ہندی مصنفہ گیتانجلی شری کو بُکر انعام

ہندی مصنفہ گیتانجلی شری کو بُکر انعام

 ہندستانی زبانوں کے لیے ابوابِ عالم کھُلے

پچاس ہزار پونڈ کا یہ انعام پہلی بار کسی ہندستانی زبان کی مصنفہ کو ملا۔ بنیادی متن کے انگریزی ترجمے کو حقیقی اعزاز کا مستحق تسلیم کیا گیا۔

صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کا لج آف کا مرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

ہندستانی وقت کے مطابق رات کے تیسرے پہر ٢٧/مئی ٢٠٢٢ء کو بین الاقوامی بُکر انعام کے لیے ہندی کی معروف ناول نگار اور ادیبہ محترمہ گیتانجلی شری کو ان کے ہندی ناول ’ریت سمادھی‘ کے انگریزی ترجمے "Tomb of Sand” کو اس سال کے بُکر انعام سے سرفراز کیا گیا۔ مختلف مرحلوں میں انعام کے لیے فہرست سازی میں گیتانجلی شری کی کتاب میدان میں بنی رہی۔ اب سے تین ہفتے پہلے جب یہ اعلان ہوا کہ گیتانجلی شری کے مترجمہ ناول بُکر کی مختصر اور آخری فہرست میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو چکی ہے، اس وقت سے ہندستانی ادبیات میں دل چسپی رکھنے والے افراد اس فیصلے کی گھڑی کا انتظار کر رہے تھے۔ یہ انتظار اس لیے بھی اہم تھا کیوں کہ ہندستانی زبانوں کے کسی بھی مصنف کی کسی کتاب کو چاہے وہ انگریزی میں ترجمہ شدہ ہی کیوں نہ ہو، کبھی بُکر انعام سے مالامال ہونے کا موقع نہ ملا۔ ہندستانی نژاد مصنف سلمان رُشدی، انیتا دیسائی اور اروندھتی راے اس انعام کو مختلف وقتوں میں حاصل کرنے والوں میں اہمیت کے حامل ہیں مگر یہ تمام افراد بنیادی طور سے انگریزی زبان میں ہی تصنیف و تالیف کا کام کرتے ہیں اور ان کی شہرت انگریزی زبان کے مصنف کی حیثیت سے ہے۔
اس بار جب ریت سمادھی کے انگریزی ترجمے کو اس فہرست کا حصہ بنایا گیا تو اپنے آپ ہماری توقعات بڑھ گئیں۔ ہندستان کا ایک بڑا حلقہ اس مرحلے میں اپنی زبانوں کی عزت افزائی کے خواب دیکھنے لگا۔ ہمیں معلوم ہے کہ برصغیر کے کسی بھی فن کار کو جو دیسی زبانوں میں اپنی تخلیقات پیش کرتا ہے، ایسے بڑے انعاموں کے لیے منتخب نہیں کیا گیا۔ اب جب کہ گیتانجلی شری کو انعام دینے کا اعلان ہوچکا ہے، اس کے بعد ہند و پاک کی ہر زبان کے لکھنے والوں کی پوشیدہ خواہشیں ابال پر ہیں اور انھیں ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اب بُکر یا دوسرے عالمی انعامات ہندستان کی دیگر زبانوں کی طرف بھی ضرور آئیں گے اور بُکر سے بڑھ کر نوبل ایوارڈ تک کے دروازے تیسری دنیا کے غریب مصنفین کے حصے میں آئیں گے۔
گیتانجلی شری ٦٤/برس کی عمر میں یہ اعجاز پانے والی مصنفہ ہیں مگر گذشتہ تیس برسوں سے ان کی تصنیف و تالیف پر نگاہ ڈالیں تو یہ بات سب کی سمجھ میں آجائے گی کہ وہ اپنی کتابوں کے دوسری زبانوں میں ترجمے کیے جانے کے لیے ہمیشہ سرگرم رہی ہیں۔ یہ اچھا بھی ہے کہ ان کی کتابیں دنیا کے مختلف ملکوں سے شایع ہوئی ہیں۔ ان کا ناول ’مائی‘ پاکستان سے شایع ہوا۔ جرمن اور فرانسیسی زبان میں بھی ان کی تحریریں منظرِ عام پر آئیں۔ انگریزی میں کم و بیش ان کی ہر کتاب رفتہ رفتہ آتی چلی گئی۔ وہ دنیا کے مختلف ملکوں میں اپنے ناولوں کے ابواب پڑھنے کے لیے بلائی گئیں اور بحث و مباحثے میں شریک رہیں۔ ہندستان کے بہت سارے لٹریری فیسٹیول میں وہ نہ صرف یہ کہ ہندی زبان کی مصنفہ کے طور پر سامنے آئیں بلکہ ہندستانی ادبیات اور عالمی ادب کے بیچ پُل کے طور پر مصنفین کے کام کرنے کو انھوں نے ضروری قرار دیا۔ شاید یہ بات بھی ان کے لیے ایک اضافی خوبی تسلیم کی جائے کہ وہ ہندی کے ساتھ انگریزی زبان پہ بھی قادر ہیں اور بات چیت یا تقریر میں سادہ زبان اور بول چال کے اردو الفاظ کو شامل کرکے اپنے احساسات کی ترجمانی کرتی ہیں۔ گیتانجلی شری کے ناول کا انگریزی ترجمہ بھی کئی برس پہلے شایع ہوچکا تھا مگر اب تک ان کے اصل ناول اور اس کے ترجمے کے متن کا تقابل شروع نہیں ہوا ہے۔ امید ہے کہ آنے والے وقت میں اس جانب بھی توجہ ہوگی مگر اس موقعے سے خاص طور سے اردو زبان میں کتابوں کی اشاعت، انعام کی طلب، بڑے انعامات کی طرف لالچ بھری نگاہ اور اپنے متون کی دنیا کی مشہور اور بڑی زبانوں میں تراجم کے بارے میں جو صورت حال ہے، اس پر گفتگو لازم ہے۔ بات اگر ناول اور افسانہ نگاری تک ہی محدود رکھیں تو پورا منظرنامہ ہمارے سامنے آسکتا ہے۔ قرۃ العین حیدر، عبداللہ حسین، انتظار حسین، خواجہ احمد عباس اور شمس الرحمان فاروقی کے مشہور ناولوں اور ان کے مصنف کے ذریعہ کیے گئے تراجم کے بارے میں ذرا غور کرنا چاہیے۔ ان میں خواجہ احمد عباس تو باضابطہ طور پر اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان کے مصنف تھے، اس لیے انھوں نے اپنے افسانوں اور ناولوں کے تراجم خود کیے۔ ’ابابیل‘ اور "The Sparrow” کا تقابل کرلیجیے، آنکھیں کھُل جائیں گی کہ مصنف مترجم کے بھیس میں آکر حقیقی متن میں اتنی تبدیلیاں کر دیتا ہے کہ وہ کوئی نئی چیز تو بن گئی مگر بنیادی حیثیت اور درجے سے وہ کب نیچے اتر گئی، اس کا پتا ہی نہیں چلا۔ ’آگ کا دریا‘ اور ’اداس نسلیں‘ جیسے عظیم ناولوں کے تراجم ان کے اصل مصنفین نے ہی کیے۔ قرۃ العین حیدر کو بھی کم و بیش ذولسانی ادیب کہا ہی جاسکتا ہے مگر انگریزی میں ’آگ کا دریا‘ اتنے انداز سے اور اتنے مقامات پر بدل گئی کہ اب وہ کوئی نئی کتاب ہے۔ لازمی طور پر یہ بات نہیں کہی جاسکتی کہ انگریزی زبان میں اس کی مقبولیت قائم نہ ہونے کے پیچھے قصے میں تبدیلی سبب ہے یا اس معاشرے میں یہ موضوع داد حاصل کرنے کے لائق نہیں تھا۔ عبداللہ حسین ایک طویل مدت تک خود برطانیہ میں مقیم رہے مگر ان کے ترجمے کی بھی پانچ فی صد بھی دھوم نہ مچی جو ’اداس نسلیں‘ کے حصے میں آئی تھی جو اپنی زبان میں آج بھی قائم و دائم ہے۔ شمس الرحمان فاروقی بھی کثیر لسانی بنیادوں پر کھڑے تھے، اس لیے انھوں نے بھی اپنی تنقیدی، تحقیقی اور نثری کتابوں کے انگریزی تراجم کیے۔
سرسید احمد خاں نے انگلینڈ کے سفر میں ’خطباتِ احمدیہ‘ کے سلسلے سے جو نئی اطلاعات حاصل کیں اور سر ولیم میور کی کتاب کے جواب میں جو دستاویزات تیار کیے، ان کے ترجمے کے لیے بازار سے ماہر مترجم کی تلاش کی اور رقم خرچ کرکے اس کا ترجمہ کیا۔ بیسویں صدی کے ربع اول میں اقبال نے اپنی مثنویوں کے انگریزی تراجم کی کوشش کی۔ نکلسن نے ١٩٢٤ء میں ’اسرارِ خودی‘ کا ترجمہ کیا تھا۔ مطلب یہ کہ ترجمہ کرانے کے لیے ان ماہرین کی مدد لی جائے جو عالمی بازار میں اپنی شناخت رکھتے ہوں اور اہلِ زبان ہوں۔ رابندرناتھ ٹیگور بھی بنگلہ اور انگریزی میں پورے طور پر ملکہ رکھتے تھے مگر اپنی کتاب کے ترجمے کے لیے انھوں نے اہلِ زبان کو منتخب کیا اور دیکھتے دیکھتے اس کے نتائج سامنے آگئے۔ اردو یا ہندی یا دیسی زبانوں کے شہ کاروں کے جو تراجم سامنے آتے ہیں، وہ ہندستان کے بازار میں تو چل سکتے ہیں مگر عالمی منڈی میں اس زبان اور اسلوب کی خاطر خواہ پذیرائی ہو، یہ لازم نہیں۔ ہندستان کے ساہتیہ اکادمی جیسے بڑے ادارے میں بھی سب سے زیادہ دیسی مترجمین پر انحصار ہے۔ اس میں بھی ہَوس کار اردو نقاد اور اہلِ قلم کچھ نہ کچھ کھیل تماشا کرلیتے ہیں۔ راجندر سنگھ بیدی کے منتخب افسانوں کے ترجمے میں گوپی چند نارنگ شریک مترجم ہیں۔ کاش اصل متن کے ترجمے کے لیے عالمی سطح کے ماہرین ساہتیہ اکادمی سے جوڑ دیے جاتے۔ کنّڑ، مراٹھی، بنگلہ، گجراتی اور اردو، ہندی زبانوں کے فکشن کے جو سب سے بڑے نمونے موجود ہیں، وہ یا تو معمولی مترجمین کی کوششوں سے انگریزی یا دیگر زبانوں تک پہنچتے پہنچتے اپنا مقام و مرتبہ کھو دیتی ہیں یا غلط ترجمے کے سبب ہمیشہ کے لیے بازار سے بھٹک جاتی ہیں۔ جب کہ ان کے اصل متن کی مقبولیت ویسی ہی رہتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ عالمی سطح پر جس طرح کتابوں کی اشاعت، ترتیب و تدوین، ترجمہ، تعارف اور متن کی زبان اور مشتملات کی تصحیح کا باضابطہ نظام قائم ہے اور درجنوں دماغ مل کر اصل متن اور اس کے ترجمے کے سلسلے سے کام کرتے ہیں پھر ان کاموں میں برسہا برس لگ جاتے ہیں۔ ان زبانوں کے ایڈیٹر اصل مصنف اور اصل مترجم کے بیچ ایک ایک لفظ اور جملے پر تبادلۂ خیال کرتے ہیں اور کبھی جلدی سے چھاپ کر بازار میں کتاب کو پھینک دینے کے لیے کوشاں نہیں ہوتے۔ مگر ہندستانی زبانوں بالخصوص اردو کی حالت پر غور کریں تو حیرت ہوتی ہے کہ دو چار مہینے میں کتابیں لکھ دی گئیں اور وہ چھپ کر بازار میں بھی آگئیں۔ اب ان کا املا غلط، جملے غلط اور جگہ جگہ معنی خبط؛ اس پر کوئی کیوں کر اپنے ہم زبانوں کی ہی داد لے سکتا ہے۔ چہ جاے کہ عالمی بازار میں ان کتابوں کی پوچھ ہو۔
گذشتہ دنوں اردو کے کئی مصنفین نے ہندستان کے بڑے ناشرین کے ذریعے اپنی کتابیں شایع کرائیں۔ پروفیسر انیس الرحمان نے اردو غزل کی تاریخ، اصل متن اور انگریزی ترجمے اور رومن رسمِ خط میں ’ہزاروں خواہشیں ایسی‘ پیش کیں۔ وہ باضابطہ طور پر انگریزی کے ہی ادیب ہیں اور ایک مشہور مترجم کا درجہ رکھتے ہیں۔ شافع قدوائی کی تنقیدی و تحقیقی کتابیں انگریزی زبان میں شایع ہوئیں۔ رحمان عباس کے ساہتیہ اکادمی انعام یافتہ ناول ’روحزن‘ کا انگریزی ترجمہ Penguin India سے شایع ہوا ہے۔ خالد جاوید کے ناول ’نعمت خانہ‘ کا بھی ترجمہ ابھی ابھی سامنے آیا ہے۔ توقع ہے یہ سلسلہ آگے بڑھے گا جس سے اردو کے لکھنے والے بھی ساہتیہ اکادمی اور دوحہ، قطر کے انعامات سے آگے قدم بڑھا سکیں۔ یہ یاد رہے کہ گیتانجلی شری کو بھی ساہتیہ اکادمی انعام اب تک نہیں ملا ہے۔ آنے والے وقت میں انھیں ضرور یہ انعام ملے گا مگر تب یہ ایک پُرمزاح واقعہ ہوگا۔ اہلِ اردو سے صرف یہ گزارش ہے کہ اپنی کتابوں کے انگریزی ترجمے میں اپنے پڑوس، محلے، یونی ورسٹی، صوبے اور ملک سے باہر نکل کر کاروباری دنیا کے فیوض سے خود کو آراستہ کریں اور اپنی کتابوں کی ایڈیٹنگ کے لیے بھی عالمی اداروں کی توجہ حاصل کریں۔ واویلا اور شور شرابہ اپنے گھر میں کرلینے سے بُکر انعام یا نوبل ایوارڈ نہیں مل سکتا، اس کے لیے سنجیدہ اور طویل مدت منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس صلاحیتیں ہیں، معیار بھی ہے مگر زبان و ادب کے عالمی بازار میں اس کی نہ پہنچ ہے اور نہ قدر و قیمت۔ یہیں ہمیں مرتکز ہوکر اپنی زبان کے لیے نئی کھڑکیاں اور دروازے کھولنے ہوں گے۔
[مقالہ نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں] 
safdarimamquadri@gmail.com
گذشتہ عرض داشت : تاریخی عمارتوں اور مندروں، مسجدوں کی بنیاد کی کھدائی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے