آوارہ پھرے بغیر

آوارہ پھرے بغیر

غضنفر

"غضنفر ! تم کچھ ہم لوگوں کے لیے نہیں چھوڑوگے کیا۔ سب کچھ تم ہی لکھ دو گے۔ ایک دلت موضوع بچا تھا اس پر بھی دویہ بانی لکھ دی۔ سچ مچ کیا غضب کا ناول لکھ دیا تم نے۔ میں اس پر مضمون لکھ رہا ہوں۔۔"
۔۔۔
"جو لوگ فکشن کی زبان، تخلیقی نثر، بیانیہ اور سپاٹ بیانیہ وغیرہ کا غیر ضروری طومار کھڑا کرتے رہتے ہیں، انھیں تمھاری زبان سے سبق لینا چاہیے اور چپ چاپ مان لینا چاہیے کہ فکشن کی زبان ایسی ہی ہونی چاہیے۔ یہ سب دل کی گہرائیوں سے کہہ رہا ہوں اور بہ بانگِ دہل کہتا ہوں کہ فکشن کی زبان کو تمھاری زبان ہونا چاہیے اور بس۔ یعنی غضنفر کی زبان۔"
۔۔۔
یہ رائے میری طرح آپ کو بھی چونکائے گی کہ یہ ایک تخلیق کار کی رائے ہے جو اپنے ایک ہم صنف معاصر تخلیق کار پر دی گئی ہے۔ اس لیے کہ اپنے فیلڈ کے ہم عصر ادیبوں پر اس طرح کے تنقیدی تاثرات عام طور پر دیکھنے کو نہیں ملتے۔ خود میں اس طرح کی رائے اپنے کسی ہم عصر افسانہ نگار پر دیتے ہوئے دس بار سوچوں گا، مگر ہمارے عہد میں ایک ایسا بھی فن کار ہے جس نے یہ راے بنا کسی مصلحت اور کمپلیکس کے دی ہے۔
یہ زبانی اور تحریری دونوں باتیں عبد الصمد کی ہیں. وہی عبدالصمد جنھوں نے”دو گز زمین" میں جنگِ آزادی کی ایک پوری کائنات پھیلا دی۔ اور کائنات بھی کیسی؟ بالکل نئی، پہلے سے پیش کیے گیے کروکشیتر سے مختلف۔ یعنی اس موضوع پر پہلے سےجنگ و جدل کا جو میدان تھا اس سے الگ۔ ایک نئے رنگ میں ایک نئی کہانی۔ فیکٹ کا نیا فکشن اور فکشن کا نیا فیکٹ۔ اردو ناولوں میں لڑی گئی لڑائیوں سے مختلف۔ وہی عبدالصمد جنھوں نے بارہ رنگوں کا کمرہ تعمیر کیا، سیاہ رات میں خوابوں کا سویرا پھیلا دیا۔ جنھوں نے مہاتما کو بے نقاب کیا۔ایسی سیاسی دھمک پیدا کی کہ دل و دماغ دہل اٹھے۔ جن کو ان کے ادبی کارناموں کے لیے بہت ہی کم عمری میں ساہتیہ اکادمی کے انعام سے سرفراز کیا گیا۔ جنھیں بزم ادب دوہا قطر کا نہایت ہی موقر ایوارڈ دیا گیا۔ اس کے علاوہ بھی انھیں کئی اور اہم اور قابلِ قدر انعامات حاصل ہو چکے ہیں مگر سچ تو یہ ہے کہ عبدالصمد انعامات و اعزات سے بھی زیادہ وزن اور وقعت رکھتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ فکر و فن ہی اچھا پیش نہیں کرتے بلکہ اپنے دل، دماغ، جذبات و محسوسات، خیالات سب میں مثبت رویہ رکھتے ہیں۔ وہ رویہ جو روئے مخاطب کو سُرخ رو اور شگفتہ بناتا ہے اور روا[بط] رکھنے والے کے ذہن و دل میں لطف و انبساط بھرتا ہے۔ جو روابط کو تازگی، شگفتگی اور روشنی عطا کرتا ہے۔
ان کی یہ تحریریں بتاتی ہیں کہ وہ اپنے معاصرین سے چشمک نہیں رکھتے۔ وہ اپنے معاصر تخلیق کاروں کی تخلیقات دل جمعی سے پڑھتے ہیں، خوش ہوتے ہیں اور دل کھول کر خوب داد بھی دیتے ہیں۔وہ فن پارے کا فراخ دلی سے بکھان کرتے ہیں۔ اور بکھان کے بیان میں ذرا بھی ڈنذی نہیں مارتے۔ فن کار کے سامنے تو تحسینی کلمات ادا کرتے ہی ہیں محفلِ غیر میں بھی ذکرِ خیر کرنا نہیں بھولتے۔ یہ خوبی ان کے دوسرے معاصرین میں دکھائی نہیں دیتی اور دیتی بھی ہے تو اس پر اگر مگر کا مگر لپٹا ہوا ہوتا ہے۔ یا پھر اس پر دھند چڑھی ہوتی ہے. عبدالصمد کی شخصیت کا یہ وہ وصف ہے جو انھیں نیارا بھی بناتا ہے اور پیارا بھی۔
عبد الصمد کا ایک بڑا وصف یہ بھی ہے کہ وہ دوسروں کو تو تحسینی نگاہ سے دیکھتے ہیں مگر خود پر تنقیدی نظر ڈالتے ہیں، بلکہ یہ کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا کہ وہ خود کو دشمن کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ اور ان کی نظریں اپنے اندر سے اب ھی عیوب چن لاتی ہیں۔
عبد الصمد آسانی سے اعتراف کر لیتے ہیں کہ ان کی زبان ویسی نہیں ہے جیسی کہ اچھے فکشن کی زبان کو ہونا چاہیے۔ یہ اعتراف کسی بھی مشہور و مقبول مصنف کے لیے آسان نہیں ہوتا۔ اولاً تو وہ اپنی کمی یا خامی کو خوبی ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنی منطق سے معترضین کو جاہل، کم فہم اور حاسد ٹھہراتا ہے اور اگر کسی ٹھوس بنیاد یا مضبوط دلائل کے سبب اپنی غلطی کو محسوس کر بھی لیتا ہے تو اسے کاتب یا کمپوزر کے متّھے مڑھ کر چلتا بنتا ہے۔ یا عذرِ لنگ پیش کر کے اسے ہنسی میں اڑا دیتا ہے۔
تخلیق کار کے اس اعتراف کے باوجود کہ اس کی زبان بہت اچھی نہیں ہے یا کمزور ہے اس کی تحریروں کی پسندیدگی کا عالم کم نہیں ہے۔ اور پسند کرنے والوں میں صرف عامی ہی نہیں عالم بھی ہیں۔ قارئین کے ساتھ ساتھ ناقدین بھی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عبدالصمد کی تحریروں میں ایسی جان ہے جو زبان کے چٹخارے پن، خوش بیانی، اور زبان دانی کی لن ترانی، لکھنویت اور دہلویت کے غیاب اور بہاریت کے جوشِ بہار کے باوجود وہ حسن دکھاتی ہے کہ ایک زمانہ اس کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔جو اس بات کی دلیل ہے کہ کہانی خوش الحانی کی کی غیر حاضری میں بھی اپنا رنگ دکھاتی ہے بلکہ جماتی ہے، کہنا چاہیے۔
عبدالصمد ایک سیدھے سادے سچے انسان ہیں۔ دوست بھی بہت اچھے ہیں۔ دوستوں کو اپنا مہمان نہ صرف بناتے ہیں بلکہ ان کے لیے پُرتکلف دسترخوان سجا کر خوشی بھی محسوس کرتے ہیں۔ ایک بار تو انھوں نے اپنی دوستی کا ایسا ثبوت دیا کہ میں دنگ رہ گیا۔ میں کسی سرکاری کام سے پٹنہ گیا ہوا تھا، گھر پر میری دعوت تو کی ہی، جس دن میری واپسی تھی، ٹرین صبح کی تھی۔ مجھ سے پہلے وہ میرے ڈبے کے گیٹ پر ہاتھ میں ایک بڑا سا ناشتے دان لیے موجود۔ میں نے جب ان سے کہا کہ اتنی صبح صبح آپ نے کیوں زحمت کی تو بولے: "غضنفر! میرے بھائی! صبح تم سے زیادہ روشن نہیں ہے نا میرے لیے اور پھر میں نے سوچا کہ آج کی صبح کو غضنفر سے مل کر اور روشن بنا لوں۔"
صبح اٹھ کر کئی میل کا سفر طے کرکے اسٹیشن آنا اور سویرے سویرے بھابی سے گرما گرم ناشتہ بنوا کر لانا یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ یہ اخلاق، خلوص اور محبت کا وہ مظہر ہے جو منظرِ عام کیا منظرِ خاص میں بھی کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ میں جب بھی کسی شہر میں گیا عبدالصمد والا یہ واقعہ یاد آیا، مگر کسی بھی پلیٹ فارم یاائیر پورٹ پر پھر کبھی کوئی ناشتہ دانی منظر دیکھنے میں نہیں آیا۔
عبد الصمد محبت کے بھوکے بھی ہیں اور محبت کے سخی بھی۔ وہ دل کھول کر محبت بانٹتے ہیں۔ اس معاملے وہ کسی حاتم طائی سے کم نہیں ہیں.
اور محبت پانے کے لیے اتنے بے تاب رہتے ہیں جیسے وہ کب کے بھوکے ہوں۔ اتنے بھوکے کہ جہاں کہیں دکھائی دیتی ہے تو اس پر جھپٹ پڑتے ہیں۔
اگرچہ عبدالصمد نے مختلف موضوعات پر خامہ فرسائی کی ہے مگر ان کا رخشِ قلم جس راستے پر زیادہ تیزی سے دوڑتا ہے وہ شاہراہِ سیاست ہے۔ یعنی
عبد الصمد کی فکشن نگاری کا محور و مرکز راج نیتی ہے، جس نے نیک طینت مدبّروں کی نیت بھی خراب کر رکھی ہے۔ اگرچہ کچھ فن کار سیاست پر قلم اٹھانا پسند نہیں کرتے کہ ان کے خیال میں سیاست ہنگامی نوعیت رکھتی ہے اور ہنگامی نوعیت پر صحافت نگاری تو ہو سکتی ہے مگر فکشن نگاری نہیں۔ ایسے ادیب سیاست کو صحافیوں یا صحافت نگاروں کے لیے چھوڑ دیتے ہیں مگر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ روشن ہے کہ یہ وہ موضوع ہے جو تمام موضوعات کو متاثر کرتا ہے۔ ہر ایک کو کسی نہ کسی طور سے اپنے گھیرے میں لے لیتا ہے۔ لکھنے والے کے قلم کی سیاہی میں اپنی روشنائی ڈال دیتا ہے۔
اور پڑھنے والے کی آنکھ میں اپنے لیے تجسس ابھار دیتا ہے۔ اس موضوع کا رنگ و آہنگ خصوصاً دور حاضر میں اتنا گاڑھا ہو گیا ہے کہ اور کچھ نہیں تو یہ اپنا عکس تو ڈال ہی دیتا ہے۔ یہ اہم اس لیے ہوگیا ہے کہ پڑھنے والا شعوری یا لاشعوری طور پر یہ ضرور جاننا چاہتا ہے کہ اس پُر آشوب دور کا فن کار اس موضوع پر کس طرح اور کیا سوچتا ہے اور اس کی بھول بھلیوں سے نکالنے اور اس کی زد سے بنی نوع کو محفوظ رکھنے کے لیے کیا تدبیریں سجھاتا ہے۔ یہ موضوع قارئین کو اپنے دور کی صورت حال کی نزاکتوں سے ہی واقف نہیں کراتا بلکہ سیاسی بصیرتوں سے بھی آگاہ کراتا ہے۔ ساتھ ہی آنے والے حالات کی وارنگ بھی دیتا ہے اور الرٹ رہنے کی فکر بھی پیدا کرتا ہے۔ عبد الصمد اس جوکھم کے باوجود سیاست پر اپنا قلم اٹھاتے ہیں اور اپنے تخلیقی شعور اور تخئیلی پرواز سے اسے اچھے فن پاروں میں ڈھال دیتے ہیں۔ وہ اس صحافتی موضوع میں بھی ایسی رنگ آمیزی کرتے ہیں کہ بارہ ہی نہیں اس سے بھی زیادہ رنگ ان کے تخلیقی کمروں میں جگمگا اٹھتے ہیں۔ پاٹلی پترا میں رہنے والے اس دھرتی پتر کے خون میں شاید سیاست اس لیے رچ بس گئی ہے کہ وہاں کی مٹی میں نیتی گھلی ہوئی ہے۔
ادیب خصوصاً تخلیق کار کے لیے ایک عام تصور یہ رائج ہے کہ تخلیق کار آوارہ منش ہوتا ہے۔ بیشتر کے یہاں آوارگی کے مظاہر کھل کر سامنے آتے ہیں اور بعض کے یہاں ڈھکے چھپے ہوتے ہیں مگر ہوتے سب کے یہاں۔ بہت حد تک یہ بات سچ بھی ہے اور اس کے ثبوت بھی وافر تعداد میں موجود ہیں مگر عبدالصمد ایسے تخلیق کار ہیں جن کے باہر اندر، دائیں پائیں کہیں سے بھی آوارگی نہیں دکھائی دیتی۔
نہ لباس میں، نہ بو و باس میں، نہ احساس میں، نہ ہی انفاس میں۔ کسی سے بھی بوئے آوارگی محسوس نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ ان کے منہ سے نکلنے والے بے ساختہ قہقہے بھی نوائے آوارگی سے خالی ہوتے ہیں۔یہاں میرا جی چاہتا ہے کہ عبدالصمد کے ساتھ ساتھ آس پاس گونجنے والے ان کے معاصر فکشن نگاروں کے قہقہوں کے رنگ و آہنگ کو بھی آپ کےگوش گزار کردوں تاکہ عبدالصمد کے شریفانہ قہقہوں کے مہذب سُر کا اندازہ اچھی طرح کیا جا سکے۔ جن فکشن نگاروں کے قہقہے عبدالصمد کے ساتھ قریب سے سنائی دیتے ہیں ان میں شوکت حیات، حسین الحق اور شموئل احمد کے قہقہے کافی بلند بانگ ہیں۔
میں نے ان چاروں فن کاروں کے قہقہے سنے ہیں۔ محفلوں میں، نجی ملاقاتوں میں اور ٹیلی فون پر بھی۔ چاروں کے قہقہے جان دار، زور دار، مزے دار اور دل سے نکلے ہوتے ہیں مگر چاروں میں فرق ہے۔ چاروں کےقہقہقوں کی بنیاد جدا ہے۔ محرکات الگ ہیں ان کے، زیروبم مختلف ہیں۔ ان کے رنگ اور ترنگ جدا جدا ہیں۔ حسین الحق کا قہقہہ خانقاہی ماحول اور روحانی فضا کی پروردہ شخصیت کے لبوں سے نکلنے کے باوجود حد بندیوں سے آزاد ہوتا تھا. ایک خاص انداز کی وضع قطع کی صافہ بندی کے باوجود اس کا فطری وفور رک نہیں پاتا تھا۔ باطن کا فن کارانہ دباؤ اتنا شدید ہوتا کہ طریقتانہ دیواریں بھی رگِ ظرافت کو پھڑکنے سے نھیں روک پاتی تھیں اور وفور اس قدر جوش پر ہوتا تھا کہ قہقہے بہت سی وہ حدیں بھی پار کر جاتے تھے جن کا ہالہ کافی مضبوطی کے ساتھ ان کے ارد گرد بنا رہتا تھا۔ قہقہوں کے رنگ کی شعاعیں ان کے دیدوں سے بھی پھوٹی پڑتی تھیں۔ اوردھنک رنگ بکھیرا کرتی تھیں۔
شوکت حیات کے قہقہوں کی بنیاد کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ محفل میں تو ان کے قہقہے بھونچال لاتے ہی تھے، فون پر بھی دھمال مچا دیتے تھے۔ جن لوگوں کو ان سے بات کرنے کا موقع ملا ہوگا وہ میری اس راے سے اتفاق کریں گے کہ جب وہ کسی پر لطف جملے یا فقرے پر ہنستے تھے تو ان کے قہقہوں کا رینج اتنا پھیل جاتا تھا کہ کبھی کبھی تو کان کے پردے پناہ مانگنے لگتے تھے۔ اور اگر گفتگو کرنے والا بھی حسِ مزاح سے مملو ہے تو پھر ان کے قہقہے روکنے سے بھی نہیں رک پاتے تھے۔ مجھے یاد ہے جب میں نے ان پر لکھے ہوئے خاکے کا کچھ حصہ جس میں ان کے پیری میں ادا کی گئی رسمِ عقیقہ اور اسی قبیل کی ایک دوسری رسم کا ذکر تھا، سنایا تو ان کے قہقہے ایک ایک جملے پر بلند ہوتے چلے گئے اور اس دن مجھے پتا چلا کہ فلک شگاف آوازیں کیسی ہوتی ہیں۔
شمویل کے قہقہوں کی بنیاد، نفسیاتی فقرے، شہوانی جملے، ہیجانی لطیفے، مومن خاں والے معاملے اور جذبات کو بر انگیختہ کر دینے والے چٹخارے آمیز قصے ہوتے ہیں۔ ان کے قہقہوں سے جنس کی پھل جھڑیاں چھٹتی ہیں۔ ان میں ایسے فلیتے لگے ہوتے ہیں کہ سلگتے ہیں تو دوسروں کے رگ و ریشے میں پٹاخے پھوڑ دیتے ہیں۔ گویا ان کے قہقہوں میں وہ بارود ہوتی ہے جو آگ پکڑتی ہے تو لوگوں کے دل و دماغ میں بھی بم دھماکہ مچا دیتے ہیں۔
ان سب کے برعکس عبدالصمد کے قہقہے جان دار تو ہوتے ہیں مگر جان میں ہیجان نہیں پیدا کرتے۔ وہ زور دار ہونے کے باوجود بے لگام نہیں ہوتے۔ تہذیب اور فطری شرافت کی رسیّاں انھیں مضبوطی سے باندھے رکھتی ہیں۔ کسی خیال یا خوف کا شکنجہ انھیں اپنے پنجوں میں کسے رکھتا ہے۔ ترنگیں تو پھوٹتی ہیں مگر ان سے پھوہڑپن کی پھواریں نہیں برستیں۔ دل و دماغ پر شوخ و شنگ اولے نہیں پڑتے.
کچھ دوستوں کا کہنا ہے کہ عبدالصمد تھوڑا اور کھل کر ہنستے، اور آوارگی کے‌ گولے چھوڑتے تو اپنی تحریروں میں اور گل کھلا پاتے۔ ان کے افسانوی شگوفے اور بھی گاڑھے رنگ و نور برسا پاتے مگر عبد الصمد کو شاید گاڑھا رنگ پسند نہیں کہ ایسے رنگ سے ان کے خیال میں آنکھیں تو گلنار ہوتی ہیں، دل اور دماغ نہیں۔
تو ثابت یہ ہوا کہ بنا آوارگی کیے، بغیر ہیجانی قہقہے لگائے عبدالصمد نے ایسی ادبی دھمک پیدا کی کہ جسے سن کر رگ و پے میں گرداب پیدا ہو گئے۔
***
غضنفر کی گذشتہ نگارش:تخلیقی زبان

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے