سفیر صدیقی جھوٹے ظاہری ڈھونگ کے بجائے سچے باطنی کرب کا شاعر ہے: شہپر رسول

سفیر صدیقی جھوٹے ظاہری ڈھونگ کے بجائے سچے باطنی کرب کا شاعر ہے: شہپر رسول

سفیر صدیقی کی شاعری میں زندگی اور موت کے سبھی رنگ پختہ تخلیقی سانچے میں ڈھلے ہیں: خالد محمود

ادارہ ادب اسلامی ہند حلقہ دہلی اور فورم فار انٹلکچوئل ڈسکورس کے زیرِ اہتمام نوخیز شاعر سفیر صدیقی کے شعری مجموعے پر مذاکرے کا انعقاد

نئی دہلی (۲؍ اپریل): دہلی کی ادبی برادری نے عرصے بعد ایسی دل کش اور زندہ ادبی محفل دیکھی ہوگی جب نوجوان شاعر سفیر صدیقی کے شعری مجموعے ’’خوابوں کے مرثیے‘‘ پر مذاکرے کے لیے نئے پرانے ادبی ستاروں کی ایک تابناک کہکشاں سجی ہوئی تھی۔ ایک ایسی بزم جس کی صدارت عہد حاضر کے سب سے بڑے غیر افسانوی نثر نگار پروفیسر خالدمحمود نے فرمائی۔ پروفیسر شہپر رسول جیسے ممتاز شاعر کے دستِ مبارک سے سفیر صدیقی کے شعری مجموعے کا اجرا عمل میں آیا۔ ممتاز وجودی فکشن نگار پروفیسر خالد جاوید نے بہ حیثیت مہمانِ خصوصی انجمن کی رونق میں اضافہ کیا۔ مزید سونے پر سہاگہ یہ کہ صاحبِ طرز ادیب و نقاد حقانی القاسمی نے بہ حیثیت مہمانِ اعزازی شرکت کی۔ اس مذاکرے کی نظامت کے فرائض ادیب و شاعر ڈاکٹر خالد مبشر نے انجام دیے۔ اس ادبی جلسے کی امتیازی خصوصیت یہ رہی کہ یہاں سفیر صدیقی کے مجموعۂ کلام پر محض رسمی کارروائی کے بجائے ایک زندہ، بامعنی اور ذہانت آمیز ادبی ڈسکورس کی بزم بپا ہوئی، جس میں معین شاداب، ڈاکٹر فیضان شاہد، عبدالباری صدیقی، تفسیر حسین، ذیشان رضا اور جمیل سرور جیسے نئی نسل کے ذہین اور باصلاحیت اسکالروں نے سفیر صدیقی کے تخلیقی امتیازات پر مختلف الجہات اور خیال انگیز مکالمہ قائم کیا۔ سفیر صدیقی کے حوالے سے فیض حمیدی کے دل چسپ خاکے نے محفل کو ایک نئے رنگ سے ہم آہنگ کرنے میں خوب صورت کردار ادا کیا۔ عبدالرحمٰن عابد، فیض رضوی، وسیم رفیع، داؤد احمد اور آصف بلال نے کلامِ سفیر کے انتخاب اور اس کی بلند خوانی سے مذاکرے کی فضا مزید سازگار کردی۔
پروفیسر خالد محمود نے سفیر صدیقی کو موت اور زندگی کا ایک پختہ کار شاعر قرار دیتے ہوئے کہا کہ سفیر کی شاعری میں زیادہ تر موت اور اس کے لوازم تلاش کیے جاتے ہیں، حالاں کہ ان کے کلام میں زندگی کی دوسری جہتیں زیادہ روشن بھی ہیں اور توانا بھی۔ سفیر صدیقی کا اہم اختصاص ان کی بلوغتِ فکر و خیال اور اسلوب کی صلابت ہے۔ پروفیسر شہپر رسول نے کہا کہ سفیر صدیقی صرف ادب کے ہی نہیں بلکہ مسکراہٹوں کے بھی سفیر ہیں۔ وہ ظاہری ڈھونگ یعنی مجنونانہ حلیہ اور بے ترتیب زلف و ریش بڑھا کر جھوٹا شاعر بننے پر یقین نہیں رکھتے بلکہ ان کی ساری توجہ اپنے داخلی کرب اور تخلیقی و تخیلی استحکام پر مرکوز ہے۔ سفیر صدیقی کے یہاں بصارت کے بصیرت میں بدلنے کا تخلیقی عمل بے حد توانا ہے۔ پروفیسر خالد جاوید نے سفیر کو ایک وجودیاتی شاعر قرار دیتے ہوئے کہا کہ خودکشی اور موت کے تشکیلی عناصر اور خواب، سفیر کو عہدِ حاضر کے تخلیقی منظرنامے میں امتیازی شناخت عطا کرتے ہیں۔ حقانی القاسمی نے سفیر صدیقی کی شاعری کو درون اور بیرونِ ذات تصادمات کے حوالے سے ایک پرقوت تخلیقی اظہاریے سے تعبیر کیا۔ پروگرام کا آغاز عبدالرحمٰن عابد کی تلاوت اور اختتام فورم فار انٹلکچوئل ڈسکورس کے جنرل سکریٹری منظر امام کے اظہارِ تشکر پر ہوا۔ اس موقع پر ماہنامہ یوجنا کے مدیر عبدالمنان، ڈاکٹر نعمان قیصر، ڈاکٹر محمد مقیم، ڈاکٹر جاوید حسن، ڈاکٹر شاہنواز فیاض، ڈاکٹر امتیاز احمد علیمی، اوکھلا پوسٹ کے بانی زبیر سعیدی، اردو ٹاک کی نمائندہ زمرین فاروق، انس خان، عفیف سراج، خالد اخلاق اور نوید یوسف کے علاوہ بڑی تعداد میں جامعہ ملیہ اسلامیہ، جے این یو اور دہلی یونی ورسٹی کے ریسرچ اسکالرز اور طلبہ و طالبات موجود تھے.

نوٹ: (تھمب نایل تصویر  میں رسمِ اجرا کا منظر) دائیں سے: سفیر صدیقی، خالد جاوید، شہپر رسول، خالد محمود، حقانی القاسمی، منظر امام اور خالد مبشر

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے