احساسِ شکر کے بغیر زندگی بے کیف

احساسِ شکر کے بغیر زندگی بے کیف

عبدالرحمٰن
نئی دہلی
(سابق چیف مینیجر، الہ آباد بینک)
rahman20645@gmail.com

"شکر" کا مہینہ، یعنی رمضان المبارک، چند دنوں میں شروع ہورہا ہے، الحمدللہ! رمضان المبارک کے مہینے کو رحمت و برکت کے ساتھ ساتھ، ماہِ شکر بھی کہا جاتا ہے۔ اس ماہ مبارک میں انسانی دنیا کو ربانی تجلیات سے منور کرنے کے ساتھ ہی، شیطان کو بھی قید کردیا جاتا ہے۔
علاوہ ازیں، اللہ تعالی کی رحمتوں کے نزول میں مزید تیزی آجاتی ہے۔ ہر چھوٹا بڑا گھر، مہینے بھر، اللہ رب العالمین کی خاص رحمت و عنایات کی دل فریب اور روح افزا نسیم و شمیم کے لمس محسوس کرتا رہتا ہے۔ ایسے ربانی اور جنتی ماحول میں کوئی بد نصیب ہی ہوگا جو شکر کے احساس سے محروم رہ جائے۔
رمضان کے مہینہ میں، انسان جب خود کو اپنے پروردگار کی بے پایاں رحمتوں اور نعمتوں کے درمیان پاتا ہے، تب شرف انسانیت، یعنی انسان کی فطرت اپنے حقیقی منعم اور محسن کی "بڑائی" اور اپنے "بندہ" ہونے کا سچا ادراک حاصل کرلیتی ہے۔ اپنے بندہ ہونے کے شعور کا بیدار ہونا ہی، دراصل، شکر کا اعلا مقام ہے۔
رمضان کے بابرکت مہینے میں، اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم کی روح پرور اور صحت بخش بارشوں سے لطف اندوز ہونا کیا ہی لطیف اور خوش نما احساس ہوتا ہے! نعمتِ صحت اور رزق کی فراوانی کے ساتھ، مسلسل ایک ماہ تک روزوں اور قرآنی تدبر کے عملی تجربات سے گزرنا، اپنی نفسیاتِ تشکر (Psychology of gratitude) کو مزید جلا بخشنے کے مترادف ہوتا ہے۔ زکوٰۃ و صدقات کے حساب- کتاب کے درمیان، دن میں روزہ، رات کو تلاوت قرآن کے ساتھ زاید نماز اور صبح و شام قرآنی تراجم و تفاسیر کے ساتھ وقت گزارتے ہوئے، انسان، اپنے خالق و مالک کے تئیں شکر و اعتراف کو اپنی عادت بنا سکتا ہے۔ اس مبارک عادت کو بنائے رکھنے کی صورت میں، کچھ عرصہ بعد ہی وہ محسوس کرے گا کہ شکر کے پاکیزہ جذبات و احساسات اس کی فطرت بن گئے ہیں۔ آخر، عادت، فطرتِ ثانیہ جو ہوتی ہے (After all habit is second nature)
زندگی میں، یہی وہ مبارک موقع ہوتا ہے جب انسان کو یقین ہو جاتا ہے کہ بلا شبہ، "احساسِ شکرِ خداوندی کے بغیر زندگی بے کیف ہے۔"
شکر کی توفیق حاصل ہوجانے کے بعد گویا :
تیرے ملنے سے پہلے بھی جیتے تھے ہم
جینے والی مگر بات کوئی نہ تھی
میرے علاوہ بھی کئی لوگوں نے معاشرہ میں ضرور ایسے افراد دیکھے ہوں گے، جو اپنی چالاکی اور کمانے کے زعم میں یہاں تک بول جاتے ہیں کہ "اتنا کما کر جاؤں گا کہ سات پشتیں عیش کریں گی اور انھیں کبھی کمانے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔"
مگر، اس کے برعکس، مشاہدہ بتاتا ہے کہ ایسے لوگوں کی کمائی کبھی ان کے اپنے لیے بھی کافی نہیں ہوئی، پشتیں تو بہت دور کی بات!
سچائی تو یہ ہے کہ جو افراد چالاکی، بے ایمانی اور بد عنوانی کے ذریعے دولت کے انبار لگانے کی پلاننگ (منصوبہ بندی ) کرتے رہتے ہیں، حقیقت میں وہ زندگی بھر کے لیے خود اپنے ہی نقشوں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ حقیقتاً، انسان کی نفسیات ڈھیر کیے ہوئے مال پر کبھی مطمئن نہیں ہوتی ہے، وہ تو روزانہ کے حساب سے "لکشمی" (wealth) کو اپنے گھر آتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے۔ اس ضمن میں ایک دن کا ناغہ بھی، اس کے لیے ڈپریشن کا سبب بن سکتا ہے۔
انسانی فلاح و بہبود اور ملک و ملت کے شہریوں کی تعلیم و تربیت یا کوئی دوسرے اعلا مقاصد سے قطع نظر، صرف دولت کی خاطر ہی دولت کمانا کوئی احسن فعل نہیں ہے۔ ذخیرہ اندوزی نہ صرف اللہ تعالی کو ناپسند ہے، بلکہ یہ انسانی قدروں کو پامال کرنے کی بھی وجہ بن جاتی ہے۔ ساتھ ہی اپنے ورثا میں لڑائی جھگڑے کے مستقل اسباب پیدا کرتی رہتی ہے۔
کثیر تعداد میں دولت کمانا بھی "اللہ کا فضل تلاش کرنے" کے ہم معنی ہوسکتا ہے، اگر متعلقہ شخص کو اس کا جائز مقصد و مصرف معلوم ہو۔
اسی ضمن میں، بڑے بڑے کارپوریٹ گھرانوں کی آئے دن کی خبروں اور تبصروں سے بہ خوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ کتنی تیزی سے، سینسیکس (sensex) کے اوپر نیچے ہونے پر سیٹھ لوگوں کے غم خوشی میں، تو خوشی غم میں بدلتی رہتی ہے۔ شیئر بھاؤ (share value) کے ہر معمولی سے اتار چڑھاؤ پر بھی، مذکورہ قسم کے مال دار لوگ دنیا کے دولت مند لوگوں کی فہرست میں اپنے مقام کا تعین کرنے لگتے ہیں، گویا مال و دولت کی بلندیوں پر پہنچنے کے بعد بھی، فہرست میں اپنا نام دیکھنا ہی ان کا بنیادی کام رہ گیا ہے۔
اللہ تعالی کے وضع کیے گئے طریقوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی خود ساختہ چالاکی کی ذہنیت کے ساتھ جینے والے کسی شخص کی کمائی کا سلسلہ جب بند ہو جاتا ہے یا صحت خراب ہونے کی وجہ سے وہ کمانے لائق نہیں رہتا ہے، تب اس سے ملاقات کرکے حقیقت واقعہ کا ادراک کیا جاسکتا ہے کہ وہ کس صورت حال کا سامنا کررہا ہے۔ سات پشتوں کا استکباری تصور (proud imagination) کا غبار ایسا زائل ہوتا ہے کہ خود اس کی موجودہ پشت، یعنی اس کے بیٹے اور پوتے، اس کو اس کی اپنی ذخیرہ کی ہوئی دولت سے ہی محروم کردیتے ہیں۔
فزکس (Physics) اور کیمسٹری (Chemistry) وغیرہ کے بہت سے فارمولے (equations) وضع کرنے کے لیے، وقتی طور پر، حرارت (temperature)، فضائی دباؤ (atmospheric pressure)، نمی (humidity)، روشنی (sunlight) یا دوسرے عوامل (factors) کے متعلق یہ توقع کرلی جاتی ہے کہ ان میں سے فلاں یا فلاں فلاں چیزوں کی مقدار (magnitude) یا ہیئت (form) میں کوئی کمی بیشی واقع نہیں ہوگی، یعنی وہ غیر متغیر (constant) رہیں گی۔
کچھ ایسا ہی معاملہ، بلکہ تھوڑے بڑے پیمانے (scale) پر مذکورہ متکبر شخص کی زندگی میں پیش آتا ہے۔ عین جوانی کے دنوں میں، وہ عقلی و فکری طور پر نہیں، بلکہ عملی اور جذباتی طور پر یہ یقین کرلیتا ہے کہ ملکی و معاشرتی حالات، بازار کے اتار چڑھاؤ، کاروبار کی پیچیدگیاں، خاندانی مسائل، جسمانی کم زوری، وقتی اور دائمی بیماریاں، بگڑتی صحت اور بڑھاپا جیسے عوامل اس کی تیز رفتار ترقی میں کسی قسم کی کوئی دشواری پیدا نہیں کریں گے؛ اور جب اس کو ان ساری یا کچھ چیزوں سے، سچ مچ سابقہ پیش آتا ہے، تب اس کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ کب اس کی تکبر کی نفسیات (psychology of arrogance)، اداسی اور مایوسی کی نفسیات (psychology of hopelessness) میں تبدیل ہوگئی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے گویا اللہ تعالی نے قرآن کی مندرجہ ذیل آیت میں، انسان کے استکبار (arrogance/pride) کو لاچاری (helplessness) کی کیفیت میں تبدیلی ہونے کا عبرت ناک نقشہ پیش کرکے انسان کو بیش قیمتی رہ نمائی فراہم کی ہے، تاکہ وہ ربانی ہدایت کی روشنی میں اپنے اصول و اطوار پر نظر ثانی کرے اور اپنے پروردگار کی وضع کی ہوئی صراط مستقیم پر چلنے کی مخلص اور سنجیدہ کوشش کرے:
” تمھیں کثرت مال کی ہوس اور فخر نے (آخرت ) سے غافل کر دیا، یہاں تک کہ تم قبروں میں جا پہنچے" ( التکاثر-102: 1-2)۔
اوپر بیان کی گئی قسم کے لوگ، شیطان کی رنگین ترغیبات کا شکار ہو کر، زندگی بھر، اپنے استکبار کو مطمئن کرنے کی ناکام کوشش میں اپنے "ضمیر" (conscience) کے ذریعے وقتاً فوقتاً فراہم کی گئی تاکید کو بھی نظر انداز ہی نہیں، پامال کرتے رہتے ہیں۔ آخر، نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ دنیا میں بے کلی اور بے چینی، اور آخرت میں مزید رسوائی اور ناکامی!
ذلت و رسوائی کے برعکس، اللہ تعالی کے ہدایت کیے ہوئے طریقوں پر عمل کرنے سے نہ صرف آخرت سنورتی ہے، بلکہ دنیا کے معاملات میں بھی انسان کو عزت اور نصرت عطا کی جاتی ہے۔
دولت کمانا اسلام کا ہدف نہیں، مگر صالح طریقوں سے روزی کمانے کی جستجو میں دولت بھی حاصل ہوتی ہے، اور ایسی دولت کو اللہ تعالیٰ اپنا "فضل" بیان کرتا ہے: (الجمعہ-62: 10)
اتنا ہی نہیں، "شکر" کرنے والوں کو اللہ تعالی مزید عنایت کرتا ہے، حالاں کہ، نا شکری کرنے والوں کے لیے اس کی وعید بھی ہے کہ اس کا عذاب بہت سخت ہے ( ابراہیم-14: 7)
اپنے بندوں کے اندر "شکر" کے جذبات و احساسات کا موجود ہونا اللہ تعالی کو بہت پسند ہے۔ وقتاً فوقتاً، انسان کو تاکید بھی کی گئی ہے کہ وہ اپنے منعم کی نعمتوں اور محسن کے احسانات کا دل سے شکر و اعتراف اور ان کا اظہار کرے۔ اس ضمن میں سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ آخر شکر کی تعریف (definition) کیا ہے؟
"کسی کے نیک و صالح اور خلوص و خیر خواہی کے اقوال و افعال کے جواب میں بھلائی اور احسان مندی کے ساتھ دل کی گہرائیوں میں پیدا ہونے والے نیک جذبات و احساسات جب الفاظ کی شکل میں زبان سے بھی ادا ہونے لگتے ہیں، تب بہترین اخلاق کی نمائندگی کرنے والے یہی صالح کلمات جذباتِ تشکر یا ‘شکر` کہلاتے ہیں۔"
خالق کائنات اور رب السماوات و الارض کی صفات میں سے ہے:
” الله الصمد" ، یعنی "اللہ سب سے بے نیاز ہے اور سب اس کے محتاج ہیں" (الإخلاص-112: 2)۔
اپنے رب کے تئیں انسانوں کے شکر و اعتراف کے جذبات و احساسات، دراصل، انسانوں کے اپنے بھلے کے لیے ہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ
"اور بے شک ہم نے لقمان کو حکمت و دانائی عطا کی، (اور اس سے فرمایا ) کہ اللہ کا شکر ادا کرو اور جو شکر کرتا ہے وہ اپنے ہی فائدہ کے لیے شکر کرتا ہے، اور جو نا شکری کرتا ہے تو بے شک، اللہ بے نیاز ہے۔ (خود ہی) سزاوار حمد ہے (لقمان-31: 12)۔
اپنے خالق و مالک کا شکر بجا لانا، گویا انسان کے اپنے حق میں اچھا ہونے کی تائید ہے۔ اسی کے ساتھ، شکر انسان کی شخصیت کو پاکیزہ بنانے میں مدد کرتاہے، اور جنت کا خاص امتیاز یہ ہے کہ "پاکیزہ انسان" ہی اس میں آباد کیے جائیں گے۔ اس تناظر میں، ایک سلیم الفطرت سنجیدہ انسان اپنی زندگی میں "نا شکری" کا تحمل نہیں کرسکتا۔
بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے، قرآن حکیم کی سورہ الشوریٰ(نمبر 42) کی آیت نمبر 48 کے حوالے سے سمجھا جا سکتا ہے کہ موجودہ دنیا میں آدمی کا اصل امتحان یہ ہے کہ جو صورت حال بھی اس کے سامنے آئے وہ اس میں صحیح ردعمل پیش کرے، مگر انسان ایسا نہیں کرتا۔ اس کو جب کوئی کام یابی ملتی ہے تو وہ فخر و ناز کی نفسیات میں مبتلا ہوجاتاہے اور جب وہ کسی مصیبت میں پڑ تا ہے، تو منفی جذبات کا اظہار کرنے لگتا ہے۔
صاف ظاہر ہے کہ دونوں ہی صورتوں میں انسان "شکر" کی دولت سے محروم رہ جاتا ہے۔ نتیجہ کے طور پر، دنیا میں بے کیف زندگی جیتا ہے، تو وہیں، آخرت میں محرومی کی زندگی!
مذہبِ اسلام میں شکر کی بہت زیادہ اہمیت بیان کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں جگہ جگہ انسانوں کو مخاطب کرتے ہوئے، اپنی نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ یہ نعمتیں ہم نے تمھیں اس لیے بخشی ہیں کہ تم میرا شکر ادا کرو۔
مثال کے طور پر، قرآن مجید کی چند آیات کے حوالے، مزید مطالعہ کرنے والوں کے علمی استفادہ کی غرض سے یہاں نقل کئے جاتے ہیں:
سورہ ابراہیم-14: 32-34
سورہ النحل-16: 78
سورہ القصص-28: 73
سورہ الواقعہ-56: 68-70
کیفیت شکر کو گہرائی کے ساتھ سمجھنے کے لیے کچھ دوسرے پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالنا ضروری ہے:
اگر آپ اپنی استعداد، خصوصیات، قابلیت اور اہلیت کے مطابق کام نہیں کر رہے ہیں، تو سمجھ لیجیے کہ آپ شکر کے بجائے نا شکری میں مبتلا ہیں۔ حقیقت کا ادراک ہو جانے کے بعد، اصلاح ضروری ہے۔
نعمتوں پر شکر کرنا، گویا نعمتوں پر فوکس (focus) کرنا ہے، اور فوکس کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے ظاہر و باطن اور اس کی خوبی و خصائص پر گہرائی اور گیرائی کے ساتھ غور و فکر کرنا۔ یہ عمل، بلا شبہ، نعمتوں میں اضافہ کا سبب بنتا ہے۔
اس کے برعکس، پریشانی اور مشکلات پر فوکس کرنا، گویا دماغ کو تاکید کرنا ہے کہ "میں پریشانیوں سے آزاد ہونا نہیں چاہتا"۔ نتیجتاً، انسان مسائل و مصائب بھری زندگی جیتا رہتا ہے۔ زندگی کا بے کیف ہونا، دراصل، اسی صورت حال کا دوسرا نام ہے۔
اپنی استعداد اور اپنے مواقع کو پوری طرح استعمال نہ کرنے کی حالت میں انسان محسوس کرتا ہے، گویا اس کی زندگی میں کچھ لا پتہ (missing) ہے۔ یہ احساسِ "مِسِنگ" تب اور زور پکڑتا ہے، جب آپ شکر سے دور رہتے ہیں۔
"فیس بک" (Facebook) پر ایک اصطلاح (terminology) ہے جس کو لائک (like) کہتے ہیں، یعنی پسند کرنا یا تائید کرنا، اور اس کو انگوٹھے کے نشان (thumbs up) سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ اپنی پوسٹ(post) پر لائک دیکھ کر عام طور پر افراد بہت خوش ہوتے ہیں، مگر ساتھ ہی، اکثر لوگ اس واقعہ کے معنی خیز ہونے کے ادراک سے محروم رہ جاتے ہیں۔
جب کوئی آپ کی پوسٹ کو لائک کرتا ہے، تو گویا کہ وہ تحریر یا تصویر اس کو خوش گوار لگتی ہے۔ اس دل کشی کو اپنا ہی اثاثہ سمجھتے ہوئے، وہ اپنے جذبہ تشکر کو ظاہر کیے بغیر نہیں رہ پاتا ہے، اور فیس بک کی زبان میں لائک کر دیتا ہے۔ کسی کا آپ کو لائک (پسند ) کرنا، اس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ آپ بھی دوسروں کے اندر خوبیاں تلاش کریں اور ان خوبیوں کی بابت اپنی پسندیدگی پیدا کریں، پھر ان خوبیوں کے تئیں، اپنی ذاتی خوبیوں کے مثل ہی، اپنے جذبات تشکر کا اظہار و اعتراف کریں۔
مگر، انسان اس محبت و اخوت کے سنہرے موقع کو بھی رسمی بھیڑ چال (herd mentality) کی بھینٹ (altar) چڑھا دیتا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ، فیس بک پر جو حالات پیدا ہوگئے ہیں، ان کو قابل اطمینان نہیں کہا جا سکتا، کیوں کہ اس پلیٹ فارم (platform) سے حاصل مواقع، شکر کی ندیاں رواں دواں کر سکتے تھے، مگر مقامِ افسوس، شکر (gratitude) خود استکبار (arrogance) کے قبضے میں چلا گیا ہے۔
فیس بک نے گویا کہ ہر فرد کو کسی بنیادی استعداد یا کسی استاد کے بغیر ہی ادیب، شاعر اور مصنف، اور نہ جانے کیا کیا بننے کا موقع فراہم کردیا ہے۔ مگر، حقیقیت میں یہ موق بیش تر لوگوں کے لیے ‘موقع گنوا دینے’ (missed opportunity) کے ہم معنی بن کر رہ گیا ہے۔
لائک کا نشہ ایسا بڑھا گویا کسی "شرابی کا نشہ"، جس کے ساتھ وہ جیتا تو روز ہے، مگر اپنے دن کی شروعات وہ روزانہ ایک ہی مقام سے کرتاہے۔
عام مشاہدہ یہ ہے کہ لائک سے کم پر کوئی راضی نہیں، جب کہ ذہنی، علمی اور فکری ارتقا کی خاطر، کئی بار، کم پر بھی راضی ہونا ضروری ہوجاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ علمی تنقید و تجزیہ کے بغیر معیاری تصنیفات ممکن نہیں۔
جو لوگ کسی کو اپنے متعلق کسی کمی یا کم زوری کی طرف اشارہ کرنے کی اجازت ہی نہیں دیتے، فطرت کے قانون کے مطابق، وہ اوسط سے بھی کم درجہ کی زندگی جیتے ہیں۔ "اپنی پسند یا چیز ہی سب سے اچھی" والی کیفیت کے ساتھ جینے والے "نیم سمجھ دار" لوگوں کی بدولت ہی "فیس بک؍ وہاٹس ایپ یونی ورسٹی" جیسے عنوان (title) وجود میں آگئے ہیں، جب کہ ان پلیٹ فارموں (platforms) کو سنجیدگی کے ساتھ استعمال کرنے کی صورت میں، گھر گھر یونی ورسٹی کا فیض حاصل ہوسکتا تھا۔ ایک بار پھر سے، شعور اور مثبت طرز فکر حاصل ہوجانے کی صورت میں، یہ امکان آج بھی موجود ہے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ
"ہم نے ایک کو دوسرے پر فوقیت دی ہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے کام لیں ( الزخرف-43: 32)
مذکورہ بالا آیت سے بہ خوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالی نے انسان اور اس کے گرد و نواح کو کس طرح تخلیق کیا ہے۔ اسی بات کو دنیاوی اسلوب میں سمجھنے کے لیے فلسفہ کی تاریخ سے ایک اقتباس نقل کیا جاتا ہے:
مشہور و معروف یونانی فلسفی، ارسطو (Aristotle) نے تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل فرمایا تھا کہ
” Man is by nature a social animal. An individual who is unsocial naturally and not accidentally is either beneath our notice or more than human”.
یعنی ” فطری طور پر، انسان ایک سماجی حیوان ہے۔ جو کوئی بھی فطرت کے زیر اثر، مگر کسی حادثہ کے بغیر، سماج یا معاشرہ سے دور رہتا ہے وہ یا تو ہمارے مشاہدہ سے ہی باہر ہے یا پھر اس کی حیثیت انسانوں سے بالاتر ہے"۔
"سماجی حیوان" کی دلیل کو سمجھانے کے طور پر ارسطو کا کہنا ہے کہ انسان جماعت یا گروہ (groups) میں رہتا ہے، پھر یہ گروپ خاندان کی صورت میں چھوٹے بھی ہوسکتے ہیں اور شہر اور ملک کی طرح بڑے بھی۔
اس طرح یہ واضح ہوجاتا ہے کہ "خدائی اسکیم" میں، انسان مکمل طور پر خود کفیل (self sufficient) نہیں ہے۔ اس لیے، دنیا میں، ہر آدمی کو دوسرے آدمی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ انسان ہی نہیں، ملک کے ملک ہزاروں چیزوں کے لیے ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔
چوں کہ، ماہ رمضان کی آمد آمد ہے اور اس پس منظر میں "کھجور" کا نام لینا، گویا مسلمانوں کی زندگی میں ایک بیش قیمتی مقام حاصل کرچکے ایک "جنتی میوہ" کو یاد کرنا ہے؛ اس لیے، مختلف ملکوں کے ایک دوسرے پر انحصار کی مثال "کھجور" کے ذکرِ خیر سے کس طرح محروم رہ سکتی ہے۔ سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک میں پیدا ہونے والی مختلف قسم کی مشہور کھجوریں ہندستانی بازاروں میں، اس طرح، کثیر تعداد میں دستیاب رہتی ہیں، گویا سب کی سب یہیں پیدا ہوتی ہوں۔ دیگر تمام ضروری اشیا کا بھی یہی معاملہ ہے۔
اگر ایک طرف، پیٹرول، ڈیزل اور دوسری پیٹرولیم مصنوعات (petroleum products) کے معاملے میں تقریباً ساری دنیا "مڈل ایسٹ" (مشرقِ وسطیٰ) پر "نربھر" (dependant) ہے، تو دوسری طرف، خود مشرق وسطیٰ کے ممالک کا دوسری بے شمار چیزوں کے لیے دنیا کے بہت سارے دوسرے ملکوں پر انحصار ہے۔
آج، ساری دنیا کا احاطہ کرنے والے ایکسپورٹ اور امپورٹ کاروبار (Export/Import Business) نے گویا دنیا کے ہر ملک کو ” آتم نربھر" (خود کفیل) بنادیا ہے۔
اللہ تعالی کی قدرت کا کمال دیکھیے، بات صرف مال و زر اور عیش و آسائش تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ ذہنی استوا، استعداد و رجحانات کے معاملے میں بھی انسان ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ مختلف معاملات میں، انسان کے ایک دوسرے سے مختلف ہونے میں اللہ، علیم و حکیم کی بے شمار رحمتیں پوشیدہ ہیں۔ کائنات کی تخلیق کو اس زاویہ سے دیکھنے پر نہ صرف اپنے حقیقی منعم اور محسن کی بڑائی کا اعتراف اور اس کے شکر میں جینے کے داعیات پیدا ہوتے ہیں، بلکہ انسانوں میں "عظمت" کی سطح پر برابری اور بھائی چارے کو بھی فروغ حاصل ہوتا ہے۔
اللہ تعالی نے انسانوں کو ہی نہیں، کرہ ارض، یعنی ہماری زمین کے مختلف گوشوں، جنگلات، چرند و پرند، کھیت و باغات، ندی-نا لے، موسم اور آب و ہوا، گرمی اور ٹھنڈ، چھوٹے بڑے پہاڑ، خشکی اور تری، یہاں تک کہ بر اعظم اور بحر اعظم کو بھی گونا گوں خوبی و خصائص سے مزین کیا ہے، تاکہ کسی انسان کا کسی دوسرے انسان کے بغیر کام نہ چلے۔ نتیجتاً، دنیا کے سب لوگ ایک دوسرے کا تعاون کرتے ہوئے آدم علیہ السلام کی اولاد کے طور پر ایک خاندان کی طرح رہ سکیں۔ اس طرح سے، نعمتوں کا ایک دوسرے سے حاصل ہونا، نعمتوں کی قدر و منزلت کے ساتھ ساتھ، نعمتیں عطا کرنے والے پروردگار کے لیے شکر اور اپنے ان بھائیوں کی کا وشوں کے اعتراف کا مادہ پیدا ہوتا ہے، جن کے توسط سے خدا کی نعمتیں ایک دوسرے کو حاصل ہورہی ہیں۔ کیا ایسا محسوس نہیں ہوتا ہے کہ اللہ تعالی یہی چاہتا ہے کہ اس کے بندے آپس میں شکر و اعتراف کا ماحول پیدا کریں، تاکہ ان کے لیے اپنے حقیقی منعم اور محسن کا شکر بجا لانا آسان ہو جائے۔
ہم سبھی افراد کو یہ بھی اچھی طرح واضح رہنا چاہیے کہ انسان کو جہاں بھی شکوہ و شکایات کے احساسات لاحق ہوں، سمجھ لینا چاہیے کہ دراصل، وہی مقام شکر ہے۔
مقام شکر کا ادراک ہوتے ہی، ہم سب کو فوراً اللہ تعالی کی نعمتوں اور ہماری زندگی میں دوسرے لوگوں کے احسانات کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت ہے، کیوں کہ اللہ کے بندوں کے احسانات کا اعتراف بھی اتنا ہی ضروری ہے، جتنا کہ اللہ رب العالمین کی نعمتوں کا شکر۔ حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ
"جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا، اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا ( سنن ابو داؤد: 4811)۔
قرآن میں زور دے کر فرمایا گیا ہے کہ
” بے شک، ہر پریشانی کے ساتھ آسانی ہے" (الشرح-94: 5-6)۔
"پریشانی" یا بہ الفاظ دیگر، "شکوہ" کے ساتھ "آسانی" یا دوسرے الفاظ میں "خوش خبری" کی نشان دہی وہی لوگ کر پاتے ہیں جو حقیقت میں "صبر" اور "شکر" والے ہیں۔
قرآن میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ
"اگر شکر گزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے" ( ابراہیم-14: 7)۔
اسی حقیقت کی ترجمانی کرنے والا مندرجہ ذیل اقتباس انٹرنیٹ سے حاصل کیا گیا ہے:
"Research shows that worry and thanksgiving cannot co-exist in the brain together at the same time. So we must choose thanks before worry chooses to completely take over”
یعنی ” تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ فکر (چِنتا، الجھن یا تردد)، بہ معنی شکوہ (و شکایت) اور شکر (و اعتراف) دماغ میں ایک ہی وقت میں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے۔ اس لیے ہمیں شکر کا انتخاب کر لینا چاہیے اس سے قبل کہ شکایتی ذہن حاوی ہوجائے۔"
دراصل، شکایت اور اس سے پیدا ہونے والے تمام منفی داعیات شیطانی وسوسے ہوتے ہیں، جب کہ شکر و اعتراف کی کیفیت اپنی فطرت میں رحمانی ہوتی ہے۔ اس طرح، واضح ہوجاتا ہے کہ دنیا میں شکر و اعتراف کا راستہ ہی انسان کی صراط مستقیم ہے۔
آخر میں، زندگی کو گلشنِ شکر بنانے کے لیے ایک آسان تدبیر تجویز کی جاتی ہے:
آج جو حضرات میری طرح معزز شہری (Senior citizens) کے مقام پر فائز ہیں، وہ افراد بھی اور وہ بھی جو ابھی تھوڑے فاصلے پر ہیں، بلاشبہ، کبھی دس سال کی عمر میں بھی رہے ہوں گے۔ ہم سب کو صرف ایک آسان کام کرنا ہے، اور وہ یہ کہ اپنی نظر کو اسی دس سالہ عرصہ میں واپس لے کر جانا ہے اور پتا لگانا ہے کہ تب سے آج تک ہماری خوش حالی اور مقام و معیارات میں کیا تغیرات واقع ہوئے ہیں؟
کیا کسی کو انکار ہوسکتا ہے کہ ہر معاملہ میں ہماری ترقی تب سے سیکڑوں گنا عروج حاصل کر چکی ہے؟
یہاں، سوال یہ ہے کہ کیا ہماری کیفیاتِ شکر بھی اسی مناسبت سے بڑھی ہیں؟
یہی وہ مقام ہے جہاں ہمیں اپنی زندگی میں موجود شکر کے احساسات پر نظر ثانی اور مزید غور و فکر کی ضرورت ہے۔
آج انسان کے ہاتھ میں، صرف ایک اسمارٹ فون (smart mobile phone) ہی اللہ تعالی کی اتنی بڑی نعمت ہے کہ اللہ، ارحم الراحمین کے تئیں کسی بھی مقدار کا شکر بہت ہی کم ہے۔ صرف ایک ہی پہلو پر غور کیجیے:
اس طرح کی خبریں بہت سارے لوگوں نے پڑھی ہوں گی کہ بغداد کے علمی کتب خانوں کے دروازوں اور الماریوں کی چابیاں اونٹوں پر لادی جاتی تھیں۔
مگر، آج ہاتھ میں موبائل کا ایک چھوٹا سا ٹکرا ان سارے علوم کا احاطہ کیے ہوئے ہے، گویا کائنات آپ کی مٹھی میں ہے۔ قرآن پاک میں جگہ جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
” تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلائو گے؟"
(29.03.2022AD; 25.08.1443 AH)
گذشتہ آئینہ خانہ یہاں پڑھیں :تنقید و تعریف اور ان کی حدود

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے