مولانا محمد علی جوہر اور ہمدرد

مولانا محمد علی جوہر اور ہمدرد

محمد منظر حسین
اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اردو
مولانا آزاد کالج، کولکاتا
ای۔میل:mdmanzarhussain@gmail.com

ہندستان کی تاریخ میں علی بردران کی شناخت کئی حیثیتوں سے مستحکم ہے۔ مولانا محمد علی جوہر اور مولانا محمد علی شوکت مجاہدین آزادی کے علاوہ بھی  اپنی اپنی خدمات کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ دونوں برادران کی ادبی اور سماجی حیثیت نہایت مستحکم ہے۔میرا مقصد دونوں برداران کا تقابلی جائزہ نہیں۔ لہٰذا میں نے اپنے اس مضمون میں مولانا محمد علی جوہر کو ان کے مشہور زمانہ اخبار ”ہمدرد“ کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔
رئیس الا حرار مولانا محمد علی جوہر کثیرالجہات شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ایک عظیم سیاسی رہ نما کے ساتھ ساتھ ملت اسلامیہ کے اہم قائدین میں سے ایک تھے۔ وہ بیک وقت  اچھے خطیب نیز ادیب و شاعر  تھے۔ انھوں نے شاعری کے ساتھ اردو نثر میں بھی اپنے قلم کے جوہر دکھائے ہیں۔ صحافت ان کا خاص میدان رہا ہے۔ انگریزی زبان میں انھوں نے صحافتی شہر کلکتہ سے ہفتہ وار اخبار ”کامریڈ“جاری کیا جب کہ اردو صحافت کو انھوں نے روزنامہ ”ہمدرد“ کے ذریعہ جلا بخشا۔
مولانا محمد علی کی پیدائش ١٠، ستمبر ١٨٧٨ کو رام پور میں ہوئی۔ دو برس کی عمر میں ہی والد کے سایہ عاطفت سے محروم ہوگئے۔ ابتدائی تعلیم و تربیت گھر پر ہی ہوئی۔ اس کے بعد انھیں مدرسہ میں داخل کرایا گیا۔ لیکن اسی سال انھیں تعلیم کی غرض سے بریلی بھیج دیا گیا جہاں انھوں نے دو سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلا تعلیم کے لیے علی گڑھ کا سفر کیا اور ساتویں جماعت میں داخلہ لیا۔ محمد علی کے بڑے بھائی مولانا محمد شوکت علی نے ان سے وعدہ کیا کہ اگر وہ اعلا نمبروں سے کامیاب ہوتے ہیں تو وہ انھیں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے انگلینڈ بھیج دیں گے۔ اس وعدہ کا یہ اثر ہوا کہ محمد علی نے ١٨٩٨ میں بی۔اے کے امتحان میں اول نمبر سے کامیابی حاصل کی۔ مولانا محمد شوکت علی  اپنے بھائی کی محنت و لگن کو دیکھ کر نہ صرف خوش ہوئے بلکہ اپنا وعدہ بھی پورا کیا۔ انھوں نے محمد علی کو اعلا تعلیم حاصل کرنے کے لیے انگلینڈ بھیج دیا۔ محمد علی سول سروس کے امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے آکسفورڈ پہنچے لیکن حالات اور قسمت نے انھیں امتحان میں کامیاب ہونے نہیں دیا۔ اس ناکامی سے ان کے بھائی دل برداشتہ ہو گئے۔ والدہ کی خواہش پر محمد علی واپس ہندستان آگئے۔ وہ ہندستان تو واپس آگئے لیکن ان کا دل آکسفورڈ یونی ورسٹی میں ہی لگا رہا۔ انھوں نے خود سے تیاری کی اور اور آکسفورڈ کے لنکن کالج سے موڈرن ہسٹری میں بی۔اے (آنرس) میں سکنڈ ڈویژن سے کامیابی حاصل کی۔ اس طرح وہ نہ صرف ہندستان کی کسی یونی ورسٹی بلکہ آکسفورڈ یونی ورسٹی سے بی۔ اے کی ڈگری حاصل کرنے والے رام پور کے پہلے شخص بن گئے۔
مولانا محمد علی کی شخصیت بہت ہی با رعب تھی۔ وہ جس چیز کا ایک بار ارادہ کرلیتے تھے اسے مکمل کر کے ہی دم لیتے تھے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہندستانی مسلمانوں کے پہلے اور آخری رہ نما تھے جو رسوم و سماج، رہن سہن، عقائد و افکار، شوق و میلان، تعلیم و تربیت، سیاسی و سماجی بصیرت غرض کہ زندگی کے ہر پہلو میں راہ نمائی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔انھوں نے مسلمانوں کو انگریزوں سے دوستی اور غلامی کے فرق کو بتایا۔ ہندو اور مسلمانوں کے درمیان جو اختلافات تھے اسے ختم کرنے کی کوشش کی۔ جنگ آزادی میں ایک دوسرے کو شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا درس دیا۔ یہ ان ہی کا کارنامہ تھا کہ جنگ آزادی کی تحریکوں اور خلافت تحریک کے درمیان ایک طرح کا ربط قائم ہو سکا۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ مولانا کی شخصیت اور سیاست میں وطن دوستی اور اسلام پرستی کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔
دوران تعلیم انھوں نے کئی انجمنیں قائم کیں۔ مختلف مشاعروں کا انعقاد کرایا۔ ان سب تجربات نے مولانا کے اندر کام کرنے کا جذبہ اور رہ بر بننے کی صلاحیت پیدا کر دیے۔ اسی درمیان انھوں نے ملازمت بھی اختیار کی لیکن شاید وہ محسوس کر رہے تھے کہ ان کی پیدائش ملازمت کرنے کے لیے نہیں ہوئی ہے۔ دوران ملازمت ہی انھوں نے انگریزی میں مضموں نگاری کی شروعات کی۔ ان مضامین کی اشاعت ’ٹائمس آف انڈیا‘ میں ہوتی تھی. جنھیں قارئین بہت دل چسپی سے پڑھتے تھے۔ ان مضامین کی وجہ سے محمد علی کو جلد ہی شہرت حاصل ہو گئی۔ اس مقبولیت نے مولانا کے جذبہ کو مزید ابھارا جس کے نتیجے میں ١٤، جنوری ١٩١١ کو انھوں نے اپنا مشہور انگریزی روزنامہ ”کامریڈ“ جاری کیا۔ کامریڈ سے قبل انھوں نے ١٩٠٤ میں ’گپ‘ نامی اخبار جاری کیا تھا لیکن اس کے صرف دو ہی شمارے شائع ہوئے۔ بعد میں انھوں نے اردو کا مشہور اخبار ”ہمدرد‘‘ جاری کیا۔ جس کے ذکر بغیر اردو صحافت کی تاریخ نامکمل ہے۔
مولانا محمد علی نے ایسے دور میں صحافتی زندگی کی شروعات کی جس وقت نہ صرف ملک غلام تھا بلکہ ہر طرف خوف و ہراس کا بازار گرم تھا۔ تحریر و تقریر کی مکمل آزادی حاصل نہیں تھی۔ اس پر آشوب دور میں بھی مولانا نے نہ صرف اخبارات جاری کیے بلکہ اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے عوام کی راہ نمائی میں اہم کردار ادا کیا۔ مولانا کے اندر سیاسی بصیرت بدرجہ اتم موجود تھی۔ وہ صحافت کو پیشہ سے زیادہ اپنا فرض اور نصب العین تصور کرتے تھے۔ وہ صحافت کے ذریعہ اپنے ملک، قوم اور مذہب کی خدمت کرنا چاہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ صحافیوں کا معیار بہت بلند ہونا چاہیے کیوں کہ صحافی صرف رائے عامہ کا ترجمان نہیں ہوتا بلکہ راہ نما بھی ہوتا ہے اور اس کی تحریریں مورخ کو تاریخ لکھنے میں معاون و مددگار بھی ہوتی ہیں۔ صحافت کے تئیں ان کے خیالات کی آج کے اس پر آشوب دور میں، جس میں صحافت کا معنی و مفہوم ہی بدل دیا گیا ہے، اہمیت و افادیت مزید بڑھ گئی ہے۔ صحافی کے تعلق سے مولانا محمد علی لکھتے ہیں:
”صحافی سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ واقعات کو پوری صحت کے ساتھ درج کرے۔ اسے خیال رکھنا چاہیے کہ واقعاتی صحت کا معیار اتنا بلند ہو کہ مورخ اس کی تحریروں کی بنیاد پر تاریخ کا ڈھانچہ کھڑا کر سکے۔ صحافی رائے عامہ کا ترجمان ہی نہیں، راہ نما بھی ہوتا ہے۔ اسے صرف عوام کے دعاوی کی تائید و حمایت نہیں کرنی چاہیے بلکہ صحافتی منبر سے عوام کو درس بھی دینا چاہیے۔
(مولانامحمد علی سوانح وخدمات، صفحہ۔١٠٧)
مولانا نے اپنی صحافت کے ذریعہ نہ صرف جد و جہد آزادی اور خلافت تحریک کو تقویت پہنچایا بلکہ اس زمانے میں موجود دیگر مسائل کو بھی اپنی صحافتی تحریر کے ذریعہ عوام اور حکومت کے سامنے پیش کیا۔ اسی زمانے میں مولانا نے خلافت تحریک کے توسط سے ہندو مسلم اتحاد قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس ہندو مسلم اتحاد سے انگریز اپنی حکومت کے لیے خطرہ محسوس کر رہے تھے۔ انگریزوں حکومت اس اتحاد کو مختلف طریقوں سے توڑنے کی کوشش کرنے لگی۔ انگریزوں نے پورے ملک میں مختلف حیلے اور بہانے سے ہندو اور مسلمانوں کے درمیان فساد برپا کردیا جس کے نتیجے میں نہ صرف یہ اتحاد پارہ پارہ ہو گیا بلکہ دونوں ہی قومیں ایک دوسرے کی دشمن ہو گئیں۔ آج بھی ہمارے ملک میں حکومتیں اپنے سیاسی فائدے کے لیے ملک میں فساد کا بازار گرم کیے ہوئی ہیں۔ مولانا نے اسی زمانے میں فساد کا تجزیہ کرتے ہوئے جو باتیں لکھیں تھیں، وہ آج حرف بہ حرف صادق نظر آ رہی ہیں۔ انھوں نے لاہور کے فسادات کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا تھا:
”فساد کی جڑ تعلیم یافتہ خواص ہیں جو بڑی بڑی سرکاری ملازمتوں اور سیاسی امتیازات پر ٹوٹے پڑتے ہیں اور اپنے حقوق کو ’ملی حقوق‘ کا نام دے کر عوام اور جہلا کو ابھارتے اور اشتعال دیتے رہتے ہیں۔ عوام اور جہلا غریب ان کے دھوکے میں آجاتے ہیں اور ذرا سی دیر میں مارنے مرنے لگتے ہیں۔ جب سر سے کچھ خون نکل جاتا ہے تو ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں لیکن تعلیم یافتہ اور خواص ایسی لڑائیوں سے جن میں سر پھٹول ہو، دورہی دور رہتے ہیں اور ان کے ٹھنڈے پڑنے کا کوئی موقع نہیں آتا۔
(روزنامہ ہمدرد، ۸، مئی۔ ١٩٢٧)
مولانا کا اخبار ’کامریڈ‘ انگریزی زبان میں تھا۔ ملک کی اکثریت انگریزی زبان سے نا بلد تھی۔ ایسے میں مولانا نے محسوس کیا کہ انگریزی کے ساتھ اردو زبان میں بھی ایک اخبار جاری کرنا چاہیے کیوں کہ عوام کی زبان اردو ہی تھی۔ لیکن وہ چاہتے تھے کہ یہ اخبار دوسرے اخباروں سے مختلف ہو۔ مولانا نے اردو اخبار کا نام ’ہمدرد‘ رکھا لیکن وہ اس اخبار کو لیتھو اسٹائل میں شائع نہیں کرنا چاہتے تھے بلکہ اردو ٹائپ میں چھاپنا چاہتے تھے۔ لیکن اردو ٹائپ ہندستان میں دستیاب نہیں تھا بلکہ اسے بیروت سے منگوانا پڑتا تھا۔ اسی زمانے میں بلقان کی جنگ شروع ہوگئی۔ ایسے ماحول میں اردو ٹائپ کا باہر سے منگوانا مشکل ترین امر تھا۔ مولانا کی خواہش تھی کہ ’ہمدرد‘ کم از کم چار صفحات پر مشتمل ہو لیکن اردو ٹائپ کی عدم دستیابی کی وجہ سے انھیں حالات سے سمجھوتا کرنا پڑا اور اس طرح انھوں نے ”ہمدرد“ کی شروعات صرف ایک صفحہ سے کیا۔ ٢٣، فروری ١٩١٣ کو ’ہمدرد‘ کا پہلا شمارہ جاری کیا گیا۔ ١٢، مئی ١٩١٣ تک یہ اخبار صرف ایک صفحہ پر نکلتا رہا لیکن ١٣، مئی ١٩١٣ سے یہ اخبار دو صفحات پر شائع ہونے لگا۔ آخر وہ دن بھی ہی آ گیا کہ یکم جون ١٩١٣ سے”ہمدرد“ آٹھ صفحات پر شائع ہونے لگا۔ کچھ لوگوں نے ہمدرد کا نام ”نقیب ہمدرد“ بھی لکھا ہے لیکن یہ کسی طور پر بھی درست نہیں ہے۔ اس کی اشاعت کے لیے میعاری کاغذ کا استعمال کیاجاتا تھا۔ یہ اخبار اسٹنڈرڈ کے لحاظ سے اپنے ہم عصر اخبارات سے کسی طور  بھی کم نہیں تھا۔ اس تعلق سے پروفیسر جہانگیر کی باتوں سے اتفاق کیا جا سکتا ہے۔
”ہمدرد ہندوستان کا پہلا اردو روزنامہ تھا جس نے براہ راست اسوسی اٹیڈ پریس اور رائٹر کی خدمات حاصل کی تھی۔“
(علم و آگہی، کراچی، صفحہ۔١٠٥)
”ہمدرد“ کی مقبولیت انگریزوں کی آنکھوں میں کھٹک رہی تھی۔ انگریز نہیں چاہتے تھے کہ ان کے خلاف کسی طرح کی کوئی آواز ابھرے۔ لہٰذا انھوں نے ”ہمدرد“ کی ضمانت طلب کی۔ مولانا دور اندیش تھے فوراً اس کی ضمانت دے دی۔ اور نہایت دور اندیشی اور دوربینی کا ثبوت دیتے ہوئے دوسرا پریس خریدا اور پھر ”ہمدرد“ جسے پڑھنے کے لیے عوام الناس بے قرار رہا کرتے تھے جاری کر دیا۔ بھلا انگریزوں کو کیسے منظور ہو سکتا تھا انھوں نے مولانا اور ان کے رفقائے کار کو نظر بند کردیا جس کی وجہ سے ”ہمدرد“ کا جاری رہنا ممکن نہیں تھا۔
”ہمدرد“ کا دوسرا دور تقریباً نو برس کے بعد ۹، نومبر ١٩٢٤ سے شروع ہوتا ہے۔ لیکن اس میں ایک تبدیلی آئی کہ اب یہ نستعلیق کتابت میں لیتھو اسٹائل میں چھپتا تھا۔ اس تبدیلی کی وجہ یہ تھی کہ ہمدرد کے قارئین اردو ٹائپ کو پسند نہیں کر رہے تھے۔ اس لیے مولانا نے مجبوراً ”ہمدرد“ کو لیتھو اسٹائل میں چھاپنے کا فیصلہ کیا۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اس کے قارئین کی تعداد میں اضافہ ہوتے ہوتے دس ہزار تک پہنچ گئی۔ گویا جدید سے قدیم کا سفر ”ہمدرد“ کو راس آیا۔ لیکن افسوس یہ سلسلہ زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہ سکا۔ کیوں کہ ”ہمدرد“ ابتدا سے ہی خسارے میں چل رہا تھا۔ اور یہ نقصان کبھی بھی پورا نہیں ہو سکا۔ اس طرح اس اخبار کا دوسرا دور حیات بھی ١٢، اپریل ١٩٢٩ کو ختم ہو گیا اور ”ہمدرد“ ہمیشہ کے لیے بند کردیا گیا۔ مولانا محمد علی ”ہمدرد“ کو خسارے کی وجہ سے بہت پہلے ہی بند کر دینا چاہتے تھے لیکن ان کے معتمد خاص مولانا عبدالماجد دریا آبادی اور مولانا ظفرالملک نے ادارت اور اشاعت کی ذمہ داری خود لے لی اور بہت کوشش کی کہ ”ہمدرد“ اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے اور اس کی مالی پریشانی دور ہو جائے لیکن وہ لوگ اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اور مجبوراً ١٢، اپریل ١٩٢٩ کو ”ہمدرد“ کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا۔
مولانا نے”ہمدرد“ کے لیے صرف کاغذ اور طباعت کے معیار کا خیال ہی نہیں رکھا بلکہ انھوں نے اخبار کے لیے جن لوگوں کا انتخاب کیا تھا وہ تعلیم و تربیت کے لحاظ سے قابل احترام تھے بلکہ ان میں سے کئی اصحاب اردو صحافت کی تاریخ میں اپنا ایک ا لگ ہی مقام رکھتے ہیں۔ محمد علی نے ہمدرد کے لیے جو معیار اپنایا تھا اس سے قبل تک اردو اخباروں کی نظیر نظر نہیں آتی ہے۔ اس تعلق سے روزنامہ ”آزاد ہند“ کولکاتا کے مدیر سعید احمد ملیح آبادی لکھتے ہیں:
”ہمدرد کے پاس اپنے دور کے بہترین اہل قلم کا اسٹاف تھا، عبد الحلیم شرر دور اول کے ہمدرد میں ایڈیٹر بنائے گئے تھے، ان کے دہلی سے لکھنو واپس چلے جانے کے بعد قاضی عبد الغفار مراد آبادی، سید جالب دہلوی، محمد فاروق دیوانہ گورکھ پوری، احتشام الدین دہلوی اور عارف ہسولی وغیرہ جیسے مشاہیر ہمدرد کے ادارہ میں آئے اور ان میں سے تو کئی آگے چل کر بہت بڑے صحافی بنے جیسے عبد الغفار، سید جالب اور عبدالحلیم شرر۔۔۔۔۔۔۔۔۔،
بطور صحافی اور ایڈیٹر مولانا محمد علی بہت کامیاب اور خداد صلاحیتوں کے مالک تھے۔۔۔۔۔۔۔“
(جوہر نامہ، کلکتہ، صفحہ۔ ٨٩)
خواجہ حسن نظامی اس تعلق سے لکھتے ہیں:
”اخبار نویسی میں ان کی نظر بہت بلند، ورنہ اردو کے ایک روزنامہ اخبار کے لیے انھوں نے جو شاہانہ اہتمام رکھا تھا وہ اردو اخبار کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ انھوں نے اخبار کا دفتر وائسرائے کے دفتر سے مشابہ بنا دیا تھا۔“
(مولانا محمد علی اور جنگ آزادی، ڈاکٹر ظہیر علی صدیقی، صفحہ۔ ١٤٥)
طباعت، کاغذ اور معیاری ادارت کے باوجود ہمدرد کو وہ مقبولیت حاصل نہیں ہو سکی جس کے محمد علی خواہاں تھے۔ انھوں نے جس محنت و لگن کے ساتھ اس اخبار کی اشاعت اردو ٹائپ میں شروع کی تھی اسے اردو قارئین نے قبول نہیں کیا۔ جب کہ مولانا نے اردو ٹائپ بیروت سے منگوایا تھا۔ نتیجہ کے طور پر مسلسل ایک سال تک اخبار کو نقصان برداشت کرنا پڑا۔ مجبوراً مولانا نے لیتھو مشین خریدی یعنی انھیں وہی کام کرنا پڑا جو وہ نہیں چاہتے تھے۔ اس تبدیلی سے اخبار کی مقبولیت میں اضافہ ہونے لگا۔ لیتھو اسٹائل کو قارئین نے کافی پسند کیا۔ اس طرح مولانا کے جدید سے قدیم کی طرف سفر کرنے کی وجہ سے اس کی اشاعت کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔
مولانا مسلمانوں کی زبوں حالی سے بہت فکر مند تھے۔ مسلمانوں اور مسلمانوں کی تنظیموں کے تعلق سے مختلف لوگ بے جا الزام لگاتے رہے ہیں۔ جس کا سلسلہ آج آزاد ہندستان میں بھی جاری ہے۔ محمد علی نے ان الزامات کا ہمیشہ دفاع کیا ہے۔ وہ صاف لفظوں میں کہتے ہیں کہ کوئی مسلمان یا مسلم تنظیمیں ملک مخالف ہو ہی نہیں سکتیں کیوں کہ مسلمانوں کے لیے ملک کی حفاظت کرنا بھی عبادت ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے اختلافات کو بھلا کر آپس میں منظم ہو جائیں کیوں کی ان کی اتحاد کی وجہ سے ملک کے ایک بڑے حصے میں اتحاد قائم ہو جائے گا جس کا اثر بقیہ لوگوں پر ہونا لازمی ہے۔ مولانا کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کو صرف حکومت کے رحم و کرم پر نہیں رہنا چاہیے بلکہ جینے کے لیے اور ترقی کرنے کے لیے انھیں اپنی راہ خود نکالنی چاہیے۔ اور اگر اس راہ میں کسی طرح کی رکاوٹ پید ا ہوتی ہے تو گھبرانے کے بجائے اس کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ مولانا اپنے مضمون ”مسلمانوں کا سیاسی مسلک“ میں رقم طراز ہیں:
”مسلمانوں کی ملی تنظیم اور جماعتی نظم کا کوئی بہی خواہ ملک اور ملت مخالف نہیں ہو سکتا۔ مسلمانوں کی ترقی ملک کے ایک بہت بڑے طبقے کی ترقی ہے۔ اگر وہ منظم ہو گئے تو ملک کی آبادی کا تقریباً ایک تہائی حصہ منظم ہو جائے گا۔ مسلمان اپنی اندرونی جماعتی اصلاح کا کچھ کام کرنا چاہیں تو یقینا آزادی کے ساتھ کر سکتے ہیں، کوئی جماعت یا کوئی طبقہ اگر ان کی اس راہ میں حائل ہوتو بلا شبہ اس کا پورا مقابلہ کرنا چاہیے، لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہونے چاہئیں کہ مسلمان من حیث القوم ملک کی تما م سیاسی تحریکوں اور جماعتوں سے الگ ہو جائیں اور صرف حکومت کے ہی نظر کرم کے متوقع ہوں۔“
(روزنامہ ہمدرد، مسلمانوں کا سیا سی مسلک، ٢٠، دسمبر۔١٩٢٨ء)
ضرورت ایجاد کی ماں ہے یعنی بلاضرورت کوئی حرکت بھی نہیں کرتا ہے۔ اس لیے مولانا محمد علی باربار کہتے ہیں کہ دنیا ایسی جگہ ہے جہاں بغیر مانگے کوئی چیز نہیں ملتی۔ یہاں تک ماں بھی اپنے بچے کو اسی وقت دودھ پلاتی ہے جب بچہ روتا ہے۔ اس مثال کے ذریعہ مولانا اس بات کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جب ماں جو اپنے بچے سے بے انتہا محبت کرتی ہے، بچے کو طلب کیے بغیر دودھ نہیں پلاتی ہے تو پھر بھلا یہ مطلبی دنیا بغیر مانگے آپ کو کوئی چیز کیسے دے سکتی ہے؟ اسی طرح دنیا میں سیاسی حقوق کا معاملہ ہے کہ جب تک آپ خود جدوجہد کرکے اسے حاصل نہ کر لیں کوئی دینے والا نہیں۔ اس تعلق سے وہ روزنامہ ’ہمدرد‘ میں لکھتے ہیں:
”دنیا میں بغیر طلب کے کوئی چیز نہیں ملا کرتی، جہد و کوشش ہرغرض کے حصول کے لیے ضروری ہے اور پھر یہی کوشش جس قدر موزوں اور مناسب طریقے پر کی جائے گی، اسی قدر جلد اور بہترنتائج مرتب ہوں گے۔ بغیر طلب کے بچے کو بھی دودھ نہیں ملتا۔ ماں اسے اسی وقت دودھ پلاتی ہے، جب وہ مانگتا ہے اور روتا ہے۔ یہی حال دینا میں سیاسی حقوق کا بھی ہے۔ کمزور اور محکوم قوموں کو بھی ان کے حقوق اس وقت تک ہر گز نہیں ملتے، جب تک وہ جد و جہد نہیں کرتیں۔
(روزنامہ ہمدرد، ۶، جولائی۔ ١٩٢٨)
مولانا ایک سچے ہندستانی مسلمان تھے اور یہی وجہ ہے کہ انھوں نے برطانوی حکومت کے خلاف صف آرائی کے لیے نیشنل کانگریس اور مسلم لیگ کا پلیٹ فارم بھی استعمال کیا۔ اس پلیٹ فارم سے انھوں نے حکومت وقت کے خلاف زبردست تقریریں بھی کیں۔ یہ تو سیاسی پلیٹ فارم تھا۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنے اخبار ات ”کامریڈ“ اور ”ہمدرد“ سے بھی صدائے احتجاج بلند کیا۔اداریہ اور مضامین بھی لکھے۔ ہندو مسلم اتحاد کو خاص موضوع بنایا۔ دونوں قوموں کو آزادی کی اہمیت و افادیت سے روشناس کرایا۔ وہ اپنے ملک ہندستان کو انگریزوں سے آزاد کرانے کے ساتھ ساتھ جزیرۃ العرب کو بھی دشمنوں سے آزاد کرانے کے لیے فکر مند رہا کرتے تھے۔ اس کا برملا اظہار وہ اپنے اداریے میں کرتے رہتے تھے۔ ۹، نومبر ١٩٢٤ کے ہمدرد کے ادریہ میں انھوں نے اس تعلق سے اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا ہے۔
”جزیرۃالعرب کو اغیار کے تسلط سے بالکل پاک، مراکش، مصر و ہندستان اور متفرق اسلامی اور اشیائی ممالک و اقوام کو قطعاً آزاد اور ایک سلسلہ اتحاد میں مربوط و متنظم اور اوج ترقی پر دیکھنا ہمارا مشترکہ مقصود و نصب العین ہے۔ ہندستانیوں کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اس جدوجہد میں قابل قدر حصہ لینے کے لائق بنانا اور اس کے لیے ان میں ضروری روح پیدا کرنا، جس طرح کے ’ہمدرد‘ کے فرائض رہ چکے ہیں، بلا شبہ رہیں گے، کیوں کہ جس کام کا ہندستان کی طرف سے بیڑہ اٹھایا گیا تھا، جس تحریک کی علم برداری کی گئی تھی، اس میں مکمل کامیابی ابھی تک حاصل نہیں ہوئی ہے۔“
(روزنامہ ہمدرد، ۹، نومبر۔ ١٩٢٤)
مولانا محمد علی کا ”ہمدرد“ جاری کرنے کا بنیادی مقصد ہی قوم پرستی، برطانوی حکومت کی مخالفت، ملک کی آزادی، ہندو مسلم اتحاد تھا۔ اس لیے ہمدرد اپنے شروعاتی دور سے ہی اپنے اغراض و مقاصد پر قائم رہا۔ وہ اپنے اداریوں کے ذریعہ ہندو اور مسلمانوں کو ہمیشہ اس بات کا درس دیتے رہے کہ جنگ آزادی کے لیے باہمی اتحاد کی کتنی اہمیت ہے۔ اس لیے انھوں نے ہمیشہ ان اخبارات کی حمایت کی جو حکومت وقت کا مخالف تھا اور ایسے اخبارات کی مخالفت کی جو حکومت کی حمایت کر رہے تھے۔ اس تعلق سے صباح الدین عمر کی باتوں سے اتفاق کیا جا سکتا ہے:
”ہمدرد نے اپنے پہلے ہی دور میں حکومت برطانیہ کے خلاف لکھا، حکومت ہند کی مخالفت کی اور ہندستان کے متعدد صوبائی گورنر کی پالیسی پر شدید اعتراضات کیے۔ ہندستان کے قوم پرور اور حریت پسند اخبارات کے خلاف اگر حکومت ہند کوئی سخت کاروائی کرتی تھی تو وہ ان اخبارات کی  حمایت اور حکومت پر اعتراض کرنا تھا۔ انگریزی اخبارات کو جو ہندستان کے قوم پروروں کی مخالفت کرتے تھے’ہمدرد‘ نے جواب دیا۔“
(انتخاب ہمدرد، صباح الدین عمر، صفحہ۔ ۲۱)
انگریزی حکومت کی ہندستانیوں پر ظلم کی داستان روز بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ نہ صرف ہندستانیوں کی حق تلفی کی جارہی تھی بلکہ ان پر مختلف طریقوں سے سختی کی جارہی تھی۔ ایسے وقت میں محمد علی جوہر عوام الناس کو خبردار کرتے رہے کہ اگر حکومت وقت ہماری حق تلفی یاہماری تذلیل کرتی ہے، ہمارے ساتھ ظلم و بر بریت کرتی ہے تو ہمیں ان سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ مرد مجاہد کی طرح اس وقت تک ان کا مقابلہ کرنا ہے جب تک کہ ہمارے بازوؤں میں طاقت ہے۔ اس تعلق سے وہ روزنامہ”ہمدرد“ میں لکھتے ہیں:
”۔۔۔۔۔۔اگر یونین گورنمنٹ اس وقت ہماری تذلیل اور ہماری حق تلفی کے درپے ہے تو ہمارا بھی فرض ہے کہ مردانہ وار ان سختیوں کا مقابلہ کریں اور جہاں تک ہمارے دست و بازو میں قوت ہے، خدا پر بھروسہ کرکے اپنے مساعی ان مصیبتوں کے خلاف عمل میں لائیں“
(روزنامہ ہمدرد، ١٩، نومبر۔١٩١٣)
مولانا محمد علی نہ صرف آزادی کے حامی تھے بلکہ ہر اس شخص کی عزت و احترام کرتے تھے جو جنگ آزادی کے حصول کے لیے جدو جہد کر رہا تھا۔ وہ مہاتما گاندھی کی قوم و ملت کے تئیں ہمدردی سے کافی متاثر ہوئے اور وہ کھل کر ان کی حمایت تحریر و تقریر کے ذریعہ کرنے لگے۔ وہ گاندھی جی کی خدمات کو دیکھتے ہوئے انھیں فخر ہندستان کے لقب سے پکارتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شاید ہی کوئی ہندستانی شخص ہوگا جو ایسے مرد مجاہد سے واقف نہ ہو۔ جب جنوبی افریقہ  میں گاندھی جی کو ہندستان کی حمایت کرنے کے الزام میں تیسری مرتبہ گرفتار کر لیا گیا تو مولانا محمد علی نے اپنے اخبار ”ہمدرد“ کے اداریہ میں اس تعلق سے احتجاج درج کیا:
”سر زمین ہند میں آج کون فرد ہے جو آج سپہ سالار حق و صداقت کے نام نامی سے واقف نہیں۔ یہ وہ فخر ہند نوجوان ہے جو مادر وطن کی عزت و جائز احترام برقرا رکھنے کی خاطر آج تیسری بار جنوبی افریقہ کے جیل خانوں میں وہاں کی گوری آبادی کے ہاتھوں مظلومیت کی زندگی بسر کر رہا ہے۔“
(روز نامہ ہمدرد، ١۳، دسمبر۔ ١٩١٣)
مولانا محمد علی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھیں گول میز کانفرنس میں ہندستان کی نمائندگی کا موقع ملا۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انھوں نے برطانوی حکومت کے سامنے اپنے موقف کو بہت ہی مدلل انداز میں پیش کیا۔ گرچہ ان کے موقف کو قبول نہیں کیا گیا۔اس کے باجود دوران تقریر انھوں نے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ ان کے ملک ہندستان کو آزادی دی جائے یا انھیں قبر کے لیے زمین دی جائے کیوں کہ انھیں غلام ملک میں مرنا پسند نہیں۔ وہ اپنی اس بات سچ ثابت کر گئے۔ ان کا انتقال وہیں لندن کے ایک ہوٹل میں ہوا اور تدفین کا عمل فلسطین میں ہوا۔ اس تقریر کا اقتباس ملاحظہ کیجیے:
”لیکن حقیت یہ ہے کہ آج وہ تنہا مقصد جس کے لیے میں آیا ہوں یہ ہے کہ میں اپنے ملک کو اسی صورت
میں واپس جاؤں گا جب یعنی آزادی جس پر آزادی کا اطلاق ہو سکے میرے ہاتھ میں ہو۔ میں ایک غلام ملک کو واپس نہیں جاؤں گا۔ میں ایک غیر ملک میں بشرطیکہ وہ ایک آزاد ملک ہو، مرنے کو ترجیح دوں گا اور اگر آپ مجھے ہندستان میں آزادی نہیں دیں گے تو پھر آپ کو یہاں مجھے قبر دینی پڑے گی۔“
(مولانا محمد علی جوہر آنکھوں دیکھی باتیں، مرتب معصوم مراد آبادی، صفحہ۔١٧٠۔١٦٩)
آج ہم اکیسویں صدی میں سانس لے رہے ہیں۔ یہ صدی سائنس اینڈ ٹیکنا لوجی کی صدی ہے۔ جہاں اس صدی کو کرونا جیسی وبا نے زبردست متاثر کیا ہے وہیں نئی نئی ٹکنا لوجی کی ایجادات نے ہمیں حیرت زدہ کر دیا ہے۔ یہ صدی صرف پرنٹ اور ڈیجیٹل میڈیا تک محدود نہیں رہی بلکہ اس سے بڑھ کر سوشل میڈیا کا زمانہ آ گیا ہے۔ لیکن آج کی صحافت میں جہاں بہت سی ترقیاں ہوئی ہیں وہیں کچھ تنزلی بھی آئی ہے۔ معیار اور اخلاق کے معاملے میں بہت گراوٹ آئی ہے۔ صحافت کے نام پر صرف ٹی۔آر۔پی۔ کی ریس لگی ہوئی ہے۔ مولانا محمد علی کی صحافت پر خلوص تھی، معیار بلند تھا، اصول صحافت سے کسی طرح کا سمجھوتا انھیں منطور نہیں تھا۔ حق گوئی کی وجہ سے بہت سے ساتھیوں کا ساتھ بھی چھوٹ گیا۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان کی صحافت کا جو خلوص اور معیار تھا اگر آج کی صحافت کے مزاج میں تھوڑا سا بھی حصہ شامل ہو جائے تو بیشتر ملکی مسائل حل ہو جائیں گے۔ کیوں کہ آج جتنے بھی مسائل ہیں ان میں سے اکثر کی ذمہ داری میڈیا پر عائد ہوتی ہے۔ لیکن مولانا محمد علی نے پوری زندگی میں کبھی بھی اپنے ضمیر کا سودا نہیں کیا۔ اس تعلق سے پروفیسر شہزاد انجم کی باتوں سے اتفاق کیا جا سکتا ہے: 
”محمد علی جوہر نے صحافت کو جس دیانت داری، خلوص اور اثباتی انداز میں پیش کیا اس کی نظیر ملنی مشکل ہے۔ اس کا دس پندرہ فی صد خلوص بھی آج ہمارے میڈیا کے مزاج میں داخل ہو جائے تو شاید دو تہائی ملکی مسائل خود بخود حل ہو جائیں۔ کیوں کہ یہ ایک عام اندازہ ہے کہ ہمارے زیادہ تر مسائل میڈیا کے پیدا کردہ ہوتے ہیں یا اس کی شہہ پر سر اٹھاتے ہیں اور پھر الجھنیں بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ بہر حال مولانا نے ضمیر کا سودا کبھی نہیں کیا بلکہ اسے بچائے رکھنے کے لیے طرح طرح کے خطرات کا بھی انھوں نے حوصلہ کے ساتھ سامنا کیا۔ اس کھلی ہوئی سچائی کے باوجود ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حقیقت کی تلخی زیادہ دنوں تک خواص کے حلق سے نیچے نہ اتر سکی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ’ہمدرد‘ کا گراف بھی نیچے آنے لگا۔ محمد علی جوہر حالات کا یہ زہر پینے کا بھی حوصلہ رکھتے تھے لیکن تکلیف تو بہر حال ہوئی۔“
(مولانا محمد علی جوہر، شہزاد انجم، صفحہ۔ ٦٣)
اس تعلق سے حکیم محمد عرفان الحسینی کی باتوں سے بھی اتفاق کیا جا سکتا ہے:
”ہندستان نے سیاسی فراست و بصیرت، فہم، تدبر اور مستقل مزاجی، ایثار اور قربانی کے بہت سے نمونے پیش کیے ہیں لیکن حق گوئی، بے باکی اور سرفروشی میں کوئی شخص محمد علی کے درجہ کو نہیں پہنچا۔“
(جوہر نامہ: مرتب، حکیم محمد عرفان الحسینی)
کسی بھی ملک میں  صحافت جمہوریت کا ایک اہم ستون ہے۔ اگر یہ ستون ہی کم زور پڑ جائے یا اس میں کسی طرح کی خامی پیدا ہو جائے تو اس ملک میں مختلف مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور ہر طرف خوف و ہراس کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے۔ انسانی خون پانی کی طرح بہنے لگتا ہے، لوگوں کے دلوں میں محبت کی جگہ نفرتیں لے لیتی ہیں۔ آج ہندستان کی حالت کم و بیش اسی طرح کی ہو گئی ہے۔ سیاست داں جہاں اپنے سیاسی فائدے کے لیے ملک میں نفرت کا کھیل، کھیل رہے ہیں تو اس کام میں میڈیا آگ میں گھی ڈالنے کا کام کر رہی ہے۔ مولانا نے ان باتوں کو آج سے تقریبا ایک صدی قبل ہی محسوس کیا تھا اور اس لیے وہ ملک میں ہونے والے فرقہ وارانہ کشیدگی اور فرقہ وارانہ فساد کی ذمہ داری ملک کے ناعاقبت اندیش صحافیوں پر عائد کرتے ہیں۔ عوام تو ساہ لوح ہوتی ہے، اس کے دلوں میں تو بھائی چارہ اور محبت ہوتی ہے۔ اس بھائی چارے اور محبت کو نفرت اور تعصب میں بدلنے کا کام صحافی ہی کر رہے ہیں۔ اس لیے مولانا کا کہنا ہے کہ ہر قوم کا اخبار اپنے قوم کی نمائندگی ضرور کرے لیکن ان کے جذبات کو برانگیختہ کر نے کی کوشش نہ کرے۔ ایسی تحریروں اور خبروں سے صحافیوں کو اجتناب کرنا چاہیے جس سے اتحاد میں انتشار پیدا ہونے کاخدشہ ہو۔ اس تعلق سے مولانا ’ہمدرد‘ میں لکھتے:
”فرقہ وارانہ کشیدگی اور آئے دن کے ہندستان کے مابین فسادات کی سب سے بڑی ذمہ داری ان ناعاقبت اندیش صحیفہ نگاروں پر عائد ہوتی ہے جو سادہ لوح عوام کو اپنی گمراہ کن تحریروں سے اکسایا کرتے ہیں۔ اور ان میں فرقہ وارانہ تعصب پیدا کرنے کا باعث ہوتے ہیں۔ اگر ملک کے تمام اخبار نویس اپنی ذمہ داریوں کو کما حقہ محسوس کر لیں اور اس قسم کی خبروں اور مضامین کے شائع کرنے سے احتراز کریں تو ملک میں جو فضا اس وقت ہے اس کو بدلنے میں کچھ دیر نہ ہو۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ ہندو اخبار ہندوؤ ں کی خبریں اور مسلمان اخبار مسلمان کے جائز مطالبات کی تائید نہ کریں یا ان کا تحفظ نہ کریں بلکہ عوام کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کی مذموم کوشش کی جاتی ہے۔اس سے اجتناب ضروری ہے۔“
(ہمدرد، یکم جولائی، ۶۲۹۱، صفحہ۔۳)
”ہمدرد“ کی ابتدا فروری میں ہو چکی تھی لیکن صرف ایک صفحہ پر، بعد میں اس کے صفحات کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگیا۔ لیکن یکم جون ١٩١٣ سے یہ آٹھ صفحات پر شائع ہونے لگا۔ اس اخبار میں مولانا نے ”بسم اللہ“ کے عنوان سے اداریہ لکھا۔ اس ادریہ کی شروعات وہ ان باتوں سے کرتے ہیں کہ ”ہمدرد“ نے آج اخباری دنیا میں قدم رکھا ہے لیکن سہما ہوا کہ کہیں ننگ وجود ثابت نہ ہو۔ دراصل مولانا محمد علی نے اس اداریہ میں ”ہمدرد“ کے اغراض و مقصد کو بتایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ”ہمدرد“ کا نصب العین ہے سچی خبریں عوام تک پہنچانا۔ اور ایسی معلومات فراہم کرنا جن سے قارئین کی معلومات میں روز بروز اضافہ ہو۔ یہ کسی ایک مذہب کی نمائندگی کرنے کے بجائے پورے ملک کی نمائندگی کرے گا۔ ہمیشہ آپ کے دکھ درد میں شریک رہے گا۔ عوام الناس کی دل چسپی کے مطابق ہر طرح کی چیزیں پیش کی جائیں گی۔ مذہب، سیاست، سماج، معاشرہ، ادب، لطائف، فلسفہ گویا ہر طرح کی چیزیں پیش کی جائیں گی۔ اس تعلق سے مولانا محمد علی یکم جون ١٩١٣ کے اداریہ میں لکھتے ہیں:
”ہمدرد‘ کا فرض ہوگا کہ روز سچی خبریں سنائے۔ ان کے پوری طرح سمجھنے کے لیے جن معلومات کا مہیا کرنا
ضروری ہے وہ مہیا کرے۔ رفاہ عام کی تجاویز کے حسن و قبح ناظرین کے سامنے پیش نظر رکھے، اور ہر روز ان کی معلومات میں اضافہ کیا کرے تاکہ وہ خود رائے قائم کر سکیں نہ کہ اسی کی رائے کے ہمیشہ محتاج رہیں۔ مگر یہ خیال نہ کیجیے”ہمدرد“ مسجد کا ملا ہوگا اور اس زاہد خشک کی بھی وہی مثل ہوگی کہ ”ملا کی دوڑ میت تک“ تعلیم کا اصول بھی یہی ہے کہ ایک چیز کا اس قدر مطالعہ کبھی نہ کیا جائے کہ طبیعت اکتائے جائے۔ ”ہمدرد“ علاوہ ملک و قوم کی ملا گیری کی اپنی رنگینی طبع سے احباب کی رونق محفل بھی ہوگا۔ سیاسیات کی توتو میں میں کے ساتھ ساتھ سخن کی جھنکار کی بھی سنائی دے گی، اقتصاد کے ساتھ ساتھ مزہ مزہ کے افسانے بھی ہوں گے اور فلسفہ کی پھیکی سیٹھی کچھڑی کے لیے لطیفوں کی چٹ پٹی چٹنی بھی دسترخوان پر موجود ہوگی۔ ”ہمدرد“ آپ سے سیکھے گا اور آپ کو سکھائے گا۔ خود روئے گا اور آپ کو رلائے گا اور جس طرح ساون میں کبھی کبھی پھوار کے ساتھ ساتھ دھوپ بھی ہوتی اور دھنک اپنی رنگا رنگ سپہر آرائی کی جھلک دکھاتی جاتی ہے، ”ہمدرد“ کبھی ہنستوں کو رلائے گا  اور کبھی روتوں کو ہنسائے گا۔“
(انتخاب ہمدرد، صباح الدین عمر۔ صفحہ۔۸۲۔۷۲)
مندرجہ بالا اقتباس سے اس بات کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ مولانا محمد علی ”ہمدرد“ کو صرف مذہبی رنگ میں ڈھالنا نہیں چاہتے تھے بلکہ دنیاوی ضرورت اور دل چسپی کے سامان کو بھی اس میں پیش کرنا چاہتے تھے۔ مولانا اصول کے بہت سخت تھے۔ انھوں نے نقصان اٹھانا گوارہ گیا لیکن کبھی بھی اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کیا اور یہی وجہ ہے کہ انھیں مالی خسارہ بھی سہنا پڑا، یہاں تک کہ اپنے اخبارات  کو بند بھی کرنا پڑا۔اس لیے انھوں نے ”ہمدرد“ میں ہر طرح کی چیزیں پیش کرنے کے باوجود بگڑے ہوئے ذائقے، بازاریت اور ابتذال کی نقالی جیسی چیزوں سے ہمیشہ اپنے اخبار کو محفوظ رکھا۔ آج کے اخبارات اشتہارات شائع کرنے میں ذرا بھی معیار کا خیال نہیں رکھتے ہیں، ان کا مطمح نظر صرف پیسہ ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بعض اخبارات ایک صفحہ پر قرآنی آیات شائع کرتے ہیں اور اسی صفحہ کی دوسری جانب عریاں تصویر شائع کر دیتے ہیں۔ لیکن ہمدرد نے ہمیشہ ان باتوں کا خاص خیال رکھا اور اس نے کبھی بھی اور کسی بھی قیمت پر سنیما، تھیٹر، شراب، فحش دواؤں، فحش کتابوں کے اشتہارات شائع نہیں کیے۔ اس تعلق سے مولانا عبدالماجد دریا آبادی ”محمد علی: ذاتی ڈائری کے چند اوراق“ میں رقم طراز ہیں۔
”ہمدرد" خشک پرچہ ہرگز نہ تھا۔ ادبیت اس میں اچھی خاصی نمایاں رہتی تھی۔ افسانے اس نے بارہا شائع کیے، ادبی تبصرے برابر نکلتے رہتے تھے۔ مہذب شوخی اس کے ایڈیٹوریل میں وقتاً فوقتاً جھلکتی رہی. ”حاجی بغلول“ صاحب بھی کبھی کبھی جلوہ فرمائی کرتے رہے۔ شعر و سخن کے چرچے بھی اس کے صفحات پر جاری تھے۔ با ایں ہمہ مذاق عوام کی پیروی اس سے کبھی نہ ہو سکی۔ بازاریت اور ابتذال کی نقالی وہ نہ کر سکا۔ خشک وہ یقینا نہ تھا۔ لیکن ساتھ ہی چٹ پٹا بھی نہ بن سکا۔ بگڑے ہوئے ذائقے جس چٹ پٹے پن کی تلاش میں تھے، اس سے وہ ہمیشہ تہی دامن ہی رہا۔ اشتہارات تک میں اس نے احتیاط برتی، سنیما، تھیٹر، شراب، فحش دواؤں، فحش کتابوں کے اشتہارات اس نے کسی اجرت پر بھی نہیں چھاپے۔“
(محمد علی: ذاتی ڈائری کے چند اوراق، مولانا عبدالماجد دریابادی،صفحہ۔ ٦٠۔٥٩)
مولانا نے ہمدرد کو صرف ایک اخبار سمجھ کر جاری نہیں کیا بلکہ اسے وہ ایک تحریک کی شکل دینا چاتے تھے۔ اسے انھوں نے اپنے خون جگر سے سینچا تھا۔ اس لیے ان کا کہنا تھا کہ ایسے دور میں جب ملک غلام ہو اور تحریر و تقریر کی آزادی حاصل نہ ہو، اخبار نکالنا کوئی آسان کام نہیں۔ اور ”ہمدرد“ کوئی الہٰ دین کا چراغ نہیں ہے کہ حکم کرتے ہی کام ہوجائے بلکہ ایک تحریک ہے اور کوئی تحریک اچانک وجود میں نہیں آتی ہے۔ جس طرح کسی رجحان کو تحریک بننے میں کافی وقت لگتا ہے اسی طرح سے اخبار کو بھی اپنے اغراض و مقاصد کو پورا کرنے کے لیے کافی وقت کی ضرورت پڑتی ہے۔ تب جا کر اس کا کوئی نتیجہ سامنے آتا ہے۔ اس تعلق سے مولانا محمد علی لکھتے ہیں:
”ہمدرد" جاری کرنے کا کوئی فی البدیہہ نتیجہ فکر نہیں کہ وزن اور قافیہ کے قالب میں ڈھل کر ذرا دیر میں احباب کی مجلس میں ہلچل ڈال دے، کسی گھبرائے ہوئے دل کا عارضی جزبہ نہیں جسے قوت واہمہ پلک مارتے صورت کا لباس پہنا کر موجود کر دے، بلکہ یہ نتیجہ ہے اخباری دنیا میں عرصے تک رہ نورودی کرنے، سینکڑوں ٹھوکریں کھانے اور بہت سے نشیب و فراز دیکھنے کا، قوم کی زندگی کا خلوت کدوں سے لے کر بازاروں تک مطالعہ کرنے کا۔ ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ قوم کے لیے ایک ایسا رفیق سفر تیار کر دیں جو منزل مقصود کو دور سے نہ دکھائے بلکہ گم گشتگان راہ کے ساتھ برہنہ پا ہو کر ایسے قصے کو پیدا کریں جو اصل داستان کو الف لیلہ کی طرح روز سنایا کرے اور جب تک قوم کی فلاکت اور نکبت ختم نہ ہو، یہ داستان بھی ختم نہ ہو۔“
(مولانا محمد علی جوہر: سیاست، صحافت، شاعری۔ڈاکٹر منور حسن کمال، صفحہ۔ ١٢٢)
مولانا محمد علی جوہر نے اپنے اخبار ”ہمدرد“ کے ذریعہ نہ صرف لوگوں کے سیاسی شعور کو بیدار کیا بلکہ ملک کی جنگ آزادی میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ انھوں نے اپنی صحافت کے ذریعہ اردو نژکو فکر انگیزتحیر یروں سے مالا مال کیا۔ ان کی تحریروں میں کہیں بھی خوف کا شائبہ نظر نہیں آتا ہے اس لیے کہا جاسکتاہے کہ ان کے قلم سے ہمیشہ سچی اور بے خوف تحیریریں نکلتی تھیں۔انہیں الفاظ کے استعمال پر عبور حاصل تھا اور اس لیے روانی آپ کی تحیریروں کی خاص صفت ہے۔ آپ ہمیشہ عام فہم نثر لکھتے اور مشکل پسندی سے اپنے آپ کو ہمیشہ دور رکھا۔ ایک صحافی کئی علوم پر عبور رکھتا ہے اور یہ خاصیت مولانا میں موجود تھی۔ موجودہ حالات پر تبصرہ ہو، گرد و پیش کے مسائل ہوں یا کوئی اور موضوع آپ کا قلم ہر جگہ سرپٹ دوڑتا ہوا نظر آتا ہے۔ اگر ان کی شاعری کی بات کی جائے تو یہاں بھی ان کی اپنی الگ انفرادیت ہے۔ ان کی شاعری ان کی زندگی کا آئینہ ہے۔ خوف خدا، عشق رسول، قومی ہمدردی، حب الوطنی اور دنیا و مافیا سے بے نیازی ان کی شاعری کے بنیادی اوصاف ہیں۔ یہ تھے مولانا محمد علی جوہرجنھوں نے اپنی پوری زندگی اور مال و دولت ملک اورقوم و ملت کے نام کر دیا۔ اس لیے ان کی خدمات کو کسی طور پر بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔انھوں نے بے لوث خدمت کی۔ کبھی بھی صلہ اور تمنا کی پرواہ نہ کی۔ مولانا کی خدمات کے تعلق سے ہندستان کے صدر ذاکر حسین کی باتوں سے اتفاق کیا جانا چاہیے:
”محمد علی کی زندگی کا بیان دراصل ایک قوم اور ایک ملت کے حال اور مستقبل کی تفسیر کرنا ہے کہ محمد علی اسلامی ملت اور ہندی قوم کا قائد تھا اور نمائندہ بھی۔ ایک بیدار ہونے والے ملک ایک خواب گراں سے جاگنے والی ملت کی ساری بیتابی، سارا وفور شوق، ساری گرمی، ساری سر فراموشی، ایک پیکر خاکی میں جلوہ گر تھی۔ یہی نہیں اس کی ذات کا آغازکار کی تمام تکلیفوں اور پریشانیوں، بے ترتیبوں اور ہنگاموں کا مظہر بھی نا مساعد حالات سے جنگ پیہم، بے سرو سامانی، بے یاری و مددگاری، ہمرہوں کی خفتہ پائی، ہم نواؤں کی کج فہمی، غرض کون سی چوٹ تھی جس نے اس کی روح کے گوشہ کو گھائل نہ کر دیا ہو، ہماری قومی اور ملی زندگی کی اجمالی تصویر تھا۔ مگر بس ایک خاکہ دھندلا سا اور نا مکمل، اس کی تکمیل کا پورا حق بیسویں صدی میں اسلام اور ہندستان کی سرگذشت لکھنے والا مورخ ادا کر سکے تو کر سکے، مگر اس نمائندہ قائد کے سینے میں ایک آگ تھی جس کی چنگاری سے خفتہ ملتیں بیدار اور مردہ قومیں زندہ ہو جاتی ہیں۔ وہ آگ جو کبھی باطل دوستوں کے لیے بت ناگوار شعلہ نوائی کی شکل  میں ظاہر ہوتی ہے، کبھی آنسو بن کر اس کی سرشار محبت آنکھوں سے ڈھلنی تھی، اپنے سوز کے اس دفینۂ آتشی سے وہ اپنی قوم کے نوجوانوں کے سینہ میں کچھ چنگاریاں منتقل کر گیا ہے، جو اس کے ان خوابوں کی تعبیر کی ضمانت ہیں۔ جنھیں نادان سمجھتے ہیں اس کے ساتھ ختم ہو گئے۔“
(ذاکر حسین)
میں اپنا مقالہ مولانا محمد علی جوہر کے شعر پرمکمل کرتا ہوں۔
عقل کو ہم نے کیا نذر جنوں
عمر بھر میں یہی دانائی کی
(مولانا محمد علی جوہر)
محمد منظر حسین کا گذشتہ مقالہ : سر سید کا تصور تعلیم

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے