باپ

باپ

نظم نگار: پروفیسر سنتوش بھدوريه
( شعبہ ہندی، الٰہ آباد یونی ورسٹی، پریاگ راج)
مترجم : ڈاکٹر صالحہ صدیقی

باپ ہونا آسمان ہونا ہے
نیلا آسمان ابدیت تک پھیلا ہوا ہے
اور بے شمار ستاروں جیسی نعمتیں
جو چاندنی راتوں میں برکتیں پھیلاتے ہیں
باپ ہونا برگد ہونا ہے
لاپرواہی کا نرم سایہ اور آفت کی بارش کو روکتا ہے
اپنی بازوؤں کو سہلاتے ہوئے عزم مصمم کرنا سکھاتا ہے

باپ ہونا نیم ہونا ہے
آپ کیسے صحت مند رہیں گے
اس کی تاکید کرتے ہوئے
رونق افروز ہو جانا اپنے ہی آنگن یا دروازے پر
پہروا بن جانا ہے اپنی ہی اولاد کا

باپ ہونا کھیت ہونا ہے
اور کسان ہونا بھی
تھوڑی نمی اور ذرا سی روشنی ہونا
جس سے بیج ہو انکُریت اور لہلہائیں فصلیں
گھر سونا ہو جائے، خوشیاں چہکیں گوریّا کے مانند آنگن میں

باپ ہونا قرض دار ہونا ہے
اپنے بزرگوں کی محنت اور ایمان کا
اُن کی تکلیفوں اور غربت کے پہاڑوں کو دور کرنے کے لیے
کرنی ہے کوئی عمدہ تجویز
لانے ہوں گے روشن ایام

باپ ہونا صبر و تحمل کی زمین ہونا ہے
مصیبتوں کو اوڑھے ہوئے، طے کرنی ہے انسانی مذہب کی ڈگر
بھٹکنا نہیں ہے
کیونکہ انسان بنے رہنا ہی سب سے بڑا امتحان ہے

باپ ہونا ساگر ہونا ہے
دولت، محبت اور اس کی تمام تر نمی کو خود میں سمیٹے ہوئے
دکھوں میں غوطہ لگا تے، لانے ہیں سکھ اور مساوات کے موتی
پھر دکھ تو مانجھتا ہے
ایسا کہہ گیا ہے پرکھا کوی
اور اس طرح
باپ ہونا سب کچھ ہونا ہے
سمندر، زمیں اور آسمان
***
ڈاکٹر صالحہ صدیقی کی گذشتہ نگارش:”فکشن: تنقید، تکنیک، تفہیم‘‘ اور”اردو صحافت کا مزاج“ کا مختصر مطالعہ

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے