگھٹی، بکساما، ویشالی، بہار، الہدیٰ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر ٹرسٹ آشیانہ کالونی روڈ نمبر ۶، باغ ملی حاجی پور اور بک امپوریم اردو بازار، سبزی باغ، پٹنہ ۴ سے حاصل کیا جا سکتا ہے، مصنف سے براہ راست رابطہ کا نمبر ہے9431003131
***
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:جشنِ اردو صحافت اور بِہار

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے