’’ہجرتوں کے تماشے ‘‘ پر منظوم تاثرات

’’ہجرتوں کے تماشے ‘‘ پر منظوم تاثرات

عہد حاضر کے معروف داستان گو جاوید دانش کے ’’ہجرتوں کے تماشے ‘‘ پر منظوم تاثرات

احمد علی برقی اعظمی

طرز پر جاوید دانش کے نثار
ہجرتوں کی داستاں ہے دل فگار

ہیں دیار غیر میں اب جو مکیں
اُن کا رنج و غم ہے اس سے آشکار

کیوں گئے اپنا وطن وہ چھوڑ کر
دامنِ دل سوچ کر ہے تار تار

مَل رہے ہیں اب کفِ افسوس وہ
جن کا کوئی بھی نہیں ہے غم گسار

چھوڑ کر جن کو ہیں وہ اب نوحہ خواں
یاد آتے ہیں اُنھیں وہ بار بار

روکھی سوکھی کھا کے سو جاتے تھے جو
مال و دولت پا کے بھی ہیں بےقرار

خود سے کرتے ہیں یہی پیہم سوال
ختم کب ہوگا یہ اُن کا انتظار
***
داستان ہجرتوں کی
احمد علی برقی اعظمی

داستاں گوئی کے ہیں جاوید دانش تاج دار
عہد حاضر میں جنھوں نے اس کو بخشا اعتبار

لوگ سر دھنتے ہیں سن کر ان کا انداز بیاں
بحر ذخار ادب کی ہیں وہ در شاہوار

کرب ہجرت سہہ رہے ہیں جو دیار غیر میں
وہ بیاں کرتے ہیں ان کی داستان دل فگار

جن کے سینے میں دھڑکتا ہے دل درد آشنا
وہ سمجھتے ہیں انھیں اک اپنا یار غم گسار

درہم و دینار ہیں ان کے لیے سوہان روح
ایک مدت سے ہیں جو سوز دروں سے بے قرار

صرف برقی ہی نہیں ہے ان کے فن کا قدرداں
ان کے ہیں مداح اقصائے جہاں میں بے شمار
***
ہے یہ ہجرت کے تماشے اک ڈرامہ لاجواب
مستحق ہیں داد کے جاوید دانش بے حساب

ہے یہ مہجوری ادب کا ایک ادبی شاہ کار
کررہا ہے منعکس جو کرب ہجرت کا عذاب
***
برقی اعظمی کی گذشتہ تخلیق:عندلیب گلشن گفتار کیفی اعظمی

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے