جواں عزم کا شاعر و ادیب: علی شاہدؔ دلکش

جواں عزم کا شاعر و ادیب: علی شاہدؔ دلکش

(نوٹ: علی شاہد دلکش کی تاریخ پیدائش 10/ اپریل کے موقع پر خصوصی مضمون)

خطاب عالم شاذؔ 
(کانکی نارہ، مغربی بنگال، رابطہ: 8777536722) 

علی شاہدؔ دلکش علمی و ادبی آبادی کا ایک ایسا نام ہے جس نے قلیل عرصے میں اپنی علمی و ادبی رکھ رکھاؤ کو ادب کی بستی میں ایسا تسلیم کروایا، جس کا تصور بہت کم ممکن ہو پاتا ہے۔ انھوں نے ابھی زندگی کی کچھ زیادہ بہاروں کو نہیں دیکھا، اگر اعداد و شمار کی رو سے دیکھا جائے تو محض انتالیس بہاریں ان کی زندگی میں آئی ہیں۔ ان کی تاریخِ پیدائش 10/ اپریل 1983 ہے۔ علمی و ادبی خارزار ڈگر پر پاؤں پاؤں چلتے ہوئے اُن کی یادوں کی لکیریں اَن مٹِ ہیں مگر ”اللہ کرے زور قلم اور زیادہ" کے مصداق ابھی انھیں لمبی اننگ کھیل کر بڑی کامیابیاں و سرفرازیاں اپنے سر کرنی ہیں۔ بقول شاعر ؎جواں ہو عزم تو تارے بھی توڑ سکتا ہے
کٹھن نہیں ہے کوئی کام آدمی کے لیے
میری نظر میں علی شاہدؔ دلکش ایک جواں عزم و پرُ وقار لب و لہجہ کے ادیب و شاعر ہیں۔ ایسا محض دوست ہونے کی وجہ سے غلو سے کام نہیں لے رہا ہوں بلکہ دیرینہ دوست ہونے کی وجہ سے میں ان کو بہت قریب سے جانتا ہوں۔ لہذا تمہیدی گفتگو میں زیادہ نہ کہہ کر اتنا کہوں گا کہ شاہد صاحب بڑوں کے ذہن و دماغ سے ابھی پوری طرح محو بھی نہیں ہوپائے تھے کہ معتبر ادیبوں اور شاعروں کے درمیان دوڑتے نظر آنے لگے۔ مختصر عرصے میں ادبی محفلوں و نشستوں میں انھوں نے اپنی حاضری اس طرح درج کرائی کہ انھیں فراموش کرنے میں ایک عرصہ لگے گا۔
شاہد دلکش کا کھلتا ومسکراتا چہرہ، عزم کی لکیریں پیشانی پر ہویدا، نظروں سے چھلکتے جوش و ولولہ، قدموں کی چاپ ایسی کہ ایک خاموش انقلاب گویا برپا ہونا چاہتا ہو، گول مٹول خد و خال، کھچا ہوا قد، سڈول بدن، کشادہ پیشانی، چھوٹی مگر بولتی آنکھیں، آنکھوں پر موزوں فریم کی عینک، موسم کے لحاظ سے زیب تن کیا ہوا لباس، کبھی فل شرٹ پینٹ تو کبھی ہاف، کبھی کبھار ٹی شرٹ جینس میں ملبوس، جمعہ کو پابندی سے اسلامی طرز پر کُرتا پائجامہ اور پاؤں میں بہترے چپل زیادہ جوتے کم۔ میرے مشاہدے و تجربے میں علی شاہدؔ دلکش ایک اخلاص و اخلاق کا پیکرومجسم، لائق وفائق معلم، دل کش نقیب اور دل کش شاعر و ادیب ہیں۔
ویسے تو میں شاہد دلکش کو بچپن ہی سے جانتا ہوں۔ ہم ایک ہی پرائمری و ہائی اسکول سے فارغ ہوئے۔ وہ میرے ہم جماعت ساتھی نہیں، البتہ ان کے بڑے بھائی تنویر عالم میرے کلاس فیلو ہیں۔ میں ان سے دو سال کا سینئر ہوں۔ میں شاہد سے اس وقت قریب ہوا، جب میری تقرری کانکی نارہ حمایت الغرباء ہائی اسکول کے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان (کیم۔ڈی۔ٹی۔ پی۔ سنٹر) میں ہوئی۔ وہ ستمبر 2008 کا زمانہ تھا۔ اس نئے کمپیوٹر سنٹر کے قیام کے ساتھ پانچ لوگوں کی تقرری ہوئی، جس میں ہم دونوں شامل تھے۔ میری تقرری بحیثیت سپروائزر اور شاہدؔ علی(اصل نام) کی تقرری بحیثیت جونیئر فیکلٹی ہوئی تھی۔ مگر جواں و پختہ عزم والے شاہدؔ میں کچھ کر گزرنے کا حوصلہ بَلا کا تھا۔ اس لیے محض دو یا تین سالوں میں اپنی انتھک محنت سے مزید کمپیوٹر کی ایک اور ڈگری حاصل کی اور انٹرویو کوالیفائی کر کے جونیئر فیکلٹی سے ”سینئر فیکلٹی کم سوپر وائزر“ کے عہدے پر فائز ہو گئے اور خاکسار خطاب عالم ”سپروائزر“ سے متبادلہ جونیئر فیکلٹی ہوا۔ چونکہ انھیں درس و تدریس سے حد درجہ دل چسپی تھی اس لیے انھوں نے میرے سابقہ کام کو میرے ہی ذمہ رہنے دیا اور خود درس و تدریس جیسے کام کو ہی بخوبی انجام دیتے رہے۔
اسٹاف میں شاہدؔ دلکش کی شناخت اور نام آوری قابل ذکر رہی۔ آٹھ سال تین ماہ ہم مذکورہ سنٹر میں ہم پیشہ رہے۔ سنٹر کی ترقی کے لیے جدو جہد کرتے ہوئے ہماری دوستانہ قربت اتنی بڑھی کہ مت پوچھیے۔ قریب گذشتہ چودہ سالوں سے وہ میرے عزیز دوست ہیں۔ دوستی ایسی کہ سوائے چند گنی چنی جگہوں کے ہم ہر جگہ ایک ساتھ نظر آتے تھے۔ معاشرے کے لوگوں کے ذہن و دل پر یہ دوستانہ جوڑی اس طرح نقش کر گئی کہ لوگ ہم میں کسی ایک کو کبھی اکیلا دیکھتے تو دوسرے کے بارے میں پوچھنے پر مجبور ہوجاتے۔ ایسا بھی سننے کو ملا کہ ہم دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ جہاں شاہدؔ وہاں خطاب کا اور جہاں خطاب وہاں شاہد کا ہونا یقینی ہے۔کہا جاتا ہے کہ دل چسپی کا سامان میسر ہو تو کام دل سے کیا جاتا ہے۔ پڑھنے پڑھانے سے رغبت کی بنا پر علی شاہدؔ دلکش پیشۂ درس و تدریس کے تئیں بہت ایمان دار و محنتی دیکھے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت ہی کم دِنوں میں شاہد علی پسندیدہ استاد کی جگہ لینے میں بے حد کامیاب ہو ئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس سنٹر کے سب سے اچھے فیکلٹی میں شمار ہونے لگے۔ کسی بھی استاد کو اچھا اس وقت تک نہیں کہا جا سکتا جب تک طلبا و طالبات انھیں اچھا ہونے کا سہرا نہ باندھ دیں۔ طلبا و طالبات نہ صرف ان کی پڑھائی سے مطمئن بلکہ ہر لحاظ سے خوش رہتے تھے۔ اس کا ثمرہ ہے کہ آج بھی ان کے وسیع حلقۂ طالب علموں سے خوب تعظیم و تکریم اور احترام ملتا ہے۔ ان کی تھیوری اور پریکٹیکل کلاس لینے کے انداز و طریقے کو میں نے بذات خود دیکھا ہے۔ تھیوری کلاس روم سے متصل آفس تھا۔ جہاں میں دفتری کام کیا کرتا۔ مزید کون کیا پڑھا رہا ہے، اس پر بھی میری نظر رہتی۔ واقعی پڑھانے اور سمجھانے کا ہنر شاہد علی میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ وہ سنٹر میں کل چھ گھنٹے دل جمعی سے پڑھاتے مگر کبھی بوجھل نہ ہوتے۔ قابلِ غور بات ہے کہ اگر طلبا علم نصاب/ کورس سے ہٹ کر مقابلہ جاتی امتحان یا دیگر مضامین کے سوالات کرتے تو اطمینان کے ساتھ اس کا بھی حل بتاتے۔ لہذا میں انھیں آل راؤنڈر سمجھتا ہوں۔ وہ سنٹرآ نے سے پہلے صبح اپنے گھر پہ ہی ایک بیچ کو ٹیوشن پڑھا کر آتے اور سنٹر سے نکلنے کے بعد ہوم ٹیوشن دینے چلے جاتے، اس کے علاوہ دو تین کوچنگ سنٹر میں بھی پڑھاتے تھے۔ اکثر رات نو کے بعد ہی انھیں فرصت ملتی۔ روزانہ بارہ گھنٹے کی اتنی کڑی محنت اور دوڑ دھوپ کرنا بہت ہی کم لوگوں کے بس کی بات ہے۔ علی شاہدؔ دلکش کا تعلیمی بیک گراؤنڈ پیور سائنس سے ہے مگر کمپیوٹر سائنس اور کمپیوٹر ایپلیکشن کے ساتھ ساتھ انگلش اور اردو دونوں زبانوں پر دسترس حاصل ہے۔ حالانکہ انھوں نے ماسٹر ڈگری لائبریری سائنس، انگریزی اور کمپیوٹر کے مضامین میں کئے ہیں اردو میں نہیں۔ مگر میری دانست کے مطابق اردو ان کی پہلی محبت ہے۔ مندرجہ بالا باتوں کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ ان کی اردو زبان دانی اور لہجہ بھی بہت مستحسن ہیں۔ میرے مشاہدے میں ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ نئے قلم کاروں کے تئیں عالمِ ادب(ادبی دنیا) کی بد روحیں حاسدانہ روش اختیار کر لیتی ہیں۔ حاسدانہ روش پر جوہر ؔ کانپوری کا شعر ملاحظہ کریں:
کام اچھے ہم نہ کر پائیں تو بد کرنے لگے
دوسروں کی کامیابی سے حسد کرنے لگے
کبھی کبھی صحیح راہ نہ ملنے کی وجہ سے منزل پانے میں دیر ہو جاتی ہے۔ غالباً شاہدؔ دلکش کے ساتھ بھی یہی ہوا ہو۔ شاہدؔ دلکش کے اندر تحریری صلاحیت اللہ نے خوب دی ہے مگر اس کو منظر عام پر لانے کی سبیل نہیں مل رہی تھی۔ ہوا کچھ یوں کہ میرے اندر بھی لکھنے اور چھپنے کے جراثیم موجود تھے۔ ہر چند لکھا تو تھا مگر کبھی چھپا نہیں تھا۔ سپروائزر کی کرسی پہ بیٹھے بیٹھے کچھ نیا کرنے کی چاہ میں بہت کچھ سنٹر کے لیے کیا۔ اسی دوران ناچیز کی ایک چاہ نے انگڑائی لی کہ میری تخلیق کہیں چھپے۔ کیا ہی خوب مقولہ ہے کہ”جہاں چاہ ہے، وہیں راہ ہے“۔ قومی کونسل کا ماہنامہ جریدہ ’اردو دنیا‘ طالب علموں میں تقسیم کرنے کے بعد جو بچ جاتا اسے فرصت کے اوقات میں پڑھا کرتا تھا۔ ایک دن خیال آیا کہ دفتری میل کونسل کو اکثر کرتا ہی ہوں کیوں نہ ایک خط ’اردو دنیا‘ کے لیےلکھ بھیجوں۔ لکھ کر میل کیا تو اگلے ہی ماہ شائع ہو گیا۔ ٹھیک اس طرح ایک دن اخبار بینی کرتے وقت اخبار کے ای۔میل پر میری نظر پڑی، سوچا اسے آزما کے دیکھتے ہیں۔ ایک چھوٹی سی تخلیق بعنوان ’چشم پوشی کا صلہ‘ اِن پیج اردو میں ٹائپ کر کے اس ای میل پر ارسال کر دیا۔ صرف تین دنوں کے بعد اخبار مشرق کے گوشۂ اطفال میں شائع دیکھ کر میرا دل باغ باغ ہو گیا۔ میں ابتدائی دنوں میں اپنا قلمی نام ”خ۔ع۔شاذ“ لکھا کرتا تھا۔ شاہدؔ صاحب کو دِکھایا۔ شاہد صاحب نے پڑھ کر مبارکباد دیتے ہوئے صرف یہی پوچھا کہ یہ تخلیق اخبار میں کیسے شائع ہوئی؟ درج بالا طریقۂ کار بتا دیا۔ انھیں بھی اپنا جوہر دکھانے کی راہ مل گئی۔ چند ہی دنوں بعد ان کی پہلی تخلیق اخبار میں شائع ہوئی، میں پڑھ کر دنگ رہ گیا کہ سائنس بیک گراؤنڈ کا طالب علم اور اتنی اچھی ادبی اردو زبان۔ بتاتا چلوں کہ برادر نما دوست شاہدؔ کو جب بھی کوئی راہ ملی، انھوں نے اس راہ پر ثابت قدمی سے چلتے ہوئے منزل تک پہنچنے کی جی توڑ کوشش کی۔ لہذا اللہ کی مدد اور اپنی کوشش سے آج کامیابی کے ساتھ شاہدؔ صاحب علمی و ادبی سفر پر گامزن ہیں۔
مختصراً بیان کر دوں کہ ایک دفعہ ”NCPUL“ اور ”NIELIT“ کے اشتراک سے چار روزہ ”ورکشاپ کم سیمینار برائے سینئر فیکلٹی“ سنہ2014ء میں گوہاٹی، آسام میں منعقد ہوا تھا۔ اس سیمینار میں بشمول شاہد علی کے ملک کے تمام سنٹرز کے سینئر فیکلٹیز نے شرکت کی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ٹریننگ کے دوران انھوں نے اپنی صلاحیت کا بھر پور مظاہرہ کیا اور پورے چار دنوں تک سیمینار میں چھائے رہے۔ اس سیمینار میں ”کیم ڈی ٹی پی سنٹر“ کے تعلق سے در پیش مسائل پر ڈائرکٹر صاحب سے روبرو بات کرنے کے لیے ملک کے تمام سینئر فیکلٹیز نے شاہد ہی کا نام چنا۔ منتظمین نے بھی جب ایک واٹس ایپ گروپ بنایا تو ٹرینی کی طرف سے ایڈمن شاہدؔ دلکش کو ہی مقرر کیا۔ اس طرح گوہاٹی میں بھی اپنی صلاحیت کا لوہا منوانے میں شاہد صاحب کامیاب رہے۔ یہ بھی بتا تا چلوں کہ دو سالوں تک اُس واٹس ایپ گروپ کو برقرار رکھتے ہوئے مذکورہ بالاکیم ڈی ٹی پی سنٹرز کے فیکلٹی کی تنخواہ میں اضافہ کروانے کی تحریک میں بھی ان کا رول کلیدی رہا۔
پنجتن پاک سے شاہدؔ کی عقیدت خاکسار کے علم میں ہے۔ باب العلم حضرت علی ؓ سے شدید محبت کی بنا پر ان کی تخلیقات کے ساتھ ترمیم شدہ قلمی نام ”شاہدؔ دلکش“ سے ”علی شاہدؔ دلکش“ دیکھ کر انتہائی اچھا لگا۔ ان میں تحریری صلاحیت کے علاوہ نظامت کی صلاحیت بھی قابلِ داد و تحسین ہے۔ لہذا جب تک وہ کمپیوٹر سنٹر میں رہے ہر پروگرام کی نقابت بخوبی انجام دیتے رہے۔ انھیں درس و تدریس کے علاوہ دینی جلسے اور مشاعرے بھی بہت پسند ہیں۔ وہ بچپن سے ہی مشاعروں میں شرکت کرتے آ رہے ہیں۔ شاہدؔ صاحب شعر فہم تو ہیں ہی سخن و زمین شناس بھی ہیں۔ اچھی شاعری یا اچھے شعر پہ داد دینے میں بخالت نہیں کرتے بلکہ فراخ دلی سے بہ آواز بلند داد دیتے ہیں۔ یہ بھی گوش گزار کردوں کہ برادرم خلوت میں نعت شریف بھی ترنم میں پڑھتے رہتے ہیں، جس کی ابتدا مدرسہ اسلامیہ کانکی نارہ سے ہوئی اورحمایت الغرباء پرائمری اسکول سے ہائی اسکول کے سالانہ جلسوں تک یہ سلسلہ باقاعدہ جاری رہا۔ وقتاََ فوقتاََ یہ نعتیہ گنگناہٹ اس قسم کی محفلوں سے اب بھی جڑے رہنے کی ایک کڑی ہے۔ اللہ نے انعام کے طور پر گذشتہ سال 2021ء میں 21/مارچ کو کمرہٹی کی سر زمین پر تازہ ٹی وی اور اخبار مشرق کے اشتراک سے ہلدی رام کے زیرِ اہتمام "پربھو جی نعت کمپیٹیشن" کی محفل میں منصبِ جج کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں۔ دیکھا جائے تو ایک نوجوان کے اندر اس قدر اچھے اوصاف کا پایا جانا اس کی نیک خوت و ذہنیت اور اچھے گھرانے سے نسبت کی دلیل ہے۔ نعت شریف کی ہی برکت ہے کہ کبھی بد اخلاقی [والے] الفاظ ان کے منہ سے نہیں نکلتے۔ چاہے حالات جتنے بھی سنگین ہوں، زبان خراب کیے بغیر شاہدؔ دلکش ببانگ دہل بولنے سے کبھی نہیں چوکتے۔ ایک جانب وہ سلیقے سے کسی کے شکر گزار ہوتے ہیں تو دوسری جانب باضمیر ہونے کی وجہ کر شاہدؔ صاحب اپنے ساتھ غلط کرنے والوں کو رد عمل بھی خوب قاعدے سے دیتے ہیں۔ اس تناظر میں دوست علی شاہدؔ دلکش ہی کا ایک شعر یاد آگیا کہ:
کہوں نہ کیونکر غلط، غلط کو
ضمیر اب بھی مرا نہیں ہے
قابلِ ذکر خوبیوں کے ساتھ ایک اور اچھی صفت اللہ نے انھیں بخشی ہے کہ وہ ایک بار جس سے بھی گفتگو کرلیں اس کے بعد وہ شخص اُن کا ہو جاتا ہے۔ دراصل شاہدؔ صاحب بھی اخلاقی قدروں کا پاس خوب رکھتے ہیں۔ جس طرح طالب علموں کو کب اور کتنا سراہنا چاہیے، نیز کب ڈانٹنا چاہیے، خوب جانتے ہیں۔ اسی طرح معاشرتی زندگی میں کہاں زیادہ اور کہاں کم بولنا ہے، ان کو خوب معلوم ہے۔ وہ اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر اپنے دوست و احباب سے ملاقات بھی کرتے، اچھے و برے دنوں میں ساتھ بھی دیتے ہیں۔ یہ ان کے اوصافِ حمیدہ یا اخلاق حسنہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی دوستی جس سے بھی ہو باہر تک ہی محدود نہیں رہتی بلکہ اس گھر کے بیشتر افراد سے خوشگوار مراسم ہو جاتے ہیں۔ مثلاً شاہد صاحب کی حیثیت ہر دل عزیز شخصیت خواجہ احمد حسین اور اکبر علی زخمیؔ کے گھرانے میں جزوی فیملی ممبر کی سی ہے۔ فیاض انور صبا  اور محمد نظام الدین کے علاوہ دیگر کئی معزز علمی گھرانے میں بھی شاہدؔ صاحب کی شریفانہ و ایماندارانہ اختصاص کے چرچے سننے کو ملتے ہیں۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، اس کے مترادف شاہد صاحب بھی ان لوگوں کو اتنی ہی اہمیت دیتے ہیں جتنا کہ وہ لوگ۔
مختصراً وہ بچپن ہی سے محنتی، ایمان دار اور ملنسار ہیں۔ غربت کے باعث کم عمری سے ہی وہ بچوں کو ہوم ٹیوشن دیتے تاکہ ذاتی تعلیمی اخراجات پوری ہو سکیں۔ اسکول کے بعد محنت اس مقصد کے تحت کرتے کہ تعلیمی سلسلہ جاری رہے، اس کے لیے حوصلہ و جرأت کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس بات کو میں اس لیے خوب سمجھ سکتا ہوں کیوں کہ میں بھی ان راہوں سے گزرا ہوں۔ میں بھی تعلیمی اخراجات کو پوری کرنے کے لیے بِندی کاٹنے کا کام بچپن سے (یعنی درجہ پنجم) سے ہی کرتا رہا تاکہ تعلیم سے پچھڑ نہ جاؤں۔ شکر الحمد اللہ، خداوند قدوس نے ہم دونوں کی محنتوں کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ ہم دونوں کی خواہش تھی کہ کمپیوٹر سنٹر کی معیاد دس سال مکمل ہونے سے قبل ہمیں سرکاری ملازمت حاصل کرنی ہے۔ اس مقصد کے تحت دونوں ایک ساتھ مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاریاں کرتے، فارم بھرتے مزید امتحانات بھی ایک ساتھ ہی دینے جایا کرتے تھے۔ سنہ 2016ء میں ہم دونوں (شاہد اور خطاب) نے پرائمری اور اَپر پرائمری ٹیٹ امتحان پاس کیا۔ میری تقرری فروری 2017ء میں شمس اردو پرائمری اسکول (جگتدل) میں ہوئی اور شاہد صاحب کا کسی وجہ سے نہیں ہو پایا حالانکہ اس سے قبل بھی 2010ء میں بنگال ٹیٹ اور 2012ء میں بہار ٹیٹ امتحان پاس کیا مگر تقرری میں بہت تاخیر، جیسا کہ بنگال میں اَپر پرائمری کا معاملہ آج بھی التوا کا شکار ہے۔ یقیناً امتحانات کوالیفائی کرنے کے بعد ملازمت نہ ملنا انتہائی تکلیف دہ بات ہے۔ یقینا انھیں بھی بہت دکھ ہوا ہوگا، کیونکہ مجھے ان کی ملازمت نہ ہونے پر دکھ ہوا تھا! تاہم ایک امید کی کرن باقی تھی کیونکہ اسی مذکورہ سال میں مذکورہ دو امتحانات کے علاوہ شاہدؔ صاحب نے مزید دو اور امتحانات پاس کیے تھے۔ ایک گورنر ہاؤس میں ”لائبریرین“ دوسرا گورنمنٹ انجینئرنگ کالج میں ”ٹیکنیکل اسسٹنٹ“ کے لیے۔ اللہ کا عدل دیکھیے میری تقرری کے صرف چار مہینے بعد ہی 2017ء کے جون میں انھیں کوچ بہار گورنمنٹ انجینئرنگ کالج میں تقرری کا پروانہ مل گیا۔ دراصل یہ جواں عزم کا انسان کالج کا ہی حق دار تھا۔ اس لیے اللہ نے کسی بہانے پرائمری میں جانے سے روک دیا اور کچھ صبر کا امتحان لے کر انھیں کالج میں ”ٹیکنیکل اسسٹنٹ‘‘ بناکر بھیج دیا۔ آج وہ قریب پانچ سالوں سے”کوچ بہار گورنمنٹ انجینئرنگ کالج“ میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ پڑھے لکھے مگر تنگ ذہن لوگ ان کی قابل ذکر کامیابی کو چھوٹا کرکے اپنی ذہنیت کے مطابق اپنی گفتگو میں ٹیکنیکل اسسٹنٹ پوسٹ کو ’لیب بوائے‘ یا ’لیب ٹیکنیشین‘ کہہ کر تذکرے میں لاتے ہیں۔ جب کہ واضح کر دوں کہ عام ڈگری کالج میں ایسا کوئی پوسٹ نہیں ہوتا۔ محض گورنمنٹ BTech کالج میں پریکٹیکل کلاس لینے کے لیے جن اساتذہ کی تقرری ہوتی ہے، اس عہدے کا نام ”ٹیکنیکل اسسٹنٹ“ ہے، جو حکومت کے گروپ بی آفیسر کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ نکتہ ان کے تقرر نامہ اورر آئی ڈی کارڈ سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔ بہرکیف یہ دنیا ہے، یہاں لوگ اپنی فطرت و اطوار کے مطابق چہ می گوئیاں کرتے ہیں۔ دعا ہے کہ مخالف ہواؤں کی پرواہ کیے بغیر شاہدؔ صاحب اپنے علم کے چراغ کی روشنی سے ہر ڈگر پر اجالا بکھیرتے رہیں۔ شاید شاہدؔ دلکش جیسوں کے لیے ہی عالمگیر شہرت یافتہ نقیب و شاعر انورؔ جلا ل پوری نے کہا کہ: 
میں ایک چراغ ہوں، دیوار ہے نہ چھت میری
ہوائیں کرتی ہیں پھر بھی مخالفت میری
علی شاہدؔ دلکش کی بلا کی ذہانت، ہونہاری، جواں عزم اور کچھ بہتر کر گزرنے کی چاہت کا ہی نتیجہ ہے کہ ’کوچ بہارگورنمنٹ انجینئرنگ کالج‘ میں ملازمت ہونے کے بعد بھی جادو پور یونی ورسٹی میں ’ٹیکنیکل اسسٹنٹ‘، ویسٹ بنگال پی۔ایس۔ سی۔ کے ذریعہ پولس ڈپارٹمنٹ میں فارینسک لیبارٹری کے لیے ’لیب اسسٹنٹ‘ اور پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں ’کریشی شہائک‘ جیسے عہدے کے لیے کوالیفائی کیا۔ مگر روشن مستقبل اور متذکرہ عہدے کا موجودہ پے اسکیل سے بہتر نہ ہونے کی صورت میں انھوں نے گورنمنٹ کالج میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔
واضح کر دوں کہ فرصت کے اوقات نے شاہدؔ صاحب کے قلم سے جو لکھوایا، وہ دیکھ کر برسوں سے چھپنے والے حضرات بھی زیر لب ہی سہی مگر ان کی صلاحیت کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکے۔ شاہدؔ صاحب کو اردو ادب سے لگاؤ کم عمری سے ہی ہے مگر تحریر محض پچھلے آٹھ یا نوسالوں سے کر رہے ہیں۔ انھوں نے شخصی و تاثراتی مضامین مرحوم خواجہ جاوید اختر، احمد وکیل علیمی، جاوید احمد خان، آئی پی ایس نظام شمیم، خواجہ احمد حسین، پروفیسر و ڈاکٹر شاہد اختر، صحافی خورشید اختر فرازی، مرحوم محمد ناصر علی امینی اور ہمدم [پر لکھے لیکن] ان کے حوصلے کو اتنی تقویت نہیں ملی جتنی ملنی چاہیے، جب کہ دور دراز سے انتہائی مستحسن اور حوصلہ افزا پہل بذریعہ فون رابطے پر دیکھنے کو ملی۔ لہذا اس تناظر میں ان ہی کے  ایک شعر سے اپنی بات مختصرکر رہا ہوں کہ:
شاہدؔ کو سراہیں وہ حاسد بھلا کیوں کر
ذہنوں میں بھرا ان کے خلفشار بہت ہے
اور علی شاہد دلکش کی نذر اس قطعہ پہ پیش نظر مضمون کو مکمل کر رہا ہوں کہ:
ادب میں شمس کے جیسا تجھے چمکنا ہے
قدم بڑھا کے چلواور قدم بڑھاتے چلو
سفر میں اور بھی دشواریوں کا سامناہے
ملیں گے راہ میں روڑے اُسے ہٹاتے چلو
(ختم شد)

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے