دلشاد دل سکندر پوری
عشق کا روگ پال کر رکھوں
خود کو کتنا سنبھال کر رکھوں
آئینہ ہے، ضرور ٹوٹے گا
لاکھ دل کو سنبھال کر رکھوں
میری فطرت نہیں بدل سکتی
لاکھ سانچوں میں ڈھال کر رکھوں
تجھ کو احساس غم نہیں ہوتا
کیا میں سر کو اچھال کر رکھوں
میری چاہت کا کب یقیں ہو گا
سامنے دل نکال کر رکھوں؟
میری نظروں سے دور جا اے دل
خون کب تک ابال کر رکھوں
***
صاحب غزل کی گذشتہ غزل :زہر ہوں اور شہد گھول رہا ہے مجھ میں
شیئر کیجیے
بہت خوب ووووااااہ