اللهُ اکبر، اللهُ اکبر:  اذان اور موجودہ صورت حال

اللهُ اکبر، اللهُ اکبر: اذان اور موجودہ صورت حال

عبدالرحمٰن
نئی دہلی
(سابق چیف مینیجر، الہ آباد بینک)
rahman20645@gmail.com

آج کل کچھ عرصہ سے مساجد کے میناروں سے طلوعِ فجر سے لےکر وقتِ عشاء تک پانچ مرتبہ بلند ہونے والی اذان اپنی زبردست دل فریبی اور دل کشی کے باوجود مختلف قسم کے مباحثوں (debates) کی گرفت میں آگئی ہے۔ پیدا شدہ موجودہ تشویش ناک صورت حال کے باوجود، خوش آئند بات یہ ہے کہ حالات خود ہی اس امر کے گواہ بن کر کھڑے ہو گئے ہیں کہ اذان میں کسی قسم کی کھوٹ یا کوئی معیوب پہلو مضمر نہیں ہے۔ الحمدللہ، اذان کی پاکیزگی مسلم ہے، کیوں کہ اذان کا سلسلہ خود الله تعالیٰ کے آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله عليه وسلم نے اپنے حکم (order) سے جاری کیا تھا۔ چوں کہ پیغمبر اور رسول ہونے کی وجہ سے، حضرت محمد صلی الله عليه وسلم زمین پر الله رب العالمین کے نمائندہ تھے، اس لیے ان کا ہر کام خود خالق کائنات اور اِنس و جن کے پروردگار کی رہ نمائی میں انجام پاتا تھا۔ اس تناظر میں، ماضی، حال اور مستقبل کا احاطہ کرنے والا آپ کا کوئی بھی فیصلہ یا بیان ہمیشہ کے لیے شکوک و شبہات سے بالا تر ہوتا ہے۔ یہی حقیقت ختم نبوت اور اسلام کے دینِ کامل ہو نے کا بھی واضح ثبوت ہے۔ زیر نظر مضمون میں موجودہ مشکلات اور ان کے سدباب کی حکمت عملی کے ساتھ ساتھ اذان کے مختلف پہلوؤں کو علمی، فکری اور معاشرتی زاویہ نظر سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
سب سے پہلے یہ یاد دہانی اشد ضروری ہے کہ ہم مسلمان ہیں، اور الله تعالیٰ کو خالقِ کائنات اور رب العالمین ماننے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایمان رکھتے ہیں کہ حضرت محمد صلی الله عليه وسلم اس کے رسول ہیں۔ اور اسی لیے، الله اور اس کے رسول کا حکم بجا لانا ہمارے ایمان کا لازمی حصہ ہے۔ اس تناظر میں، اسلامی تعلیمات کی بنیادی باتوں کا ادراک ضروری ہے، اور یہ یقین بھی ضروری ہے کہ چھوٹے ہوں یا بڑے، مسلمانوں کے جملہ مسائل و مصائب کا حل قرآنی ہدایات و تدابیر پر عمل کیے بغیر ممکن نہیں۔
بلا شبہ، اعراض اور صبر و شکر اسلام کی بنیادی اقدار ہیں۔ الله تعالیٰ صابر و شاکر افراد کو بہت پسند کرتا ہے۔ اگر ’اعراض` مصیبتوں کو قریب آنے سے روکتا ہے تو ’صبر‘ مشکلوں کو زائل کرنے میں مدد کرتا ہے اور ’شکر‘ ربانی عنایات میں مزید اضافہ کا سبب بنتا ہے۔ یک طرفہ خیر خواہی اسلام کا شعار ہے۔ بدلہ لینے پر معاف کر دینے کو ترجیح دی گئی ہے۔
مسلمانوں کو حکم ہے کہ وہ برائی کا جواب بھی بھلائی سے دیں، اور انسانوں کے لیے ہمیشہ نفع بخش بنے رہیں۔ عہد کی پاس داری نہ کرنے، وعدہ خلافی کرنے اور جھوٹ بولنے والے افراد کو رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ‘منافق` کے زمرے میں رکھا ہے، اور الله تعالیٰ نے منافقین کے لیے دوزخ کے سخت عذاب کی وعید سنائی ہے۔
مظلوم تو ہوسکتا ہے، مگر ایک مسلمان ظالم نہیں ہوسکتا۔ جہاں پروردگار مظلوم کے ساتھ کھڑا ہوتاہے، وہیں وہ ظالم کو سخت ناپسند بھی کرتا ہے۔ حقیقتاً، مظلوم اور ظالم کے درمیان واقع فرق ایک بہت ہی نازک معاملہ ہے۔ ایک ادنا سی لغزش مظلوم کو ظالم بنا سکتی ہے اور الله کی نصرت سے ہمیشہ کے لیے محروم کر سکتی ہے۔ نت نئی مشکلات کے ذیل میں، یہ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو سنجیدگی اور گہرائی کے ساتھ غور کرنا چاہیے کہ ان کے بیشتر مسائل کہیں اسی طرح کی کسی لغزش کا نتیجہ تو نہیں ہیں۔ اسلام برابر مقدار میں بدلہ لینےکی اجازت تو دیتا ہے، مگر بدلہ کی کیفیت میں معمولی تجاوز بھی آپ کو مظلوم سے ظالم بنا سکتا ہے، اور ظالم کے لیے الله کی کوئی مدد نہیں جب تک کہ وہ توبہ اور اصلاح نہ کرلے۔
اذان کو متنازع (controversial) بنانے کی کوشش کچھ اس طرح کی صورت حال کی طرف اشارہ کرتی ہے جہاں اپنی پوری آب و تاب کے باوجود روشن آفتاب کی موجودگی کا ادراک ایک شخص خود اپنی بینائی میں کمی اور کم زوری کے باعث نہیں کرپاتا ہے، وہیں دوسری طرف وہی شخص سورج کی غیر موجودگی کا اعلان، وہ بھی پورے اعتماد کے ساتھ کرنا شروع کر دیتا ہے، اور اس کو کوئی پس و پیش بھی لاحق نہیں ہوتا۔ یہ سب واقع ہوتا ہے معاشرے میں بھیڑ چال (herd mentality) کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے۔ نتیجتاً، لوگ کسی بات کو سننے کے ساتھ ہی اس پر غیر علمی تبصرے شروع کردیتے ہیں، اور معاملہ راستہ سے بھٹک کر اپنی صحیح سمت سے محروم ہوجاتا ہے۔ شاذ و نادر ہی کوئی یہ جاننے کی کوشش کر تا ہے کہ آخر معاملہ کیا ہے۔ لوگوں کا یہ مزاج منفی سیاست (negative politics) کے نامبارک میدان کو ہموار کرنے میں بہت معاون ثابت ہو ریا ہے۔
یہ امرِ واقعہ ہے کہ ایک اچھے شخص کو بھی لوگ اس کی بری صحبت (company) کی وجہ سے برا سمجھنے لگتے ہیں۔ کچھ اسی طرح کا معاملہ پچھلے کچھ عرصہ کے دوران اذان کے ساتھ بھی پیش آیا ہے۔ اذان کے ساتھ لاؤڈ اسپیکر کی وابستگی گویا اذان کے لیے بری صحبت ثابت ہوئی ہے۔ اذان کے حوالے سے جہاں لاؤڈ اسپیکر کو ایک نان اشو (non-issue) ہونا چاہیے تھا، وہیں مسلمانوں کے سامنے وہ ایک بڑا اشو (مسئلہ) بن کر ظاہر ہوا ہے۔ تمام صاحبِ عقل و شعور انسانوں، خاص طور پر مسلمانوں کو یہ حقیقت بخوبی معلوم ہونی چاہیے کہ اسلامیات اور ایمانیات کے علاوہ موجودہ عارضی دنیا کے جملہ مشاغل و معاملات ہمیشہ مرہونِ غور و خوض اور قابل ترمیم ہوتے ہیں۔ اس لیے، دنیاوی معاملات میں ہو رہے مباحثوں کو کبھی بھی مذہبی یا جذباتی نظر سے نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ چیزوں میں بحث صرف کامن سینس (عام فہم سوجھ بوجھ ) کے دائرے تک ہی محدود رہنی چاہیے، تاکہ سماجی بھائی چارا اور معاشرتی رواداری محفوظ رہے۔
دنیاوی چیزوں کی اس نوعیت کے پس منظر میں، انسان خود اپنے بنائے ہوئے قوانین اور اصول و ضوابط پر وقتاَ فوقتاً نظر ثانی کرتا رہتا ہے اور آئے دن کسی نہ کسی کم و بیشی کے ساتھ اپنے طور طریقوں کو زمانے کی چال ڈھال کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ لاؤڈ اسپیکر کا معاملہ بھی اسی نوعیت کا ایک معاملہ ہے۔ اس لیے، مسلمانوں کے لیے لاؤڈ اسپیکر کسی بھی صورت میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ اگر لاؤڈ اسپیکر مساجد پر نصب رہتے ہیں، تب بھی ٹھیک ہے اور اتار لیے جاتے ہیں، تب بھی ٹھیک۔ آخر، سنہ 1925ء میں اپنی ایجاد (invention) کے بعد سنہ 1930ء کی دھائی کے دوران مساجد میں استعمال ہونے سے قبل اذان ہمیشہ لاؤڈ اسپیکر کے بغیر ہی ہوا کرتی تھی۔ اذان کے لیے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال صرف ایک سائنسی سہولت ہے۔ ملک کے بہت سے دوسرے مقامات کی طرح اذان کی آواز کو بلند کرنے کےلیے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال مساجد میں بھی ہو رہا ہے۔ صوتی آلودگی (noise pollution) کے حوالے سے اور سماجی انتشار کے پس منظر میں، لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر نظر ثانی کرنا کوئی معیوب بات نہیں اور نہ ہی یہ کوئی مسئلہ ہے۔ کسی چیز کے نا مناسب پائے جانے پر اس کو ترک کر دینا ہمیشہ باعث خیر ہوتا۔ اس لیے، ایسی چیزوں کو کبھی عزتِ نفس (prestige issue) کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔
الله رب العالمین کی بڑائی بیان کرنے والے مبارک الفاظ ’اللهُ اکبر‘(الله بہت بڑا ہے/ الله سب سے بڑا ہے) کے ساتھ اذان شروع ہوتی ہے۔ الله تعالیٰ کی بڑائی بیان کرتے ہوئے، اس کے سوا کسی کے معبود نہ ہونے اور حضرت محمد صلی الله عليه وسلم کے رسول ہونے کی گواہی کے ساتھ اذان آگے بڑھ کر لوگوں کو نماز کی دعوت دیتی ہے، اور اسی کے ساتھ، یہ اعلان بھی کرتی ہے کہ نماز کی طرف آنا گویا فلاح کی طرف آنا ہے۔ آسان زبان میں فلاح کا مطلب ہوتا ہے بامعنی’کام یابی‘. عقل مند کو اشارہ کافی؛ جب کائنات کی ہر شے کا پیدا کرنے والا الله رب العالمین کائنات کی وسعتوں میں اکلوتا معبود ہے، کسی بھی معاملہ میں کوئی اس کا شریک نہیں اور خود اُس کے سوا کوئی بھی کسی بھی درجہ میں عبادت کے لائق نہیں, تب الله رب العزت کی عبادت یعنی نماز میں فلاح نہ ہوگی تو پھر کہاں ہوگی؟
الله اکبر وہ زبردست کلمہ ہے جو کائنات کو مسخر کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ صبح صادق کے ساتھ ہی فجر کی اذان گویا سوئی ہوئی کائنات کو جگانے کا باعث ہوتی ہے۔ چالیس سال پہلے تک اس طاقت کا مشاہدہ ہر خاص و عام کے لیے ایک معمول کی بات ہوتی تھی۔ بچپن، لڑکپن، یہاں تک کہ جوانی کے دنوں میں بھی میں نے خود یہ نظارہ دیکھا ہے کہ مغرب کی اذان کے ساتھ ہی بڑی تعداد میں محلہ کی عورتیں اپنے چھوٹے بچوں کو گود میں اٹھا کر مسجد کے دروازے پر جمع ہو جاتیں اور نماز ختم ہونے کے بعد نمازیوں کے باہر نکلنے کا انتظار کیا کرتی تھیں، تاکہ وہ اپنے بچوں پر ’پھونک‘ ڈلوا سکیں۔
چالیس سال سے یہ سلسلہ بند ہے، اور ’چالیس سال‘ کا عرصہ اتنا اہم ہوتا ہے کہ زندگی انفرادی ہو یا اجتماعی، جس طرز پر روک لی جائے اسی پر پختہ (mature) ہوجاتی ہے اور پھر اس میں ادنا درجہ کی ترمیم کی کوشش بھی مشکل ترین صورت حال پیدا کر دیتی ہے۔
مسلمانوں کے چالیس سال پہلے کے اخلاق و کردار اور ان کے رویوں (attitude) کی موجودہ صورت حال کے درمیان علمی موازنہ کے ذریعے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ رواداری اور بھائی چارے کے لیے معروف، ”سارے جہاں سے اچھا“ ہمارے ملک میں آخر کیوں کر اذان جیسا پاکیزہ کلام بھی متنازع (controversial) ہوسکتا ہے؟ کسی کی جانب انگلی اٹھانے سے قبل اپنے گریبان میں جھانکنا مناسب رہے گا۔ اسی کے ساتھ، مسلمانوں کو اس حقیقت پر بھی سنجیدہ غور و فکر کی ضرورت ہے کہ ”بے سبب ہوتی نہیں رسوائیاں“.
جس زمانے میں عورتیں اپنے بچوں کے ساتھ مسجد کے باہر جمع ہوتی تھیں، ان دنوں معاشرے میں، خاص طور پر غیر مسلم افراد میں کچھ اس طرح کا تاثر پایا جاتا تھا کہ’میاں جی` تو گویا کسی پاک روح کا نام ہے اور وہ صرف اپنے رحمٰن و رحیم واحد پروردگار کی پرستش کرتے ہیں۔ اسی لیے، ان کی پھونک بھی اپنے اندر فرحت افزا اور صحت بخش تاثیر رکھتی ہے۔ غور طلب امر یہ ہے کہ گزرے ہوئے چالیس سال کے درمیان مسلمانوں کو کبھی کیوں پیچھے مڑ کر یہ دیکھنے کا خیال نہیں آیا کہ ان کے اخلاق و کردار میں کوئی کم زوری یا کمی تو واقع نہیں ہو رہی ہے؟ کیا مسلمانوں کا ماضی والے’میاں جی‘ کا مکرم و محترم مقام ابھی باقی ہے؟
طویل عرصہ سے ہمارے اخلاق و کردار میں لگا ہوا گھن (weevil) ہماری انسانی اقدار اور ایمانی پاکیزگی کو تسلسل کے ساتھ مجروح کر رہا ہے اور ہم بے جان اناج (grain) کی طرح خاموش پڑے ہیں۔ علاوہ ازیں، اپنی شخصیت میں بڑے پیمانے پر گراوٹ کے باوجود مسلمان اپنے اخلاقی اور ایمانی نقصان کی بابت بے نیاز نظر آتے ہیں۔ جہاں تک علمی اور فکری طور پر بیدار ہونے کا تعلق ہے، وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ چند انفرادی مثالوں کو چھوڑ کر، وہ آج بھی اسی غیر علمی بے نیازی کا شکار ہیں۔ اگر مسلمانوں کی بے نیازی صرف مسلمانوں کا ہی نقصان کرتی تو اتنی بری بات نہ ہوتی جتنی بری بات یہ ہے کہ اس نے آگے بڑھ کر اسلام کی صداقت پر ہی، نعوذ باللہ، حرف لگا دیا ہے۔ افسوس، ایسا محسوس ہوتا ہے گویا برصغیر ہند و پاک (Indo-Pak Sub Continent) کے مسلمانوں کو آج بھی اپنی حالت زار کا ادراک نہیں ہے۔ فطرت (natural laws) کے زور پر حاصل تھوڑی سی خوش حالی کو وہ اپنی بڑی ترقی گردانتے ہیں، جب کہ دنیاوی ترقی کا مطلب وہ ہوتا ہے جو امریکا، یورپ اور ہندستان کی کئی دوسری قومیں پیش کررہی ہیں۔
ترقی کے ضمن میں، امتحانی استثنیات کو چھوڑ کر الله تعالیٰ نے انسانی دنیا میں 50:50 کا اصول رائج کیا ہے۔ الله تعالیٰ کی کتابِ ہدایت (قرآن) کا سنجیدہ مطالعہ کرنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ انسان اپنا حصہ ڈالے بغیر، موجودہ امتحانی دنیا میں متوقع معاشرتی، اقتصادی اور اخلاقی ترقی حاصل نہیں کر سکتا۔ ہمارے مسلم معاشرے میں ابھی بھی بیشتر افراد کسی بھی میدان میں، اپنے حصہ کا پچاس فی صد پیش کرنے کے معاملے میں پھسڈی (failure) ثابت ہو رہے ہیں، اور جو لوگ اس حالت میں ہیں کہ اپنا حصہ ادا کرسکیں، ان میں بھی بڑی تعداد اُس برائی کا ارتکاب کرتی ہوئی نظر آتی ہے جس سے الله تعالیٰ نے پہلے ہی آگاہ کر دیا ہے: ”فلا تغرنكم الحيٰوة الدنيا“ ( تو تم کو دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈال دے)-(فاطر-35: 5).
مسجد سے نماز کی دعوت کے اعلان کے علاوہ بھی الله کے مومن بندوں کی زندگی میں اذان کی بہت اہمیت ہے۔ ایک مسلمان گھر میں، جب کسی بچہ کی ولادت ہوتی ہے، تب اس کے دائیں کان میں اذان کہی جاتی ہے اور بائیں کان میں اقامت، گویا بچہ کو اول دن ہی الله کی عظمت اور اسلام کے فلسفہ توحید سے متعارف کرا دیا جاتا ہے۔ بچہ خواہ لڑکی ہو یا لڑکا، دونوں معاملوں میں اذان اور اقامت کا طریقہ ایک جیسا ہی رہتا ہے۔ عام طور پر، بچہ کے کانوں میں اذان دینے کا کام گھر کے کسی بزرگ یا مسجد کے امام صاحب سے کرایا جاتا ہے۔ بچہ کے کانوں میں اذان و اقامت کی مبارک رسم اس کی ولادت کی خوشی کو دوبالا کر دیتی ہے اور گھر میں جشن کا ماحول ہوجاتا ہے۔ الله تعالیٰ کا شکر اور خوشی کے اظہار کے طور پر شیرینی بھی تقسیم کی جاتی ہے۔ اذان کے ساتھ گویا بچہ کی زندگی میں مختلف تقریبات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اذان کے بعد ختنہ، عقیقہ اور بسم الله وغیرہ کم سنی کے زمانے کی کچھ مخصوص تقریبات ہیں۔ جہاں ایک مسلمان کا دنیا میں ولادت کے وقت اذان سے سواگت (خیر مقدم) کیا جاتا ہے تو وہیں اس کو وفات کے وقت دنیا سے نماز جنازہ کے ساتھ رخصت کیا جاتا ہے۔ گویا اذان اور نماز کے درمیان کا وقفہ ہی انسان کی زندگی کی عمر ہے۔ حقیقت میں، یہ مقام غور و فکر کا مقام ہے، اور نصیحت حاصل کرنے والوں کے لیے اپنی زندگی کو سنوارنے اور اس کو آخرت رخی بنانے کا ایک اہم پیغام بھی۔
خبردار کرنا، اطلاع دینا اور اعلان کرنا وغیرہ اذان کے لغوی معنی ہیں۔ کچھ لوگ اذان کو آذان بھی کہتے ہیں۔ اصطلاحِ شریعت میں اللهُ اکبر سے شروع ہو کر لا الہ الا للہ پر ختم ہونے والے سبھی کلمات کو مجموعی طور پر اذان کہا جاتا ہے، جس کے توسط سے لوگوں کو نماز کا وقت ہوجانے کی اطلاع دی جاتی ہے۔ دو مرتبہ”قَدْ قَامَتْ الصَّلاةُ”( يقينا نماز كھڑى ہو گئى) کے الفاظ کے اضافہ کے ساتھ جماعت کھڑی ہونے کی اطلاع دینے والی اذان کو’اقامت` کہتے ہیں۔ مکمل اذان اس طرح سے ہے:
1. ﷲُ اَکْبَر (الله سب سے بڑا ہے) دو دو کرکے چار مرتبہ
2. اَشْهَدُ اَنْ لاَّ اِلٰهَ اِلاَّ ﷲ ( میں گواہی دیتا ہوں کہ الله کے سوا کوئی معبود نہیں) دو مرتبہ
3. اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُﷲ (میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد الله کے رسول ہیں) دو مرتبہ
4. حَیَّ عَلَی الصَّلٰوة (آؤ نماز کی طرف) دو مرتبہ
5. حَیَّ عَلَی الْفَلَاح (آؤ کام یابی کی طرف) دو مرتبہ
6. ﷲُ اَکْبَرُ ( الله سب سے بڑا ہے) دو مرتبہ
7. لَا اِلٰهَ الاَّ ﷲُ (الله کے سوا کوئی معبود نہیں) ایک مرتبہ۔
موذن(اذان دینے والا) قبلہ رو کھڑے ہو کر اور اپنی دونوں شہادت کی انگلیوں کو کانوں میں ڈال کر اذان کہتا ہے۔ کانوں میں انگلیاں دینے کی حکمت رسول الله صلى الله عليه وسلم نے یہ ارشاد فرمائی ہے کہ اس طرح آواز بلند ہو جاتی ہے۔ حَيَّ عَلَي الصَّلوٰةِ کہتے وقت موذن اپنا منھ دائیں طرف پھیرتا ہے اور حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ کہتے وقت وہ اپنا منھ بائیں طرف پھیرتا ہے۔ فجر کی اذان میں کچھ زاید الفاظ(دو مرتبہ) بولے جاتے ہیں جو اس طرح ہیں: "ٱلصَّلَاةُ خَيْرٌ مِنَ ٱلنَّوْمِ" ( نماز نیند سے بہتر ہے)۔ اسی طرح، زیادہ بارش، آندھی یا طوفان وغیرہ کی وجہ سے پیدا شدہ حالات میں جب مسجد آنا دشوار ہو جاتا ہے، تب ‘آؤ نماز کی طرف` کی جگہ کہہ دیا جاتا ہے کہ ‘نماز گھر میں ہی ادا کرلو` (الصلاة فی رحالکم)۔(سنن ابو داود: 1062)
سنہ 2020ء اور سنہ 2021ء میں پھیلی وبا (کورونا) کے دوران بھی گھروں میں نماز ادا کرنے کے اصول کو بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا تھا۔ مساجد کے چند پڑوسیوں کو چھوڑ کر جملہ افراد اپنے اپنے گھروں میں ہی نماز ادا کر رہے تھے۔ حالاں کہ شریعت میں باقاعدہ کوئی حکم نہیں ہے، مگر ناگہانی آفات اور شدید مصائب و پریشانی کے مواقع پر اذان دینے کی بعض فقہا نے اس تاکید کے ساتھ اجازت دی ہےکہ اس کو کوئی شرعی حکم نہ سمجھا جائے۔
خوش الحانی اذان لوگوں پر سحر انگیز اثر مرتب کرتی ہے۔ گھر اور باہر جہاں جہاں اذان کی آواز پہنچتی ہے، وہاں وہاں تازگی اور خوش گواری کا احساس پیدا ہو جاتا ہے۔ چوں کہ اذان کو توجہ کے ساتھ سننے اور اس کے الفاظ کو دوہرا نے کا بھی حکم ہے، اس لیے سننے والے اذان کو انہماک کے ساتھ سنتے ہوئے جب اس کے پاکیزہ الفاظ کا خود ورد کرنے لگتے ہیں تو گویا وہ چند منٹ کے لیے الله کی بڑائی (اللهُ اکبر) میں کھو جاتے ہیں۔ اذان کے بعد دعا مانگنے کا طریقہ بھی مشروع ہے۔ اس دعا میں الله تعالیٰ سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ اپنے آخری رسول حضرت محمد صلی الله عليه وسلم کو ‘مقام محمود` سے سرفراز فرمائے۔ دعا اسلام کی ایک ایسی جامع اور بے مثال تعلیم ہے جس کے توسط سے الله کے بندے ہمہ وقت اس کی قربت حاصل کر سکتے ہیں۔
اذان کی آواز کے ساتھ ساتھ، اس کے الفاظ دوہرانے اور اذان کے بعد دعا پڑھنے میں صرف کیا گیا مختصر سا وقفہ فضا کو گویا بہشتی نسیم و شمیم سے معمور و معطر کردیتا ہے۔ اذان سننے سے لےکر دعا کرنے تک کا عمل سنجیدہ مسلمانوں کو مثبت کیفیات سے بھر دیتا ہے۔ یہ وقت کو منظم رکھنے (time management) میں بھی بہت کارگر ہے۔ آدمی جلدی جلدی اپنے ہاتھ کا کام سمیت کر نماز کی تیاری کرنے لگتا ہے۔
اذان سے وابستہ اپنے بچپن کا ایک حسین واقعہ یاد کرتے ہوئے، میں الله تعالیٰ سے اپنے والدین کو قصرِ جنت الفردوس میں آباد کرنے کی دعا کرتا ہوں۔ الحمدللہ، میں بہت خوش نصیب ہوں کہ میرے والد صاحب نے بچپن اور لڑکپن میں بڑی دردمند نظروں سے میری نگہبانی کی۔ میرے اندر پاکیزہ ایمانی کیفیات اور علمی ذوق و شوق بڑھانے کے لیے وہ ہر ممکن کوشش کیا کرتے تھے۔ تاریخ میں جھانکنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ میں ابھی آٹھ سال کا بھی نہیں ہوا تھا، جب ایک دن انھوں نے مجھے محلہ کی مسجد میں اذان کہنے کے لیے حوصلہ دیا اور اپنے قول کو فعل میں مبدل ہوتے ہوئے دیکھنے کی پاکیزہ نیت سے ‘دو روپے` کے انعام کا اعلان بھی کردیا۔ سنہ 1966ء کے آس پاس کے زمانے میں دو روپے بچوں کے لیے کافی بڑی رقم ہوتی تھی۔ الله کا شکر ہے کہ دونوں کانوں میں انگلیاں ڈال کر، پوری طاقت کے ساتھ میں نے بلند آواز میں اذان دینے میں کام یابی حاصل کر لی۔ غالباً، یہ مغرب کی اذان تھی۔ اس مبارک واقع کے وقوع پذیر ہونے پر والد صاحب بہت زیادہ خوش ہوئے، اور مجھے انعام سے سرفراز کیا گیا۔ یقیناً، یہ واقعہ میری زندگی کی کتاب کے بہت سے سنہری ابواب میں سے ایک اہم باب ہے۔
اذان کے حوالے سے ایک ادبی بات یاد آتی ہے، جس کا ذکر مناسب رہے گا۔ شاہ عمران حسن سوانح نگاری کی اردو دنیا میں ایک معروف نام ہے۔ وہ ایک اچھے افسانہ نویس بھی ہیں۔ ان کے افسانوں کے مجموعہ کا نام ہے: ‘ادھورے خواب`۔ اسی کتاب میں شامل ایک افسانہ کا نام ہے: اذان۔ یہاں، عمران صاحب نے ان حالات کی بخوبی عکاسی کی ہے جہاں والدین دنیاوی ترقی کی چمک دمک کے زیر اثر اپنی اولاد کو اس کے بچپن اور لڑکپن میں اذان کی اہمیت یعنی نماز و روزہ وغیرہ سے محروم کردیتے ہیں، اور بچوں کے انجینیر/ڈاکٹر ہوجانے کے باوجود مذکورہ قسم کے والدین کا بڑھاپا اطمینان حاصل کرنے کے بجائے پچھتاوے کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔
رمضان المبارک کا مہینہ اذان کی اہمیت کو اعلا معیار پر واضح کرتا ہے۔ اذان کی قدر و قیمت ایک لطیف زاویہ نظر سے بھی پرکھی جا سکتی ہے۔ عملی پس منظر میں، اذان کی اہمیت کوئی افطار کے وقت کسی روزہ دار سے دریافت کرے۔ روزے سے نڈھال ایک شخص نے دوپہر کے وقت ریڈیو کے فرمائشی پروگرام میں فون کیا۔ جواب میں ان سے دریافت کیا گیا کہ کیا سننا پسند کریں گے۔ بےچینی کی کیفیت کے زیر اثر انھوں نے کہا: "جلدی سے مغرب کی اذان سنا دیں!"
سنہ 1 ہجری میں مدینہ طیبہ میں اذان کی شروعات ہوئی۔ جب نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد (مسجد نبوی) بنائی گئی تو لوگوں کو جماعت کا وقت قریب ہونے کی اطلاع دینے کے لیے کوئی خاص طریقہ اختیار کیے جانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ رسول الله صلى الله عليه وسلم کی اپنے صحابہ رضی الله عنہم اجمعین کے ساتھ مشاورت میں کچھ تجاویز پر غور کیا گیا مگر ان میں سے کوئی بھی قابل قبول نہیں ہوئی۔ اس مسئلہ کے ضمن میں آپ صلی الله عليه وسلم اور صحابہ کرام فکر مند تھے کہ اسی رات ایک انصاری صحابی حضرت عبدالله بن زید نے خواب میں دیکھا کہ کسی نے انھیں اذان اور اقامت کے کلمات سکھائے ہیں۔ صبح کو انھوں نے اپنا خواب رسول الله صلى الله عليه وسلم سے بیان کیا تو آپ نے اسے پسند فرمایا اور اس کو الله تعالیٰ کی جانب سے سچا خواب قرار دیا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ بعض دوسرے صحابہ نے بھی اسی قسم کے خواب دیکھنے کی بات بیان کی، یہاں تک کہ خود رسول الله صلى الله عليه وسلم کو بھی الله تعالیٰ نے اذان کی تعلیم وحی فرمائی۔
بلند آواز ہونے کی وجہ سے اذان دینے کے لیے، حضرت بلال رضی الله عنہ کا انتخاب کیا گیا، ان کو اذان کے کلمات سکھا دیے گئے اور پھر انھوں نے اذان دینی شروع کر دی۔ اس طرح حضرت بلال( ابن رباح) نے اسلام کے پہلے موذن ہونے کا شرف حاصل کیا۔ اذان کا موجودہ سلسلہ اسی وقت سے قائم و دائم ہے۔ سنہ 8 ہجری ( 20 رمضان المبارک) مطابق سنہ 630 عیسوی ( 10 جنوری) کو مکہ فتح ہوا۔ نماز کا وقت ہونے پر رسول الله صلى الله عليه وسلم نے حضرت بلال رضی الله عنہ کو حکم دیا کہ وہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دیں۔ ایک حبشی غلام کی حیثیت سے معروف حضرت بلال سے کعبہ کی چھت پر اذان دلوانا گویا رسول الله صلى الله عليه وسلم کا ہمیشہ کے لیے غلامی کا خاتمہ اور انسانی مساوات کا عملی اعلان و اظہار تھا۔
ایسا محسوس ہوتا ہے گویا حالیہ کچھ برسوں سے معاشرے میں مسلمان اپنے عزت و احترام کے مقام سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ مختلف قسم کے غیر ضروری مسائل سے دوچار نظر آتے ہیں، یہاں تک کہ ان کا مذہب، ان کی ثقافت (culture) اور متعلق رسم و رواج موضوع بحث بنتے جارہے ہیں۔ چوں کہ زیر بحث شخص کے متعلق لوگوں کی معلومات میں اضافہ ہونے کی وجہ سے بہت سی غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں، اس لیے پیدا شدہ حالات کے بارے میں ہر قسم کے احتجاج و شکایات سے اعراض کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے اور معاملات کو دو جہتی نظر سے دیکھنا چاہیے: ایک اپنے ایمان و اخلاق کی سطح میں گراوٹ کا ادراک اور دوسرے الله تعالیٰ کی امتحانی مصلحت۔ چوں کہ دنیا آخرت کی کام یابی کی امتحان گاہ ہے، اس لیے یہاں پیش آنے والے جملہ مسائل کو امتحان کے متفرق سوالات کے طور پر ہی دیکھنا چاہیے اور انھیں جامعیت کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ خوشی اور اطمینان کی بات یہ ہے کہ الله تعالیٰ نے ہر مشکل کے ساتھ آسانی رکھ دی ہے (الشرح-94: 5 اور 6)۔ بس، ہمیں مشکلوں کے سامنے موجود آسانیوں کا پتا لگانا ہے، اور یہ کام تب ہی ممکن ہے جب ہم اپنے ہوش و حواس درست رکھیں اور علم و عقل سے کام لیں۔
فی الحال لاؤڈ اسپیکر سے وابستہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کی نظر میں خود اذان ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ بات عدالت تک جا پہنچی ہے۔ 6 مئی 2022ء کو الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اذان تو اسلام کا لازمی (integral) حصہ ہے، لیکن لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے اذان دینا ضروری نہیں۔ اس ضمن میں عدالت سے یہ درخواست کی جاسکتی ہے کہ طے شدہ صوتی حدود (noise limits) کی پابندی کے ساتھ، ایک معاون آلہ (supporting instrument) کے طور پر لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کی اجازت دے دی جائے۔ اجازت ملنے کی صورت میں مرحبا، ورنہ اذان خوشی خوشی لاؤڈ اسپیکر کے بغیر بھی دی جا سکتی ہے۔
اسلامی تعلیمات کے زیر اثر ایک سنجیدہ مسلمان ہمیشہ زحمت میں رحمت دریافت کرتا رہتا ہے۔ اس لیے، ان شاء الله، مساجد سے لاؤڈ اسپیکر ہٹائے جانے کا معاملہ بھی ‘زحمت میں رحمت` (blessing in disguise) ثابت ہوگا۔ ابھی جو موذن مسجد کے اندر مائک کے سامنے کھڑے ہوکر اذان دیتے ہیں، لاؤڈ اسپیکر کی غیر موجودگی میں ان کو اپنا کھویا ہوا بلند مقام واپس حاصل ہو جائے گا، اور وہ مسجد کی بلند چھت پر چڑھ کر اذان کا فریضہ ادا کرنے لگیں گے، اور مسلم محلوں میں اذان کی لہروں سے پیدا فطری ماحول گویا واپس لوٹ آئے گا۔ معاشرے میں بلند آواز والے نئے نئے”حضرت بلال" دریافت ہونے شروع ہو جائیں گے۔
اس ساری بحث کا حاصل یہ ہے کہ حالات جو بھی ہوں، "الله کے بندے اپنے پروردگار کی رحمت سے مایوس نہ ہوں" (الزمر-39: 53)۔ موجودہ دور کی چیلینج (challenge) بھری زندگی کو خوش اسلوبی کے ساتھ جینے اور ‘داعی` کی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھانے کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ مسلمان الله تعالیٰ کے آخری رسول، رحمت اللعالمین حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله عليه وسلم کے’اسوہ` کو نیت کی پاکیزگی کے ساتھ اختیار کرنے کی سنجیدہ کوشش کریں۔
(13.05.2022AD≈11.10.1443 AH)
گذشتہ آئینہ خانہ یہاں پڑھیں:ماہِ شوال اور اس کے بعد زندگی کا لائحہ عمل

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے