حسن راہی  :  شعر و سخن کی راہوں کا نیا مسافر

حسن راہی : شعر و سخن کی راہوں کا نیا مسافر

احسان قاسمی


Hasan Rahi
Poet
D O B – 01 January 1995
Village – Kamati
PO – Jhala . District – Kishanganj
Foreman , KUWAIT

آٹھویں جماعت پاس، پیشے سے کویت کی ایک کنسٹرکشن کمپنی میں بطور فورمین ملازم، کشن گنج ضلع کے ایک گمنام گاؤں کا نوجوان حسن راہی کیسی عمدہ شاعری کرتا ہے۔ شوق ہے، جنون ہے، دینے والے کی مہر ہے۔ مالکِ حقیقی… وہ کب کسے کس خصوصیت سے نواز دے، کوئی نہیں جانتا۔

حسن کی غزلوں میں کلاسیکی شاعری کا حُسن ہے، فنی رچاؤ ہے، جاذبیت ہے، غنّایت ہے، فصاحت ہے. اندازِ بیان گرچہ سیدھا سادہ ہے لیکن اس میں ایک کشش ہے جو قاری کو متوجہ کرتی ہے۔
میں جناب جہانگیر نایاب کا تہہ دل سے ممنون ہوں جنھوں نے حسن راہی سے میری واقفیت کروائی اور ان کا ٹائپ شدہ تعارفی خاکہ مع تخلیقات ارسال فرمایا۔
حسن راہی کا تعارفی خاکہ:
اصل نام: ابوالحسن راہی
قلمی نام: حسن راہی
والد کا نام: محمد ابوالخیر
والدہ کا نام: عظمیٰ خاتون
تاریخ پیدائش: یکم جنوری 1995
جائے پیدائش: کماتی، ٹیڑھا گاچھ، ضلع کشن گنج
تلمیذ : نوشاد ثمر بگراسوی اور جہانگیر نایاب
آبائی وطن: کماتی پوسٹ جھالا تھانہ ٹیڑھا گاچھ ضلع کشن گنج، بہار
تعلیم: آٹھویں جماعت
پیشہ: کنشٹرکشن کمپنی میں فورمین
سکونت: کویت
فون نمبر : 96596754920+
نمونۂ کلام :
راتوں کو تڑ پنے کا مزہ اور ہی کچھ ہے
اس جامِ محبّت کا نشہ اور ہی کچھ ہے

دنیا کے طبیبوں سے تو راحت نہیں ملتی
شاید مرے زخموں کی دوا اور ہی کچھ ہے

دیکھے ہیں زمانے میں حسیں اور بھی لیکن
"تیرے رخِ زیبا کی ضیا اور ہی کچھ ہے"

کہتے ہو تمھیں ہم سے بہت عشق ہے جاناں
لوگوں سے مگر ہم نے سنا اور ہی کچھ ہے

اک بار مرے مولا دکھا دیجیے مجھ کو
کہتے ہیں مدینہ کی ہوا اور ہی کچھ ہے

ہم ڈھونڈتے پھرتے تھے سکوں مال و متاع میں
دولت سے حسن ہم کو مِلا اور ہی کچھ ہے
*
مرا مشکل سے دن گزرے بھلے ہی رات لمبی ہو
فراقِ یار کی یا رب گھڑی بس مختصر سی ہو

دلِ مضطر کو بھی میرے ذرا تسکین مل جائے
کوئی تو کام ایسا ہو کوئی تو بات ایسی ہو

چلو آؤ کہیں کھو جائیں الفت کے جزیرے میں
جہاں سےلَوٹنے کی بھی کوئی صورت نہ باقی ہو

کوئی تو ٹوٹکا یارو مرا بھی کام کر جائے
ادھر بے چین میں ہوں تو، ادھر بیتاب وہ بھی ہو

سیاست سے، نہ تحفے کی نہ تمغے کی تمنا ہے
مِری کوشش ہے نفرت کی فقط یہ آگ ٹھنڈی ہو

مری ماں نے کہا گھر سے میں جب پردیس کو نکلا
دعا ہے یہ مرے راہی تیری تقدیر اچھی ہو
*
دِلوں میں عشق سچّا ڈھونڈتا ہے
تُو کیوں صحرا میں سبزہ ڈھونڈتا ہے

ارے ناداں سیاسی لوگ ہیں یہ
کہاں ان میں مسیحا ڈھونڈتا ہے

غریبوں کو غریبی ڈھونڈتی ہے
امیری کو ہی پیسہ ڈھونڈتا ہے

زمیں کو کر کے اب برباد انساں
فلک پر جانے کیا کیا ڈھونڈتا ہے

مسلماں کو کریں بدنام کیسے
عدو ہردم بہانہ ڈھونڈتا ہے

حسن پردیس سے اُکتا کے دل اب
وطن میں آب و دانا ڈھونڈتا ہے
*
چین کھویا دن کا ہم نے نیند راتوں کی گئی
پھر بھی دل اتنا بتا کیا مفلسی تیری گئی

جو بھی مشفق لوگ تھے سب چھوڑ کر ہم کو گئے
باپ کا سایہ اُٹھا اور ماں کی ممتا بھی گئی

جانے تھی کس کی طلب کیا ڈھونڈنے نکلا تھا میں
اب پلٹ کر دیکھتا ہوں ہر خوشی میری گئی

مال و دولت عشق و الفت سب ملا ہم کو مگر
خواہشوں کی یہ مسافت دن بہ دن بڑھتی گئی

جب کبھی امداد کی تو فیس بک میں ڈال دی
اس طرح سے بعدِ یک ہر دوسری نیکی گئی

سوچ آگے کی حسن اب توبہ کر رب کو منا
کس قدر غفلت میں تیری زندگی پچھلی گئی
*
نفرتوں کے جو بن کر پاسبان رہتے ہیں
یار ایسے لوگوں کے کب نشان رہتے ہیں

سر قلم بھی کردے تو کوئی کچھ نہیں کہتا
کیا تیرے شہر میں سب بے زبان رہتے ہیں

دار پہ بھی جو چڑھ کر حق کی بات کرتے ہیں
لوگ ان سے ہی اکثر بد گمان رہتے ہیں

مال و زر کی دیواریں درمیان حائل ہیں
اب کہاں محبت سے خاندان رہتے ہیں

ڈھونڈتے ہو کیوں ہم کو بھیڑ میں زمانے کی
ہم تمھارے دل میں ہی میری جان رہتے ہیں

جانے کیوں ہمارے وہ خون کے ہوئے پیاسے
صدیوں سے حسن جن کےدرمیان رہتے ہیں
*
کوئی بھی پکڑ لیتا ہے، اب مان کہاں ہے
مفلس کا گر یبان، گر یبان کہاں ہے

دولت کی کتابوں میں یہ فرمان کہاں ہے
مفلس کرے احسان تو احسان کہاں ہے

پھولوں کومسل دیتے ہیں کچھ لوگ یہاں پر
اب گھر میں کسی شخص کے گلدان کہاں ہے

بس ملنا ملانا ہی ہے اب بیچ ہمارے
پہلی سی، محبت، وہ مِری جان کہاں ہے

لوٹا سکوں ہے تو نے حسیں خواب دکھا کر
اے صاحبِ مسند تِرا ایمان کہاں ہے

الجھا ہوا ہے مسلکی پھندے میں یہاں سب
دیوبندی بریلی ہے مسلمان کہاں ہے

مجھے لیلےٰ نظر آئی نہ کوئی ہیر دکھتی ہے
جہاں دیکھوں جدھر دیکھوں تری تصویر دکھتی ہے

تمھارا نام تو کب کا مٹا ڈالا ہے اس دل سے
مگر مجھ کو کتابوں میں وہی تحریر دکھتی ہے

مجھے لے کر تو اے ہمدم نہ کوئی خواب دیکھا کر
تجھے بس خواب دکھتے ہیں مجھے تعبیر دکھتی ہے

سنا ہے دشمنوں پہ اس قدر اب خوف ہے طاری
ہمارا پھول بھی صاحب انھیں شمشیر دکھتی ہے

جہاں والوں میں اور مجھ میں حسن ہے فرق بس اتنا
جسے وہ ہار کہتے ہیں، مجھے زنجیر دکھتی ہے
*
اک داغ مِرے دل پہ لگا کیوں نہیں جاتا
دے کر مجھے الفت کی سزا کیوں نہیں جاتا

اے یار اگر تیری نگا ہوں میں برا ہوں
پھر چھوڑ کے تُو مجھ کو چلا کیوں نہیں جاتا

محبوب ہے تُو میرا نہ ہم راز ہے لیکن
بن تیرے مگر مجھ سے رہا کیوں نہیں جاتا

مدّت ہوئیں ہیں مجھ کو کسی سے جدا ہوئے
لیکن وہ مرے دل سے خدا کیوں نہیں جاتا

کب تک ترے بن قسطوں میں ہم یوں ہی جئیں گے
اک بار حسن آ کے مٹا کیوں نہیں جاتا
***
احسان قاسمی کی یہ نگارش بھی پڑھیں:کتاب: عکس ثانی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے