جواں مرگ، رحجان ساز اور  لافانی شعرا: مصطفیٰ زیدی ، شکیب جلالی اور آنس معین

جواں مرگ، رحجان ساز اور لافانی شعرا: مصطفیٰ زیدی ، شکیب جلالی اور آنس معین

ڈاکٹر فوق کریمی علیگ
کریمی بلڈنگ ، بالمقابل علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ، ہند
(معرفت: ظفر معین بلے) 
جدید اردو شاعری میں مماثلت کی مثلث . مصطفیٰ زیدی ، شکیب جلالی اور آنس معین یہ تینوں نام جدید اردو شاعری کا معتبر حوالہ ہیں. تینوں نے اپنی تخلیقات سے اردو ادب کو مالا مال کیا اور تینوں کی شاعری میں ناگہانی موت نمایاں نظرآتی ہے۔ تینوں نے ہی اپنے اپنے حالات اور طرزِ فکر کے باعث ازخود موت سے ہم آغوش ہونے کا ارادہ اور اقدام کیا اور تینوں کو ہی اپنے اپنے ارادوں اور کوششوں میں کامیابی حاصل ہوئی۔ تینوں کا تعلق خاندان سادات سے تھا اور تینوں شعرا کی شاعری کو وقت کے اہم ناقدین نے توجہ طلب قرار دیا ۔۔۔۔ تینوں شعرا عمر کے اعتبار سے جواں سال ضرور تھے مگر سید مصطفیٰ زیدی نے جب موت کو گلے لگایا تو وہ لگ بھگ 40 برس کے تھے جب کہ شکیب جلالی نے جب خود کشی کی ان کی عمر قریب بتیس 32 برس تھی اور جب آنس معین موت سے ہم آغوش ہوئے ان کی عمر چھبیس 26 سال تھی۔ گویا تینوں شعرا میں عمر کے اعتبار سے آنس معین بہت کم عمر تھے ۔
شکیب جلالی نے ساٹھ(60) کی دہائی(1966) میں خودکشی کی اس وقت آنس معین کی عمر صرف چھ برس کی ہوگی اور مصطفی زیدی کی مبینہ خودکشی کا معاملہ ستر(70) کی دہائی(1970) کا ہے اس وت آنس معین صرف دس برس کے تھے جب کہ آنس معین کا موت سے ہم آغوش ہونے کا عملی اقدام اسی(80)کی دہائی(1986)کا ہے۔ یہ تینوں دہائیاں اور یہ تینوں عہد تین مختلف آمروں کے ادوار ہیں۔ ساٹھ(60)کی دہائی میں فیلڈ مارشل ایوب خان کا عہد آمریت تھا اور ستر(70)کی دہائی میں جنرل یحیی خان کی آمریت پھن پھیلاۓ ہوۓ تھی اور اسی(80)کی دہائی میں جنرل ضیاء الحق کی آمریت کا طویل ترین عہد جاری تھا۔ مصطفی زیدی کی موت پستول سے چلنے والی گولی کے سبب ہوئی یا اس زہر سے کہ جو ان کے کافی کے کپ میں خود انھوں نے یا کسی اور نے ملایا تھا۔ لیکن شکیب جلالی اور آنس معین کا جائے وقوعہ ریلوے ٹریک تھا۔ یہاں یہ امر قابل وضاحت ہے کہ شکیب جلالی کی خود کشی کا سانحہ سرگودھا میں وقوع پذیر ہوا اور آنس معین کی خودکشی کا سانحہ ملتان میں لیکن شکیب جلالی نے جس ٹرین کے نیچے آکر خودکشی کی وہ بھی خیبرمیل تھی اور آنس معین بحالت سجدہ جس ٹرین کی زد میں آۓ وہ بھی خیبرمیل ہی تھی(ریلوے لائین پر آخری نماز ۔۔۔ تحریر:ڈاکٹرانورسدید)۔ یہ الگ بات کہ ان دونوں سانحات میں کم و بیش بیس برس کا وقفہ یا گیپ ہے۔ لیکن آج دنیائے شعر و ادب میں شکیب جلالی اور آنس معین اور مصطفی زیدی اپنی اپنی انفرادی حیثیت میں ممتاز ترین جواں مرگ، رحجان ساز شعرا تسلیم کیے جاچکے ہیں۔
سید مصطفی زیدی کی جواں مرگی ایک معمہ بنی رہی۔ شہناز گل کو اس خون میں زیرحراست بھی رکھا گیا لیکن پھر چھوڑ دیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس مقدمے میں شہناز گل کو باعزت بری کردیا گیا۔ یہ کیس از سر نو کھولا گیا دوسری مرتبہ بھی شہناز گل کو ثبوت اور شواہد کی عدم دستیابی کے باعث بےگناہ قرار دے دیا گیا۔ مصطفی زیدی ایک طرف دنیائے شعر و ادب میں شہرت و مقبولیت اور باعزت مقام و مرتبہ رکھتے تھے اور دوسری جانب اس وقت کے ایک معروف بیوروکریٹ بھی تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بدعنوانی کا وہ الزام جس کو بنیاد بنا کر مصطفی زیدی کو ان کی ملازمت سے برطرف کیا گیا تھا سراسر بے بنیاد اور من گھڑت تھا۔ اس وقت کے اخبارات میں مصطفی زیدی کے موت کو ایک اسکینڈل کے طور پر اچھالا گیا اور شہناز گل اور مصطفی زیدی کے معاملے کو عشق کی داستان یا لو اسٹوری کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ مصطفی زیدی شادی شدہ تھے اور صاحب اولاد تھے۔
اب ذرا مصطفی زیدی کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے جو ایک مدت تک زبان زدِ عام رہا۔
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
شکیب جلالی کی خوب صورت شعری تخلیقات نے بھی کئی برس تک قارئین ادب کے ذہنوں پر تسلط قائم کیے رکھا۔۔۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ ہو:
آکر گرا تھا ایک پرندہ لہو میں تر
تصویر اپنی چھوڑ گیا ہے چٹان پر
شکیب جلالی کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں، کیا ہی عمدہ شعر ہے:
عالم میں جس کی دھوم تھی اس شاہکار پر
دیمک نے جو لکھے کبھی وہ تبصرے بھی دیکھ
اس شعر کا ایک پس منظر بھی ہے اور وہ یہ کہ شکیب جلالی کی زیر ادارت ایک ادبی رسالہ شاٸع ہوا کرتا تھا۔ اس رسالے کا نام ”شاہکار“ تھا۔ واقعی شکیب جلالی نے بجا فرمایا کہ ادبی حلقوں میں اس رسالے کی دھوم تھی۔ لیکن ۔۔۔
کہا جاتا ہے کہ شاہکار کا بہت سا ریکارڈ دیمک کی نذر ہوگیا تھا اور اس کا بھی شکیب کو بہت دکھ اور صدمہ تھا۔
لیکن آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ شکیب جلالی نے دیمک زدہ بلکہ دیمک کا شکار ہونے والے شاہکار اور دیمک کے اس عمل کو تبصرے لکھنے کا رنگ دے کر ایک واقعے کو سانحے کی شکل میں کس قدر منفرد انداز میں پیش کیا ہے۔
احمد ندیم قاسمی کی زیر ادارت شائع ہونے والے معروف ادبی جریدے فنون کی مقبولیت اور شہرت بھی عروج پر تھی اور ڈاکٹر وزیرآغا کی زیر ادارت شاٸع ہونے والا اوراق بھی کم مقبول اور مشہور نہ تھا۔ حلقۂ فنون اور حلقۂ اوراق میں کسی قسم کی محاذ آرائی بھی کھلم کھلا سامنے نہیں آئی تھی البتہ اندر ہی اندر سازشی عناصر اپنی سازشوں میں ضرور مصروف تھے لیکن یہ تمام تر سازشیں پسِ پردہ جاری تھیں۔ اور شکیب جلالی کو دونوں حلقوں میں پزیرائی میسر رہی۔ اور ان کی المناک موت کے سانحے پر بھی دونوں حلقوں کی جانب سے شکیب جلالی کی موت کو اردو ادب کا ایک ناقابل تلافی نقصان قرار دیا گیا۔ دونوں دھڑوں کے بڑوں اور ہمنواؤں کے شکیب جلالی سے روابط و مراسم بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ شکیب جلالی کی موت کے بعد ان کے شعری مجموعے روشنی اے روشنی کی اشاعت کا سہرا بھی بے شک احمد ندیم قاسمی کے سر ہے ۔
آنس معین کہ جن کی وفات کو جدید غزل کی موت قراردیا گیا اب آنس معین کے ایک شعر پر توجہ فرمائیے:
نہ تھی زمین میں وسعت مری نظر جیسی
بدن تھکا بھی نہیں اور سفر تمام ہوا
اب تک ان تینوں جواں مرگ شعرا میں بظاہر جو قدر مشترک اور مماثلت نظر آئی، بیان کردی. ان تینوں شعرا میں صرف آنس معین کی انفرادیت کا اعتراف غیر معمولی اندازمیں کیا گیا اور ان کی انفرادیت کے بیان کے ساتھ ساتھ انھیں دیگر نامور شعرا کے مماثل قرار گیا. ڈاکٹر وزیر آغا نے لکھا کہ اگر آنس معین چند برس اور زندہ رہتا تو اس کا ادبی مرتبہ کیٹس سے کسی طور کم نہ ہوتا۔۔۔صدیق سالک کی نظر میں”آنس معین کیٹس سے کہیں بڑا شاعر ہے ۔۔۔ پروفیسر اسرار احمد سہاروی کا خیال ہے کہ آنس معین کی شخصیت اور تخلیق غیر معمولی ہے. آنس معین کا خیال کرتا ہوں تو انگریز شاعر کیٹس اور شیلے بہت یاد آتے ہیں “۔۔۔۔ پروفیسر عزیز عالم کی رائے میں”آنس معین نے کیٹس کی طرح زندگی کی 27 بہاریں دیکھیں مگر شاعری کا ایسا لازوال ورثہ چھوڑا ہے کہ جدید اردو شاعری کا ذکر آنس معین کے بغیر ادھورا رہے گا۔“ جب کہ پروفیسر فضیل جعفری نے اس خیال کا اظہار فرمایا ہے کہ بےشک آنس معین کیٹس سے تو کہیں بڑا شاعر ہے لیکن شیکسپئیر سے کسی طور کم بڑا شاعر نہیں ۔۔۔۔۔ طفیل ہوشیار پوری نے لکھا کہ ”میں آنس معین کو کیٹس کا ہم پلہ نہیں سمجھتا بلکہ کیٹس کو آنس معین کا ہم پلہ شاعر مانتا ہوں ۔“۔۔۔ ممتاز اسکالر اور معروف علمی اور ادبی شخصیت علامہ سید شبیر بخاری علیگ لکھتے ہیں کہ ”آنس معین عصری آگہی کی اس منزل کی طرف رواں دواں تھے جس میں لکھنے والے کا اپنا ادب اور اپنی روح موجود ہوتی ہے۔۔۔۔اس میں ماضی کا ورثہ ہوتا ہے اور آنے والے زمانوں کی سانس ہوتی ہے چنانچہ مرتضیٰ برلاس نے آنس کے چونکا دینے والے لہجے سے اسے پہچانا. ڈاکٹر وزیر آغا نے اس میں کیٹس کی روح پائی. فیض نے اسے چھوٹی عمر کا بزرگ دانشور جانا. ڈاکٹر سید عبداللہ نے کہا کہ آنس معین کا کلام سن کر تو دماغ بھی دل کی طرح دھڑکتا ہے. جب کہ کنور مہندر سنگھ سحر کے خیال میں آنس معین جیسے بلند قامت شاعرکم کم اور صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں اور جوش ملیح آبادی نے اسے ایک کمسن سقراط شناخت کیا۔۔۔۔!
آنس معین کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئے گیارہ برس ہونے کو آئے اور اس عرصے میں آنس معین کو دریافت کرنے اور ان کی تفہیم کا عمل مسلسل جاری رہنے کے باوجود یہی کہا گیا کہ آنس معین اپنے عہد کا مصطفیٰ زیدی، شکیب جلالی تھا یا یہ کہ درحقیقت مصطفیٰ زیدی اور شکیب جلالی اپنے اپنے عہد کے آنس معین تھے. گویا تنقیدی جائزے بھی مثلث بن کر رہ گئے۔ یعنی مصطفیٰ زیدی شکیب جلالی اور آنس معین۔ مگر ناقدین کی آرا سے جو نتیجہ اخذ کیا جاسکا وہ یہ کہ ایسی مثلث کہ جس کے دو اطراف تو مساوی سطح پر ہوتے ہیں مگر ایک بالائی سطح پر۔۔۔۔
اب دیکھتے ہیں کہ عصر حاضر کے ناقدین اور ادبا نے مصطفیٰ زیدی، شکیب جلالی اور آنس معین میں کن خطوط پر مماثلت تلاش کی یا ناقدانہ تجزیے کی بنا پر کس نے کیا نتیجہ اخذ کیا۔
معروف کالم نگار شاعر اور مدیر ”انکشاف“ لاہور بیدار سرمدی نے لکھا ہے کہ مصطفیٰ زیدی  شکیب جلالی اور آنس معین نے اپنے اپنے حالات کے تحت اپنے فیصلے کے تحت دنیا سے کوچ کیا۔ تینوں شاعری کے صاحبِ طرز نام تھے. تینوں کے تخلیقی فن کو سراہنے کے لیے اپنے وقت کے ممتاز ترین ناقدین نے حقیقت کا ساتھ دیا لیکن ان تینوں میں آنس معین کئی لحاظ سے مختلف اور منفرد تھے. وہ 27 برس کے نوجوان تھے. غیر شادی شدہ تھے. ایک بنک میں اعلی عہدے پر متمکن تھے اور ان کی فارن پوسٹنگ متوقع تھی. وہ اپنے والدین سے انتہائی محبت کرتے تھے اور شادی تک جیسے معاملات کو خؤشی سے والدین کی مرضی پر چھوڑ دیا تھا. زندگی میں بظاہر خود کشی کی کوئی وجہ نہ تھی۔ اربابِ شعر و دانش کی ایک قابل لحاظ تعداد ایک مدت سے آنس معین کی مداح ہے. بعض کہتے ہیں کہ وہ اپنے عہد کا مصطفیٰ زیدی تھا ور بعض کا خیال ہے آنس معین کو اپنے عہد کا شکیب جلالی سمجھا جائے. جب کہ بعض احباب کا کہنا ہے کہ دراصل شکیب جلالی اپنے زمانے کا آنس معین تھا. جب کہ فی الحقیقت آنس معین کے کرب کی علت، نوعیت اور کیفیت قطعی مختلف تھی. آنس معین نے چھوٹی سی عمر میں ذات اور کائنات کے اسرار و رموز کو سمجھ کر اتنے رنگوں میں بیان کیا کہ حیرت ہوتی ہے. اس بیان کو تصوف کی آمیزش نے اور زیادہ رنگین بنا دیا ہے. گویا مصطفیٰ زیدی اور شکیب جلالی کے ہاں تازگی افکار اور شدتِ کرب کی آمیزش کے باوجود فکری رہ نمائی کی جو تشنگی محسوس ہوتی تھی وہ آنس معین کے کلام کو پڑھ کر دور ہوتی ہے۔
پروفیسر انور جمال کا ناقدانہ تجزیہ یہ ہے کہ ماضی قریب کی شعری روایت میں مصطفیٰ زیدی اور شکیب جلالی ایسے نام ہیں جو آنس معین کی طرح ذات کی پاتال میں اتنے گہرے اترے کہ پھر نہ ابھرے لیکن یہ موازنہ شاعرانہ تجربے کی بنیاد پر کسی طور پر بھی آنس اور مذکورہ شعرا کے درمیان مشترک واسطہ نہیں بنتا۔ مصطفیٰ زیدی زندگی کو حسیاتی سطح پر ہی دیکھتے تھے یہاں ذات سے مراد  جنسی ذات ہے۔ یہ شدید حسیاتی تجربہ مصطفیٰ زیدی کو بیرونی مادی اور عقلی دنیا سے  الگ کر دیتا ہے. چنانچہ یہاں شاعرانہ ادراک اور شعری وژن (vision) بھی نہایت جذباتی اور حسیاتی نوعیت کا ہے۔ شکیب جلالی ذات اور بیرون ذات میں عدم توازن کا شاکی ہونے کے باعث ایک ایسے وسط میں معلق ہے جہاں متعلقات حیات کے مناظر دھندلے نظر آتے ہیں. چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ شکیب جلالی کے شعری اسباب میں کہیں ذات کے اندرون کی بے چارگی اور کہیں خارج کی بے بسی کے نوحے دکھائی دیتے ہیں. وہ پہاڑوں، دریاؤں، سمندروں، چٹانوں اور درختوں کو بھی اسی خیال سےمنسلک کر کے دیکھتے ہی. آنس معین کی ذات کا تجربہ ہر دو سےنہ صرف الگ ہے بلکہ انتہائی مختلف ہے۔ یہاں عرفانِ ذات کی ترکیب زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے. آنس معین کے شعری حوالوں سے اس کے شخصی رویے تک پہنچا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ ایک تو اسے بیرون ذات کوئی ایسا سورج نظر نہ آیا جو اس کے اندرونی نظامِ شمسی سے وسیع تر ہو چنانچہ وہ کہتا ہے۔
میری قامت سے ڈر نہ جائیں لوگ
میں ہوں سورج مجھے دیا لکھنا
دوسری اہم بات جو آنس معین کو مصطفیٰ زیدی اور شکیب جلالی سے نہ صرف الگ پہچان دیتی ہے بلکہ ایک لفظ سے اسے (elevate) بھی کرتی ہے اور وہ ہے متصوفانہ تجربہ. صوفیانہ فکر اور (self realization) (عرفانِ ذات) یہی دو عناصر ہیں کہ جن کی بنیاد پر بلند قامت آنس معین کی شخصی اور شعری عمارت قائم ہے. چنانچہ آنس معین کے جینس کا مصطفیٰ زیدی اور شکیب جلالی سے موازنہ کرنا ادبی، فکری اور تنقیدی غلطی ہوگی۔ مصطفیٰ زیدی، شکیب جلالی اور آنس معین میں قدرِ مشترک تلاش اور بیان کرنے والوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ ہر تجزیہ نگارکی رائے یہاں نقل کرنا کسی حد تک دشوار ہوگا لہذا ایسے ناقدین کی جنھوں نے ان تینوں شعرا کے کلام کا گہری نظر سے مطالعہ کیا اور تینوں شعرا کو الگ الگ دریافت کرنے اور ان کی تفہیم کے عمل سے گزرنے اور ان تینوں شعرا میں قدرِ مشترک تلاش کرنے کے علاوہ باقاعدہ ناقدانہ تجزیہ اور موازنہ کیا. گو کہ یہ کام جان جوکھوں میں ڈالنے کے مترادف ہے مگر اس کے باوجود بیشتر نقاد فن اس پل صراط سے گزرے۔ انہی میں سے چند کے ناقدانہ تجزیوں کے اقتباسات یہاں رقم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ممتاز نقاد اور شریک مدیر اوراق ڈاکٹر انور سدید نے لکھا کہ میر تقی میر سے لے کر آنس معین تک کو اس صنف (غزل) نے اظہار کی خستگی عطا کی ہے. مصطفیٰ زیدی نے صرف باہر کی دنیا پر اپنی نظریں مر کوز کر رکھی تھیں اور وہ اسے قاش قاش کرکے اپنے اوپر نچھاور کر رہا تھا. شکیب جلالی اور آنس معین نے آتش فشاں اپنے اندر جلا رکھا تھا. وہ دیکھ رہے تھے کہ یہ آتش فشاں انھیں لمحہ لمحہ بھسم کر رہا ہے اور ان کے گرد و پیش میں جو دنیا پھیلی ہوئی تھی وہ ان کے حوصلے، ظرف اور معیار کے مطابق نہیں تھی. چنانچہ ایک مبہم خوف دونوں کے جسم و جاں پر محیط تھا او دونوں نے ایک جیسے حالات میں اندر کے آتش فشاں میں چھلانگ لگا دی. لوگوں نے لکھا کہ دونوں نے خود کشی کر لی تھی. شکیب جلالی نے سرگودھا میں آنس معین نے کئی سال بعد ملتان میں. 5۔فروری کو جب ریل گاڑی آنس معین کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرتی ہوئی گزر گئی تو لمحے کی دیوار گر چکی تھی (بقول پروفیسر غلام جیلانی اصغر لمحہ آنس معین کو قید کیے ہوئے تھا) آنس معین کی روح کا پنچھی آزاد ہو چکا تھا لیکن جدید غزل کو موت نے جھپٹ لیا تھا. اس بار شکیب جلالی پہلے آسمان پر آنس معین کا استقبال کھلی بانہوں سے کر رہا تھا۔ شکیب جلالی کو ایقان تھا کہ وہ لوح جہاں پر حرفِ مکرر کی طرح پھر طلوع نہیں ہوگا۔ آنس معین نے اپنی ذات کو پھول کی صورت میں دیکھا اور اپنے سانحہ پر جو رخصت نامہ لکھا اس میں واضح طور پر بتا دیا کہ وہ اپنے تمام رنگ دنیا کو واپس دے کر خالی ہاتھ لمبے سفر پر جا رہا ہے. آنس معین کی وفات جدید غزل کی موت ہے۔
ہے میرے اندر بسی ہوئی ایک اور دنیا
مگر کبھی تم نے اتنا لمبا سفر کیا ہے
پروفیسر نسیم شاہد نے اس بحث سے مصطفیٰ زیدی کو خارج کرتے ہوئے صرف اور صرف آنس معین اور شکیب جلالی کا تقابلی جائزہ لیا. وہ لکھتے ہیں کہ”آنس معین نے اپنی زندگی کو ختم کر کے صحیح فیصلہ کیا ہے یا غلط؟ اس کا جواب دینا آسان نہیں. البتہ ایک بات بلا تردد کہی جا سکتی ہے کہ آنس معین کی موت نے اردو زبان کا ایک انتہائی خوب صورت شاعر ہم سے چھین لیا ہے. آنس معین کی عمر ابھی صرف 26 برس تھی لیکن اس نے شاعری کا جو ورثہ چھوڑا ہے وہ بڑے بڑے شاعروں کے عمر بھر میں تخلیق کیے ہوئے ضخیم دیوانوں پر بھاری ہے. آنس معین کے تجربے انوکھے اور چونکا دینے والے ہیں. پھر جس طرح اس نے اپنے متنوع تجربات کو لفظوں کا جامہ پہنایا وہ بھی اس کے ایک خلاق شاعر ہونے کی دلیل ہے۔ آنس معین کی شاعری میں میر کا تغزل، غالب کی گہرائی اور شکیب جلالی کی سفاکی موجود ہے. تاہم نقادوں نے اسے شکیب جلالی کا ہم رنگ قرار دیا ہے۔ ایسا شاید اس وجہ سے کیا گیا ہے کہ دونوں کے ہاں موت ایک بڑا حوالہ بن کر سامنے آتی ہے۔ لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ شکیب جلالی کے ہاں موت کی خواہش کسی فرد کو شکست دینے کے نقطۂ نظر سے کی جاتی ہے۔ جب کہ آنس معین کے ہاں موت نئی دنیاؤں کے سفر کا اولین نقش بن جاتی ہے۔ کسی شاعر کو کسی دوسرے شاعر سے بعینہ مماثل قرار نہیں دیا جا سکتا. کیونکہ دونوں کا انداز فکر و نظر بظاہر ایک ہونے کے باوجود ایک نہیں ہوتا. اس کے علاوہ جب کسی شاعر کو کسی اچھے شاعر سے تشبیہ دی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ نیا شاعر پرانے کی تقلید کر رہا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ نئے شاعر نے بھی پرانے شاعر کی طرح زندگی کا باریک بینی سے جائزہ لیا ہے. اس اشتراک کے باوجود یہ ضروری نہیں کہ دونوں نے زندگی سے نتائج بھی یکساں نوعیت ہی کے حاصل کیے ہوں. اس لیے شکیب جلالی اور آنس معین میں مشابہت ہونے کے باوجود دونوں کی انفرادیت بھی پوری طرح برقرار ہے۔ آنس معین نام و نمود اور واہ واہ کے نعروں سے دور رہنے والا شاعر تھا. اس لیے اس نے بہت کم غزلیں چھپوائیں اور اس سے بھی کم مشاعرے پڑھے. 
مصطفیٰ زیدی، شکیب جلالی اور آنس معین تینوں شعرا کے زندگی کرنے اور فکر کے انداز ہی مختلف نہیں تھے بلکہ حقیقتِ زیست کے بارے میں بھی مختلف سوچ تھی مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک نمایاں فرق  آنس معین کو شکیب جلالی اور مصطفیٰ زیدی سے یکسر جداگانہ مقام عطا کرتا ہے. وہ یہ کہ مصطفیٰ زیدی اور شکیب جلالی زندگی میں موت تلاش کرتے رہے مگر آنس معین نے موت میں زندگی دریافت کی۔
”خواب و آگہی“ اور ”نقش عہد وصال“ کے خالق ممتاز شاعر اور معتبر نقاد پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری نے جو تنقیدی جائزہ اور موازنہ پیش کیا وہ یقینا قاری کو یہ بات سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ”آنس معین کی فکری واردات پوری اردو شاعری میں انوکھی واردات کہی جا سکتی ہے۔“ اب دیکھتے ہیں کہ اسلم انصاری کا ناقدانہ تجزیہ کن خطوط پر استوار ہے۔ ”ماضی قریب کی اردو شاعری اور اردو غزل پر نظر رکھنے والوں کے ذہن آنس معین کی شخصیت سے قدرتی تلازمے کے طور پر مصطفیٰ زیدی اور شکیب جلالی کی طرف منتقل ہو جاتے ہیں. یہ ذہنی تلازمہ بعض جزوی مشابہتوں کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے. آنس معین کے ایک شعر میں ”دستانے“ کا لفظ قانون، گواہی اور جرم و سزاکے سیاق و سباق میں استعمال ہوا ہے اور اس میں شک نہیں کہ پوری اردو شاعری میں دستانے کا لفظ سب سے پہلے مصطفیٰ زیدی ہی نے استعمال کیا تھا۔
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
عین ممکن ہے کہ آنس معین کے ہاں دستانے کا تلازمہ مصطفیٰ زیدی ہی کے حوالے سے ابھرا ہو لیکن صرف اتنی سی بات کو کسی تفصیلی موازنے کی وجہ نہیں بتایا جا سکتا۔ مصطفیٰ زیدی کی شاعرانہ فضا جن عناصر سے مل کر تشکیل پائی ہے آنس معین کے ہاں غزل کی معاملہ بندی اورحسن و عشق کے معاملات کا وہ انداز ہے ہی نہیں جو ہمیں مصطفیٰ زیدی کے ہاں ملتا ہے۔تاہم شدت احساس ایک قدر مشترک ضرور ہے جو مصطفیٰ زیدی اور آنس معین کو ایک دوسرے کے قریب لاتی ہے. لیکن جہاں تک شکیب جلالی کا تعلق ہے اس کے ہاں بھی ایک کرب مسلسل کا احساس ضرور ملتا ہے لیکن کسی فلسفیانہ یا متصوفانہ تلاش و جستجو  کا عنصر اس شدت یا صراحت کے ساتھ موجود نہیں ہے۔زندگی کا کرب اور شعور کا تیکھا پن شکیب جلالی کی ایک بڑی خصوصیت ہے لیکن اس کی غزل میں کسی وجودی مابعد الطبیعاتی یا صوفیانہ تلاش کا سراغ نہیں ملتا. جب کہ آنس معین کی ساری شاعری ایک ایسے ہی سوال کے گرد گھومتی ہے جسے سوائے ایک مابعدالطبیعاتی جستجو (metaphysical yearbing)
 کسی اور لفظ سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا. اس لیے شکیب جلالی اور مصطفیٰ زیدی کے ساتھ آنس معین کی مشابہتیں جزوی اور سطحی ہیں بنیادی نہیں۔ یہ کہنا کہ آنس معین اپنے دور کا شکیب جلالی یا شکیب جلالی اپنے دور کا آنس معین تھا تنقیدی اعتبار سے درست نہیں ہوگا. جدید اردوغزل میں بالخصوص آنس معین کا رویہ اس کی ذات سے مخصوص تھا. اس رویے کی اساس ایک ایسا روحانی کرب ہے جو محض سماجی شعور یا کسی ذاتی مسئلے کی شدت سے کہیں زیادہ وقیع، وسیع اور ہمہ گیر ہے۔ آنس معین کی فکری واردات پوری اردو شاعری میں ایک انوکھی واردات قرار دی جا سکتی ہے۔پروفیسر ڈاکٹر اسلم انصاری نے تینوں شعرا کے کلام کا ناقدانہ تجزیہ اور موزانہ کرنے کے بعد آنس معین کی (انفرادی حیثیت میں) تخلیقات پر بھرپور روشنی ڈالی، اور کسی حد تک آنس معین کے ادبی مقام و منصب کا تعین بھی کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ”آنس معین کی شاعری میں قدم قدم پر قطعی منفرد اور چونکا دینے والے لہجے میں ایسے ایسے اشعار ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی ایک شعر بھی کہہ پائے تو اس کا سر فخر سے بلند ہو جائے۔ ایسے چونکا دینے والے شعر حیرت انگیز حد تک سادہ بلکہ سہلِ ممتنع کے انداز میں ہیں. ان میں آنس معین حیرت انگیز طور پر epigramatic ہے. کم سے کم الفاظ میں جذبات و خیالات کی ایک دنیا بسا کر دکھاتا ہے:

عجب انداز سے یہ گھر گرا ہے
مرا ملبہ مرے اوپر گرا ہے
آنس معین کے ہاں شعری خیال ایسی حیرت انگیز وحدت کے ساتھ ابھرتا ہے کہ اس کے لیے شعر پر نظر ثانی کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ عام طور پر شاعر کو ایک شعر مکمل کرنے کے لیے تلازمات اور کئی لوازمات سے کام لینا پڑتا ہے. ردیف اور قوافی بعض اوقات ابلاغ میں حائل ہوجاتے ہیں. لیکن آنس معین کا ہر شعر (اظہاربھرپور)؟ ایسا مکمل اور ایسا فوری spontaneous ہے کہ اسے سوائے ایک تخلیقی معجزے کے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا. آنس معین کے ہاں خیال اور ہیئت میں  ایک ایسی یکجائی اور ہم آہنگی ہے کہ ایک کو دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے ہاں ایسے اشعار کثیر تعداد میں ہیں جو اس کی غیر معمولی شعری صلاحیت کا پتا دیتے ہیں. آنس معین نے جتنا شعری سرمایہ چھوڑا ہے وہ اسے ایک لافانی اور صاحبِ طرز شاعر ثابت کرنے کے لیے بہت کافی ہے. ایسے اشعار جس میں آنس معین کی خلاقی اور صناعی ایک ہو گئی ہیں اردو شاعری کا لازوال سرمایہ کہے جا سکتے ہیں. جس نوجوان شاعر نے صرف چند سالوں میں ایسا مکمل اور بھرپور شعری انداز ایجاد کرلیا ہو اس کے اندر کے شعری امکانات کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ وہ یقینا ایک عبقری تھا ایک شعلہ تخلیق۔“
بزرگ شاعر اور مدیر”محفل“ لاہور طفیل ہوشیار پوری نے جو تجزیہ اپنے رسالے کے ادارتی نوٹ میں شائع کیا وہ کچھ یوں ہے۔ آنس معین کو عصرِ حاضر کے دو شاعروں مصطفیٰ زیدی اور شکیب جلالی سے ملانے کی کوشش کی گئی ہے. ایسا شعوری طور پر ہوا یا لاشعوری طور پر اس کے بارے میں تو کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا لیکن بہر حال یہ بھی کہا گیا ہے کہ آنس معین اپنے عہد کا مصطفیٰ زیدی اور شکیب جلالی ہے. اس طرح بظاہر آنس معین کو بڑا کرکے پیش کرنے کی کوشش ہو رہی ہے لیکن درحقیقت اس عمل سے آنس کی انفرادیت اور اس کی بلند پایہ شاعری کو دبانے اور اسے دھچکا لگانے کی نامشکور سعی کا مظاہرہ ہورہا ہے. ادب کے بڑے بڑے ستونوں نے بھی آنس معین کی شاعرانہ عظمت کا کھل کر اعتراف کیا ہے. جوش ملیح آبادی نے اسے کمسن سقراط کا نام دیا ہے تو فیض احمد فیض  اسے اپنے عہد سے آگے کا ”بزرگ دانشور“ قرار دینے پر مصر ہیں. جابر علی سید نے اسے ننھا رومی کہا ہے. ڈاکٹر وزیر آغا کا خیال ہے کہ آنس معین کیٹس کا ہم پلہ شاعر ہے. جب کہ احمد ندیم قاسمی کا کہنا ہے کہ میں آنس معین کے اشعار پڑھ کر دم بخود رہ جاتا ہوں اور رشک بھی کرتا ہوں کہ آنس جیسے اشعار کہہ سکوں. جب کہ ڈاکٹر وحید قریشی نے آنس معین کو بہت بڑا شاعر قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اپنے عہد سے آگے کا بلکہ اکیسویں صدی کا شاعر ہے. اسلم انصاری اسے شعلہ تخلیق سمجھتے ہیں اور بہت سے ناقدین کا خیال ہے کہ آنس معین اپنے عہد کا مصطفیٰ زیدی اور اپنے زمانے کا شکیب جلالی ہے. حالانکہ میرا اپنا یہ خیال ہے کہ یہ تمام مماثلتیں محض اس لیے تلاش کی گئی ہیں کہ ابھی ہم پر آنس کی انفرادیت کے اسرار نہیں کھلے. ابھی ہم اسے سمجھ نہیں پائے. ہم اس کی تفہیم کے دور سے گزر رہے ہیں. اس لیے کبھی ہم اسے کمسن سقراط، ننھا رومی، کبھی شکیبِ عصر اور کبھی کیٹس کا ہم پلہ شاعر قراردے دیتے ہیں. حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ آنس وہی کچھ نہیں تھا جو کچھ اسے اب تک سمجھا گیا ہے۔ اس موقع پر مجھے محسوس ہورہا ہے کہ جیسے دبے لفظوں میں آنس معین ہم سب سے یہ کہہ رہا ہو کہ
حیرت سے جو یوں میری طرف دیکھ رہے ہو
لگتا ہے کبھی تم نے سمندر نہیں دیکھا
ادب کے نقار خانے میں آنس معین کی آواز صاف سنائی دے رہی ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ اس کا شعری لہجہ محض مختلف اور منفرد ہی نہیں بلکہ چونکا دینے والا بھی ہے. اس نے اپنی شاعری، اپنی تراکیب، اپنی لفظیات، اپنی سوچوں، اپنے خیالات، اپنے زاویۂ نگاہ، اپنے ڈکشن اور اپنی بندشوں سے ادبی دنیا کے ساتھ ساتھ آج کے قاری اور سامع کو بھی چونکادیا ہے. آنس معین کے ہر ہر شعر میں معانی کے جہاں اور مفاہیم کے کی دنیا آباد ہے. اس لیے میں یہ کہنے اور سمجھنے میں حق بجانب ہوں کہ آنس معین عہد کا مصطفیٰ زیدی یا شکیب جلالی نہیں بلکہ درحقیقت شکیب جلالی اور مصطفیٰ زیدی اپنے اپنے عہد کے آنس معین تھے“۔
ادبی جریدے اقدار کراچی کے مدیر اعلا محترم و مکرم جناب شبنم رومانی نے آنس معین کی شخصیت اور فن کے حوالے سے ڈاکٹر سید مقصود زاہدی کے چند مضامین میں سے ایک اہم مضمون اقدار میں شامل اشاعت فرمایا تو اس کے ساتھ ایک نوٹ بھی تحریر فرمایا تھا جس میں آنس معین کی المناک جواں مرگی کو جدید اردو شاعری کی دوسری خودکشی قرار دیا تھا.
آنِس معین کے توجہ طلب اشعار میں سے چند ایک ملاحظہ ہوں:
اگر نہیں میں آشنا عبادتوں کی رسم سے
چھپا ہوا ہوں کس لیے بدن کی خانقاہ میں
رہتا ہوں جس زمیں پہ وہی اوڑھ لوں گا میں
جائے اماں اک اور بھی ہوتی ہے گھر کے بعد
میں جستجو میں ہوں، آئینے کو کھرچ رہا ہوں
میں رفتہ رفتہ مٹا رہا ہوں نشان اپنا
حیرت سے جو یوں میری طرف دیکھ رہے ہو
لگتا ہے کبھی تم نے سمندر نہیں دیکھا
نہ جانے باہر بھی کتنے آسیب منتظر ہوں
ابھی میں اندر کے آدمی سے ڈرا ہوا ہوں
نہ تھی زمین میں وسعت مری نظر جیسی
بدن تھکا بھی نہیں اور سفر تمام ہوا
ممکن ہے کہ صدیوں بھی نظر آئے نہ سورج
اس بار اندھیرا مرے اندر سے اٹھا ہے
گہری سوچیں لمبے دن اور چھوٹی راتیں
وقت سے پہلے دھوپ سروں پر آپہنچی ہے
یہ آئینہ تو سچ کہتا ہے لیکن
ہم اپنے زاویے سے دیکھتے ہیں
ذرا تو کم ہوئیں تنہائیاں پرندے کی
اب ایک خوف بھی اس آشیاں میں رہتاہے
جب فضاؤں سے ربط بڑھتا ہے
ٹوٹ جاتا ہے آشیانے سے
کیا عدالت کو یہ باور میں کراپاؤں گا
ہاتھ تھا اور کسی کا مرے دستانے میں
عجب انداز سے یہ گھر گرا ہے
مرا ملبہ مرے اوپر گرا ہے
اس نے بھی یہ سوچا ہے کہ بس ربط نہ ٹوٹے
اک دوسری بستی کا پتا دے کے چلا ہے
میرے اپنے اندر ایک بھنور تھا جس میں
میرا سب کچھ ساتھ ہی میرے ڈوب گیا
حضرت طفیل ہوشیار پوری نے آنس معین کی شخصیت اور شاعری کے حوالے سے متعدد مضامین تحریر کیے. انہی میں سے ایک طویل مضمون میں بہت سے ناقدین کی آرا کے اقتباسات بھی شامل کیے. یہاں ہم ان میں سے چند آرا نقل کر رہے ہیں۔
بشیر منذر: آنس معین عصرِ حاضر  کا ن۔م۔راشد ہے۔ ممتاز اور بزرگ شاعر ضمیر جعفری کی رائے ”آنس معین کی سوچ کا سفر فکروخیال میں زلزلہ برپا کردینے والا ہے. کیسے کیسے امر دلوں میں پیوست رہنے اور ذہنوں کو جھنجھوڑ دینے والے میٹھے میٹھے سانولے سرخی مائل شعر آنس نے کہے ہیں مرنے کی جلدی جو تھی ۔“
یزدانی جالندھری نے خیال ظاہر کیا۔”آنس معین نے اس صنفِ سخن (غزل) میں نئی روح پھونک دی ہے۔“ نسیم لیہ کے بقول ”آنس معین عصرِ موجود کا سقراط اور نئی سوچوں کا ارسطو ہے“ پرویز بزمی نے لکھا کہ آنس معین کی شاعری میں کرب کچھ اس انداز میں راہ پا گیا تھا جو اور کہیں دیکھنے میں نہیں آتا۔“
خیرالدین انصاری نے اس خیال کا اظہار کیا کہ آنس کے شعلۂ تخلیق کی آنچ بہت تیز تھی. شاید اسی آنچ کی تیزی نے اس کے جسم کو جلا کر راکھ کر دیا ہے اور آنس نے اپنے جسم کی دیوار گرانے میں عجلت سے کام لیا. آنس معین اپنی جواں مرگی کے باوجود اس لیے خوش قسمت ہیں کہ انھیں ادیبوں اور شاعروں کے سارے دھڑے پسند کرتے ہیں۔ نامور شاعر اور نقاد انجم اعظمی نے لکھا کہ ”آنس جیسا جینئس اور تخلیق کار صدیوں بعد پیدا ہوتا ہے اور جدید اردو تنقید نے تاحال اتنی ترقی نہیں کی کہ آنس معین کی شاعری کا ناقدانہ تجزیہ پیش کیا جا سکے۔“
صبا اکبر آبادی نے لکھا کہ محفل کا آنس معین نمبر مجھے بہت پسند آیا. اگر آنس نے غالب کی طرح دل میں اتر جانے والے اشعار تخلیق نہ کیے ہوتے تو شاید محفل کی یہ خصوصی اشاعت بھی میسر نہ آتی. یہ آنس کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف ہے. یقینا ایسے ہی شعرا اپنے عہد کی پہچان بنتے ہیں، جو صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں اور صدیوں زندہ رہتے ہیں “
(جدید اردو شاعری میں ۔۔۔۔۔ مماثلت کی مثلث . ایک طویل تحقیقی مقالے سے اقتباس)
***
ڈاکٹر فوق کریمی علیگ کی گذشتہ نگارش: فخرِ ادب : علی گڑھ کا بَلّے

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے