عالمی ارض ڈے مناتے ہیں

عالمی ارض ڈے مناتے ہیں

(عالمی یومِ ارض : دو موضوعاتی نظمیں 
Observing World Earth Day)

احمد علی برقی اعظمی، نئی دہلی

جس زمیں پر سب آتے جاتے ہیں
داستاں اس کی ہم سناتے ہیں
سب زمیں پر ہی جنم لیتے ہیں
اور پس از مرگ اسی میں جاتے ہیں
کچہ نہ ہوگا اگر زمین نہ ہو
جو بھی اگتا ہے اس میں کھاتے ہیں
ہے زمیں قصر زیست کی بنیاد
ہم اسی پر ہی گھر بناتے ہیں
گھر کی تعمیر میں در و دیوار
لکڑی اور اینٹ سے بناتے ہیں
لکڑی ملتی ہے ہم کو جنگل سے
پیڑ پودے جسے سجاتے ہیں
گھر کی زینت ہے پیڑ پودوں سے
گھر کی رونق یہی بڑھاتے ہیں
ان سے ملتی ہے ہم کو صاف ہوا
اس لیے پیڑ ہم اگاتے ہیں
صاف آب و ہوا ضروری ہے
لوگ کیوں اس کو بھول جاتے ہیں
تندرستی ہزار نعمت ہے
اس لیے لوگ پارک جاتے ہیں
ماہ اپریل میں سبھی ہر سال
عالمی ارض ڈے مناتے ہیں
آؤ اس عہد کی کریں تجدید
وعدہ ہر حال میں نبھاتے ہیں
باز آجائیں اپنی حرکت سے
جو بھی آلودگی بڑھاتے ہیں
چشمہ آب سوکھ جائے گا
پانی بیکار کیوں بہاتے ہیں
اس سے بڑھ کر نہیں کوئی دولت
مفت میں کیوں اسے لٹاتے ہیں
زندہ رہتا ہے صرف نام ان کا
دوسروں کے جوکام آتے ہیں
ہے یہی فرض عین ہم سب کا
جو صحیح بات ہے بتاتے ہیں
خواب غفلت سے ان کو اے برقی
آئیے مل کے ہم جگاتے ہیں

(2) ہم مناتے ہیں کیوں عالمی ارض ڈے

ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی، نئی دہلی

ہم مناتے ہیں کیوں عالمی ارض ڈے
کیا ہیں اس کے ہمارے لیے فائدے
ہو زمیں کی بقا سب کے پیش نظر
خواب غفلت سے بیدار ہو جائیے
زد میں آلودگی کی ہیں اہل زمیں
نت نئے روز درپیش ہیں سانحے
خشک سالی کہیں ہے سنامی کہیں
آ رہے ہیں کہیں پے بہ پے زلزلے
ایک محشر بپاہے جدھر دیکھیے
بجھ گئے جانے کتنے گھروں کے دیے
آج آباد نوع بشر ہے وہاں
تھے جہاں پہلے جنگل ہرے اور بھرے
جن سے قائم توازن تھا ماحول میں
پیڑ پودے وہ ناپید اب ہو گئے
دوڑ میں ہم ترقی کی ہیں گامزن
لٹ نہ جائیں کہیں زیست کے قافلے
کوئی پس ماندہ ہے کوئی خوش حال ہے
ختم ہوں گے نہ جانے یہ کب فاصلے
فرش پر ہیں مگر ہے نظر عرش پر
اہل سائنس کے ہیں یہی مشغلے
ہوں گے حائل نہ ہم آپ کی راہ میں
کامیابی کے طے کیجئے مرحلے
***
برقی اعظمی کی گذشتہ تخلیق :ملک زادہ منظور تھا جس کا نام

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے