حج ٢٠١٩۔ تلخ و شیریں مشاہدات

حج ٢٠١٩۔ تلخ و شیریں مشاہدات

 محمد بشیر مالیر کوٹلوی

میرے لیے سال ٢٠١٩ بہت ہی مبارک ثابت ہوا۔ اس سال میری برسوں کی تمنّا پوری ہوگئی۔ جی ہاں۔۔۔! مجھے حج ادا کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ اپنی شریکِ حیات کے ساتھ جولائی ٢٠١٩ء کے پہلے ہفتہ میں سجدوں کی اُس سر زمین کی زیارت کے لیے روانہ ہوا۔ پہلا پڑاؤ خوش قسمتی سے مدینہ ہی تھا۔ جہاں رہ کر ہمیں چالیس نمازیں ادا کرنا تھیں۔ وہ بھی باجماعت اور اقامت کے ساتھ۔ ہمارے حصّے میں جو ہوٹل آیا وہ بہتر تھا۔ حج کمیٹی کے انتظامیہ نے ہمارے لیے ایک کمرہ نامزد کر دیا، ہم اپنا سامان لے کر جب کمرے میں داخل ہوئے وہاں پانچ افراد پہلے سے ہی موجود تھے۔ یہ الگ بات کہ دو خالی بستر ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ کمرے میں سامان رکھنے کی جگہ نہ تھی۔ کیونکہ پانچ بندوں نے پہلے سے ہی اپنا سامان ایڈجسٹ کر لیا تھا۔
میں یہ مضمون کسی پر الزام لگانے کے لیے یا کسی کو بد نام کرنے کے لیے نہیں لکھ رہا ہوں۔ پچھلا سال کرونا کی نذر ہوگیا۔ دنیا بھر سے اس مبارک سفر کرنے کے لیے کوئی گھر سے نہیں نکلا۔ اس سال سرکار کی طرف سے شاید اعلان ہوا تو یہ چند باتیں آپ کے سامنے رکھنے جا رہا ہوں تاکہ آپ کو ہندستانی حج کمیٹی جو ٹی۔وی اور پرنٹ میڈیا پہ اپنے حسنِ انتظام کا ذکر کرتی ہے آپ کو ان کے حسنِ انتظام کے بارے میں مطلع کردوں اور یہ بھی کہ ہم پہ کیا بیتی۔ بہرحال ہم سات افراد تھے جو گندم کی بوریوں کی طرح ایک کمرے میں بھر دیے گئے تھے۔ جہاں خیر سے ایک غسل خانہ تھا۔ باورچی خانہ ندارد۔ بعد میں پتا چلا کہ کمرے میں آگ جلانا منع ہے۔ باتھ روم میں ایک آدمی جاتا تھا باقی لوگ انتظار کی گھڑیاں گننے کے لیے مجبور ہوجاتے۔ کچھ اس مقدس شہر کی برکتیں کچھ ہمارا ثواب لوٹنے کا جذبہ، ہم نے مل کر خوشی خوشی وقت گذارا۔ جب ہمارا مدینہ سے کوچ کرنے کا وقت آیا تو بخدا مدینہ چھوڑنے کو جی نہیں چاہ رہا تھا۔ دل چاہتا تھا کہ ساری زندگی کے لیے اسی شہر میں مقیم ہو جائیں۔ میرے آقا کا شہر ہے ہی اتنا پرکشش اور پیارا کہ بیان سے باہر ہے۔
14جولائی کو نویں دن ہمیں مکّہ معظمہ کے لیے روانہ کر دیا گیا اور ہوٹل خدا دست ہمارا مسکن بنا دیا گیا۔ ہماری خوش قسمتی یہ رہی کہ مذکورہ ہوٹل مین روڈ پہ واقع تھا اور سڑک پارکرتے ہی جامع مسجد محفوظ موجود تھی۔ نماز باجماعت پڑھنے کی بڑی سہولت تھی۔ مکّہ میں ہم 36 دن مقیم رہے۔ وہاں کے تلخ و شیریں مشاہدات آپ کے سامنے پیش کرنے جا رہا ہوں کیونکہ آپ کو بھی ان شاء اللہ اس مقدّس سر زمین پر پاؤں رکھنا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ ہر کلمہ گو کو حج ضرور نصیب کرے۔ (آمین)۔ مدینہ شہر کا ذکر ہی کیا کریں وہ تو جیسے ایک خوب صورت خواب تھا۔ قدم قدم پر صفائی کرمچاری۔ گلیاں، سڑکیں اس قدر صاف ستھری اور جاذب نظر کہ جنّت کا گماں ہوتا ہے۔ اس سرزمین کی سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ وہاں جاکر انسان صرف حال میں جیتا ہے۔ نہ ماضی کی تلخ و شیریں یادیں، نہ مستقبل کی کوئی فکر۔ مسجدِ نبوی اس قدر مکمل اور خوب صورت کہ کچھ مت پوچھیے۔ حکومت کا بہتر سے بہترین انتظام۔ ایک مزے کی بات یہ کہ مسجد میں ہر وقت آبِ زم زم میّسر ہے۔ جس قدر چاہیے پیجیے۔ مسجد کے اندر کی ایک بات ہمیں اچھی نہیں لگی۔ وہ یہ کہ ہر دروازے کے آگے جوتے رکھنے کے لیے محفوظ چوبی جگہیں بنی ہوئی ہیں۔ حاجی لوگ جوتا وہاں رکھنے کی بجائے جوتے ہاتھ میں پکڑ کر اندر لے جاتے ہیں۔ مسجد کے اندر بہت ہی عمدہ سنگِ مر مر کے ستون بنے ہوئے ہیں جن کے نچلے حصّوں میں سیٹ اے۔سی ٹھنڈی ہوا چھوڑتے رہتے ہیں۔ ستونوں کے ساتھ دائیں بائیں لکڑی کے ریک بنے ہوئے ہیں۔ ایک طرف والے ریک میں پچاسوں قرآن کے نسخے پڑے رہتے ہیں۔ اُٹھائیے، پڑھیے اور وہیں رکھ دیجے۔ پلّر کی دوسری طرف والے ریک میں لوگ جوتے رکھتے ہیں۔ کئی بار ہم نے دیکھا کہ جوتوں اور قرآن کا فاصلہ بہت کم رہ جاتا ہے یہ بات تکلیف دہ ہے۔ عصر کی نماز پڑھ کر ہم مسجدِ نبوی میں بیٹھے رہتے تھے، مغرب پڑھ کر ہی باہر نکلتے تھے۔ عصر کے بعد یکایک نوجوان اور پھرتیلے لڑکے آجاتے اور آناً فاناً سب کے سامنے دسترخوان بچھا دیتے۔ دیکھتے ہی دیکھتے دستر خوان پر موٹے کاغذ کی پلیٹوں میں کھجوریں، پتلی تندوری روٹی جیسی ڈبل روٹی اُسے ہم بَن بھی کہہ سکتے ہیں اور دہی کے کاغذی کپ اور چمّچ۔ مسجد میں نمازی چاہے پچاس ہزار ہوں یا دس ہزار، دس منٹ میں یہ ناشتہ سب کے سامنے پہنچ جاتا۔ وہ کھجوریں اوپر سے زرد اور نیچے سے براؤن ہوتی ہیں جو بے حد میٹھی ہوتی ہیں۔ ناشتہ کے بعد اگر آپ چائے کے خواہش مند ہیں، قہوہ سے آپ لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ کوئی ہلڑ بازی نہیں ہوتی۔ لوگ بڑے سکون سے ناشتہ کرتے ہیں۔ کچھ لوگ کھاکر، کچھ چیزیں اپنے کیری بیگ میں رکھ لیتے ہیں۔ جس کے لیے کوئی منع نہیں کرتا۔ مدینہ شہر اور مسجد نبوی کی کس کس چیز کی تعریف کی جائے۔ ہر لحاظ سے مکمل اور خوب صورت. جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ مدینہ کھجور کی بڑی منڈی ہے۔ ہم سب نے مدینہ سے ہی کھجوریں خرید لی تھیں۔ دوسری چیزوں کی خریداری بھی مدینہ میں ہی مناسب رہتی ہے۔
مکّہ معظمہ پہنچ کر ہمیں ہوٹل پہنچا دیا گیا۔ پہلے ہوٹل کا حال سنیے۔ یہ ہوٹل بنا ہی حجاج کرام کے لیے تھا، ہر ایک منزل پر ایک طرف تین کمروں کا سیٹ جس میں دو باتھ روم، ایک کچن ساتھ میں ایک عدد فرج۔ ایک کمرے میں چار پانچ افراد کے لیے ایک ڈریسنگ الماری، جتنے حاجی کمرے میں اتنے ہی بیڈ۔ سفید بیڈ شیٹیں اور سفید پلّوکور۔ پورے ہوٹل میں پنجاب کے تمام حجاج کرام سماگئے۔ ہم چھے افراد ایک کمرے میں تھے۔ ایک اندازے کے مطابق ہوٹل سال بھر میں صرف حج کے ایّام میں ہی کھولا جاتا ہوگا۔ شاید سال بھر کے لیے بلڈنگ بند رہتی ہے۔ کیونکہ ہوٹل کی خستہ حالی کا یہ عالم ہے کہ کیواڑ دیمک زدہ ہیں۔ باتھ روم میں صرف انگلش شیٹ، اُس کا بھی اوپر والا رنگ ٹوٹا ہوا تھا۔ ہماری پوری بلڈنگ میں انتظامیہ نے تین چار بنگلہ دیشی لڑکے مقرّر رکھے تھے۔ ہماری پریشانیوں اور ضرورتوں کو تو وہ بغور سنتے تھے۔ مگر کوئی حل نہیں تھا اُن کے پاس حاجیوں کے مسایل کا۔ 36 دنوں میں ہماری ٹائیلیٹ کا رنگ نہیں بدلا گیا، سیٹ کی ٹنکی بھی میں خود ہی ٹھیک کر لیتا تھا۔ مدینہ میں 9 دنوں کے لیے ہوٹل اچھا دیا، جس کے باتھ روم میں تولیے بھی ملتے تھے۔ شیمپو وغیرہ بھی میسّر تھے۔ مکّہ میں ایسا کچھ نہ تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہماری حج کمیٹی آف انڈیا کے ذمّہ داران خود جاکر حجاج کی رہائش کے لیے ہوٹل پسند کرتے ہیں۔ ساری بات یہاں ختم ہوتی ہے کہ دوسرے ممالک کی حج کمیٹیاں ایک جذبہ کے تحت کام کرتی ہیں ہمارے ہاں دکھاوے کے لیے محض خانہ پُری کی جاتی ہے۔ حج سے لوٹ کر عزیزیہ والے صرف شکایت زبان پر لاتے ہی نہیں، تقریباً ٨٠ فی صد لوگ تو ان پڑھ ہوتے ہیں۔ دوسرے لوگ بھارت آکر ساری تکلیفیں بھول جاتے ہیں۔ اسی لیے اگلے سال جانے والوں کو وہی زیادتیاں بھگتنی پڑتی ہیں جو حالیہ سال والوں نے بھگتیں۔
مکّہ میں قیام کے تیسرے دن ہمارے کمرے کی ایک خاتون کو بخار آگیا۔ وہ ماں اور بیٹا تھے۔ خاتوں بخار سے جل رہی تھی۔ ازراہِ ہم دردی میں اُن کے ساتھ ہندستانی ڈِسپینسری چلا گیا جو پنجاب، ہریانہ اور اترپریش کی اکلوتی ڈسپینسری تھی۔ ایک لمبے انتظار کے بعد ہمارا نمبر آگیا۔ ڈاکٹر نے خاتون کو نظر بھر دیکھا اور نسخہ لکھنے لگا۔ میں نے دبی زبان میں کہا، ڈاکٹر صاحب مریض کو تھرمامیٹر تو لگا کر دیکھ لیں کہ کتنا بخار ہے۔ ڈاکٹر اس طرح چونکا جیسے میں نے اُس کو گالی دے دی ہو، پیشانی پر بل ڈال کر بولا، ڈاکٹر میں ہوں یا تم ہو، میں نے جواب دیا، سر آف کورس یو آر دی ڈاکٹر۔ ڈاکٹر کے لہجہ سے پتہ چلتا تھا کہ وہ ساؤتھ انڈین ہے۔ میں عاجزی سے بولا، سَر جب ہمیں معلوم ہوگا کہ مریض کو بخار ١٠٠ ہے یا ١٠٤ تبھی ہم دوا دیں گے۔ اتنا سننا تھا کہ ڈاکٹر ہتھّے سے اُکھڑ کر بولا بلکہ چلّایا۔ ہمارے پاس تھرمامیٹر نہیں ہے۔ ہم کس کس کو تھرما میٹر لگائیں۔ کافی لَے دے ہوئی۔ خاتون کی حالت غیر ہو رہی تھی۔ میں نے کمرے سے باہر نکلنا بہتر سمجھا۔ باہر ڈسپنسری کے دو ملازم مجھ سے الجھ گئے کہ مجھے ڈاکٹر صاحب سے ایسے بات نہیں کرنا چاہیے تھی۔ میں نے کہا بھائی ڈاکٹر کے اخلاق اور اچھے سلوک سے ہی مریض آدھا شفایاب ہوجاتا ہے۔ وہ بھی کیا کریں۔ تین چار ڈاکٹر اور ہزاروں مریض گلے کی انفیکشن تو وہاں نوّے فی صدی لوگوں کو ہوجاتی ہے۔ عرفات میں قیام کے دوران بیگم کی علالت کے سلسلے میں مجھے وہاں کے بڑے اسپتال میں جانا پڑا۔ عربی ڈاکٹروں کا اخلاق پیار بھرا سلوک سبحان اللہ۔ ان سے مل کر معلوم ہوا کہ حقیقت میں مومن کس قدر بلند اخلاق ہوتے ہیں۔ ایک ڈاکٹر لڑکی جو اردو بولتی تھی، وہ عرب تھی، اُس کی پیاری آواز بھولتی ہی نہیں۔ بیگم کو اس کا بار بار امّی کہنا تسلّیاں دینا اور بہترین ٹریٹمینٹ دو گھنٹے بعد جب ہم خیموں کی طرف لوٹے تو اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر میں نےاُسے دعا دی، کہ بیٹی اللہ تمھارے دل کی ہر مراد پوری کرے۔ حالانکہ اُن ڈاکٹروں نے اپنی ڈیوٹی نبھائی۔ اُن کا سلوک بھلایا نہیں جاتا۔ سلوک ہمارے ہندستانی بھائیوں کا بھی ناقابلِ فراموش ہے۔ مگر اُنھیں یاد کرکے دکھ ہوتا ہے اور عرب ڈاکٹروں کو یاد کرکے خوشی ہوتی ہے۔ دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ یاد یاد کا فرق ہے۔ سرکار ہم سے میڈیکل ایڈ کے نام پر رقم تو لیتی ہے۔ مگر علاج معالجہ کی سہولت انتہائی کم زور ہے۔ کسی سے سوال نہیں کرسکتے۔ ڈاکٹر اپنا اخلاق شاید بھارت ماں کے قدموں میں ہی چھوڑ جاتے ہیں۔ ایک واقعہ سنیے، میری اور اہلیہ کی مکّہ میں یہی روٹین رہی کہ حرم شریف جانا، طواف کرنا اور بیٹھ کر خانہ کعبہ کو نہارتے ہوئے تسبیحات کرتے رہنا۔ ٣١ جوالائی کے دن جو ہم پر مصیبت ٹوٹی وہ ہم کبھی نہیں بھلا سکیں گے۔ اُس دن ہم حرم شریف میں تھے۔ بیگم کی طبیعت کچھ ناساز تھی۔ طواف کرنے کے بعد بیگم نے خواہش ظاہر کی کہ مطعب میں بیٹھنے کی بجائے ہم فرسٹ فلور پر چل کر بیٹھیں، وہیں عبادت کرتے رہیں گے اور خانہ کعبہ کو دیکھتے رہیں گے۔ میرا بھی جی ایسا ہی ہو رہا تھا۔ میں نے ہاں کر دی۔ اس دن بلا کا رش تھا۔ ہم الیکڑک سیڑھی کی طرف بڑھ گئے۔ رش کی وجہ سے ہم برابر برابر کھڑے ہونے کی بجائے بیگم مجھ سے ایک سیڑھی آگے کھڑی ہوگئیں، بیگم ایک دم بوکھلا گئیں اور سیڑھیوں سے لڑھک گئیں۔ نیچے سے میں نے سنبھالا اوپر انڈونشیا کی عورتوں نے کھینچا۔ جوں توں خطرہ ٹل گیا اور ہم فرسٹ فلور پر پہنچ کر دو کرسیاں لے کر بیٹھ گئے۔ بیگم کے پاؤں میں سخت تکلیف تھی۔ اُن کا پاؤں زخمی ہوگیا تھا اور خون بہنے لگا۔ میں نے جیب سے رومال نکالا۔ آبِ زم زم سے بھگو کر پاؤں میں باندھ دیا کہ خون بند ہوجائے گا۔ تھوڑی دیر بعد رومال پورا سرخ ہوگیا اور بیگم کا درد بھی سِوا ہوگیا۔ ہم دونوں وہاں سے اُٹھ کر بس اسٹینڈ کی طرف چل دیے۔ حرم شریف سے تقریباً ایک کلومیٹر کا فاصلہ آہستہ آہستہ طے کیا اور ہم ہندستان بس اسٹاپ پر پہنچ گئے۔ جہاں چھوٹا سا ٹینٹ لگا رہتا تھا اور ہمارا ترنگا لہرا رہا تھا۔ ٹینٹ میں کچھ ملازمین بیٹھے گپّیں ہانک رہے تھے۔ میں نے اُن سے کہا کہ بھئی ہماری بیگم کا پاؤں زخمی ہوگیاہے، خون بہہ رہا ہے۔ یہاں پر ڈسپینسری کا انتظام ہے۔۔۔؟ ڈریسنگ کروانا ہے۔ وہ برجستہ بولے، ڈسپینسری تو ہے صاحب، پٹّی کرنے والا کوئی نہیں۔ ہمارے دوسرے سوال پر انھوں نے بتایا کہ میڈیکل سٹاف آرام فرما رہا ہے۔ قہر درویش برجان درویش۔ دو چار تیکھے جملے سُناکر میں نے غصّہ نکالا۔ دو نمبر بس پکڑی اور جائے رہائش کی طرف روانہ ہوگئے۔ اپنے بس اسٹاپ اتر کر ہم قریب ہی ڈسپینسری کی طرف چل دیے۔ نرس سے پٹّی کرواکر ہم ڈاکٹر کے پیش ہوگئے۔ میں نے مختصراً سارا قصّہ سنایا۔ خاموشی سے سن کر ڈاکٹر نسخہ لکھنے لگے۔ میں نے عرض کی، ڈاکٹر صاحب اہلیہ کے پاؤں میں لوہا لگا ہے، آپ پلیز ٹائیٹینیس کا ٹیکا لگادیں۔ ڈاکٹر نے مجھے گھور کر دیکھا اور کہا ہمارے پاس ٹائیٹینس کا ٹیکہ نہیں ہوتا۔ سیڑھی کا آہنی کونہ پیر کو زخمی کر گیا۔ اگر کسی وجہ سے بیگم کو سیپٹک ہوجاتا تو جان جانے کا خطرہ بھی تھا۔ خدانہ کرے ایسا ہو جاتا تو کون ذمہ دار تھا۔ ظاہر ہے حج کمیٹی آف انڈیا۔ دو لاکھ روپے لے کر تھرڈ کلاس ہوٹل جس سے ہمارے دیش کی دھرم شالائیں بھی اچھی ہوتی ہیں۔ ڈسپینسریز کایہ حال کہ لوگوں کے ساتھ جانوروں کا سا سلوک کیا جاتا ہے۔ سارا عملہ تلخ زبان میں بات کرتا ہے۔ گنے چنے امراض کی گنی چنی دوائیاں جو ہر حاجی کے ہاتھ پر رکھ دی جاتی ہیں۔ طبّی سہولیات جو انسانی زندگی کے لیے اہم ہے اس کا یہ حال اور میڈیا پر دعوٰے کرتے ہیں کہ حاجیوں کے لیے کمیٹی بہترین انتظام کرتی ہے۔
دوسرا المیہ یہ کہ حجاج کرام کو اپنے گھر سے آٹا، چاول، دالیں، مرچ، مسالے، گھی اور ساتھ میں پورے برتن، توا پرات، بالٹی غرض کہ سارا سامان لے جانا پڑتا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کے حجاج جو کرنسی کے لحاظ سے تقریباً ہمارے برابر ہی رقم ادا کرتے ہیں اُن کو بہترین ہوٹلوں میں ٹھہرایا جاتا ہے۔ جہاں ناشتہ، کھانا اُن کو ہوٹل ہی مہیّا کرتا ہے۔ وہ کھانا پکانے کے تردّد سے بچ جاتے ہیں، کوئی سامان نہیں لے جاتے۔ دیگر ممالک کے حجاج مثلاً انڈونیشیا، بنگلہ دیش، ایران وغیرہ کو سات ستارہ ہوٹلوں میں ٹھہرایا جاتا ہے۔ شاید میرا بھارت ہی ایسا دیش ہے جس کے حاجیوں کو دوران حج عبادت کے ساتھ ساتھ روٹیاں بھی سینکنی پڑتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو حاجی دو لاکھ کی رقم دے سکتا ہے وہ ڈھائی بھی دے سکتا ہے۔ اپنی سہولت اور آرام کے لیے خرچ کر سکتا ہے۔ پھر یہ روٹیاں پکانا ہمارا ہی ٹریڈیشن کیوں بن گیا۔ اس کے باوجود بڑے بڑے دعوے کرنا ٹی۔وی اسکرین پر۔ ذرا دوسرے ممالک کے حاجیوں کا حال دیکھیے، کتنے مزے میں ہیں وہ لوگ۔ گھریلو کام کی اُن کو فکر نہیں ہوتی۔ بس صرف عبادت اور عبادت۔ اب کچھ ہمارے حاجی لوگوں کے بارے میں بھی سن لیں۔ مدینے میں تو سب ٹھیک ٹھاک رہا۔ مکّے میں آکر لوگوں نے اپنی عادات کا کھل کر مظاہرہ کیا۔ اُس سرزمین کے باشندے شیخ لوگ ازراہِ ثواب کھانے پینے کا سامان اپنے کارندوں کے ہاتھ گاڑیوں میں لادکر حاجیوں کے لیے بھیج دیتے ہیں۔ خیرات کا یہ مال دیکھ کر حاجی لوگ آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ ایک دن ایک گاڑی والا چھوٹے کیک پیس بانٹ رہا تھا۔ لوگ دیکھتے ہی ٹوٹ پڑے۔ مجھے دو دے، مجھے چار۔ کارندے نے تنگ آکر کیک پیس ہوا میں اچھالنے شروع کر دیے، ہمیں ماضی کے وہ دن یاد آگئے جب دولہا میاں کی گھوڑی کے آگے بچے مل کرتانبے کے پیسے اکنّی، دونّی لوٹا کرتے تھے۔ پانی کی بوتلوں، فروٹی کے پیکٹوں، بریانی کی پیکنگ پر حاجی لوگ اس طرح ٹوٹ پڑتے کہ خدا کی پناہ۔ تقسیم کرنے والے کارندے شور مچاتے، حاجی لائین، حاجی لائین، حاجی لائین۔ اُن کی کوئی نہیں سنتا تھا۔ اس چھینا چھپٹی میں کئی ایک کے کپڑے پھٹ جاتے۔ مفت میں مال بٹتا دیکھ کر حاجی لوگ اپنی گندی عادات کا اس قدر مظاہرہ کرتے ہیں کہ خدا کی پناہ. یہ سب دیکھ کر بخدا ہماری نظریں شرم سے جھک جایا کرتی تھیں کہ ہم ہندستانی حاجیوں کا ان عربوں پر کیا اثر پڑتا ہوگا۔ بریانی کے چار چار پیکٹ لوٹ کرلے جاتے۔ جونہ کھایا جاتا وہ سڑکوں پر پھیل جاتا۔ محفوظ مسجد کے نِزد، بس اسٹاپ نمبر 2 کے قرب و جوار میں بکھرا ہوا کھانے پینے کا سامان اکثر نظر آتا تھا۔ شرم آتی تھی کہ ہم سوَچھ بھارت کے لوگ ہیں۔ ایک بار ہم نے دیکھا، ایک عرب تربوز کی گاڑی بھر کر لاتا بیچنے کی غرض سے، میں دیکھتا رہا۔ تین چار دن اس کے تربوز نہ بکے۔ ایک صبح اُس نے ایک بڑا سا خالی ڈبّہ لیا اور تربوز کے ٹکڑے کاٹ کاٹ کر اُس میں ڈالنے لگا اور آواز لگائی، حاجی! تربوز کے ٹکڑوں کی طرف اشارہ کرتا۔ بس پھر کیا تھا۔ لوگ کتّوں کی طرح ڈبّے پر جھپٹنے لگے، وہیں کھڑے ہوکر تربوز کھاتے اور سڑک کے کنارے پھینک دیتے۔ اس طرح اُس عرب نے تربوز سے بھری گاڑی خالی کر دی مگر خدا کی پناہ حاجیوں کی بھوک نہ مٹی۔ یہ بات سمجھ سے باہر تھی کہ جو حاجی ڈھائی لاکھ خرچ کرکے حج کرنے آتا ہے وہ دو چار ریال بچانے کی خاطر کھانے پینے کی چیزوں پر اس طرح کیوں ٹوٹ پڑتا ہے۔ ساری تمیز، اخلاق کی قدریں، اپنا ایمیج، ملک کا وقار سب کچھ بھول جاتا ہے۔ یقین کریں لنگّر لوٹنے والوں کا تعلق دو خاص صوبوں سے ہے جن کا نام لینا میں اچھا نہیں سمجھتا۔ ہاں میں وہاں سے گذرتے ہوئے، لوٹنے والوں سے پوچھ ضرور لیتا تھا کہ حاجی جی۔۔۔۔ کہاں کے ہو۔۔۔۔؟
ہماری حج کمیٹی آف انڈیا کو ایر انڈیا ایک ایسی کمپنی دکھائی دیتی ہے جو دنیا میں سب سے بہتر ہے، جب کہ فارنر تو اس میں سفر کرنے سے ہی گھبراتے ہیں۔ ہم چونکہ عزیزیہ حاجی تھے، ہندستانی اور اس پر طرّہ یہ کہ۔۔۔۔۔۔! بہرحال ایر انڈیا کے حسنِ سلوک کی داستان بھی ملاحظہ فرمائیں۔
ہمارے ہوٹل میں 16 اگست کو نوٹس لگ گیا کہ تمام حاجی اپنا اپنا سامان 17 اگست کی صبح سات شارپ ریشیپشن پر لے آئیں۔ یہیں کسٹم کی خانہ پوری ہو گئی اور فلائیٹ کے کارڈ اور چٹیں لگیں گی۔ ہماری فلائیٹ 19 اگست کو صبح چار بج کر چالیس منٹ پر جدّہ سے روانہ ہونا تھی۔ اعلان ہوا کہ سب کو 18 اگست بعد از عصر لے جایا جائے گا۔ ہم پنجابیوں کی فلائیٹ نمبر 503 تھی۔ ہم سب نے اپنا سامان سویرے سویرے گراؤنڈ فلور پر پہنچا دیا اور منتظر تھے کہ کب کارندے آئیں گے۔ سامان کا وزن اور دوسری چیکنگ کرکے سامان لے جائیں گے جو ہمیں دہلی ایر پورٹ پر ملے گا۔ ہمارا طوافِ وداع باقی تھا، ہمارے ساتھ اور لوگوں کا آخری طواف بھی باقی تھا۔ صبح سے شام ہوگئی، ایر انڈیا اور کسٹم کا اسٹاف نہیں آیا۔ مغرب کے بعد فون کیا تو پتا چلا کہ سامان اس لیے نہیں اُٹھایا کہ ایر انڈیا کے ٹوکن نہیں آئے۔ اب طوافِ وداع بھی ضروری تھا۔ ہم رات کے گیارہ بجے حرم شریف گئے، طواف کرکے رات کے دو بجے واپس آئے۔ 18 اگست کی صبح سے ہم پھر اسٹاف کے انتظار میں بیٹھ گئے۔ اسی انتظار میں شام کے پانچ بج گئے۔ کسی نے پریشان ہوکر فون کیا تو جواب ملا آرہے ہیں۔ آپ سب کو فلائیٹ کے وقت پر جدّہ ائیر پورٹ پہنچا دیا جائے گا۔ مغرب کے بعد اسٹاف آیا اور بغیر وزن دیکھے، سامان پہ ٹوکن لگاکر سامان اُٹھا لیا گیا۔ جن کے سامان کا وزن زیادہ تھا وہ حاجی بہت خوش ہوئے۔
بعد از مغرب پورے 36 گھنٹے کے انتظار کے بعد حاجی لوگ صرف شکایت زبان پہ نہ لا کر، چپ چاپ بسوں میں بیٹھ گئے جو ہمیں جدّہ لے جانے کے لیے لگی تھیں۔ ہم لوگ ڈنر کی پرواہ کیے بغیر بسوں میں بیٹھے رہے۔ بسیں چلیں اور ہم سب رات کے بارہ بجے جدّہ ایر پورٹ پہنچ گئے اور حلقۂ انتظارمیں بیٹھ گئے کیونکہ فلائیٹ چار بج کر چالیس منٹ پر تھی اور ہمیں دو گھنٹہ پہلے ایر پورٹ کے اندر داخل ہوجانا تھا۔ ٹائیم ٹیبل کے بورڈ پر ٹائیم بدلتا رہا اور ہم ندیدوں کی طرح دیکھتے رہے۔ صبح نو بجے ہم بھوکے لوگوں کو ایک چھوٹا کیک پیس اور ایک عدد پانی کی بوتل مل گئی۔ گویا وہ ہمارا ناشتہ تھا، ہم اپنی گرہ سے چائے وائے پیتے رہے۔ کبھی شور اُٹھتا، فلائیٹ کینسل ہوگئی۔ کبھی آوازیں آجاتیں کہ فلائیٹ چلے گی۔ ایر انڈیا کے آفیسروں سے کئی بار جھڑپ بھی ہوگئی۔ کچھ آفیسروں نے طے کر لیا کہ 5039 آج ہی چلا دی جائے۔ باقی کل جائیں ہم پھر انتظار کی گھڑیاں گننے لگے۔ ظہر پڑھی تو کارندے بریانی کے پیکٹ بانٹنے لگے۔ ابھی لنچ کر ہی رہے تھے کہ اعلان ہوگیا کہ فوراً لائین میں آجاؤ۔ کھانا ہاتھ میں اُٹھائے ہم لائین میں لگ گئے اور خدا خدا کرکے ایر پورٹ کے اندر داخل ہوگئے، عصر ایر پورٹ کے اندر پڑھی اور عشا اور مغرب تو قضا ہونا ہی تھیں۔ خدا خدا کرکے ہم دہلی ایر پورٹ پر علی الصبح پہنچے اور دیگر فارملٹی کے بعد اپنے اپنے گھروں کوروانہ ہوگئے. اس مقدس سفر کے اختتامی مراحل میں ایر انڈیا کی مہربانیاں بھلائی نہیں جا سکتیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ سعودی ائیر لائینز میں بہترین سہولیات ہیں اور وقت کی پابندی بھی بہت ہے۔ ایر انڈیا کے کرایہ سے تھوڑا سا ہی زیادہ ہے۔ ہماری حج کمیٹی گھٹیا ہوٹل اور ایر انڈیا ہی کیوں چنتی ہے۔۔۔۔؟ اپنے قلم سے کیا لکھیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔۔۔؟ آج یعنی 9 نومبر 2020 کو ہمیں فی حاجی چودہ ہزار روپے واپس ملے ہیں۔ یہ کس عمل کا کفارہ ادا ہوا ہے معلوم نہیں۔
٭٭٭٭
محمد بشیر مالیر کوٹلوی
منٹو سٹریٹ، بیک سائیڈ پنجاب اردو اکیڈمی
آؤٹ سائیڈ دہلی گیٹ، مالیر کوٹلہ۔پنجاب
موبائیل:- 09417423788


شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے