ماں

ماں

غضنفر

ماں کی قیمت جو سمجھ آئی
تو ماں پاس نہیں
پاس سے دیکھنا چاہا
تو گئی دور بہت
ماں کی ہر بات بری لگتی تھی
اس کی سختی سے یہ لگتا تھا مجھے
ماں نہیں ہے، وہ مری دشمن ہے
چھین کر بیٹ قلم ہاتھ پہ رکھ دیتی تھی
کھینچ لاتی تھی مجھے کھیل کے میدانوں سے
شام ہوتے ہی پڑھائی پہ بٹھا دیتی تھی
دودھ اچھا نہیں لگتا تھا مگر شام و سحر
روز ہی دودھ کا کپ منہ سے لگا دیتی تھی
آج لگتا ہے سمجھتا تھا جسے دشمن میں
کس قدر مجھ سے محبت تھی اسے
کس قدر فکر میری رکھتی تھی
ہر گھڑی میرے لیے رب سے دعا کرتی تھی
رات دن میری ترقی کی تمنّا تھی اسے
فکر میں میری وہ دن رات گھلی جاتی تھی
چاہتی تھی کہ پڑھوں، خوب پڑھوں
علم کی راہ پہ دن رات چلوں
میں بھی دنیا میں بڑا نام کروں
کامیابی کا مجھے کوئی خزانہ مل جائے
مجھ کو ہر حال میں منزل کا نشانہ مل جائے
مجھ کو تعلیم سے ایسی کوئی چابی مل جائے
لمس سے جس کے مری زیست کا تالا کھل جائے
دین بھی میرا سنور جائے مری دنیا بھی
عقل بھی میری نکھر جائے مرا جذبہ بھی
دکھ کا سایہ نہ کبھی مجھ پہ پڑے رستے میں
کوئی روڑا نہ کوئی سنگ اڑے رستے میں
سختیاں کاش کہ کچھ اور ملی ہوتیں مجھے
اور کچھ دیر تلک پاس میں ماں ہوتی مرے
***
غضنفر کی گذشتہ نگارش :آوارہ پھرے بغیر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے