بہار میں اردو اور اقلیتی ادارے معطل کیوں ہیں؟

بہار میں اردو اور اقلیتی ادارے معطل کیوں ہیں؟

ڈاکٹر سیّد احمد قادری
رابطہ: 8969648799

ریاست بہار میں اردو زبان کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ یہ خصوصی درجہ بلا شبہ بہت مشکلوں سے لمبی لڑائی، تحریک، تگ و دو اور ایثار و قربانی کے بعد ملا تھا، تاکہ آنے والی نسلیں اپنی مادری زبان اور زبان سے وابستہ شان دار روایات، تہذیب، تمدن، قدروں کی اہمیت و افادیت کو برقرار رکھتے ہوئے اس زبان میں موجود اپنے قیمتی اثاثہ اور اسلاف کی اہمیت اور افادیت سے استفادہ کریں۔ لیکن گزشتہ چند برسوں سے حکومت بہار کے متعصب نوکرشاہوں کی متعصبانہ کوششوں سے اردو زبان اور اقلیتی ادارے زبوں حالی کے شکار ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے حکومت کا دم بھرنے والی کئی ایسی شخصیات موجود ہیں جو اردو زبان اور اقلیتی اداراوں کی زبوں حالی کے خلاف آواز اٹھا سکتے ہیں لیکن ان لوگوں کے سیاسی مفادات اور مصلحت پسندی نے ان کی زبان پر قفل ڈال رکھے ہیں۔
میں بہار کے وزیر برائے اقلیتی امور اور جے ڈی یو اقلیتی کمیٹی کے سربراہ کی اس بات سے متفق ہوں کہ بہار کے وزیر اعلا نتیش کمار ایک ایمان دار، با شعور، سیاسی بصارت اور بصیرت رکھنے والے سیاست داں ہیں، جو ہمیشہ ہر طبقہ کے لیے فکر مند رہتے ہیں اور اپنے منصفانہ عمل سے حتی الامکان کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونے دیتے ہیں۔ اردو زبان کی ترویج و اشاعت کے سلسلے میں کئی بار مختلف موقعوں پر وہ اپنی دل چسپی کا اظہار کر چکے ہیں۔ ادھر چند دنوں قبل گیا میں ہونے والی اقلیتی کانفرنس میں بہار میں برسر اقتدار حکومت کے قریب مانے جانے والے اقلیتی رہ نماؤں نے اس بات کی شکایت کی ہے کہ نیتیش کمار کی حکومت نے بہار کے اقلیتی طبقہ کی مالی، تعلیمی و سماجی ترقی کا ہر کام کیا لیکن مسلمانوں کا جھکاؤ جے ڈی یو کی جانب نہیں ہے۔ شکایت کسی حد تک بجا ہے۔ لیکن ایسا کیوں ہے۔ ان وجوہات پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنے اور ان کے تدارک کی ضرورت ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بہار میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہونے کے بعد بھی یہاں اردو زبان کی زبوں حالی کے ذمّہ دار اردو والے خود بھی ہیں، جو سرکاری مراعات کی اہمیت و افادیت سمجھتے ہیں اور نہ ہی انھیں اپنی ذمّہ داریوں کا احساس ہے۔ پھر بھی کسی ادارے کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے تو وہ ادارہ متحرک اور فعال رہتا ہے اور متعلقہ عوام الناس ان اداروں سے مستفیض ہوتے ہیں، جو حکومت کا اہم مقصد ہوتا ہے۔
لیکن ادھر گزشتہ کئی برسوں سے ریاست بہار کے کئی اہم اقلیتی اور اردو زبان کے اداروں کی تشکیل نو نہ ہونے کے باعث ان اداروں کی ساری کاکردگی معطل ہو کر رہ گئی ہے۔ اس سال جب حج کا سلسلہ شروع ہونے جا رہا ہے تب معطل پڑے ریاستی حج کمیٹی کی تاخیر سے قدم اٹھاتے ہوئے تشکیل نو کی گئی ہے۔ تشکیل نو کے انتظار میں بہاراسٹیٹ مدر سہ بورڈ بھی ان دنوں تعطل کا شکار ہے۔ پچھلی بار اس مدرسہ بورڈ کا چئیرمین ایک ایسے متنازع اور انتظامی امور سے نابلد شخص کو بنا کر اس کی ناقص کارکردگی کے باعث مسلسل بہار مدرسہ بورڈ منفی خبروں میں رہا جس کا خمیازہ بہار کے مدارس کو اٹھانا پڑا ہے۔ اس بڑے نقصان کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ ریاست بہار کے محکمہ تعلیم نے بہار مدرسہ بورڈ کے تین ضابطوں میں تبدیلی کرتے ہوئے اس ادارہ کی خود مختاری کو ختم کر نے کی منظم کوشش کی ہے۔ اس کوشش کے خلاف بہار کی اردو آبادی میں بہت زیادہ تشویش پائی جا رہی ہے اور کئی طرح کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ نوکر شاہوں کی اس سازش کو سمجھتے ہوئے ریاست کے کئی علاقوں میں احتجاج و مظاہروں کا سلسلہ چل رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ مدرسہ بورڈ کے نئے ضابطے آئین کے منافی ہیں اور مدارس کے اقلیتی کردار پر حملہ کے مترادف ہے۔ جب تک ان تین ضابطوں کی واپسی نہیں ہوتی ہے تب تک تحریک چلانے کا انتباہ کیا گیا ہے۔اس تعطل اور مدرسہ بورڈ کے بدلے جانے والے ضابطوں کے ضمن میں جنتا دل یو کے صوبائی اقلیتی سیل کے صدر اور قانون ساز کونسل کے سابق چئیرمین ڈاکٹر سلیم پرویز نے ایک میٹنگ کے دوران اقلیتی طبقہ کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ہے کہ بہار مدرسہ بورڈ کے ضابطوں میں تبدیلی کے باعث جو تشویش اور خدشات ہیں، ان سے وہ وزیر اعلا کو آگاہ کریں گے۔
بہار میں اردو زبان و ادب کے حوالے سے ایک خاص پہچان رکھنے والا ایک اہم ادارہ بہار اردو اکادمی بھی گزشتہ چار پانچ برسوں سے معطل پڑا ہے۔ جس کے باعث بہار کی سطح سے فروغ پانے والی اردو زبان اور ادب کو بڑا نقصان ہو رہا ہے۔ بہار کے ادیبوں، شاعروں و دانشوروں کے درمیان بہار اردو اکادمی کے اس تعطل سے خاصی ناراضگی پائی جا رہی ہے۔ ریاستی حکومت تک اردو زبان کے مسائل کے سلسلے میں مشورہ دینے کے لیے ایک بہت اہم ادارہ بہار اردو مشاورتی کمیٹی ہوا کرتی تھی۔ جس نے پچھلے دور میں اپنی بے مثال کارکردگی سے پورے ملک کی توجہ مرکوز کرائی ہے۔ اس ادارہ سے کلیم عاجز، شفیع مشہدی اور عبد الصمد وغیرہ جیسی نامور شخصیات منسلک رہی ہیں۔ لیکن افسوس کہ بہار کا یہ اہم ادارہ بھی گزشتہ پانچ برسوں سے اپنی نئی اور متحرک زندگی کے لیے ترس رہا ہے۔ بہار کے قلب میں اشوک راج پتھ پر قائم قدیم گورنمنٹ اردو لائبریری بھی اس بات کی منتظر ہے کہ نئی کمیٹی تشکیل دے کر اس میں بھی نئی جان پھونکی جائے۔ ادارہ تحقیقات عربی و فارسی اور ایک بے حد قدیم اور ملک و بیرون ممالک میں اپنی شناخت رکھنے والا مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ بھی گزشتہ کئی برسوں سے اساتذہ اور پرنسپل کی خالی جگہوں کو کانٹریکٹ کے بجائے باضابطہ بحالی سے پُر نہیں کیے جانے کے باعث بے رونق اور ویران پڑا ہے۔ افسوس کہ ہمارے اسلاف کی انتھک کوششوں سے تعمیر شدہ ان اہم اور تاریخی اداروں کا اس وقت کوئی پرسان حال نہیں۔
اردو زبان، جسے بہار کی دوسری سرکاری زبان ہونے کا دستوری حق حاصل ہے، اسے بھی ایک منظم اور منصوبہ بند سازش کے تحت حکومت بہار کی وزارت تعلیم نے ایک سرکولر نمبر: 799 بتاریخ: 15/ مئی 2020 ء جاری کرتے ہوئے اردو زبان کو میٹرک سطح سے ختم کرنے کی کوشش کی  ہے۔ اس اردو مخالف سرکولر کے خلاف بڑھتے احتجاج اور مظاہروں کو سرد کرنے کے لیے اس سرکولر میں ترمیم ضرور کی گئی لیکن بڑی چالاکی سے گھما پھرا کر معاملہ اسی طرح برقرار رکھا گیا اور ترمیم کے بعد بھی اردو زبان کو لازمی زبان کے بجائے اختیاری زبان کی حیثیت دے کر ہائی اسکول کے اردو طلبا و طالبات کے لیے اردو پڑھنے کے راستے کو روک دیا گیا ہے۔ اب تصور کیجیے کہ بنیادی سطح سے ہی اردو ختم ہو جائے گی پھر انٹر میڈیٹ کلاسوں اور کالجوں و یونی ورسیٹیوں میں اردو پڑھنے والے کس طرح بچے پہنچیں گے۔ اردو زبان کے تئیں ان متعصبانہ اقدام کے بعد اردو زبان کا حال بھی وہی ہوگا جو آج فارسی زبان کا ہو رہا ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ اس مذکورہ اردو مخالف سرکولر کو واپس لے کر سابقہ صورت حال کو بحال کی جائے تاکہ اردو زبان کو آئینی اور دستوری حق اور انصاف مل سکے۔ اسکولوں میں بہت سارے اسکول ایسے ہیں، جہاں اردو یونٹ پر دوسری زبان کے اساتذہ بحال ہیں۔ ٹی ای ٹی کے تحت اردو اساتذہ کی بحالی کا معاملہ بھی سپریم کورٹ کے فیصلہ کے باوجود التوا میں پڑا ہے۔ اس جانب بھی حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
بہار میں اردو زبان اور اقلیتی اداروں کی زبوں حالی سے بہار کے وزیر اعلا کو واقف کرانے کی ذمہ داری لیتے ہوئے جے ڈی یو اقلیتی سیل کے ریاستی صدر اور قانون ساز کونسل کے سابق نائب چیئرمین ڈاکٹر سلیم پرویز نے  کہا ہے کہ نیتیش کمار اقلیتوں کے سچّے مسیحا ہیں۔ اس لیے توقع ہے وہ ضرور اس سلسلے میں پیش رفت کرتے ہوئے بہار میں تعطل کے شکار اردو اور اقلیتی اداروں کی تشکیل نو کرتے ہوئے  یہ ثابت کریں گے کہ وزیر اعلا بہار نیتش کمار اقلیتوں کے سچے مسیحا ہیں۔
٭٭٭٭٭٭
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش :شیر شاہ سوری: تاریخ کی ناانصافیوں میں گم

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے