زمیں سے عرش کا سنگم نہیں  ہے

زمیں سے عرش کا سنگم نہیں ہے

دلشاد دل سکندر پوری

زمیں سے عرش کا سنگم نہیں ہے
محبت کا کوئی مرحم نہیں ہے

محبت کچھ ستم مجھ کو بھی دے دے
مری آنکھوں میں پانی کم نہیں ہے

شہادت کا گماں کیوں ہو رہا ہے
ترا پلو ہے یہ پرچم نہیں ہے

سمجھ کر انگلیاں سینے پہ رکھنا
مرا دل ہے کوئی سرگم نہیں ہے

سماعت کیوں نہیں کرتا زمانہ
مری آواز گر مدھم نہیں ہے

میں ہر دیوار سے لپٹا ہوا ہوں
مرے گھر میں کوئی البم نہیں ہے

مرے گلدان میں پھولوں کے لب پر
لہو کی بوند ہے شبنم نہیں ہے

سمے پر اب نہیں ملتا ہے کھانا
بدن میں ان دنوں کچھ دم نہیں ہے

کھڑے ہو کر مزے اس کے نہ لیجے
یہ آنسو ہے کوئی زم زم نہیں ہے

تری یادیں کہاں لے جاؤں گا دل
بچھڑنے کا مجھے کچھ غم نہیں ہے
***
صاحب غزل کی گذشتہ تخلیق :شاعری کی اصلاح

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے