کورٹ سے کچن تک

کورٹ سے کچن تک

غضنفر

اس وقت میرے سامنے جو شخص ہے، اوروں سے الگ ہے: وہ تندرست بھی ہے اور بیمار بھی۔ شبنم صفت بھی ہے اور شعلہ بار بھی۔ پُر مذاح بھی ہے اور پُر وقار‌ بھی۔ نرم مزاج بھی اور گرم گفتار بھی. خلوت نشین بھی ہے اور جلوت کا طلب گار بھی. سنجیدہ شعار بھی ہے اور قہقہہ زار بھی. اس متضاد صفات سے متصف شخصیت کا ثبوت یہ ہے کہ اس کے جسم پر بیماریوں کا قبضہ ہے۔ ہاتھ میں ڈاکٹر کا لکھا ہوا پرہیزی کا نسخہ ہے۔ ذہن میں عملِ ہاضمہ کے بگڑ جانے کا اندیشہ ہے۔ سماعت میں معالجوں کی دھمکی آمیز تنبیہوں کا پلندہ ہے۔ بد پرہیزی میں جان جانے کا خطرہ ہے مگر منہ میں لذّتوں کا چسکا ہے۔ دل میں کام و دہن کا جذبہ ہے. زبان پر طرح طرح کا ذائقہ ہے. اور چسکے کی شدّت اور جذبے کی حدّت ایسی ہے کہ جب دیکھو پاؤں باورچی خانے میں پڑے ہیں اور ہاتھ میں کوئی چمچا یا کرچھا ہے۔ ذہن میں کوئی نعمت والا نسخہ ہے۔ نظر میں دیگ کو دم دینے [کا] کوئی نیا طریقہ ہے۔
اوراقِ وکالت کے ساتھ ساتھ صفحاتِ امور خانہ داری بھی کھلے ہوۓ ہیں۔ کتاِبِ عدلیہ کے پہلو بہ پہلو کتابِ ریسپی موجود ہے۔ بحث کی کامیابی اور مقدمے کی جیت کی خوشی کا جشن کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں نہیں بلکہ سکھ دیو بہار کے پاکیٹ اے کے فلیٹ نمبر 43 کے کچن میں منایا جا رہا ہے۔
کورٹ میں قلم کا کمال دکھا کر اور کچھ اداس چہروں کو رنگیں بنا کر آنے والا ہاتھ اب کچن میں ہاتھ دکھا رہا ہے۔ قلم کو چھوڑ کر انگلیوں نے کفگیر پکڑ لیا ہے‌۔ وہ روغن کو جوش اور چاول کے پتیلے کو دم دینے میں منہمک ہو گئی ہیں۔ اپنے وقت کا منجھا ہوا نامی گرامی وکیل عدالت کے کمرے کے سے نکل کر گھر کے مائی لاڈ کو قائل کرنے میں لگ گیا ہے۔ کڑھائی کے مصالحے کو گھی پلانے اور اسے سُرخ بنانے کے ساتھ وہ یہ ثابت بھی کرنا چاہتا ہے کہ امور خانہ داری کے فن میں بھی یکتا و یگانہ ہے۔ اس پیشے میں بھی اس کا کوئی ثانی نہیں۔ وہ اس ہنر سے واقف ہے کہ گوشت میں جوش کیسے پیدا ہوتاہے؟ دال کیسے گلتی ہے؟ پلاو میں دم کیسے آتا ہے۔ چکن مرغ مسلم میں کیسے تبدیل ہوتا ہے۔ چٹنی شاہانہ طرز کیسے اختیار کرتی ہے؟ مربّے میں مرعوبیت کے ان گریڈینٹس کیسے پڑتے ہیں؟ میٹھے ذائقے میں کھٹے پن کا تڑکا کیسے لگتا ہے؟
بھر بھری نمک کی جگہ پتھریلے نمک استعمال کرنے سے سالن سولڈ بن جاتا ہے اور سولڈ غذا جسم کے ساتھ ساتھ دل و دماغ کو بھی سولڈ بنا دیتی ہے۔ وہ یہ بھی ثابت کرنا چاہتا ہے کہ ہاتھ کا کرچھا رکتا تو سالن کا رنگ بدل جاتا ہے اور رنگ بدلتا ہے تو سالن بد ذائقہ ہو جاتا ہے۔
کچن سے نکل کر جب وہ دسترخوان پر آتا ہے تو بحث کا موضوع بدل جاتا ہے۔ جذبۂ میزبانی جوش مارنے لگتا ہے۔ دسترخوان پر اس کا خلوص بھی بچھنے لگتا ہے۔ ذوقِ طعام لہرانے لگتا ہے۔ نگاہیں کھانے والے کی آنکھوں کا طواف کرنے لگتی ہیں۔ منہ میں جانے والے نوالوں کی رفتار کیا ہے اور ان نوالوں کے دیدوں میں پڑنے والے اثرات کیسے ہیں‌۔ انگلیوں کا انہماک کیسا ہے۔
پلیٹوں کی پوزیشن کیا ہے۔ کون سے مال بچا ہے اور کون سا صاف ہو چکا ہے؟ نگاہیں یہ سب پڑھنے میں مصروف ہوجاتی ہیں۔
آنکھیں داد بھی وصول کرتی جاتی ہیں اور دماغ اس داد کے کھانچوں کو بھی بھرتا جاتا ہے۔ جو داد دیتے وقت اہلِ داد سے پُر نہیں ہو پائے تھے۔ اس سے اس بات کا بھی علم ہوتا ہے کہ وہ کھانوں کے معاشرتی آداب کے ساتھ ساتھ ان کی تاریخ اور جغرافیے سے بھی واقف ہے اور اگر آپ کھانے پینے کے شوقین ہیں اور کنجوس نہیں ہیں تو مصالحوں کے لیے آپ کو کہاں کہاں جانا چاہیے، کن کن ملکوں کا سفر کرنا چاہیے اور اپنے خورد [و] نوش کے ساتھ ویسا ہی رغبت اور رشتہ رکھنا چاہیے اور ویسا ہی جوش اور جذبہ دکھانا چاہیے جیسا کہ شری ہنومان جی نے دھولا گری جا کر سنجیونی لانے میں دکھائی تھی۔
دسترخوان پر سجے قابوں میں پڑے میوہ جات، ڈونگوں سے نکلنے والے بخارات، چاول کو بریانی اور چکن کو مرغ مسلم بنانے والے لوازمات بتاتے ہیں کہ کھلانے والا جذبہْ ذوق و شوق کے ساتھ ساتھ وصفِ حاطم طائی بھی رکھتا ہے۔ یہ جذبہ آج کے زمانے میں عنقا ہوگیا ہے ٹھیک اسی طرح جس طرح آنکھوں سے مروت غائب ہوئی ہے۔
دورانِ ضیافت اس کی شخصیت کی خوشبوئیں بھی فضا میں گھل جاتی ہیں۔ باتوں سے پتا چلتا ہے کہ وہ ماہرِ قوانین ہی نہیں ماہرِ لسان بھی ہے. زبان و بیان کے وہ وہ نکتے بیان کرتا ہے اور طلاقتِ لسانی کے ایسے ایسے مظاہر پیش کرتا ہے کہ دستر خوان پر بیٹھے ادب و فن کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین و قائدین‌ بھی حیرت میں پڑ جاتے ہیں اور اس کی قوتِ حافظہ کی تو شان ہی نرالی ہے۔ شیکس پئیر اور دیگر مغربی مصنفین کے اقتباسات، فارسی اور اردو کے کلاسیکی شعرا کے اشعار، سنسکرت کے اشلوک اور درجنوں اقوال زریں دورانِ گفتگو اس کے منہ سے اس طرح نکلتےہیں، جیسے سارے کے سارے نوکِ زبان پر رکھے ہوئے ہوں۔
نجی محفلوں میں وہ اس طرح کھلتا ہے جیسے شیمپین کی بوتل کھلتی ہے۔ زور دکھاتی ہوئی، جھاگ اڑاتی ہوئی۔ اہلِ محفل کو پرجوش بناتی ہوئی۔
کھانا کھانے کے دوران مہمانان میزبان کی کئی کئی تقریروں کا بھی لطف اٹھا لیتے ہیں اور جب دستر خوان سے اٹھتے ہیں تو محسوس کرتے ہیں کہ ان کا شکم ہی سیر نہیں ہوا ہے بلکہ ذہن و دل بھی لذتِ تقریر سے سیراب و شاداب ہو چکے ہیں۔ پیٹ تو کہیں بھی بھر جاتا ہے اور ذائقہ کو چٹخارے بھی مل جاتے ہیں مگر دیگر حواس کی بھوک ہر جگہ نہیں مٹتی اس کے لیے تو وہی دسترخوان چاہیے جس پر نعمتوں کے ساتھ ساتھ پُر لطف باتیں بھی چنی جاتی ہوں اور ایسی ڈشیز وہی میزبان چن سکتا ہے جس کے حافظے میں طرح طرح کے موضوعات و مواد محفوظ ہوں اور جن کو بیان کرنے کے لیے منہ میں زبان بھی ہو۔ ایسی زبان جو بولے تو پھول جھڑیں، خوشبوئیں نکلیں، نور کی کرنیں پھوٹیں اور سماعت میں سحر پھونکنے والے سُر گونجیں۔ یہ سب گُر سکھ دیو وہار کے میزبان میں موجود ہیں۔ اسی لیے اس کی دعوتوں میں لوگ باگ بھاگ بھاگ کر شریک ہوتے ہیں کہ وہاں ان کے سارے حواس کی سیری ہو جاتی ہے۔
میں یہ تو نہیں جانتا کہ اس نے اپنے پیشے میں کیسے کیسے اور کیا کیا گل کھلائے ہیں اور کتنے معرکے سر کیے ہیں مگر یہ جان گیا ہوں کہ اس کے پاس وہ ذہن ہے جو قائل کرتا ہے. وہ بیان ہے جو مائل کرتا ہے اور وہ دل بھی ہے جو گھائل کرتا ہے۔
وہ یہ سب اس لیے کرپاتا ہے کہ خدا نے اسے استطاعت بھی عطا کی ہے۔
دولت آتی ہے تو دل یا تو سکڑ جاتا ہے یا پھر پھیل جاتا ہے۔ دونوں کی مثالیں موجود ہیں۔ دل پھیلتا ہے تو گاڑیوں کی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ مکانات کے سلسلے دراز ہو جاتے ہیں اور اتنے دراز ہوتے ہیں کہ دور کے شہروں بلکہ ملکوں میں بھی پہنچ جاتے ہیں۔ عیّاشیوں کے اڈے تک وسعتِ قلبی سے آباد ہو جاتے ہیں.
اور جب سکڑتا ہے تو سب کچھ بینک کے ایک ڈیڑھ فٹ کے لاکر میں پہنچ جاتا ہے یا بینک کھاتوں میں بند ہو جاتا ہے۔
اس شخص کے پاس بھی دولت آئی مگر اس سے اس کا دل نہ اس طرح سے وسیع ہوا جیسا کہ اوپر ذکر ہوا اور نہ ہی ایسا تنگ کہ جس کا ابھی ابھی بیان ہوا بلکہ اس کا دل ان کے لیے وا ہوگیا جو تنگیوں میں زندگی گزارتے ہیں۔ دماغ ان کے لیے بھی سوچنے لگا جو خود اپنے بارے میں نہیں سوچ پاتے ہیں۔
دولت کا صحیح مصرف وہ ہے جو دوسروں کے حواس کو خوش کر دے۔ ذائقہ چٹخارے لینے لگے‌۔ باصرہ ویرانیوں سے چھٹکارا پا جائے۔ سامعہ سُر سننے لگے۔ شامہ مہک اٹھے اور لامسہ نرم گرم لمس محسوس کرنے لگے۔ اس شخص نے اپنی دولت کا ایسا ہی استعمال کیا۔ اپنے حواس کے ساتھ ساتھ دوسروں کے حواس کو بھی محظوظ کیا۔
اندازہ ہوا کہ ادب کی محفلوں میں ادب کے جغادریوں کے ہوتے ہوئے ایک نان تدریسی آدمی کو کیوں کرسیِ صدارت پر بٹھایا جاتا ہے یا اس سے کلیدی خطبہ دلوایا جاتا ہے۔ یہ بھی احساس ہوا کہ ذہن میں معلومات کا ذخیرہ رکھنے اور منطقی گفتگو کا ملکہ رکھنے کے باوجود وہ ہوم ورک کرنا نہیں بھولتا جب کہ دوسری طرف عالم یہ ہے کہ کرسی صدرات پر جلوہ افروز ہیں یا مہمان خصوصی کی حیثیت سے جلسے کا افتتاح فرمانا ہے مگر یہ بھی پتا نہیں ہے کہ سیمنار کا موضوع اور غرض و غایت کیا ہے.
وہ جو کچن کو بھی کورٹ بناتا ہے، اپنے ہاتھوں سے ڈشز تیار کرتا ہے اور انھیں سلیقے سے دسترخوان پر سجاتا ہے، اس دسترخوان پر جگہ جگہ خلوص و محبت کے اچار و مربے رکھتا ہے اور دورانِ طعام
پُر مغز، پُرلطف، پُر فکر، پُرفسوں اور پُر اثر تقریروں کے جو ٹیپ بجاتا ہے، اور جو سکھ دیو وہار کے پاکیٹ اے کے فلیٹ نمبر 43 میں رہتا ہے میں نے اس کا نام تو بتایا نہیں حالاں کہ اس کا نام جاننے کے لیے کب سے آپ بے تاب ہیں تو آئیے آپ کی بے تابی دور کردوں کہ وہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ وہ ہے جسے دنیا خلیل الرحمان کے نام سے بلاتی ہے۔ وہی خلیل الرحمان جو دہلی کا باشندہ ہے وہی دہلی جہاں میر و غالب رہا کرتے تھے. ذوق و مومن بستے تھے۔بہادر شاہ ظفر جلوہ افروز تھے۔ ان کے ناموں کے ساتھ خلیل الرحمان کے نام کو جوڑنا؛ مقصد صرف اتنا ہے کہ یہ سب حضرات بھی کھانے پینے کے ساتھ ساتھ فنونِ لطیفہ کے بھی شوقین تھے۔
میرے خاکے کا یہ کردار اس لیے بھی منفرد اور ممتاز ہے کہ یہ شاید واحد ایسا وکیل ہے جو کورٹ سے نکل کر سیدھے کچن میں پہنچتا ہے اور جسے دیکھتے ہی شریکِ حیات کی باچھیں کھل جاتی ہیں اور لبوں پر زبان پھرنے لگتی ہے۔
غضنفر کی گذشتہ تخلیق :ماں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے