پانی گویا آب زندگی

پانی گویا آب زندگی

عبدالرحمٰن
نئی دہلی
(سابق چیف مینیجر، الہ آباد بینک)
rahman20645@gmail.com

پانی(water) اللّه تعالیٰ یعنی خالقِ کائنات اور رب العالمین کی وہ نعمت ہے کہ الحمدللہ!
بچپن میں، فارسی کی ابتدائی کلاس میں مجھے ’نانِ گرم: گرم روٹی‘ جیسے بہت سارے فقرے (phrases) یاد کرائے گئے تھے۔ ان میں سے کئی فقرے پانی (آب) سے متعلق بھی تھے۔ مثال کے طور پر کچھ فقرے یہ ہیں:
آبِ خنک: ٹھنڈا پانی.
آبِ زر: سونے کا پانی۔
بڑے ہوتے ہوتے معلوم ہوا کہ آب یعنی پانی(water) جو ہم پیتے ہیں، انسان اور حیوانات کی زندگی میں سونے کے پانی سے بھی زیادہ قیمتی اور ضروری ہے۔ مرتے وقت کوئی عورت یا مرد اگر کچھ مانگنے کی حالت میں ہوتا ہے تو وہ صرف پانی مانگتا ہے۔ ایک حقیقت کے طور پر، پانی کی اہمیت اور افادیت کا کوئی مقابلہ نہیں۔ کائنات کی تخلیق، یہاں تک کہ انسانوں اور حیوانوں کی بناوٹ میں بھی پانی کی شمولیت کو انفرادی حیثیت حاصل ہے۔ چوں کہ پانی بے انتہا خصوصیات کا حامل ہے، اس لیے زیر نظر مضمون میں پانی کے انفرادی اور لا ثانی کردار کو سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اپنی زندگی بچانے کے لیے انسانوں اور حیوانوں کو ہی پانی کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ رزق حاصل کرنے کے لیے اناج کی فصلوں کی نشوونما بھی پانی پر ہی منحصر ہے۔ بارش اور ندی نالوں کی شکل میں، پانی ہی جنگلات کو ہرا بھرا رکھنے اور مختلف قسم کے جنگلی جانوروں کے لیے غذا (چارا) کی فراہمی کا باعث ہوتا ہے۔ امسال یعنی سنہ 2022ء میں شدت کی گرمی جس کا درجہ حرارت معمول سے بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے، مختلف فصلوں، خصوصی طور پر گیہوں (wheat) کی فصل کو اپنی بقا کے لیے ایک بڑا چیلینج (a big challenge) درپیش ہے۔ کھیتوں میں پانی کی نمی سنچائی (آبپاشی) کے ساتھ ہی ساتھ ختم ہوتی جارہی ہے, اور اسی تناسب میں پانی کی مسلسل فراہمی مختلف صورتوں میں غریب کسانوں کے سامنے ایک مشکل سوال بن کر کھڑی ہو گئی ہے۔ زمین کے اندر کی سطحِ آب بھی برابر دور ہوتی جارہی ہے۔ الگ الگ جگہ گرمی (heat) کا درجہ حرارت 40 سے بڑھ کر 42، 45، یہاں تک کہ 48 اور 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ رہا ہے۔ نتیجے کے طور پر گیہوں (گندم) کی فصل کو زبردست نقصان ہوا ہے۔ گرمی کی شدت (heat wave) نے گیہوں کے دانوں کو جھلسا کر کمزور اور ہلکا کردیا ہے۔ شروعاتی تخمینہ کے مطابق، پچھلے سال کے مقابلے اس سال گیہوں کی پیداوار میں تقریباً 20 ملین ٹن (mt) کی کمی واقع ہوسکتی ہے۔ ہمارے ملک میں پچھلے سال گیہوں کی قریب 110ملین ٹن (million ton) یعنی 11 کروڑ ٹن وزن کی ریکارڈ پیداوار ہوئی تھی۔ گھٹتی پیداوار کے موجودہ حالات اور اپنے شہریوں کی ضرورت کے پیش نظر حکومتِ ہند گیہوں کی غیر ممالک کو ہونے والی برآمدات (exports) پر پابندی عائد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ گویا پانی کی کمی کے ساتھ ساتھ رزق کی فراوانی میں بھی کمی واقع ہونے کے حالات پیدا ہو رہے ہیں۔
پانی کے پس منظر میں، الله تعالیٰ کی قدرت اور انسانی فکر و عمل کا مشاہدہ گوناگوں نقش و نگارش اور رنگ و بو کی مختلف جہتوں سے متعارف کراتا ہوا نظر آتا ہے۔ ایک عرصے تک لگاتار بارش نہ ہونے کی وجہ سے جہاں قحط (drought) پڑ جاتا ہے، وہیں لگاتار بارش سیلاب (flood) کے حالات پیدا کر دیتی ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں انسان بڑے پیمانے پر مختلف قسم کی مشکلات میں گِھرکر رہ جاتا ہے۔ قحط سالی کے دوران، زمینی فضا میں گویا چاروں طرف مردنی (deadly gloom) چھا جاتی ہے۔ جب زمین دیر تک سورج کی تپش سے نبرد آزما رہتی ہے اور نمی (moisture) فراہم کرنے والے ذرائع مفقود ہو جاتے ہیں، تب وہ اپنی زرخیزی کی صفت سے بھی محروم ہو نے لگتی ہے، اور اس طرح پیدا شدہ صورت حال میں انسانوں کا اپنے لیے اناج اور اپنے مویشیوں کے لیے چارہ اگانا دشوار ترین امر ہو جاتا ہے۔ جنگلات کی ہریالی پر منفی اثرات مرتب ہونے کی وجہ سے، اس دوران جنگلی جانور بھی بے کلی کی کیفیت کا شکار نظر آتے ہیں۔ سوکھا گِرست (drought affected) علاقوں میں چاروں طرف چیخ و پکار سنائی دینے لگتی ہے، یہاں تک کہ لوگ خود کو مجبور پاکر مدد کی نظر سے اپنے پروردگار کے آگے گڑگڑا تے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اپنے اپنے مذہب اور عقائد کی روشنی میں مختلف رسوم و رواج کے ساتھ لوگ دونوں جہان کے پالن ہار (Lord of the universe) کی عظمت کے آگے ڈھے (give in) پڑتے ہیں، اپنے عجز (helplessness) کا اعتراف اور اپنے رب (پالنے والا) کی بڑائی بیان کرتے ہوئے اس کی مدد و نصرت حاصل کرنے کے لیے متعدد قسم کی مناجات اور دعاؤں میں منہمک ہو جاتے ہیں۔ مذکورہ حالات میں، مسلمانوں کے اندر نماز ’استسقاء‘ کا طریقہ رائج ہے۔ لغت میں استسقاء کے معنی ہوتے ہیں: پانی طلب کرنا، جب کہ شریعت کی اصطلاح میں اس کا مطلب ہوتا ہے: قحط سالی کے تناظر میں بارش کے لیے بتائے گئے طریقوں کے مطابق نماز پڑھنا اور دعا کرنا۔
انسان اور حیوانات کی دنیا کے لیے پانی کی قلت ہی مسائل پیدا نہیں کرتی، بلکہ پانی کی افراط بھی انسان کو بڑے بڑے مصائب سے دوچار کر دیتی ہے۔ خاص طور پر برسات کے دنوں میں، جب پانی کی فراوانی سیلاب کی شکل اختیار کرلیتی ہے، تب کھیت کھلیان ہی نہیں، نشیبی زمین میں آباد کثیر تعداد میں گاؤں اور گھروں میں پانی بھر جاتا ہے۔ جہاں ایک طرف گھروں میں بھرا ہوا پانی کچے اور نیم پکے مکانوں کے گرنے کا سبب بن جاتا ہے، وہیں دوسری طرف ندیوں کی طغیانی بہت سے لوگوں کے ڈوبنے اور ڈوب کر مر جانے کا سامان فراہم کردیتی ہے۔
قرآن کے بیان کے مطابق : ”حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے اور وہ اس پر خود گواہ بھی ہے“ ( العادیات-100: 6-7).
ناشکرا ہونے کے ساتھ ساتھ انسان عجلت پسند بھی ہے (الانبیاء-21: 37)۔ امتحانی مصلحت کے تحت انسان کو عطا کردہ فطری داعیات کے زیر اثر وہ اکثر اوقات اپنے پروردگار کے وضع کیے ہوئے مختلف طور طریقوں میں دخل اندازی کرتا رہتا ہے، اور نتیجتاً نہ صرف خود پریشانیوں سے دوچار ہوتا ہے بلکہ الله تعالیٰ کی دوسری مخلوقات کے لیے بھی مشکلات پیدا کردیتا ہے۔ ندی-نالوں کو اگر اپنے فطری (natural) راستوں پر گامزن رہنے دیا جائے تو انسان کو درپیش بیشتر مسائل بہ آسانی حل ہو سکتے ہیں۔ تہذیب و تمدن کی ترقی کے نام پر، ندیوں کے پانی کو منظم کرنے کی غرض سے ان پر مختلف قسم کے چھوٹے بڑے باندھ (dam) بنانا، ندیوں کے علاقوں اور نشیبی جگہوں پر کالونیاں (colonies) آباد کرنا اور باغات و جنگلات کو کاٹ کر شہر بسانا، گویا انسان کا خود کو ہمیشہ کے لیے نہ ختم ہونے والے عذاب میں مبتلا کر لینا ہے۔ فطرت (nature) میں انسانی دخل اندازی بارش ہونے یا نہ ہونے، دونوں صورتوں میں مضر ثابت ہو رہی ہے۔
یوں تو ہر جگہ ضرورت ہے، مگرقحط زدہ (drought prone) علاقوں میں خاص طور پر مختلف قسم کے درخت لگانے، تالاب بنا کر پانی جمع کرنے اور زیر زمین سطحِ آب کو بہتر بنانے کی مسلسل کوشش درکار ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اپنے ملک ہندستان میں مختلف جگہوں پر سوکھا (drought) اور باڑھ(flood) کے حالات کو منظم (manage) کرنے کے لیے، سرکاری کوششوں کے علاوہ بہت سارے غیر سرکاری ادارے (NGOs) بھی کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ریاست مہاراشٹر کے قحط زدہ علاقوں کی ضرورت کے مطابق، پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کی غرض سے بالی ووڈ کے مشہور و معروف اداکار مسٹر عامر خان نے سنہ 2016ء میں اپنی سابقہ بیگم ( ex wife) میڈم کرن راؤ کے ساتھ مل کر ایک این جی او کی سنگ بنیاد رکھی تھی۔ یہ ادارہ بہت مشہور ہے۔ کام کی مناسبت سے نام بھی بہت خوب صورت ہے۔ اس کا نام ہے: ’پانی فاؤنڈیشن‘ (PAANI Foundation)۔
گرمی کی بڑھتی ہوئی شدت پہلے سے ہی موجود موسمیاتی تغیرات یا تبدیلی (climate change) کی رفتار کو مزید تیز کرنے میں معاونت کر رہی ہے۔ کرہ ارض (planet earth) کی سطح پر موسمیاتی تبدیلی کا معروف نام گلوبل وارمنگ (global warming) ہے۔ خالقِ کائنات کی تخلیق کردہ فطرت کے نقشے میں انسانی مداخلت نے ہی گلوبل وارمنگ کے سخت ترین حالات پیدا کردیے ہیں۔ ایک طرف پینے کے پانی کے گلیشیروں (glaciers) کی برفیلی چٹانوں پر وقت سے پہلے پانی میں مبدل ہوجانے کا خطرہ منڈلا رہا ہے، تو وہیں اس زائد پانی سے سطح سمندر میں اضافہ کے امکان پیدا ہو گئے ہیں۔ سمندر کی سطح میں اضافہ وسیع علاقہ میں انسانی آبادیوں کو پانی میں ڈبونے کی وجہ ہوسکتا ہے۔ پانی کی یہ دو طرفہ تباہی گلوبل وارمنگ کا بنیادی جز ہے، اور نیچر میں انسانی مداخلت بنیادی سبب۔
انسانوں سمیت جملہ جان داروں کی بقا کے لیے، خالقِ کائنات کی تخلیقی پلاننگ کے تحت، پینے لائق (میٹھا) پانی کے بڑے بڑے ذخائر جو گلیشیر (glaciers ) کی شکل میں پہاڑوں کی بلندیوں پر موجود ہیں، بڑھتی گرمی کی وجہ سے ان کے پگھلنے کی رفتار تیز ہو رہی ہے۔ قدرتی بندوبست کے تحت گلیشیر ہمیشہ اپنی فطری رفتار کے ساتھ پگھلتے رہتے ہیں اور ندیوں کی صورت میں لگاتار بشمول انسان، کرہ ارض پر آباد الله تعالیٰ کی جملہ مخلوقات کے لیے پانی فراہم کرتے رہتے ہیں۔ گرمی کی بڑھتی شدت کے زیر اثر، گلیشیر نسبتاً تیزی سے پگھل کر نہ صرف اپنے بیش قیمتی پانی کے ذخیرہ کو متوقع مدت سے پہلے ہی ختم کرنے کے حالات پیدا کر رہے ہیں، بلکہ انسانی لائف لائن (life line) یعنی میٹھے پانی کو ندیوں کے توسط سے سمندر کے کھارے پانی میں منتقل کر رہے ہیں۔ یہ صورت حال تشویش ناک ہے۔ گلوبل وارمنگ کو بڑھاوا دینے والی انسانی لغزشوں پر لگام لگنی ہی چاہیے۔
ایک مرتبہ، سمندر میں پہنچ جانے کے بعد وہاں موجود کھارے پانی میں شامل ہو کر وہی پانی جو انسانوں اور دوسرے جانداروں کے لیے’آبِ حیات‘ سے کم نہیں ہے، بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ سمندر کے ایک لیٹر پانی میں تقریباً 35 گرام نمک ہوتا ہے۔ انسان کی اندرونی بناوٹ کے اعتبار سے نمک کی یہ مقدار مضر ہونے کی حد تک بہت زیادہ ہے۔ اس لیے سمندر کے پانی کو پینے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ سمندر کے کھارے پانی کی وسعتوں میں گِھرے ایک انسان کو پانی کے تعلق سے درپیش مشکلوں کی منظر کشی انگریزی زبان کے ایک مشہور شاعر سیموئل ٹیلر کولرج (Samuel Taylor Coleridge) نے اپنی ایک نظم میں کچھ اس طرح کی ہے:
Water water everywhere,
Nor a drop to drink…
یعنی ہر طرف پانی ہی پانی ہے، مگر پینے لائق ایک قطرہ بھی نہیں۔
سمندر کے پانی کو قدرتی طور پر کھارا (salty) ہونے کی وجہ سے، انسان براہِ راست استعمال نہیں کر سکتا ہے۔ مگر اس کا پروردگار اتنا مہربان اور شفیق ہے کہ اس نے سمندر کے پانی کو بھی بہ شمول انسان سبھی جانداروں کے واسطے قابل استعمال بنانے کے لیے، ایک منفرد اور لا ثانی طریقہ وضع کردیا ہے۔ پانی کے پھیلنے اور سکڑنے کی خصوصیت کے ساتھ ساتھ، سورج کی گرمی سے سمندر کا پانی بھاپ (water vapour) بن کر اوپر اٹھتا رہتا ہے اور ایک جگہ جمع ہو کر بادل کی شکل اختیار کر لیتا ہے، اور بادل حکم خداوندی کے تحت الگ الگ مقام پر بارش بن کر برس جاتے ہیں، اور انسانوں کا کھویا ہوا میٹھا پانی انھیں واپس مل جاتا ہے۔ بادل بننے اور انسانی دنیا پر برسنے کا یہ سلسلہ فطری قوانین (natural laws) کے تحت ہمیشہ سے جاری ہے۔ انسانوں کی بقا اور فلاح کے لیے قائم کیا گیا الله تعالیٰ کی قدرت کا یہ کارخانہ اتنا بڑا شاہ کار ہے کہ انسان جتنا بھی شکر بجا لائے وہ کم ہے۔ مقام افسوس، ایسا محسوس ہوتا ہے گویا موجودہ زمانہ کے انسانوں میں شکر کے جذبات اور احساسات کمزور پڑتے جارہے ہیں، جب کہ آج کل درجہ شکر کو مزید وسعت اور عروج حاصل ہونا چاہیے تھا، کیوں کہ موجودہ زمانہ انسانی علم (سائنس) کے عروج کا زمانہ ہونے کی وجہ سے انسان کو اتنے وسیع پیمانے پر الله تعالیٰ کی نعمتیں حاصل ہو رہی ہیں جتنی پہلے کبھی نہیں ہوتی تھیں۔
پانی (water) کو فارسی میں آب کہتے ہیں، اور آب کے معنی لغت (dictionary) میں بہت سارے ہیں۔ آب کے چند معنی یہ ہیں:
پانی، عرق، لعاب، شبنم، سیال مادہ؛ چمک، حسن، خوب صورتی، آب و تاب؛ دھار، تیزی، تلوار کا کنارہ۔
کائنات کی تخلیق کے متعلق چار عناصر کو بنیادی مقام حاصل رہا ہے، جن میں پانی کی حیثیت مرکزی ہے۔ باقی تین عناصر ہیں: ہوا، آگ اور مٹی۔ اسی تناظر میں ہوا، آگ، مٹی اور پانی کو کائنات کے ’عناصر اربعہ‘ کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ گنتی سے ظاہر ہے، اربعہ کا مطلب چار (4) ہوتا ہے۔
عناصر اربعہ کا فلسفہ تاریخ میں وقت کے اہل علم کے درمیان کم و بیش دو ہزار سال تک خصوصی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ یہ تقریباً سنہ 600 قبل مسیح کی بات ہے، جب قدیم یونانی فلسفیوں اور دانشوروں کے درمیان کائنات کے تخلیقی مادوں اور کائناتی نظام کے بارے میں غور و فکر کا سلسلہ شروع ہوا۔ الگ الگ موقعوں پر الگ الگ مادہ کو بنیادی حیثیت کا حامل سمجھا جاتا رہا، یہاں تک کہ طلوعِ سائنس (modern knowledge) کے ساتھ ’چار عناصر‘ کے فلسفہ کو مسترد کر دیا گیا۔ یہ اور بات ہے کہ علمِ جفر (غیب کے احوال جاننے کا علم) اور دوسرے پُر اسرار علوم کے ماہرین کے درمیان یہ نظریہ آج بھی زندہ و جاوید ہے۔
گو کہ انسانوں کی علمی ترقی نے عناصر اربعہ کے نظریہ کو صحیح تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ یونانی (Greek) افراد ہی وہ پہلی قوم ہیں جنھوں نے کمیت (quantity) کے نظر یہ پر بحث کا آغاز کیا تھا۔
تخلیق کائنات سے متعلق جو نظریات نئے زمانے کے سائنس دانوں (scientists) نے وضع کیے ہیں وہ چار عناصر والے قدیم نظریہ سے یکسر مختلف ہیں۔ کائنات کی تخلیق کے متعلق جو بھی تحقیقی علمی مواد مختلف علوم کے ماہرین نے فراہم کیا ہے اس نے خود انسانی علوم کی روشنی میں مذہب اسلام کی حقانیت کی واضح تصدیق مہیا کردی ہے۔
تخلیقِ کائنات کے بارے میں 20 ویں اور 21 ویں صدی عیسوی کے سائنس دانوں نے اپنی وسیع تحقیقات سے جو نتائج برآمد کیے ہیں، قرآن مجید نے ان کا اعلان آج سے 1400سال پہلے ہی کردیا تھا۔تخلیقِ کائنات کے قرآنی اُصولوں میں سے ایک بنیادی اُصول یہ ہے کہ تخلیق کی ابتدا کے وقت کائنات کا تمام بنیادی مواد ایک اِکائی (unit) کی صورت میں موجود تھا، جس کو بعد میں ٹکڑے ٹکڑے کر کے مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا گیا، جس کے زیر اثر کائنات کی تخلیق اور توسیع کا عمل شروع ہوا۔ کائنات کی توسیع (expansion of the universe) کا یہ عمل آج بھی مسلسل جاری و ساری ہے۔ قرآن مجید اِس حقیقت کو اِن اَلفاظ میں بیان کرتا ہے :
”اور کیا انکار کرنے والے لوگوں نے نہیں دیکھا کہ یہ سب آسمان و زمین ایک اِکائی (unit) کے طور پر باہم جڑے ہوئے تھے، پس ہم نے اُنھیں پھاڑ کر جدا کر دیا“ (الانبیاء-21: 30).
قرآن پاک میں مذکور "پھاڑنے کے عمل" کو سائنس دانوں نے
‘Explosion of a single particle (super atom)’
کا نام دیا ہے۔ کائنات کی تخلیقی شروعات کو واضح کر نے والا یہ نظریہ (theory) بیسویں صدی عیسوی کے انسانی علم کی بیش قیمتی دریافت ہے۔ اس نظریہ کے توسط سے یہ امید اور یقین کیا جاسکتا ہے کہ مختلف شعبوں کے سنجیدہ اہل علم کی نظر میں مذہب اور سائنس کے درمیان ایک مدت سے چلا آ رہا علمی اور فکری فاصلہ کم ہوگا۔ مذکورہ نظریہ کو بگ بینگ تھیوری (Big Bang Theory) کا نام دیا گیا ہے۔ جارج لیمائترے (Georges Lemaitre) { 1894-1966} کو بگ بینگ تھیوری کا موجد (inventor) تسلیم کیا جاتا ہے اور اسی لیے وہ "فادر آف دی بگ بینگ تھیوری" (Father of the Big Bang Theory) کے نام سے معروف ہیں۔ سائنسی تخمینہ کے مطابق، بگ بینگ کا واقعہ 13.8 بلین (تقریباً 14 ارب) سال قبل وقوع پذیر ہوا۔ دوسرے الفاظ میں ہماری موجودہ کائنات 14 ارب سال پرانی ہے۔
پانی کا کیمیاوی فارمولہ (chemical formula) ہے: ایچ ٹو او (H2O). ایچ کا مطلب ہوتا ہے ہائڈروجن اور او کا مطلب آکسیجن۔ ہائڈروجن کے دو ایٹم (atoms) اور آکسیجن کے ایک ایٹم کے کیمیاوی اختلاط (chemical combination) کے توسط سے جو سیال مادہ (liquid matter) وجود پذیر ہوتا ہے اس کو پانی (water) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پانی الله تعالیٰ کی اتنی بڑی اور اہم نعمت ہے کہ کرہ ارض (planet earth) کی تخلیق کا اہم جز پانی ہے۔ زمین کے گولے (globe) پر اگر 29 فی صد خشک جگہ (بر اعظم وغیرہ) ہے تو 71 فی صد جگہ میں تری (یعنی پانی) ہے۔ زمین پر پانی کئی شکلوں میں موجود ہوتا ہے، یعنی زمین کی سطح (surface) کے نیچے، سطح پر اور سطح کے اوپر۔
سب سے زیادہ پانی زمین کی سطح پر سمندر (seas) اور بحر اعظم (oceans) کی صورت میں پایا جاتا ہے۔ سمندروں کا پانی براہِ راست پینے کے کام میں نہیں لایا جاسکتا، مگر سمندر میں تیرنا انسانی صحت کے لیے بہت فائدہ مند سمجھا جاتا ہے۔ سمندر بڑے پیمانے پر دنیا بھر کے لیے مچھلیوں کی شکل میں کھانا (food) فراہم کرتے ہیں، اور دنیا بھر کے ضروری سامان کو کشتیوں اور چھوٹے بڑے جہازوں کے توسط سے ادھر سے ادھر کرنے میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ انسانوں کے لیے سمندروں کی گہرائیوں میں موتی اور مونگے (مرجان) بھی دستیاب کر دیے گئے ہیں (الرحمٰن-55: 2).
انٹارکٹیکا (Antarctica) اور گرین لینڈ (Green Land) کی شکل میں الله تعالیٰ نے ٹھوس پانی(solid water) یعنی برف (ice) کی صورت میں پانی کے زبردست ذخیرے پیدا کردیے ہیں۔
سطح زمین سے اوپر پہاڑوں پر موجود گلیشیر میٹھے پانی (fresh water) کے بڑے ذرائع ہیں۔ سمندر کے پانی کی بھاپ (water vapour) سے وقتاَ فوقتاً بننے والے بادل بھی انسانی دنیا کے لیے پانی کی خوش خبری کا جیتا جاگتا پیغام ہیں۔ زیر زمین پانی بارش، ندی-نالے، جھیل اور تالاب وغیرہ کے توسط سے جمع ہوتا رہتا ہے، جس کو انسانی معاشرہ خود پینے، اپنے مویشیوں کو پلانے اور اپنی فصلوں کی آب پاشی (irrigation) کے لیے ضرورت کے حساب سے استعمال کرتا رہتا ہے۔ 40-50 سال قبل تک جہاں کنواں (well) کھود کر بھینسا اور بیلوں کے ذریعے رہٹ
(wheel with small buckets on its rim used for drawing water)
سے زمین کے اندر کا پانی نکالا جاتا تھا، تو وہیں آج کل ٹیوٹ ویل (Tubewell/Borewell) کے ذریعے بجلی یا ٹریکٹر کی مدد سے پانی حاصل کیا جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ زیر زمین پانی کی مقدار گھٹتی جارہی ہے، اس لیے اس کو بڑھانے کی ہمہ جہت کوشش کے ساتھ ساتھ پانی کو بربادی سے بچانا بھی نہایت ضروری ہے۔ پینے لائق پانی کے معاملے میں ہمارے ملک کے حالات سازگار نہیں ہیں۔ دنیا کے میٹھے پانی (fresh water) کے ذخائر کا تقریباً 4 فی صد ہی ہمارے پاس ہے، جب کہ ہم ہندستانی دنیا کی آبادی کے 16 فی صد ہیں۔
انسان اور دوسرے جان داروں کی تخلیق کے متعلق قرآن مجید میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”اور تمام جان دار چیزیں ہم نے پانی سے بنائی ہیں“ (الانبیاء-21: 30)۔ جوان مردوں کے جسم کا 60 فی صد حصہ پانی پر مشتمل ہوتا ہے، جب کہ جوان عورتوں میں یہ مقدار 55 فی صد ہوتی ہے۔ متعدد زاویوں سے یہ بات بہ خوبی واضع ہوجاتی ہے کہ نہ صرف انسانوں میں بلکہ انسانی آماج گاہ یعنی کرہ ارض کی تخلیق میں بھی پانی کی حیثیت زبردست ہے۔
الله تعالیٰ کی قدرت کا یہ کتنا اہم اور دل چسپ پہلو ہے کہ بذات خود پانی کوئی غذا (food) نہیں ہے، اور نہ ہی پانی کسی طاقت (energy) کا ذریعہ ہے۔ اسی کے ساتھ وہ کوئی وٹامن (vitamin) وغیرہ بھی نہیں ہے۔ اس سب کے باوجود، کون ہے جو پانی کے زندگی بچانے والے طلسماتی عجائبات سے واقف نہیں؟ بے شک پانی خود غذا نہیں ہے، مگر مختلف چیزوں کو انسانی غذا بنانے میں پانی کا بنیادی کردار ہے۔ پانی کے بغیر دال- سبزی اور گوشت- مچھلی کو کھانا (food) بنانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ کائنات کی بیشتر چیزیں پانی میں گھل (solvent) جاتی ہیں۔ پانی کی اسی خصوصیت نے اس کو کائنات میں افادیت کے اعلا ترین منصب پر بٹھا دیا ہے۔
روئے زمین پر ایسی کون سی چیز ہے، پانی کے بغیر جس کا تصور کیا جاسکے؟ جہاں برف (ice)، برف باری (snow)، ژالہ باری یعنی اولے (hailstorm)، پالا ( frost), نمی (humidity) اور اوس یا شبنم (dew) پانی کی موجودگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، تو وہیں بھاپ (steam or water vapour) اور بادل پانی کی ہی بدلی ہوئی شکلیں ہیں۔ اپنے بندوں کی فلاح و بہبود کی خاطر، پانی کو الله تعالیٰ نے گوناگوں خصوصیات (properties) سے آراستہ کیا ہوا ہے۔ پانی کا عجیب و غریب پھیلاؤ (anomalous expansion of water) اس کی ایک بڑی انفرادی خصوصیت ہے۔ یہ ایک عام فطری ظاہرہ ہے کہ مادی اشیا (substances) گرم کرنے پر پھیلتی ہیں اور ان کی کثافت (density) گھٹ جاتی ہے۔ مگر پانی کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ گرم کرنے پر پانی زیرو ڈگری سینٹی گریڈ سے چار ڈگری سینٹی گریڈ تک پھیلنے (expand) کے بجائے سکڑتا (contracts) ہے اور چار ڈگری کے بعد ہی پھیلنا شروع کر تا ہے۔ نتیجے کے طور پر پانی کی زیادہ سے زیادہ (maximum) کثافت (density) چار ڈگری سینٹی گریڈ پر ہوتی ہے۔ پانی کی اسی خصوصیت کی وجہ سے زیر زمین پانی (groundwater) سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈا ہوتا ہے۔ اسی طرح ندی اور تالاب کا پانی بھی اپنے ارد گرد کے موسم سے مختلف ہوتا ہے۔
قرآن مجید میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ”دو سمندروں کو اس نے چھوڑ دیا کہ باہم مل جائیں، پھر بھی ان کے درمیان ایک پردہ حائل ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے“( الرحمٰن-55: 19-20).
اسی طرح قرآن پاک کی سورۃ الفرقان (نمبر 25) کی آیت نمبر 53 میں بیان کیا گیا ہے جس کا مفہوم ہے کہ الله تعالیٰ نے میٹھے اور کھارے پانی کے سمندروں کے درمیان ایک پردہ حائل کردیا ہے جس کی وجہ سے وہ مل کر بھی نہیں ملتے۔
قرآن مجید میں بیان کردہ سمندروں کے نہ ملنے کے واقعہ کو رو نما ہوتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے جہاں بحر اوقیانوس (Atlantic Ocean) میں بحیرہ روم (Mediterranean Sea) داخل ہوتا ہے۔ کم و بیش اسی طرح کا نظارہ ریاست اترپردیش کے مشہور شہر الہ آباد (نیا نام: پریاگ راج) سنگم پر بھی دیکھا جاسکتا ہے جہاں گنگا اور جمنا ندیاں باہم ملتی ہیں۔ اس متعجب کرنے والے واقعہ کے پس منظر میں بھی الله تعالیٰ کی پانی کو عنایت کردہ ایک اور انفرادی خصوصیت کار فرما ہے۔ اس خصوصیت کا نام ہے سطحی تناؤ (surface tension)۔ میٹھے اور کھارے پانی کا سرفیس ٹینشن مختلف ہونے کی وجہ سے یہ واقعہ ظہور پذیر ہوتا ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”اور یہ جہاز اسی کے ہیں جو سمندر میں پہاڑوں کی طرح اونچے اٹھے ہوئے ہیں“.(الرحمٰن-55: 24).
الله تعالیٰ نے بڑے بڑے بحری جہازوں کے سمندر میں چلنے کا واقعہ بیان کر کے اس جانب توجہ دلائی ہے کہ اس نے پانی کو ایک اور انوکھی خوبی عطا کی ہے جس کی وجہ سے ندیوں اور سمندروں میں کشتی اور جہازوں کا چلنا ممکن ہوتا ہے۔ اس فطری قانون (Law of nature) کو انسانی دنیا میں قبل مسیح زمانے کے یونانی سائنس داں ارشمیدس (Archimedes) نے دریافت کیا تھا۔ ان کی یہ ڈسکوری (دریافت) پرنسپل آف بائینسی (Principle of Buoyancy) یعنی تیرنے کا اصول کے نام سے معروف ہے۔
پانی کی خوبیوں اور خصوصیات کا میدان بہت وسیع ہونے کے سبب ان کا احاطہ کرنا یقینی طور پر آسان کام نہیں ہے۔ نعمتوں پر شکر کے لیے یاد دہانی اور تاکید کرتے ہوئے الله تعالیٰ نے قرآن پاک میں متعدد جگہ پانی کا ذکر کیا ہے۔ چند اقتباسات علمی استفادہ، شکران نعت کی یاد دہانی اور نصیحت پذیری کی نظر سے یہاں نقل کیے جارہے ہیں:
” اور آسمان سے ہم نے ٹھیک حساب کے مطابق ایک خاص مقدار میں پانی اتارا اور اس کو زمین میں ٹھہرا دیا، ہم اسے جس طرح چاہیں، غائب کر سکتے ہیں“ ( المومنون-23: 18).
”وہ آسمان سے پانی برساتا ہے۔ پھر اس کے ذریعے سے زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے۔ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں“ (الروم-30: 24).
” کیا تم نہیں دیکھتے کہ الله تعالیٰ نے آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کو سوتوں اور چشموں اور دریاؤں کی شکل میں زمین کے اندر جاری کیا، پھر اس پانی کے ذریعے سے وہ طرح طرح کی کھیتیاں نکالتا ہے جن کی قسمیں مختلف ہیں، پھر وہ کھیتیاں پک کر سوکھ جاتی ہیں، پھر تم دیکھتے ہو کہ وہ زرد پڑ گئیں، پھر آخر کار الله ان کو بھس بنا دیتا ہے، درحقیقت اس میں ایک سبق ہے عقل رکھنے والوں کے لیے“ (الزمر-39: 21).
یہاں تک آتے آتے، اب یہ کہنے میں کوئی تردد نہیں ہے کہ پانی بلا شبہ، آبِ زندگی ہے۔ پانی جیسی گوناگوں خصوصیات کی حامل بیش قیمتی نعت کے لیے الله تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے وہ کم ہے۔ ایمان کی دولت کے بعد ایک بندہ مومن کا اصلی خزانہ ہیں: صبر، شکر اور امید.
یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ موجودہ امتحانی دنیا میں زندگی بچانے کا مطلب صرف اتنی ہی زندگی ہے جتنی کہ امتحان کی غرض سے مقدر کی گئی ہے۔ زندگی بچانے والے پانی کی خصوصیت سے متاثر ہوکر دنیا میں ایسے افراد بھی ہوئے ہیں جنھوں نے سچ مچ ایسے پانی یعنی ’آبِ حیات‘ کی تلاش شروع کردی جس سے ان کے وہم کے مطابق، یقینی طور پر زندگی کو دوام حاصل ہو جائے گا اور موت سے نجات مل جائے گی۔ الله تعالیٰ کے منصوبہ تخلیق سے خود کو روشناس نہ کرانے کی وجہ سے انسان ایسی حماقتیں کرتا رہا ہے، جب کہ اس دنیا کے لیے جو فارمولا وضع کیا گیا ہے، وہ ہے: ”كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِؕ“
یعنی ہر جان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے (آل عمران-3: 185)۔
(23.05.2022 AD≈21.10.1443 AH)
گذشتہ آئینہ خانہ یہاں پڑھیں:اللهُ اکبر، اللهُ اکبر: اذان اور موجودہ صورت حال

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے