پئے تفہیم : ایک مطالعہ

پئے تفہیم : ایک مطالعہ

محمد صدر عالم ندوی
ویشالی
رابطہ: 9661819412

"پئے تفہیم" مظہرؔ وسطوی کا تازہ ترین شعری مجموعہ ہے، ابھی مظہرؔ نوجوان ہیں، عمر نبوت کو بھی نہیں پہنچے ہیں، تازہ دم ہیں، اور تازہ دم ہو کر شاعری بھی کرتے ہیں۔ پئے تفہیم ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ ہے جو ۲۰۲۱ میں اردو ڈائرکٹوریٹ محکمہ کابینہ سکریٹریٹ پٹنہ کے مالی تعاون سے چھپ کر منظر عام پر آیا ہے۔ مظہرؔ وسطوی کا اصل نام مظاہر حسن ہے لیکن وہ قلمی نام مظہرؔ وسطوی سے ہی مشہور ہیں۔ مظہر وسطوی طالب علمی کے زمانے سے ہی شاعری کرتے ہیں. اس سلسلہ میں سب سے پہلی غزل کی اصلاح انھوں نے آسنسول کے مشہور شاعر جناب محبوب انورؔ سے لی. انھوں نے شاعر کی اصلاح ہی نہیں کی بلکہ ہمت افزائی اس طرح کی کہ شاعرکا من گد گد ہوگیا – ان کےالفاظ پڑھیے :
"آپ کی یہ پہلی کوشش ہے، بھلے ہی اس میں بہت سی خامیاں ہیں، مگر غزل کے مضامین کی تلاش و جستجو آپ ہی کی ہے۔ نقاٸص کو دور کرنے کا نام ہی اصلاح ہے، اصلاح کے بعد تبدیلی کا ہونا لازمی ہے لہذا یہ آپ کی تخلیق کہی جائے گی“۔
اب صاحب کتاب مظہرؔ وسطوی کی تحریر( حرف ابتدا )کا اقتباس پڑھیے :
”مذکورہ جملوں نے مجھے کافی حوصلہ دیا میں گاہے بہ گاہے اپنے ذوق کی تسکین کے لیے اشعار کہتا رہا اور اپنے بیاض کی زینت بناتا رہا لیکن اس کے بعد محبوب انور سےخط و کتابت کا معاملہ ختم ہوگیا. میں نے اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو فوقیت دینا زیادہ مناسب سمجھا لیکن شعر و شاعری میں دل چسپی برقرار رہی۔ محبوب انور صاحب کا ٢٠١٤ میں انتقال ہوا تو میں نے ایک تعزیتی نظم ان کےتعلق سے کہی جو اس کتاب میں شامل ہے۔ میں جب ٢٠١٣ میں شاعری کی طرف باضابطہ مایل ہوا تو محترم قوسؔ صدیقی صاحب کا شرف تلمذ حاصل ہوا. ان کی محبتوں اور شفقتوں نے مجھے بہت کچھ سکھایا۔میں شاعری کرنے لگا اور اخبارات و رسائل میں چھپنےلگا. ٢٠١٩ء میں اپنےشعری مجموعہ کو شایع کرانےکا ارادہ کیا مگر حالات سازگار نہ ہونے کی وجہ سے تاخیر ہوئی اور اس طرح ٢٠٢١ میں یہ کتاب منظرعام پر آئی“ ۔
مظہرؔ وسطوی نٸ نسل کے سنجیدہ شاعر ہیں۔ ان کے یہاں الفاظ کا توازن ہے۔ ان کی شاعری صداقت پر مبنی ہے اور اردو سے محبت کی مثال ہے۔ ان کے ایک قطعہ کو دیکھیے:
جنھیں اردو سے الفت ہے انھیں اکرام ملتا ہے
زباں کی قدر دانی کا بھلا انجام ملتا ہے
یہی پیغام اردو ہے، محبت بانٹتے رہیے
کریں خدمت، نہ سوچیں کیا ہمیں انعام ملتا ہے
شاعری ایک الہامی فن ہے۔ یہ فن کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے۔ شاعری تلوار سے زیادہ تیزکام کرتی ہے اور اس کی زد میں جو آجاتا ہے وہ زخم کھا کر ہی رہتا ہے۔
ایک اچھا شاعر زندگی کے تلخ حقائق کو منظوم انداز میں پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
شاعری کی ایک صنف غزل ہے جب غزل کی بات آتی ہے تو عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ غزل میں صرف عورتوں کے تعلق سے باتیں ہوتی ہیں اور نوجوانوں کی ذہنی تسلی کا سامان موجود ہوتا ہے. حالانکہ آج کے اس ترقیاتی دور میں غزل کا دائرہ وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔ جہاں ہر طرح کے مضامین غزل میں باندھے جا رہے ہیں۔ ایک سنجیدہ شاعری وہ ہے جس میں تجربات و احساسات کی صحیح صحیح ترجمانی بھی ہو اورقاری کے ذہن و دل پر مثبت اثر قائم کرنے کی کوشش بھی۔
مظہرؔ وسطوی کے یہاں مذکورہ فکری و فنی رجحانات کی عمدہ مثالیں موجود ہیں۔ ان کے یہاں غلو کے عناصر نہیں کے برابر ہیں۔ مثال کے طور پر چند اشعار دیکھیں:
اگر سچائی کے حق میں تمھارا فیصلہ ہوگا
محبت کاصلہ پھر اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا
حسیں خوابوں کے نرغے سے سلامت میں نکل آیا
حسینوں کے قبیلے میں بڑا چرچا ہوا ہوگا
کسی کا دل دکھانےکی ہمیں عادت نہیں ہرگز
کبھی بھی بھول کر ہم نے نہیں ایسا کیا ہوگا
جہاں میں چاہ کر بھی تم مٹا سکتے نہیں ہم کو
زباں پر اپنی جب تک نعرۂ صل علی ہوگا
کوئی ماں جب بھی کہتی ہے کہ بیٹا جا خدا حافظ
یقیناً ایسے بیٹے کا ہر اک لمحہ بھلا ہوگا
مرےگی یونہی مظہرؔ جل کے اپنے ملک کی بیٹی
جہیزوں کے جو لینےکا جوانوں میں نشہ ہوگا
زمانہ بہت اب خراب آرہا ہے
ترقی کو تھامے عذاب آرہا ہے
محبت کی رسمی علامت ہے یہ بھی
کہ پرزے میں سوکھا گلاب آرہا ہے
مری آنکھ پتھرا رہی ہے بہت اب
وہ کب سے تمھارا جواب آرہا ہے
مظہر وسطوی کی شاعری میں دور حاضر کے سماجی مسائل بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ان کے یہاں حالات حاضرہ کی سچی ترجمانی ہوئی ہے :
کس نےکہا کہ آج کی دنیا مزے میں ہے
ہر شخص جانتا ہے وہ کتنا مزے میں ہے
جذبۂ انسانيت باقی کہاں ہر دل میں ہے
اس لیے تو آج کل ہر آدمی مشکل میں ہے
میں اپنی جان ہتھیلی پہ لے کے چلتا ہوں
کہ میرے شہر کا بدلا ہوا نظارہ ہے
مظہرؔ وسطوی کی شاعری حقیقت کی آئینہ دار ہے۔ الفاظ بھی آسان استعمال کرتے ہیں جس سے عام قاری کو کسی ذہنی الجھن کا شکار نہیں ہونا پڑتا ہے۔ کامران غنی صباؔ نے شاعر کے تعلق سے بہت صحیح لکھا ہے:
”مظہر وسطوی کی شاعری متوازن شاعری کی بہترین مثال ہے. ان کے یہاں نہ تو خود ساختہ ادبی پیچیدگیاں ہیں اور نہ عوامی مقبولیت حاصل کرنےکی تمنا کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سطحیت."
کتاب کی پشت پر ڈاکٹر عطاؔ عابدی کی تحریر ہے. انھوں نے کتاب کے تعلق سے صاحب کتاب کا تعارف اس طرح کرایا ہے:
”مظہر وسطوی کی شاعری دل و دنیا کے احوال اور ان احوال کے تعاقب کا حاصل ہے۔ اس کتاب میں کامران غنی صبا، ڈاکٹر بدرمحمدی، نذرالاسلام نظمی، ڈاکٹر ارشدالقادری اور ڈاکٹر عطاعابدی کی تحریر ہے جس سے کتاب کی اہمیت دوبالا ہوجاتی ہے۔
"پئے تفہیم" میں حمدونعت کے علاوہ پینسٹھ غزل اور مختلف عناوین سے آٹھ نظمیں ہیں جو اس مجموعہ کا کل اثاثہ ہیں۔ کتاب کا نام ”پئے تفہیم“ ذرا مشکل نام ہے مگر یہ صاحب کتاب کا فیصلہ ہے۔ جہاں تک ممکن ہو کتاب کا نام آسان رکھنا چاہیے تاکہ قاری کا ذہن آسانی سے سمجھ سکے۔ کتاب ظاہر و باطن دونوں اعتبار سےجاذب نظر ہے جسے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس نٸی دہلی نے چھاپا ہے۔ ١٩٢ صفحات کی کتاب صرف ١٧٥ روپے میں دستیاب ہے۔ امید ہے کہ یہ کتاب اردو آبادی میں پسند کی جائے گی، میں اس کتاب کی طباعت پر مظہؔر وسطوی کو مبارکباد دیتا ہوں اور آگے بھی نیک توقعات رکھتا ہوں۔
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :پئے تفہیم، پئے تفہیم: ایک مطالعہ ایک تاثر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے