ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی کی موضوعاتی نظموں کا جایزہ

ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی کی موضوعاتی نظموں کا جایزہ

نقشبند قمر نقوی بخاری، امریکا

اردو شاعری میں ’’ نظم ‘‘ دور حاضر میں رائج نہیں رہی، شعراے اردو کا رجحان صرف غزل کے دائرے میں مقید ہوگیا ہے۔ وہ لوگ جو غزل کے حصار سے عارضی طور پر نکلتے ہیں ان کو نثری نظموں سے دل چسپی ہوجاتی ہے۔ جنھیں ابھی تک کوئی مناسب عنوان نصیب نہیں ہوا۔ موضوعاتی نظم سے وہ صنفِ سخن مراد ہے جو نظم کی شکل میں حسن و عشق کے علاوہ کسی ایک خاص موضوع سے متعلق تخلیق کی گئی ہو۔
نظم اپنے وسیع معانی میں متعدد اصنافِ سخن کا احاطہ کرتی ہے مثلا ’’واسوخت‘‘ ، ’’مرثیہ‘‘ ، ’’سلام‘‘ ، ’’ نوحہ‘‘ ، ’’شہر آشوب‘‘ ، یہ سب اسی خاندان نظم سے تعلق رکھتی ہیں۔ خصوصاََ مرثیہ جو صرف واقعات کربلا سے ہی سروکار رکھتا ہے اور موضوعاتی نظم کی صحیح ترجمانی کرتا ہے۔ ’’سہرا‘‘ بھی موضوعاتی نظم کا حصہ ہے۔
قدیم اردو ادب میں موضوعاتی نظموں کا وجود تو ضرور ہے لیکن اُن کی تعداد بہت کم اور ان کا حلقۂ اثر محدود ہے۔ مثلاََ غالب کی نظم جو انھوں نے شاہ ظفر کی ’’دال‘‘ کے بارے میں لکھی۔
موجودہ دور میں جو نظمیں عام طور سے لکھی جاتی ہیں، اول تو ان کی تعداد بہت کم ہے اور جو کچھ لکھی گئیں ہیں وہ حسن و عشق تک محدود ہیں۔ انھیں اس خاندان میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔
علامہ اقبال کی کئی نظمیں من جملہ ’’ہمالہ‘‘ یا ’’ابلیس و جبریل‘‘ اس زمرے میں آتی ہیں۔ حفیظ جالندھری کی بھی بعض نظمیں اسی خاندان سے مماثل ہیں لیکن ان میں بھی حسن و عشق موضوع سخن ہیں جیسے ’’ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ یا احسان دانش کی ’’بیتے ہوئے دن‘‘۔
جس ’’موضوعاتی نظم‘‘ سے اس مضمون میں بحث کی جارہی ہے اس کو جدید شاعری کی ایک قسم قرار دینا چاہیے اور اس کا سہرا ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی کے سر ہے۔
موضوعاتی نظم سے مراد ہے ایک ایسی نظم جو کسی شخصیت، واقعے یا مشاہدے سے متعلق ہو اور قصیدے سے مختلف ہو۔ موضوعاتی نظم کسی ایک شخص کی ذات کے بیان پر مشتمل ہو تو اس پر قصیدے کا گمان ہونے کا امکان ہو سکتا ہے۔ لیکن قصیدہ ایک قطعاََ مختلف صنفِ سخن ہے جس کے بعض خصوصی لوازمات ہیں جن کی عدم موجودگی سے قصیدہ اپنی حیثیت کھو دیتا ہے۔ قصیدہ اکثر کسی فرد کے بارے میں ہوتا ہے جس میں فرد کے اوصاف نہایت مبالغے کے ساتھ بیان کیے جاتے ہیں۔
موضوعاتی نظم صرف فرد تک محدود نہیں ہوتی بلکہ واقعات، سانحات اور اتفاقات اس کا موضوع ہو سکتے ہیں۔ جہاں تک فرد یا شخص سے متعلق نظموں کا تعلق ہے ان میں سے بعض کو اسی قبیلے میں رکھنا نا مناسب بھی نہیں بشرطیکہ کسی کی بے جا توصیف پر مبنی نہ ہوں۔
مثلاََ برقیؔ اعظمی کی یہ نظم جو شہرۂ آفاق رضا لائبریری پر ہے جس کے چند اشعار درج ذیل ہیں۔
یہ کتب خانہ ہے گنج شایگاں
اس لیے ہے مرجعِ دانشوراں
ہے رضاؔ کے نام سے منسوب یہ
جو سپہرِ علم پر تھے ضوفشاں
ہند میں ہے یہ وقار رام پور
ہیں نمایاں جس کی عظمت کے نشاں
یہ موضوعاتی نظم کی ایک واضح مثال ہے۔ دور جدید میں اردو ادب کو ایسے مشاہیر میسر ہیں جنھوں نے کسی نہ کسی صنف سخن کو اپنی جدتِ طبع سے خصوصی حیثیت عطا کی ہے اور اتنی ترقی دی کہ سرمایہ اردو ادب میں معتد بہ اضافہ ہوا، جیسے صنف دوہا میں جمیل الدین عالی، پرتو روہیلہ وغیرہ۔ اس صنف سخن کو فراز حامدی نے ’’دوہا غزل‘‘ کا خلعت عطا کر کے ایک منفرد حیثیت کا تعین کرلیا اور ایک صنف کا ادب میں اضافہ کیا۔ پنجابی صنف سخن ’’ماہیا ‘‘ کو اردو ادب کا حصہ بنانے والوں میں متعدد شعرا ہیں۔ محسن بھوپالی نے ہائکو کو اردو ادب کا حصہ بنا دیا، حمایت علی شاعر نے ثلاثی کو ممتاز حیثیت عطا کی۔
ڈاکٹر احمد علی برقیؔ اعظمی کا نام موضوعاتی نظم میں انفرادیت کا حامل ہے۔ انھوں نے اس صنف کو ایسی وسعت اور حسن عطا کیا جو اس سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا۔ برقی اعظمی ایک باکمال شخص ہیں۔ اردو کے علاوہ فارسی کے ماہر ہونے کے باعث ان کو زبان پر ایسی قدرت حاصل ہے جو کم لوگوں کو میسر ہوتی ہے۔
کسی شہرت کی طلب سے بے نیاز، اردو ادب پر فدا، خدمتِ خلق پر قربان، برقیؔ اعظمی ایک قابلِ قدر، فعال، بے غرض اور ممتاز شاعر ہیں۔ ان کے کارناموں کی تفصیل تو ممکن نہیں لیکن یہی کام یعنی ’’موضوعاتی نظم ‘‘ کی تخلیق اور اس کو اپنا خصوصی وصف قرار دینا نہایت اہم ہے۔
نظم ایک ایسی صنفِ سخن ہے جس میں تخلیقی کام کرنے کے لیے شاعر کا نہ صرف صاحبِ فہم و فراست ہونا لازمی ہے بلکہ وسعتِ فکر، قوتِ مشاہدہ، اہلیتِ اخذ، معانی اور مشاہدہ اس کے ضروری عناصر ہیں۔ نظم میں ایک ہی موضوع ہوتا ہے اور پوری نظم میں صرف اسی ایک موضوع کے بارے میں مختلف زاویوں سے اظہار خیال کرنا آسان نہیں۔ خیال پر حدود و قیود عائد ہو جاتی ہیں، الفاظ میں تصادم کا احتمال ہوتا ہے، بیانات میں تضاد یا مماثلت سے اجتناب کرنا ہوتا ہے، زاویۂ نظر کو مسلسل تبدیل کرنا ہوتا ہے اس طرح کہ تمرکز میں فرق نہ آئے، جدتِ طبع بھی نمایاں رہے اور جس موضوع پر اظہار خیال کیا جارہاہے اس کا دامن بھی ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے۔
غزل میں تو ہر شعر علاحدہ مضمون ادا کرتا ہے، ایک شعر کا دوسرے شعر سے مربوط ہونا ممنوع ہے لیکن نظم میں ہر شعر کا دوسرے شعر کے مفہوم سے مربوط ہونا لازم ہے۔ اگر ایک شعر کو دوسرے شعر کا فراق نصیب ہو تو نظم کا معاملہ ہی بگڑ جاتا ہے۔
ڈاکٹر غلام شبیر رانا نے برقی اعظمی کی موضوعاتی نظموں کے بارے میں لکھا ہے:
’’موضوعاتی شاعر اور اس کے پسِ پردہ کارفرما لاشعوری محرکات کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ معاصر ادبی دور میں موضوعاتی شاعری نے ایک مضبوط اور مستحکم روایت کی صورت میں اپنی افادیت کا لوہا منوایا ہے۔ نامور پاکستانی ادیب اور نامور [شاعر] محسن بھوپالی کا ایک شعری مجموعہ ’’موضوعاتی شاعری‘‘ کے نام سے آج سے پندرہ برس قبل شائع ہوا تھا۔‘‘
اس بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس صنفِ سخن میں متعدد شعرا نے طبع آزمائی کی ہے۔ برقیؔ اعظمی کی نظموں کا جائزہ لینے سے پہلے ضروری ہے کہ ان کو دو انواعِ نظم میں اختصاص دیا جائے تاکہ دونوں اوصاف ادب کو نمایاں کیا جاسکے۔ اول وہ نظمیں جو کسی فرد واحد یا شخص کے فن، ہُنر یا کسی خاص وصف کے اعلان یا توصیف کے پیشِ نظر تخلیق کی گئیں۔ دوم وہ نظمیں جو کسی واقعے، کسی کتاب کی اشاعت، کسی کُتُب خانے کے قیام، کسی تقریب یا کسی اہم موقع کے بارے میں۔
اول الذکر مجموعۂ تخلیق کو اگرچہ ایک حد تک ’’شخصی مدح‘‘ کہا جا سکتا ہے لیکن ’’مدح‘‘ کے لیے جو صنفِ سخن مقرر ہے وہ ’’قصیدہ‘‘ ہے، جو نظم سے مختلف ہوتا ہے۔ لہذا برقیؔ اعظمی کی اس نوع کی تخلیقات کو نظم ہی کہا جائے گا۔ اور ان کو مدح بھی اس لیے نہیں کہا جا سکتا کہ برقیؔ کی نظموں میں وہ غلو اور تصنع نہیں جو قصیدے میں لازمی ہوتا ہے۔ ان کو ’’اعتراف‘‘ یا ’’خراج تحسین‘‘ کا مقام دیا جانا زیادہ مناسب ہے۔
برقیؔ اعظمی کی نظموں میں الفاظ کا حسن نمایاں ہے، جس سے ان کی نظموں میں ایسی دل کشی پیدا ہوجاتی ہے جو ان کے بیان کو ممتاز قرار دیتی ہے۔ وہ اپنے خیال کی تصویر کشی میں نامانوس الفاظ کا سہارا نہیں لیتے، نہ ایسے دقیق الفاظ استعمال کرتے ہیں جن کے مطالعے سے قاری کی قرأت میں تکلف ہونے لگے۔ بیانات میں سادگی بہت اچھی سمجھی جاتی ہے، لیکن سادگی کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ اس سے فصاحت اور بلاغت متا ثر ہوں ۔ برقیؔ اعظمی کی نظموں میں زبان فصیح اور علمی ہوتی ہے۔ ان کی ایک ’’شخصی موضوعاتی‘‘ نظم سے اقتباس درج ذیل ہے:
بیاد فیض احمد فیضؔ
فیض احمد فیضؔ کا رنگِ سخن ہے دل پذیر
جن کی عظمت کا ہے شاہد خطۂ برِ صغیر
شاعری سے ہے نمایاں اُن کی عصری حسیت
نُدرتِ فکر و نظر ہے ان کی مثلِ جوئے شیر
تھے سپہرِ شاعری پر ضوفشاں تا زندگی
وہ جہاں بھی تھے وہاں شعر و سخن کے تھے امیر
میں ہوں برقی اعظمی ان کے سخن کا قدرداں
ہے عروسِ فکر و فن بھی جن کی زلفوں کی اسیر
اس نظم کی خصوصیت یہ ہے کہ فیض کے شعر و سخن کی تعریف میں برقیؔ نے زمین و آسمان کے قلابے نہیں ملائے بلکہ حقیقت بیانی سے کام لیا اور اس خوبی کے ساتھ فیضؔ کو سراہا کہ ان کے فکر و فن کی توصیف بھی ہوجائے اور بے جا تکلفات سے بھی کام نہ لیا جائے۔ انھوں نے فیضؔ کی ذات کو تعریف کا مقصد نہیں بنایا بلکہ ان کے دل پذیر رنگِ سخن کے بارے میں محققانہ انداز سے اظہار خیال کیا ہے۔
یہی ان کی نظموں کی خوبی ہے۔ وہ کسی کی ذات کو قصیدہ گوئی کا مورد قرار نہیں دیتے، بلکہ اس کے اوصاف کو منظوم خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ ایک اور ’’شخصی موضوعاتی نظم‘‘ ہے:
نقشبند قمر نقوی کا شعر و ادب میں نہیں جواب
ایسے ادیب و شاعر ہیں اردو دنیا میں اب کم یاب
ان کا ہے منظوم حماسہ شعر و ادب کا اک شہ کار
نام قمر ہے جیسے ان کا خود ہیں وہ مثلِ مہتاب
اُن کے ہے رشحاتِ قلم کی اک لمبی فہرست
جلوہ فگن ہے سپہرِ ادب پر جس کی آب و تاب
ان اشعار سے بھی واضح ہوتا ہے، انھوں نے بے جا مدح گوئی سے اجتناب کیا ہے، حقیقتِ واقعہ بیان کرنے میں انھوں نے راستی اختیار کی۔ یعنی قصیدہ نہیں تخلیق کی ہے۔ ایک اور نظم کے بھی چند اشعار قابلِ توجہ ہیں :
ابن صفی سپہر ادب کے تھے ماہتاب
اردو ادب میں جن کا نہیں ہے کوئی جواب
وہ اپنے دوستوں کے دلوں میں ہیں آج تک
ویب سایٹ ان کی کیوں نہ ہو عالم میں انتخاب
جاسوسی ناولوں میں جو ہیں ان کے شاہ کار
اپنی مثال آپ ہیں وہ اور لاجواب
اس نظم میں ایک خاص بات یہ ہے کہ برقیؔ نے الفاظ بھی مضمون کی مناسبت سے استعمال کیے، ایسا کوئی جملہ اس نظم میں نہیں جس میں موضوع نظم کے متن سے خیال ذرا سا بھی جدا ہوا ہو۔
نظم کے لیے ضروری ہے کہ اس کا ہر شعر مقصدِ اصلی سے اس طرح مربوط اور منسلک ہو کہ کسی موقعے پر خیال کو اپنی مسیر سے ہٹنے کا موقع نہ ملے۔ قصیدے کا ایک برا حصہ محض خیال آرائی پر مبنی ہوتا ہے، جب کہ نظم میں ایسا ممکن نہیں، خصوصاََ برقیؔ کی نظموں میں تمرکزِ خیال کی خوبی نہایت نمایاں ہے۔ وہ کسی شخص کو خراج عقیدت بھی پیش کرتے ہیں تو اس کے ذات کے پیشِ نظر نہیں بلکہ اس کے فن یا خصوصیات ہی کی توصیف کرتے ہیں۔ میر تقی میرؔ کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے انھوں نے کہا :
میر کی شاعری میں ہے سوزِ دروں
مُنعکس جس سے ہوتا ہے حالِ زبوں
اُن کا رنگِ تغزل ہے سب سے جدا
آج بھی جس سے ملتا ہے ذہنی سکوں
اسی طرح غالبؔ کے بارے میں انھوں نے جو کچھ کہا، اس سے اقتباس درجِ ذیل ہے:
آج تک اردو ادب کے برقیؔ
محسنوں میں ہے شمارِ غالبؔ
ان کے اشعار کی سلاست خاص طور سے قابلِ ذکر ہے۔ باوجودیکہ وہ فارسی کے عالم ہیں اور ان کا ذہن اس زبان کے عیاں و نہاں سے مملو ہے، لیکن ان کی نظموں کی زبان سادہ، رواں اور ایسے الفاظ و تراکیب سے ممتاز ہے جو عام فہم بھی ہیں اور غیر فصیح بھی نہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان کی نظموں میں روانی کے ساتھ ساتھ غنائیت کا بھی وجود ہے۔
یہ ان نظموں کا اجمالی جائزہ تھا جو ’’شخص یا فرد‘‘ سے متعلق ہیں۔ اگرچہ ان کا تعلق بھی خالصتاََ کسی فرد کی ذاتی حیثیت سے نہیں بلکہ اس کے فکر و فن سے ہے۔ لیکن ان نظموں کو ’’شخصی‘‘ دائرے میں رکھنا ہی مناسب ہے۔
اُن کے دوسرے دائرہ فکر کی نظمیں وہ ہیں جن کا تعلق کسی واقعے، کسی اشاعت، کسی تقریب، یا صورتِ حال وغیرہ سے ہوتا ہے جن میں ان کی تخلیقی فعالیت، اہلیت اور قابلیت کا انعکاس زیادہ قابلِ توجہ ہے۔ یہ نظمیں جس موضوع کی طرف رجوع ہوتی ہیں ان کے ساتھ پوری طرح انصاف کرنے کے علاوہ، ایک لفظی تصویر نقش کردیتی ہیں۔ وہ موضوع نظم کی جمالیاتی اور فنی اقدار کو نمایاں کردیتے ہیں، اور اس خوبی کے ساتھ کہ قاری ان کا ہم خیال ہو جاتا ہے۔ یہ ان کی انفرادیت کا آئینہ دار عنصر ہے۔
ان کا اسلوب بیان منفرد ہے، ان کا طرز بیان اس قدر دل کش ہے کہ اس میں الفاظ کی عمدگی، خوبی سلاست اور انتخاب الفاظ سبھی ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ وہ طبیعت کو کسی تخلیق کے لیے مجبور کرتے ہوں بلکہ ان کا وجدان ایسی شعوری کیفیت پیدا کردیتا ہے جس سے ان کے ادب پارے وجود میں آنے کو بے تاب ہوجاتے ہیں۔ جیسے ان کے شعور سے فکر کا چشمہ اُبَل پڑتا ہے، اور وہ سیلاب تخیل از خود غیر شعوری طور پر موزوں اور مناسب الفاظ کا خلعت زیب تن کرلیتا ہے۔
نذرِ مرکزِ علم و ادب ، بھوپال
مرکزَ علم و ادب بھوپال کا عز و وقار
اس کی تہذیبی روایت سے ہے سب پر آشکار
ہے یہ صدیوں سے مشاہیرِ ادب کی زادگاہ
بحرِ ذخارِ ادب کی تھے جو دُرِ شاہوار
اس کی عظمت میں نوابوں نے لگائے چار چاند
ہیں نوادر جن کے اب بھی باعثِ صد افتخار
بیگموں کے کارنامے بھی ہیں اس کے لازوال
ہیں در و دیوار سے اس کی جو اب تک آشکار
اس نظم میں بھوپال کے بارے میں برقیؔ اعظمی نے جس طرح اظہارِ تاثرات کیا ہے وہ اپنے بیانیے اور تناسبِ لفظی کے اعتبار سے نہایت مناسب بھی ہے اور بھوپال کی متعدد خصوصیات کا احاطہ بھی ایسے خوب صورت طرز سے ہوتا ہے کہ قاری کے ذہن میں پہلے تو تجسس کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور اس کے بعد دل چسپی اور آخر میں توصیفی تاثر ظاہر ہوجاتا ہے۔
اہم نکتہ یہ کہ انھوں نے اس علمی مرکز کی توصیف کے لیے جو الفاظ منتخب کیے ہیں وہ نفسِ مضمون سے اس خوبی کے ساتھ ہم آہنگ ہیں کہ بات نہایت دل نشین انداز سے واضح ہوجاتی ہے۔
دبستان شعر و ادب لکھنؤ کے بارے میں ان کی ایک نظم کے چند شعر ملا حظہ ہوں:
لکھنؤ کا حسن ہے دنیا میں فخر روزگار
جس کی تہذیبی روایت ہے نہایت شان دار
ہیں امین آباد و حضرت گنج اس کے سر کا تاج
دامنِ دل کھینچتے ہیں سب کا جو دیوانہ وار
اس کا ماضی بھی درخشاں حال بھی ہے تابناک
حکمراں اس شہر پر تھے شہرِ دل کے شہریار
آرزو ہوں، آصف الدلہ ہوں یا ہوں میر انیس
اس کو بخشا ہے نوابوں اور ادیبوں نے وقار
شہرۂ آفاق ہے اس کا دبستاں ادب
بخشے ہیں اردو ادب کو جس نے صدہا شاہ کار
ہے نزاکت لکھنؤ کی آج بھی ضرب المثل
شوخیِ گفتار ہے اس کا ہمیشہ سے شعار
تصوف ایک روحانی نظام
ہے تصوف ایک روحا نی نظام
جاری و ساری ہے جس کا فیض عام
صوفیا ہیں علم باطن کے امیں
مطلعِ انوار ہے جن کا پیام
اس کی تعلیمات ہیں درسِ حیات
تا نہ ہوں حرص و ہوس کے ہم غلام
تصوف اسلام میں خلافتِ راشدہ کے دور میں بعض اکابر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے وسیلے سے معرض وجود میں آیا اور وہ ہمیشہ مسلمانوں کے روحانی تصفیہ اور تزکیہ کا باعث رہا۔ تمام عالمِ اسلام میں ان صوفیا اور اولیاے کرام نے اسلام کے فروغ اور عوام کے کردار کی اصلاح کے لیے بیش بہا خدمات انجام دیں۔ ہندستان میں بھی ان کی بہت بڑی تعداد ہے۔ برقی اعظمی نے تصوف کے بارے میں مختصر ہی نظم لکھی لیکن ہر شعر ان کے خلوص و دیانت کا شاہد ہے۔
حیدر آباد دکن کے بارے میں ان کی ایک نظم سے اقتباس درج ذیل ہے۔
حیدر آباد دکن
حیدرآباد ہے سر چشمۂ تہذیب کُہن
جس کی عظمت کے نشاں اس کے ہیں ابنائے وطن
ضوفگن اس میں تھے ہر دور میں حکمت کے چراغ
ہے یہ تہذیب و تمدن کا تر و تازہ چمن
چار مینار ہی اس کی نہیں عظمت کا نشاں
قابلِ دید ہیں اس کے سبھی آثارِ کہن
زیبِ تاریخ ہیں اسمائے گرامی جن کے
ہے یہ صدیوں سے مشاہیر ادب کا مدفن
مجتبیٰ، مغنی و مخدوم کے افکار سے ہے
نام اس شہر کا دنیائے ادب میں روشن
تھا یہ ہر دور میں گہوارۂ اردو برقیؔ
ضوفگن آج بھی اس شہر میں ہے شمعِ سخن
اس نظم کے ہر لفظ سے حیدرآباد جلوہ فگن ہے، اور زبان و بیان کی خوبی اس پر مستزاد ہے۔ اگرچہ یہ نظم طویل نہیں ہے، اس کے باوجود برقیؔ نے ہر وہ ضروری بات کہہ دی ہے جس سے حیدر آباد کی اہمیت کا اندازہ کیا جا سکے، یا جو قابلِ ستایش رہی ہو۔ اس نظم میں بھی الفاظ کی نشست خاص طور سے قابل دید ہے۔ ’’چار مینار‘‘ کے علاوہ چند ممتاز دانشوروں کے نام بھی شامل کردیے جن سے نظم کی حیثیت میں تاریخ کا ہلکا سا رنگ آگیا۔
اسی خاندان کی ایک اور دل کش نظم۔
’’ٹورنٹو سے شایع ہونے والی اردو ویب میگزین کے دس سال مکمل ہونے پر‘‘
ہے جو انٹرنٹ پہ سرگرم عمل ’’شعروسخن‘‘
ہو مبارک اس کے یہ دس سال کا ادبی سفر
ادبی تقریبات کی یہ سب کو دیتا ہے خبر
ہے نگاہوں میں جو اربابِ نظر کی معتبر
ہے یہ ٹورانٹو میں اردو کا سفیرِ بے نظیر
معترف خدمات کے ہیں جس کی اربابِ نظر
ادبی دنیا میں ہے جو اب مرجعِ دانشوراں
محسنِ اردو کے ہے نخلِ سعادت کا ثمر
نام ہے سردارعلی، ہے کام جن کا بے نظیر
ہیں جو دنیاے ادب میں سب کے منظورِ نظر
برقیؔ موضوعات کے انتخاب میں بھی ایک استثنائی شعور سے کام لے کر ایسے موضوعات منتخب کرتے ہیں جو نہ صرف واقعے یا مقام [کی] خوبیوں کا بیان ہی بن سکیں، بلکہ ان کی خصوصیات سے قارئین مستفیض بھی ہو سکیں۔ ان کی ایک دل چسپ نظم ’’ماحولیاتی آلودگی‘‘ اس کی غمازی کرتی ہے جس سے ایک اقتباس درج ذیل ہے۔
بھاپ کا انجن چلا تھا آج کے دن پہلی بار
چلتی ہیں ہر سو ٹرینیں اب قطار اندر قطار
مستحق ہیں داد کے سائنس داں اس کے لیے
روز کرتے ہیں نئی ایجاد کا سب انتظار
زد میں ہے تحقیق کی ان کی نظام کائنات
اُن کی استعداد پر ہے ہر کسی کو اعتبار
کررہے ہیں جو بھی یہ انجام دیں وہ شوق سے
بس نہ ہونے دیں کبھی ماحول کو ناسازگار
ہو نہ جائے یہ گلوبل وارمنگ سوہانِ روح
زندگی کا سب کی ہے ماحول پر دارومدار
اس نظم میں انھوں نے اپنے موضوع کے ساتھ پوری طرح انصاف کیا ہے۔ مشینوں کی روز افزوں ایجاد، گیسوں کا استعمال اور اس کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی فضائی حرارت سے انسان متفکر ضرور ہے، برقیؔ اعظمی نے اس موضوع کو اپنی نظم کا مرکزی خیال بنا کر اپنے شعور کی بیداری کا ثبوت فراہم کیا ہے اور اس کو ایسی خوبی کے ساتھ بیان کیا ہے کہ ساری نظم کا مطالعہ دل چسپی کو برقرار رکھتا ہے اور بعض اہم نکات کی آئینہ داری کرتا ہے۔
گذشتہ صفحات میں برقی کی جن موضوعاتی نظموں سے دونوں خاندانوں کی نمائندگی کرنے والے اقتباسات دیے گئے وہ ان کے کمال فن کے آئینہ دار ہیں۔ اگرچہ مزید نظموں کے متعدد اشعار ایسے ہیں جن کا یہاں تذکرہ دل چسپی خالی نہ ہوتا، لیکن مضمون زیادہ طویل ہوجاتا۔
برقی اعظمی کو زبان و بیان پر قدرت حاصل ہے۔ وہ جس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں اس کی خوبیوں کو ایسے مناسب انداز سے نظم کرتے ہیں کہ نفس مضمون کی تصویر بن جاتی ہے اور کسی شعر سے آورد کا احساس نہیں ہوتا۔ ان کی نظموں کے اشعار جیسے ایک الہامی زنجیر بنے وارد ہوجاتے ہیں اور اس کے متن کے ساتھ پورا پورا انصاف ہوجاتا ہے، اس کی خوبیاں نمایاں ہو جاتی ہیں، اس کے اہم نکات سے پردہ اٹھ جاتا ہے اور اس کے اوصاف کا شیشہ جھلکنے لگتا ہے۔
ان کو زبان پر غیر معمولی قدرت حاصل ہے۔ غیر ضروری ثقیل الفاظ سے اجتناب کرنے کے باوجود ان کی نظموں میں ایسے فصیح و بلیغ الفاظ استعمال ہوتے ہیں جو اُن کی اعلا لسانی اہلیت کو نمایاں کرتے ہوئے موضوع نظم کو بھی ایک ایسا گلدستۂ صد رنگ بنا دیتے ہیں جو نہ صرف عطر بیز بھی ہوتا ہے بلکہ نغمہ ریز بھی ہو جاتا ہے۔
وہ اپنی نظموں میں اردو کی فصاحت کو نہایت چابک دستی کے ساتھ قائم رکھتے ہیں۔ یہی ان کا کمال ہنر ہے، اور مشکل کام بھی۔ موضوعات نظم کو بہ اعتبار لفظیات وہ مناسبت عطا کرنا جو نفس مضمون سے کاملاََ مطابقت رکھتی ہو ہر ایک کا کام نہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب لفظ و بیان پر قدرت کے علاوہ خیالات کو مرکوز کرنے کی صلاحیت بھی خالق نظم کو میسر ہو، برقیؔ کو یہ صلاحیت بخوبی میسر ہے۔
وہ جب کوئی نظم لکھتے ہیں تو اس کے مرکزی خیال سے سرِ مو تجاوز نہیں کرتے، مطلع سے مقطع تک ان کی فکر ایک ایسا تسلسل قائم رکھتی ہے جسے مہکتے ہوئے پھولوں [کے] ہار سے تشبیہہ دی جا سکتی ہے۔ جیسے وہ الفاظ اور جملوں کو ایک ریشمی ڈوری میں پرو دیتے ہوں، اور اس مہارت کے ساتھ کہ اس ہار کا کوئی موتی یا پھول کسی کم و بیش کا شکار بھی نہیں ہوتا۔
قومی کونسل برائے فروغ زبان اردو پر ان کی ایک نظم ملاحظہ فرمائیں:
مرجع اہل نظر ہے قومی اردو کونسل
نخل دانش کا ثمر ہے قومی اردو کونسل
کرتی ہے محفوظ یہ سرمایہ اردو ادب
بہتر از لعل و گہر ہے قومی اردو کونسل
اس کی بزم آرائیاں ہیں سب کی منظورِ نظر
اک ادارہ معتبر ہے قومی اردو کونسل
اس کی مطبوعات ہیں آئینہ نقد و نظر
ناشر فکر و نظر ہے قومی اردو کونسل
چل رہی ہے ساتھ اپنے وقت کی رفتار کے
کارساز دیدہ ور ہے قومی اردو کونسل
کررہی ہے زیور تعلیم سے آراستہ
نامدار و نامور ہے قومی اردو کونسل
اردو میں یہ لارہی ہے ایک ڈیجیٹل انقلاب
سب کی منظورِ نظر ہے قومی اردو کونسل
عہد نو میں ہے یہ برقی ناشر شعر و ادب
چارہ ساز و چارہ گر ہے قومی اردو کونسل
برقیؔ اعظمی ایک نہایت با صلاحیت، صاحبِ فن اور قادرالکلام شاعر ہیں اور موضوعاتی نظم کے میدان میں ان کا مقام بہت بلند، انفرادیت کا حامل اور ممتاز ہے.
***
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :احمد علی برقی اعظمی کی غزلیہ شاعری

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے