سر سید کا تصور تعلیم

سر سید کا تصور تعلیم

محمد منظر حسین

اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو، مولانا آزاد کالج، کولکاتا 

١٨٥٧ء کی بغاوت کے بعد انگریزی حکومت کا تسلط ہندستان پر مستحکم ہو گیا۔ پورے ملک میں خوف و دہشت اور افرا تفری کا ماحول پیدا ہو گیا۔ ایک جانب غلامی کا خوف تو دوسری جانب عیسائی مشنری کے ذریعہ لوگوں کو عیسائی بنانے کی سازشیں۔ ایسے برے اور مشکل وقت میں مختلف اذہان نے اپنے اپنے طور پر اس بحران سے قوم کو نکالنے کی سعی کی۔ انگریز اس بات کو شدت سے محسوس کر رہے تھے کہ ١٨٥٧ء کی بغاوت میں کلیدی رول مسلمانان ہند کا ہے۔ اس لیے اس قوم کو حکومت کے تعصب کا سب سے زیادہ شکار ہونا پڑا۔ مسلمانوں کے لیے حکومت کی محرومی کا صدمہ ہی کچھ کم نہ تھا کہ دوسری جانب حکومت کی پشت پناہی میں عیسائی مشنری کی عیسائیت کی یلغار نے عقل و ادراک والے لوگوں کو اس صورت حال سے نپٹنے کے لیے سوچنے پرمجبور کر دیا۔ اس صورت حال میں مسلمان قوم میں سے دو افراد سامنے آئے۔ ایک نے مسلمانوں کی مذہبی تعلیم کی بقا کے لیے ایک مدرسے کی بنیاد ڈالی۔ جو آج دارالعلوم دیوبند کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس ادارے کے فارغین کی شناخت قاسمی کی حیثیت سے ہوتی ہے۔ اس کے بانی حجت الاسلام مولانا قاسم نا نوتوی صاحب تھے۔ جب کہ دوسری شخصیت کا نام سر سید ہے۔ سر سید نے مسلمانوں کو جدید علوم سے روشناس کرانے کے لیے علی گڑھ کی سرزمین پر مدرسۃ العلوم کی بنیاد ڈالی جو آج علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے نام سے پورے عالم میں جانی پہچانی جاتی ہے۔ اس کے فارغین اپنے آپ کو علیگ لکھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ آج دنیا کے کونے کونے میں علی گڑھ کا فیض علیگ کی شکل میں پہنچ رہا ہے۔
عام لوگوں کی نظر میں سر سید کی شناخت صرف بانی علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کی ہے لیکن وہ صرف ایک تعلیمی ادارہ کے بانی نہیں تھے۔ بلکہ وہ ایک ہم درد، مصلح قوم، مفکر، مفسر قرآن، ماہر سیاست داں، ماہر تعلیم، اہل قلم اور صاحب طرز ادیب بھی تھے۔ وہ کبھی بھی کسی طرح کے حالات سے نہیں گھبرائے بلکہ ہمیشہ مقابلہ کرنا اور اس سے سمجھوتہ کرنا سیکھا اور اپنی قوم مسلم کو بھی اس کی تلقین کرتے رہے۔ وہ اپنے تمام اہل وطن بالخصوص مسلمانوں کو نئی ضرورتوں اور نئے تقاضوں سے روشناس کرانا چاہتے تھے اور اس کار نیک کے لیے ان سے جو کچھ بھی بن پڑا انھوں نے کیا۔ مدرسے بنائے، انجمنیں قائم کیں، کتابیں لکھیں، مضامین شائع کرائے، دوسروں سے کتابیں اور مضامین لکھوائے، رسائل جاری کیے، دور دراز کا سفر کیا، مسلمانوں اور انگریزوں کے درمیان قائم شدہ خلیج کو دور کرنے کی کوشش کی، اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اغیار اور اپنوں کی لعن و طعن سے بے نیاز ہو کر قوم کی فلاٖح و بہبود میں لگایا۔ انھوں نے خود بھی بہت کام کیا اور دوسروں سے بھی کام لیا۔ اس طرح انھوں نے اپنی فعالیت سے دوسرں کے اندر بھی حرکت پیدا کر دی۔ سیر سید کی تحریروں اور ان کے کارناموں کو فرسودہ عینک لگا کر نہیں بلکہ نئی صدی کے نئے تقاضوں کے مطابق دیکھنے کی ضرورت ہے تبھی ان میں سے نئی معنویت ابھر کر ہمارے سامنے آئے گی۔
مسلمان عیسائیت سے خوفزدہ ہو کر جدید علوم سے دوری اختیار کر رہے تھے کہ کہیں جدید علوم کے ساتھ ان پر عیسائیت کا اثر غالب نہ ہو جائے جب کہ ملک کی دوسری قومیں جدید علوم کو بہت تیزی سے اپنا رہی تھیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دوسری قومیں ترقی کی منزلوں کے قریب پہنچتی ہوئی نظر آئیں اور مسلمان تنزلی کی طرف۔ وہ مختلف رسوم و قیود کے شکار ہونے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ جس طبقے نے انگریزی اور جدید علوم کو حاصل کیا انھوں نے نہ صرف حکومت وقت کا اعتبار حاصل کرلیا بلکہ اس کا حصہ بھی بن گئے۔ اس تبدیلی کو سر سید کی دور بین نگاہیں دیکھ رہی تھیں۔ اور انھوں نے فیصلہ کر لیا کہ اگر مسلمانوں کو ترقی کرنی ہے تو انھیں اپنے مذہب کے ساتھ جدید تعلم کو بھی اپنانا ہوگا۔ اس لیے سر سید نے اپنی تمام تر توجہ تعلیم کے فروغ پر مرکوز کردی۔ انھوں نے جو کچھ بھی کیا، جو کچھ بھی کہا اور جو کچھ بھی لکھا وہ تعلیم کی افادیت کو ظاہر کرنے کے لیے یا اپنی قوم کے اندر تعلیمی بیداری پیدا کرنے کے لیے۔ سائنٹفک سو سائٹی، مدرستہ العلوم، محمڈن اورینٹل کالج بھی اسی کی کڑیاں ہیں۔اس تعلق سے سر سید خود لکھتے ہیں کہ:
”میں صرف اس خیال سے کہ کیا راہ ہے جس سے قوم کی حالت درست ہو۔ دور دراز سفر اختیار کیا اور بہت کچھ دیکھا جو دیکھنے کے لائق تھا۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جب میں نے عمدہ چیز دیکھی تو، جب کبھی عالموں اور مہذب آدمیوں کو دیکھا، جب کبھی کھیل کود، عیش و آرام کے جلسے دیکھے، یہاں تک کہ جب کبھی کسی خوب صورت شخص کو دیکھا، مجھ کو ہمیشہ اپنا ملک اور اپنی قوم یاد آئی اور نہایت رنج ہوا کہ ہماری قوم ایسی کیوں نہیں؟ جہاں تک ہو سکا ہر موقع پر میں نے قومی ترقی کی تدبیروں پر غور کیا۔ سب سے اول یہی تدبیر سوجھی کے قوم کے لیے قوم ہی کے ہاتھ سے ایک مدرستہ العلوم قائم کیا جائے جس کی بنیاد آپ کے شہر میں اور آپ کے زیر سایہ پڑی ہے۔“
سر سید نے مدرستہ العلوم کی شکل میں ایک ایسا تعلیمی پودا لگایا جس نے بعد میں  ننھے سے پودے سے تناور درخت بن کر یونی ور سٹی کی شکل اختیار کر لیا۔ سر سید کا صرف یہ مقصد نہیں تھا کہ بچے اس میں داخلہ لیں، ڈگریاں حاصل کریں اور اس کے ذریعے سرکاری ملازمت حاصل کرلیں بلکہ ان کا مقصد عظیم تر تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس تعلیم سے اس طرح کے فوائد بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں لیکن اس کا درجہ بہت ہی معمولی ہوگا۔ وہ اس یونی ورسٹی کو اس سے کہیں بہتر اور مفید مقاصد کی جگہ بنانا چاہتے تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ اس یونی ورسٹی میں آکسفورڈ اور کیمبرج یونی ورسٹی والی خصوصیات ہوں۔ جہاں بچوں کی تعلیم کے ساتھ اچھی تربیت کا بھی بند و بست ہو۔ اور ایسے باکمال لوگ پیدا کیے جائیں جو اپنے ہنر میں یکتا ہوں۔ وہ ایسا چراغ روشن کریں جس سے پورا ملک علم کے نور سے منور ہو جائے۔ حالی سر سید کے اس خیال کو اس طرح پیش کرتے ہیں۔
”وہ چاہتے تھے اس دارالعلوم میں کیمبرج یونی ورسٹی کے فیلو سسٹم جاری کیا جائے اور جو طالب علم فارغ التحصیل ہو جائے اس کو کسی خاص علم میں جس سے وہ خاص مناسبت رکھتا ہو مصروف رہنے اور اس میں کمال حاصل کرنے کے لیے فیلو شپ دیا جایا کرے اور اس طرح ایک گروہ عالموں اور محققوں کا پیدا کیا جائے جو تمام قوم میں علم و کمال پھیلانے کے لیے بہ منزلہ آلہ کے ہو۔“
(حیات جاوید، مولانا حالی، صفحہ۔ ١٨٩)
سر سید کو شدت کے ساتھ احساس تھا کہ ان کی قوم میں با صلاحیت افراد کی کوئی کمی نہیں۔ عام انسانوں میں جو صلاحیتیں پائی جاتی ہیں وہ ان کی قوم کے افراد میں بھی بدرجہ اتم موجود ہیں۔ بس کمی اس بات کی تھی کہ ان پوشیدہ صلاحیتوں کو نکھارا کس طرح جائے۔ اور اگر ان صلاحیتوں کو صحیح سمت نہیں دکھایا گیا تو نہ صرف اس کے ضائع ہونے کا خدشہ ہے بلکہ غلط سمت میں استعمال ہونے کا بھی خطرہ رہے گا۔ اس لیے ان صلاحیتوں کو صحیح سمت میں بروئے کار لانے کے لیے بس ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے تعلیم و تربیت کا۔ سرسید اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:
”مجھ کو اس بات کا رنج ہے کہ میں اپنی قوم میں ہزاروں نیکیاں دیکھتا ہوں پر ناشائستہ، ان میں نہایت دلیر اور جرات پاتا ہوں پر خوفناک، ان میں نہایت قوی استدلال دیکھتا ہوں پر بے ڈھنگا، ان کو نہایت دانا اور عقل مند پاتا ہوں پر اکثر مکر و فریب اور زور سے ملے ہوئے۔ ان میں صبر و قناعت بھی اعلا درجے کی ہے مگر غیر مفید اور بے موقع، پس میرا دل جلتا ہے اور میں خیال کرتا ہوں کہ اگر یہی ان کی عمدہ صفتیں عمدہ تعلیم و تربیت سے آراستہ ہو جاویں تو دین اور دنیا دونوں کے لیے کیسی کچھ مفید ہوں۔“
(تہذیب اخلاق، یکم شوال ١٢٨٩ھ) 
سر سید خوب اچھی طرح جانتے تھے کہ چند کتابوں کے مطالعے سے انسان اپنی شخصیت کو نکھار نہیں سکتا۔ بلکہ تعلیم کے ساتھ تربیت نہایت ضروری ہے۔ اس لیے سر سید نے ہندستانیوں کو آکسفورڈ اور کیمبرج یونی ورسٹی کی طرز پر تعلیم دینا چاہتے تھے۔ اور اس کی وجہ ان کا سفر انگلینڈ ہے۔ جب انھوں نے انگلستان کا سفر کیا اور ان اداروں کے تعلیم و تربیت کے نظام کو بہت قریب سے دیکھا تو ان کے دل و دماغ یہ بات پوری طرح سے واضح ہوئی کہ تربیت تعلیم کا بنیادی عنصر ہے اور اس کے بغیر تعلیم نامکمل ہے۔ انھوں نے ہمیشہ تعلیم و تربیت کو الگ الگ چیز جانا اور ان دونوں کو ہم معنی سمجھنے کو بہت بڑی بھول بتایاہے۔ اس تعلق سے خود سر سید کی زبانی سنیے۔
”تعلیم اور تربیت کو ہم معنی سمجھنا بڑی غلطی ہے۔ بلکہ وہ جدا جدا چیزیں ہیں۔ جو کچھ انسان میں ہے اس کو باہر نکالنا انسان کو تعلیم دینا ہے۔ اور اس کو کسی کام کے لائق کرنا اس کی تربیت کرنا ہے۔ مثلاً جو قوتیں خدا تعالیٰ نے انسان میں رکھی ہے اس کو تحریک دینا اور شگفتہ وشاداب کرنا انسان کی تعلیم ہے اور اس کو کسی بات کا مخزن بنانا اس کی تربیت ہے۔“
(تہذیب الاخلاق، جلد سوم، ۱۰ /محرم ١٢٨٩ھ) 
سر سید وقت کی سب سے بڑی سیکولر شخصیت کا نام ہے۔ انھوں نے کبھی بھی مذہبی بھید بھاؤ کو پھلنے پھولنے کا موقع نہیں دیا۔ انھوں نے ہندو اور مسلمان کو کبھی بھی دو الگ الگ نظروں سے نہیں دیکھا بلکہ انھیں ہمیشہ ہندستانی قوم کہہ کر مخاطب کیا۔ انھوں نے کبھی بھی ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ ہمیشہ اسے جوڑنے کی کوشش کی۔ وہ ان دونوں قوموں کو اپنی دو آنکھوں سے تشبیہ دیتے ہیں۔ جب سر سید نے محمڈن اورینٹل کالج قائم کیا تو اس کالج میں دونوں قوموں کے طلبا کو برابر کے حقوق دیے۔ وہ اپنی تقریر میں اس بات کی یوں وضاحت کرتے ہیں۔
”اس کالج میں دو بھائی ایک ہی تعلیم پاتے ہیں۔ کالج کے تمام حقوق جو اس شخص کے متعلق ہیں، جو اپنے تئیں مسلمان کہتاہے، بلا کسی قید کے اس شخص سے بھی تعلق رکھتے ہیں جو اپنے تئیں ہندو بیان کرتا ہے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ذرا بھی امتیاز نہیں ہے۔ اس کالج میں ہندو اور مسلمان دونوں برابر کے وظیفوں کے مستحق ہیں۔ میں ہندوؤں کو اور مسلمانوں کو مثل اپنی دو آنکھوں کے سمجھتا ہوں۔
(تقریر بہ مقام لاہور، ۳/ فروری ١٨٨٤ء)
سر سید نے ہمیشہ اعلا اور با مقصد تعلیم پر زور دیا۔ اور رسمی تعلیم سے پرہیز کیا کیوں کہ ان کے خیال میں رسمی تعلیم سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ انھوں نے ہمیشہ اعلا تعلیم کے ساتھ مذہبی تعلیم کو بھی جوڑنے کا مشورہ دیا۔ کیوں کہ بغیر مذہبی تعلیم کے وہ ہر تعلیم کو ادھوری تصور کرتے تھے۔ اس نظریے کے تعلق سے سر سید لکھتے ہیں۔
”جو لوگ ہندوستان میں مسلمانوں کی عام تعلیم پر کوشش کرتے ہیں ان کو یہ معلوم ہونی چاہئے کہ عام تعلیم کا رواج کسی قوم کے زن و مرد میں بغیر شمول تعلیم مذہبی کے نہ ہوا نہ ہوگا اور نہ دنیا میں کوئی ملک اور کوئی ایسی قوم موجود ہے جس میں عام تعلیم کا رواج بلا شمول مذہبی تعلیم کے ہوا ہو۔“
(مکتوبات سر سید، صفحہ۔ ٤٣٧)
سر سید جدید تعلیم کے سلسلے میں اس بات پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں کہ انگریزی زبان یا کسی یورپی زبان کو ضرور سیکھا جائے۔ اور اس کے سیکھنے کا اصل مقصد یہ ہو کہ اس زبان کے ذریعہ جو جدید علوم کا اخراج ہو اس سے استفادہ کیا جائے۔ کیوں کہ اس کے حاصل کرنے کے لیے ہمارے پاس کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ وہ انگریزی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کے حق میں تھے لیکن اس سے مطمئن نہیں۔ انھوں نے ہمیشہ ایسی تعلیم و تربیت کا خواب دیکھا جس میں مذہب اور سائنس کا بھی ساتھ ہو۔ تعلیم میں مذہب اور سائنس کی شمو لیت کے تعلق سے وہ لکھتے ہیں۔
”جو تعلیم ہم کو انگریزی میں دی جاتی [ہے] وہ اس تعلیم سے بہت پیچھے ہے جو میں چاہتا ہوں۔ یونیورسٹی کی ڈگریاں ہم کو تعلیم یافتہ بنانے کے لیے کافی نہیں۔۔۔۔ ہماری پوری تعلیم اس وقت ہوگی جب کہ ہماری تعلیم ہمارے ہاتھ میں ہوگی۔ فلسفہ دائیں ہاتھ میں ہوگا، نیچرل سائنس بائیں ہاتھ میں اور کلمہ لا الہٰ الاللہ محمد رسول اللہ کا تاج سر پر۔ یونیورسٹی کی تعلیم ہم کو صرف خچر بناتی ہے۔۔۔۔ ہم آدمی جب بنیں گے جب ہماری تعلیم ہمارے ہاتھ میں ہوگی۔۔۔۔۔ تعلیم بغیر تربیت کے ایسی ہے جیسے کہ چار پائے برو کتا بے چند۔۔۔۔موجودہ کالجوں میں مذہبی تعلیم نہیں ہے اور ہم کو اپنے نوجوانوں کو دینی اور دنیوی دونوں تعلیمیں دینی ہیں اور اس کے ساتھ تربیت۔۔۔۔“
(خطبات سر سید، جلد دوم، صفحہ۔ ٢٧٣)
آج ہمارے سماج میں تعلیم کو روزگارسے جوڑ دیا گیا ہے۔ یہ رجحان لوگوں کے دل و دماغ میں اس قدر پیوست ہو گیا ہے کہ لوگوں نے تعلیم حاصل کرنے کا اصل مقصد ملازمت کے حصول کو قرار دے دیا ہے۔ اور یہی وجہ کہ آج لوگ ڈگری یافتہ تو ضرور ہیں لیکن تربیت یافتہ نہیں۔ اور ان وجوہات کی بنا پر جو معتبر پیشہ جیسے ڈاکٹری، وکالت، درس و تدریس وغیرہ کل تک جتنا معزز سمجھا جاتا تھا آج اتنا ہی بدنام ہو تا جارہا ہے۔ اور اس کی سب سے بڑی وجہ لوگوں کا غیر تربیت یافتہ ہونا اور مذہب سے دوری ہے۔ سر سید کا کہنا تھا کہ تعلیم کے ذریعہ ملازمت ضرور حاصل کی جا سکتی ہے لیکن ملازمت کو ہی تعلیم کا نصب العین سمجھ لینا غلط فہمی ہے۔ انھوں نے تعلیم کا بہت وسیع نظریہ دیا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ تعلیم صرف ملازمت تک محدود نہ ہو بلکہ اس کا اصل مقصد لوگوں کی ذہنی و مادی تربیت ہو۔ وہ اپنے اس نظریے کے تعلق سے لکھتے ہیں:
”اکثر لوگ ہیں، کے خیال میں یہ گزرتا ہے کہ تعلیم یا ہائی ایجوکیشن سے کیا نتیجہ ہوگا۔ نوکری تو بہت کم ہے اگر بہت لوگ بی۔اے اور ایم۔اے ہو جائیں گے تو ہمیں دس روپے کی نوکری بھی نہیں ملے گی مگر یہ خیال غلطی سے بھرا ہوا ہے۔ یہ دیکھو کہ تعلیم کا کوئی اور نتیجہ ہے یا نہیں، ہزاروں قسم کی چیزیں تجارت کے فائدے کے واسطے موجود ہیں۔ ہم کو چاہیے کہ دوسرے ملک آڑتھ اور کمپنیاں قائم کریں جس سے اعلیٰ درجہ کے تاجر ہوں۔ ملک کو پیداوار اور قدرتی چیزیں دیں جو زمین پر گڑی پڑی ہیں ان سے فائدہ اٹھایا جائے اور سب باتیں ہم صرف ہائی ایجوکیشن کے نہ ہونے سے حاصل نہیں ہوتیں۔“
(تہذیب الاخلاق، جلد ٣٦، اکتوبر ٢٠١٧ء) 
سر سید کا مقصد حیات ہی تھا کہ ان کی قوم کے نوجوان جہاں ایک جانب انگریزی زبان و ادب اور جدید علوم حاصل کریں وہیں دوسری جانب قدیم مشرقی علوم کا مطالعہ بھی جاری رکھیں۔ انھوں نے جدید اور قدیم علوم میں امتیاز نہیں برتا۔ وہ عربی، فارسی اور مذہبی تعلیم کے ذریعے نوجوانوں کی ذہنی نشو و نما کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے ان کی دیرینہ خواہش تھی کہ نوجوان نسل کورانہ تقلید سے نہ صرف خود کو بچائے بلکہ اپنی تعلیم و تربیت کے ذریعے حق و باطل کی خود شناخت کرے۔ مذہب کے نام پر جو بے جا رسم و رواج برسوں سے چلے آرہے ہیں ان پر صرف اس لیے عمل پیرا نہ ہو جائے کہ یہ زمانہ قدیم سے چلا آرہا ہے بلکہ ان رسموں سے بچنا چاہیے اور قرآن کی تعلیم کی روشنی میں ان بے جا رسومات کی نفی بھی کرنی چاہیے۔
سر سید کے سلسلے میں ایک غلط فہمی لوگوں کے درمیان عام ہے کہ وہ تعلیم نسواں کے مخالفین میں سے تھے۔ جو شخص تعلیم کے ساتھ تربیت کا زبردست حامی ہو بھلا وہ ایک ایسی شخصیت کو کیسے فراموش کر سکتا ہے کہ جس کی گود ہی سبھوں کی تربیت کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے۔ ماں کی گود میں جیسی تربیت ہوتی ہے اس کا اثر تا عمر رہتا ہے۔ سارے عالم میں جتنی بھی بڑی اور کامیاب شخصیتیں پیدا ہوئی ہیں ان سبھوں کی تعلیم و تربیت میں ماں کا اہم کردار رہا ہے۔ پھر سر سید جیسا دور رس اور دوربین نگاہ والا شخص تعلیم نسواں سے کیسے نظریں پھیر سکتا تھا۔ تعلیم نسواں کی جانب عدم توجہ کی سب سے بڑی وجہ ماحول کا سازگار نہیں ہونا تھا۔ اس لیے لڑکیوں کے لیے علاحدہ کالج بنانا اس وقت محال تھا۔ کیوں کہ اس وقت لڑکوں کو ہی انگریزی اور جدید تعلیم کی جانب راغب کرنا بہت مشکل ہو رہا تھا پھر بھلا ایسے ماحول میں تعلیم نسواں کے بارے میں سوچنا بھی جرم ہی ثابت ہوتا۔ ورنہ سر سید کا خود ہی ماننا تھا کہ عورتوں کی تعلیم و تربیت کے بغیر نہ تو گھر کا ماحول درست ہو سکتا ہے اور نہ ہی معاشرے کا۔ لیکن سر سید کی نگاہ بہت تیز تھی اس لیے انھوں نے مستقبل کو اپنی باطنی آنکھوں سے دیکھا۔ اور انھوں نے فیصلہ کر لیا کہ ماحول کے مطابق لڑکوں کی تعلیم و تربیت کی جانب پوری توجہ دی جائے کیوں کہ جب لڑکے تعلیم یافتہ ہوں گے تو اس کا اثر گھر کی عورتوں پر ہونا ہی ہے۔ اس تعلق سے خود سر سید کی زبانی ہی سنیے۔
”میں نے تمہارے لڑکوں کی تعلیم پر جو کوشش کی ہے اسے تم یہ نہ سمجھو کہ میں اپنی پیاری بیٹیوں کو بھول گیا ہوں۔ بلکہ میرا یقین ہے کہ لڑکوں کی تعلیم پر کوشش کرنا لڑکیوں کی تعلیم کی جڑ ہے۔ پس جو خدمت میں تمہارے لڑکوں کے لیے کرتا ہوں، لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے ہیں۔“
(سرسید احمد خاں کا سفرنامۂ پنجاب، سید اقبال علی، صفحہ۔ ١٤٤)
سر سید کبھی بھی لڑکیوں کی تعلیم سے غافل نہیں ہوئے۔ بلکہ وہ ہمیشہ یہی سوچتے رہے کہ جب ماحول سازگار ہوگا تو لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کا بھی علاحدہ بندو بست کیا جائے گا۔ لیکن جب تک لڑکوں کو تعلیم دی جارہی ہے اور یہ لوگ تعلیم و تربیت یافتہ ہو رہے ہیں تو اس کا بالوسطہ اثر گھر کی عورتوں پر ہونا لازمی ہے۔ اس لیے ان کا ماننا تھا کہ اگر ان کی صحیح تعلیم و تربیت ہوگی تو کل ہو کر یہی لڑکا کسی کا باپ، بھائی بن کر لڑکیوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دے گا۔ سر سید تعلیم نسواں کی اہمیت و افادیت کے تعلق سے رقم طراز ہیں۔
”کوئی دنیا کی تاریخ اس وقت تک نہیں مل سکی کہ جس خاندان کے مردوں نے تعلیم پائی ہو، مردوں کے اخلاق درست ہو گئے ہوں، مردوں نے علم و فضل حاصل کر لیے ہوں اور عورتیں تعلیم سے محروم رہی ہوں۔ ہماری منشا یہی ہے کہ یہ تعلیم جو ہم دلا رہے ہیں لڑکوں کی نہیں ہے بلکہ لڑکیوں کی ہے جن کے وہ باپ ہوں گے۔ ہم کو ولی ہونے کا دعویٰ نہیں ہے پیشن گوئی نہیں کرسکتے بلکہ ہم کو پچھلے واقعات کو دیکھ کر نصیحت لینی چاہیے۔اس وقت ہم تمام یورپ کی اور تعلیم یافتہ ملکوں کی ہسٹری دیکھتے ہیں اور پاتے ہیں کہ جب مرد لائق ہو جاتے ہیں، عورتیں لائق ہو جاتی ہیں۔ جب تک مرد لائق نہ ہو عورتیں بھی لائق نہیں ہو سکتیں۔“
(خطبات سر سید، جلد دوم، اسمعٰیل پانی پتی، صفحہ۔ ٢٧)
آج ہم اکیسویں صدی میں سانس لے رہے ہیں۔ یہ صدی انفارمیشن اور ٹیکنا لوجی کی صدی ہے یعنی اس صدی نے تعلیمی میدان میں بھی انقلاب پرپا کر دیا ہے۔ آج کے جدید دور میں تمام چیزیں نئی نئی ٹکنالوجی سے لیس ہیں پھر بھلا ایسے موقع پر تعلیم کیوں پیچھے رہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ آج پورے عالم میں طلبا و طالبات کے لیے ایسی تعلیم کے بارے میں بات کی جارہی ہے جو روزگار حاصل کرنے میں معاون و مددگار ہو۔ یعنی عصری تقاضوں کو پورا کرنے والی تعلیم۔ اس مقصد کے حصول کے لیے بچوں کو روایتی تعلیم کے ساتھ ہی ساتھ پروفیشنل، وکیشنل، ڈپلوما وغیرہ کی تعلیم دی جارہی ہے۔ اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اگر ہم عصری تقاضوں کو پورا کرنے والی تعلیم سے اپنے بچوں کو آراستہ و پیراستہ نہیں کرتے ہیں تو ان کے لیے روزگار کا حصول محال ہو جائے گا۔ اس بات کو سر سید نے قبل از وقت ہی محسوس کرلیا تھا اور اس لیے انھوں نے شروع سے آخر تک ایسی تعلیم پر ہی زور دیا جو کہ عصری تقاضوں کو پورا کرتی ہو اور ضرورت کے مطابق ہو۔ وہ کہتے ہیں:
”جو تعلیم حسب احتیاج وقت نہ ہو وہ غیر مفید ہوتی ہے اور جیسا کہ ایک عقلمند کا قول ہے کہ اگر حسب احتیاج لوگوں کی تعلیم و تربیت نہ ہو تو اس کا نتیجہ ہوتا ہے کہ لوگ اول مفلس اور محتاج اور پھر نالائق اور کاہل، اور پھر ذلیل و خوار اور پھر چور و بدمعاش ہو جاتے ہیں۔“
(مقالات سر سید، حصہ ہشتم، صفحہ۔ ٢٩)
مجموعی طور پر جب ہم سر سید کے تعلیمی تصورات کا جائزہ لیتے ہیں تو ان کے تعلیمی تصورات میں درج ذیل نکات ابھر کر سامنے آتے ہیں۔
۱۔ سر سید نے ہمیشہ تعلیم اور تربیت کو دو الگ الگ چیز بتایا۔ لیکن تعلیم کو بغیر تربیت کے ادھورا بتایا ہے۔ اس لیے انھوں نے تربیت پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔ لیکن آج اس پر آشوب اور ترقی یافتہ دور میں تعلیمی گراف تو بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے لیکن کہیں اس سے زیادہ تیزی سے لوگوں کے اندر تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اخلاقی گراوٹ بھی آرہی ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ ہے کہ لوگ تعلیم تو پا رہے ہیں لیکن ان کی تربیت صحیح طور پر نہیں ہو پارہی ہے۔ اور یہ بات صرف باہر ہی نہیں بلکہ خود ان کے بنائے ہوئے تعلیمی آشیانے میں بھی ہو رہا ہے۔
۲۔ سر سید نے جدید اور قدیم علوم میں امتیاز نہیں برتا بلکہ ان کو ہمیشہ جوڑنے کی کو شش کی۔
۳۔سر سید  انگریزی زبان اور جدید علوم کو حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ مشرقی علوم اور مذہبی علوم کے درمیان ہمیشہ پل بنانے میں مصروف رہے لیکن آج ہمیں دو طرح کے تعلیمی ادارے نظر آتے ہیں۔ دنیوی ادارے صرف دنیاوی تعلیم میں مصروف ہیں تو دینی ادارے صرف دینی تعلیم میں مصروف ہیں۔
۴۔ انھوں نے تعلیمی ادارے میں ہمیشہ سیکولرزم کو قائم کرنا چاہا۔
۵۔ سر سید چوبیس گھنٹے تعلیم و تربیت کا نظام چاہتے تھے۔ تاکہ بچوں کی اساتذہ کی نگرانی میں تعلیم کے ساتھ اچھی تربیت بھی ہو جائے لیکن دنیاوی تعلیمی ادارے میں اس طرح کا نظام سر سیدکے زمانے یا ان کے بعد کے زمانے میں شاذ و نادر ہی پائے جاتے ہیں۔ ہاں یہ نظام تعلیم و تربیت دینی مدارس میں آج بھی قائم ہے۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ سر سید کے تعلیمی مشن کو نہ صرف جاری رکھا جائے بلکہ اسے سارے عالم میں پہنچایا جائے۔ آج کے اس دور میں ہر علاقے میں یونی ورسیٹیاں اور کالجز قائم ہو چکے ہیں۔ لیکن اس سے اس یونی ورسٹی کی ذمہ داری کم نہیں ہو گئی بلکہ اس کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہو گیا۔ کیوں کہ علی گڑھ صرف ایک تعلیمی ادارے کانام نہیں ہے بلکہ یہ پوری ایک تہذیب، ثقافت، تاریخ، معاشرے، سماج اور دبستان کا نام ہے۔ سر سید کے مشن تعلیم کو اس یونی ورسٹی کے ذمہ داروں نے سمجھتے ہوئے اسے وسعت دینے کا کام بھی شروع کر دیا ہے۔ اور آج اس کی تین شاخیں بہار، بنگال اور کیرالا میں قائم ہو گئیں ہیں جو سر سید کے مشن تعلیم کو پھیلانے میں معاون و مددگار ثابت ہو رہی ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس میں مزید وسعت پیدا کی جائے اور ان شاخوں میں اپنی مرکزی وراثت تعلیم کی پیروی بھی ضرور ہو۔ علی گڑھ کے پر وردہ اور پھر اسی ماحول میں دوسروں کی تعلیم و تربیت کرنے والے رشید احمد صدیقی اس تعلق سے رقم طراز ہیں۔
”ہمارا مقصد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تعلیم و تربیت اور تہذیب کا مناسب و موثر انتظام کرنا ہے جو ملک میں ایسے لائق اور حوصلہ مند نوجوان پیدا کرنے میں معین ہو جو اس کی ترقی اور ناموری کا باعث ہوں۔ بالفاظ دیگر وہ اچھے مسلمان اور اچھے ہندستانی ہوں۔ یہ کام جتنا بڑا اور اچھا ہے اتنا ہی زیادہ مشکل۔ یعنی احساس ذمہ داری اور اس سے عہدہ بر آ ہونے کا۔ اس کے لیے اس درس گاہ کے ارباب اختیار، اساتذہ، اولڈ بوائز اور طلبا کو بڑے انہماک اور اتحاد سے کام کرنا ہے۔ اس کامیابی کی شرط یہ ہے کہ ہم میں سے ہر فرد خلوص کے ساتھ اس کا تہیہ کرے کہ وہ اس مقصد کے حصول کے لیے اپنی تمام اعلیٰ صلاحیتوں کو کام لائے گا۔“
(جہان کتب، سر سید نمبر، صفحہ۔ ١٥٨۔١٥٧)
آج مسلمان قوم میں تعلیمی رجحان عام ہوا ہے۔ اس کے مرد مجاہد سر سید احمد خاں ہی ہیں۔ سر سید نے تعلیم پر اس قدر زور نہیں دیا ہوتا تو آج ہماری قوم صدیوں پیچھے رہتی۔ یہ ان کا ہی احسان عظیم ہے کہ ہماری قوم اس مقام پر ہے۔ انھوں نے کبھی بھی اپنی عزت نفس کا خیال نہ کیا بلکہ ہمیشہ قوم کی فلاح و بہبود میں لگے رہے۔ ان کے اوپر کفر کا بھی فتویٰ صادر کیا گیا لیکن ہمت نہ ہاری۔ آج بھی بعض افراد انھیں عقیدت و محبت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے اور نہ ہی ان کی تنظیمی یا تعلیمی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہیں۔ لیکن اس سے سر سید کی شخصیت پر کوئی حرف نہیں آتا لیکن اس دیو پیکر شخصیت کے کارہائے نمایاں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ مشہور مفکر و دانشور مولانا آزاد نے سر سید کے سلسلے میں جو رائے دی ہے اسے ہر باشعور شخص نے تسلیم کیا ہے۔ میں اپنی بات اس دانشور کے اقتباس پر ختم کرنا چاہوں گا۔
”یہ بات کسی کے ماننے نہ ماننے کی نہیں ہے۔ ملک نے، قوم نے، اور ساتھ ہی گورنمنٹ نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ مسلمانان ہند میں خواہ وہ شمالی ہند کے ہوں، خواہ جنوبی ہند کے، مملک متحدہ کے ہوں، خواہ مملک پنجاب کے، تعلیمی تحریک صرف اس شخص کی کوشش و جاں فشانی کا نتیجہ ہے جو آج علی گڑھ کالج کے ایک گوشۂ مسجد میں آرام کر رہا ہے۔ اس نے اول اول ہم کو بتایا کہ ہماری حالت کیا ہے، گورنمنٹ سے ہمارا تعلق کس قسم کا ہے۔ ہم کس مرض میں مبتلا ہیں اور اس کا علاج کیا ہے۔ اسی نے ہم کو پہلے اس راستہ پر چلایا جس پر آج بہت سے چلنے والے نظر آرہے ہیں۔ اسی نے سب سے پہلے وہ چراغ دکھلایا جس کی روشنی میں ہم کو اپنی حالت صاف صاف نظر آئی اور بہتوں نے اس سے اپنے اپنے چراغ روشن کر لیے، یعنی جس قدر علمی تحریک، علمی ذوق، کانفرنسوں کا وجود، مدارس کا خیال ملک کے مختلف حصوں میں نظر آرہا ہے۔ وہ ایک ہی آدم کی چیخ و پکارکا اثر یا ایک ہی کوشش کا ثمرہ ہے، اس لیے در حقیقت وہ شخص محسن کش، احسان فراموش اور کافر نعمت ہے جو اپنے اصل محسن اور حقیقی راہ نما کی جاں فشانیوں کو تسلیم نہیں کرتا۔“
(جہان کتب، سر سید نمبر، صفحہ۔ ١٢٩)
صاحب مقالہ کا گذشتہ مقالہ :میر ثانی کلیم عاجز کی غزلیہ شاعری

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے