اردو صحافت: دو سو سال کا تاریخی سفر

اردو صحافت: دو سو سال کا تاریخی سفر

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ، پھلواری شریف، پٹنہ
رابطہ: (9431003131)

با خبر ہونا اور رہنا انسان کی ضرورت ہے، اس سے انسان کے تجسس کی تسکین ہوتی ہے اور ملکی اور تنظیمی کاموں کی انجام دہی اور فیصلے لینے میں سہولت بھی، قرآن کریم میں حضرت سلیمان علیہ السلام تک خبر پہنچا نے کے لیے ہُد ہُد کا ذکر ہے، بعد کے دور میں یہ کام کبوتر سے لیا جانے لگا، مغل بادشاہوں نے اس کے لیے منزل اور چوکیاں بنائیں؛تاکہ تیز رفتاری کے ساتھ خبروں کے ارسال اور ترسیل کا کام کیا جا سکے، یہ کام زیادہ منظم انداز میں ہو اور عوام تک بھی احوال و کوائف پہنچیں اس کے لیے مختلف ملکوں میں اخبارات کا سلسلہ شروع ہوا اور ہر ملک نے اپنی زبان میں اس کو رائج کیا، ہندستان میں مغلیہ دور میں فارسی کا چلن تھا اس لیے اخبارات فارسی میں جاری کیے گیے، پھر دھیرے دھیرے اردو کا چلن ہوا، شاعری اردو میں ہونے لگی، جامع مسجد کی سیڑھیوں پر اردو زبان کو فروغ ملا، اور یہ پلنے اور بڑھنے لگی، چنانچہ ضرورت محسوس ہوئی کہ اخبارات بھی اردو میں نکالے جائیں، اس طرح اردو کا پہلا اخبار جام جہاں نما کے نام سے ۲۷؍ مارچ ۱۸۲۲ء کو نکلا، اور اب ۲۷؍ مارچ ۲۰۲۲ء کو اردو صحافت نے دوسو سال کا کامیاب تاریخی سفر مکمل کر لیا۔
دوسو سال کی تاریخ کو مختصر مضمون میں سمیٹنا ایک دشوار تر عمل ہے، خصوصا اس لیے کہ اردو صحافت ان دو سو سالوں میں تناور درخت ہی نہیں، شاخ در شاخ ہو گئی ہے، اب صحافت صرف نامہ نگاری اور خبروں کی ترسیل ہی کا نام نہیں ہے، اس میں مضامین، تبصرے، تجزیے، کالم نگاری سب کا دخول ہو گیا ہے، پھر موضوعاتی اعتبار سے بھی اس میں خاصہ تنوع پیدا ہو گیا ہے، اب مذہبیات، معاشیات، فلمیات، کھیل کود وغیرہ کے لیے صفحات مختص ہیں، خواتین اور اطفال کے صفحات اس پر مستزاد، اسی طرح پہلے اخبارات روزنامے ہوا کرتے تھے، لیکن اب صحافت کے دائرے میں ہفتہ واری پرچے، ماہانہ، سہ ماہی، شش ماہی رسائل، جرنل اور خبر ناموں نے بھی اپنی جگہ بنا لی ہے، عوامی ذرائع ابلاغ کا عصری منظرنامہ بھی کافی بدل گیا ہے، پہلے صرف پرنٹ میڈیا تھا پھر الکٹرونک میڈیا آیا اور اب سوشل میڈیا کی وسعت نے صحافت کو ایک نئے رنگ و آہنگ سے دو چار کر دیا ہے، اب صحافت انٹرنیٹ کے ذریعہ بھی ہو رہی ہے، بڑی تعداد میں برقی اخبارات و رسائل آن لائن نکل رہے ہیں اور ان کے قاری کا حلقہ پرنٹ میڈیا سے کہیں زیادہ ہے، بصیرت، ملت ٹائمس ،قندیل، علماء بہار، ارباب دانش و بینش، امارت سوشل میڈیا ڈسک، اردو میڈیا فوم، اردو دنیا، ایس آر میڈیا، العزیز میڈیا گروپ وغیرہ کے قاری کی [تعداد] پرنٹ میڈیا سے کہیں زیادہ ہے، ان تمام قسم کے اخبارات و رسائل میں کسی حیثیت سے بھی جو جڑگیا ہے، وہ صحافی کہلاتا ہے، المیہ یہ بھی ہے کہ اخبارات کے مالکان جن میں کئی دو چار سطر لکھنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے، وہ بھی بڑے صحافی کہلاتے ہیں۔ ایڈیٹر مالکان ہوتے ہیں اور ان کی طرف سے دوسرے لوگ مضامین اداریے تبصرے لکھتے رہتے ہیں اور مالک مدیر کی حیثیت سے مشہور اور معروف ہوجاتا ہے، میں اسے استحصال سمجھتا ہوں ان حضرات کا جو واقعتا صحافی ہیں، لیکن ایسا ہوتا ہے اور خوب ہوتا ہے، اردو صحافت کے اس دو سو سال کے آخری پڑاؤ پر ہم لوگ جس دور میں جی رہے ہیں اردو صحافت یہاں تک پہنچ گئی ہے، اس کے بعد اور کون کون مراحل آئیں گے، اللہ جانے۔ اس معاملہ میں روزنامہ ہمارا سماج کی تعریف کرنی ہوگی کہ جو اداریہ لکھتا ہے اس کا نام اس کالم میں باضابطہ درج ہوتا ہے۔
جہاں تک اخبارات کے مشمولات کا معاملہ ہے وہ ہر دور میں اپنی ضرورت کے اعتبار سے رہا ہے، شاہی دور حکومت میں تو نہیں؛ البتہ انگریزی عہد حکومت اور اس کے بعد بھی اردو اخبارات نظریاتی اعتبار سے دو حصوں میں تقسیم رہے، ایک حصہ حکومت موافق رہا اور دوسرا حکومت مخالف، آج بھی حالات کچھ ایسے ہی ہیں، البتہ پہلے جو رویہ اختیار کیا جاتا تھا اس میں کہیں نہ کہیں ضمیر کی آواز بھی شامل ہوتی تھی، اب ایسا نہیں ہے، اب حکومت کی موافقت میں ہر ناجائز کو جائز کہنے کا جو طریقہ رائج ہو گیا ہے اور جو گودی میڈیا کا طرۂ امتیاز ہے وہ ضمیر کی آواز پر نہیں حکمراں طبقے کی حصول رضا مندی اور قوت خرید پر موقوف ہے، اب کم صحافی ہیں، جو حق کی بات کہتے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ ہم غیر جانب دار نہیں، حق کے طرف دار ہیں، جن لوگوں نے اس انداز کی صحافت کی ان میں اردو کے اولین شہید صحافی مولوی محمد باقر تھے، جن کے ہفت روزہ دہلی اردو اخبار نے انگریزوں کی ناک میں دم کر دیا تھا، بعد کے دور میں مولانا ابوالکلام آزاد کے الہلال، مولانا محمد علی جوہر کے ہم درد، مولانا غلام رسول مہر اور عبد المجید سالک کے ’’انقلاب‘‘ مولانا حسرت موہانی کے اردوے معلیٰ اور مولانا ظفر علی خان کے زمیندار کا شمار ایسے ہی اخبارات میں ہوتا ہے، جس نے حق کی آواز بن کر عوامی بیداری کا کام کیا اور ملک کی آزادی کے لیے راستے ہم وار کیے، مذہبی اور مشرقی اقدار کا صحافت میں ذکر ہو تو مولانا عبد الماجد دریا آبادی کے صدق اور سچ کو کس طرح فراموش کیا جا سکتا ہے، مولانا عبد الماجد دریا آبادی صاحب طرز ادیب و صحافی تھے، وہ چھوٹے چھوٹے جملے میں پتے کی بات کہہ جاتے تھے، کبھی کبھی ان کے ایک جملہ کا تبصرہ دوسروں کے بڑے بڑے مقالوں پر بھاری پڑجاتا تھا، جب جوش ملیح آبادی کی یادوں کی برات آئی تو انھوں نے مختصر ترین تبصرہ کیا اور لکھا کہ ’’ننگی اور گندی کتاب ہے‘‘، صحافت کی دنیا میں مولانا عبد الماجد دریا آبادی کے طرز کو تو کوئی برت نہیں سکا، لیکن مذہبی روایات اور سچی خبروں کی اشاعت کے اس سلسلہ کو مولانا عثمان فارقلیط نے الجمعیۃ کے ذریعہ اور مولانا عثمان غنی نے پہلے ’’امارت‘‘ اور پھر ’’نقیب‘‘ کے ذریعہ تسلسل عطا کیا، مولانا عثمان غنی کے بے باک اداریوں نے انگریزوں کو اس قدر اپنی طرف متوجہ کیا کہ ’’امارت‘‘ سے ضمانت طلب کی گئی، جرمانہ لگایا گیا، مدیر کو قید کی سزا سنائی گئی اور ضمانت کی رقم ادا نہ ہونے کی وجہ سے ’’امارت‘‘ کو بند کر دینا پڑا، کم و بیش نوے سال سے جاری نقیب ترجمانِ امارت شرعیہ آج بھی اسی روش پر قائم ہے اور ان دنوں اس کے اداریے ملک کے اخبارات و رسائل میں نقل کیے جاتے ہیں اور اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ ہفت روزہ اخبار میں نئی دنیا دہلی بھی قارئین کو زمانۂ دراز تک اپنی گرفت میں رکھنے میں کام یاب رہا، اس کے جذباتی مضامین اور اداریے شاہد صدیقی کی ادارت میں انتہائی مقبول رہے، ’’عوام‘‘ نے بھی اس روش پر چلنا چاہا لیکن اسے کام یابی نہیں ملی۔
دو سو سالہ اس سفر کے آخری ستر سالوں کو دیکھیں تو جمیل مہدی کے عزائم، پٹنہ سے نکلنے والے صدائے عام، سنگم، ساتھی، قومی تنظیم، پندار، فاروقی تنظیم وغیرہ نے قارئین کے بڑے حلقے کو اپنے فکر و نظر سے متاثر کیا، اردو صحافت کی بد نصیبی رہی کہ صدائے عام، ساتھی وغیرہ کو بند ہو جانا پڑا، سنگم نکل رہا ہے لیکن غلام سرور کا قلم موجود نہیں ہے، غلام سرور صحافت کی دنیا کا شیر تھا، اور بجا طور پر انھیں شیر بہار کہا جاتا تھا، جو بہ قول کلیم عاجز عمر کی آخری منزل میں سیاست کے پنجرے میں قید ہو گیا تھا، بڑی زیادتی ہوگی اگر ہم یہاں پر راشٹر یہ سہارا کا ذکر نہ کریں، جو عزیز برنی کی ادارت کے دور میں مسلمانوں کا انتہائی پسندیدہ اخبار تھا اور تاریخ کے حوالہ سے عزیز برنی کے مضامین و مقالات اور اداریے کو قارئین حق کی ترجمانی سمجھا کرتے تھے۔
اردو صحافت کی اصول سازی کی بات کریں تو اس میں’’ قومی آواز‘‘ کا کردار بڑا اہم رہا ہے، اسی طرح اردو صحافت پر جو نشیب و فراز آئے اور اسے جو ارتقا کے مراحل نصیب ہوئے، ان میں بھوپال، کشمیر، بنگلور، پٹنہ، لکھنؤ، کولکاتہ وغیرہ کے اخبارات و رسائل کی جد وجہد اور تعمیری انداز میں کام آگے بڑھانے کے ذوق و جذبہ کا بھی بڑا عمل دخل رہا ہے، اردو صحافت کو آگے بڑھانے میں جدید ٹکنالوجی کے استعمال اور اردو نیوز ایجنسیوں کی خدمات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اس طرح اردو صحافت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور خبروں کو مصدق بنانے کے لیے پروگرام کی تصویروں کے استعمال نے اردو اخبارات کو قارئین کی پسند بنایا، ان اخبارات نے اردو کی ترویج و اشاعت اور اسے گھر گھر پہنچانے کی مثالی خدمات بھی انجام دی، اس طرح ہم اردو کو مقبول بنانے میں اردو اخبارات کے اس اہم کردار کو فراموش نہیں کر سکتے۔
اخبارات سے آگے بڑھ کر تحقیقی، مذہبی، تعلیمی اور ادبی رسائل کا رخ کریں تو تہذیب الاخلاق علی گڑھ، معارف اعظم گڑھ، تحقیقات اسلامی علی گڑھ، مطالعات دہلی، بیسویں صدی، ہدیٰ، دربھنگہ ٹائمز، تمثیل نو، ہما، پاکیزہ آنچل، شب خوں، تعمیر حیات اور برہان دہلی کی اپنی اہمیت رہی ہے، معارف آج بھی پرانی آب وتاب کے ساتھ نکل رہا ہے، برہان کے مرحوم ہونے کا غم تو آج بھی ستا رہا ہے، بیسویں صدی کا سالنامہ تو نکل جاتا ہے لیکن خوش تر گرامی کے دور کے ماہنامہ بیسویں صدی کو اب مرحوم سمجھنا چاہیے، رحمن نیر کے وقت تک اس میں زندگی کی کچھ رمق باقی تھی، لیکن اب وہ بات کہاں، اردو میں اکلوتا فلمی رسالہ ’’شمع‘‘ بھی بجھ گیا ہے ایک زمانہ میں اس کے معمے بڑے مقبول تھے اور فلموں پر تبصرے پڑھنے، تصویریں دیکھنے کے ساتھ معمے بھرنے کے لیے بھی لوگ اس کے خریدار بنتے تھے، مذہبی رسائل میں عامر عثمانی کی زندگی تک ’’تجلی‘‘ بر صغیر ہند و پاک کا مقبول ترین رسالہ تھا اس کے اداریے، تجلی کی ڈاک، کھرے کھوٹے اور ملا ابن العرب کا مزاحیہ کالم مسجد سے مے خانے تک پڑھنے کے لیے لوگ بے تاب رہتے تھے، بعد میں ان کے داماد حسن صدیقی نے اسی انداز پر نکالنے کی کوشش کی لیکن چلا نہیں پائے اور رخ بدل کر ’’طلسماتی دنیا‘‘ نکالنے لگے، عامر عثمانی پوری زندگی جن اوہام و رسومات کے خلاف لکھتے رہے ان کے بعد ان کے وارثوں نے اپنی معاشی مضبوطی کے لیے انہی خطوط پر کام شروع کردیا۔
ان دنوں جو مذہبی رسائل نکل رہے ہیں ان میں رسالہ دار العلوم، آئینہ دار العلوم، آئینہ مظاہر علوم، شارق، دین مبیں، ارمغان، راہ اعتدال، کنزالایمان، اشرفیہ، مخدوم، الرسالہ وغیرہ مذہبی بیداری پیدا کرنے میں اہم رول ادا کر رہے ہیں، ان میں سے بیش تر مدارس اسلامیہ کے ترجمان ہیں اور متعلقہ اداروں کا رنگ و آہنگ ان پر غالب رہتا ہے، ان میں سے بعضے اپنے مسلک کی ترویج واشاعت کے لیے بھی اپنے رسائل کا استعمال کر تے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ اردو اخبارات قاری کے تقاضوں کی تکمیل اب بھی نہیں کر پا رہے، وجہ وسائل کی کمی ہے، یہ کمی کبھی تو اس لیے محسوس ہوتی ہے کہ اردو اخبار کے مالکان رقم ضرورت کے مطابق نکالنا نہیں چاہتے یا واقعتا چھوٹے اخبار ہونے کی وجہ سے وہ اخبارات کے لیے رقم فراہم نہیں کر پاتے، اردو اخبارات (کارپوریٹ گھرانے کے اخبار کو چھوڑ کر) مضامین، مقالات، مزاحیہ کالم اور تبصرہ وغیرہ لکھنے والوں پر ایک روپیہ بھی صرف نہیں کرتے، ان کے نزدیک اردو مضامین و مقالات کا اپنے اخبار میں چھاپ دینا ہی قلم کاروں پر احسان ہے، اس کی وجہ سے وہ لوگ جو قلم کی مزدوری کرتے ہیں اردو اخبارات کو معیاری، تحقیقی مضامین دے نہیں پاتے، بلکہ کئی اردو کے ادیب جو ہندی انگریزی میں لکھنے پر قادر ہیں اردو اخبارات کے بجائے ہندی انگریزی میں لکھنا پسند کرتے ہیں؛ کیوںکہ وہاں سے انھیں کچھ یافت ہوجاتی ہے، اس معاملہ میں ماہانہ رسائل جو سرکاری اکیڈمیوں کی طرف سے نکلا کرتے ہیں، متثنیٰ ہیں، لیکن ان کے یہاں بھی مضامین کے انتخاب کا جو معیار ہے اس میں بھی بہت ساری ترجیحات ہیں، مضمون نگار اگر ان ترجیحات پر پورا نہیں اتر تا تو وہاں بھی معاملہ خالی ہی خالی ہے.
صاحب مضمون کی یہ نگارش بھی پڑھیں:کتاب: ہم عصر شعری جہات

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے