کتاب: ہم عصر شعری جہات

کتاب: ہم عصر شعری جہات

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ، پھلواری شریف، پٹنہ

بدر محمدی کے قلمی نام سے مشہور ڈاکٹر بدر الزماں (ولادت 2؍ نومبر1983) بن مرحوم ریاض علی ساکن چاند پور فتح ڈاک خانہ بریار پور ضلع ویشالی کا نام علمی، ادبی و تنقیدی دنیا میں مشہور و معروف ہے، اکیسویں صدی کی دو دہائی کے درمیان ادب، شاعری اور تنقید و تبصرہ کے حوالہ سے جو چند نام ہمارے درمیان ابھرے اور دیکھتے دیکھتے بساط علم وفن پر چھا گئے ان میں ایک نام بدر محمدی کا ہے، ان کی غزلیات کا مجموعہ بنت فنون کا رشتہ 2011، تبصروں پر مشتمل امعان نظر 2015، غزلیات کا دوسرا مجموعہ خوشبو کے حوالے 2017 اور تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہم عصر شعری جہات 2021 میں اشاعت پذیر ہوے اور پذیرائی کی منزل طے کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہے، 2012 میں بہار اردو اکیڈمی اور 2018 میں اتر پردیش اکیڈمی نے انھیں ایوارڈ دے کر ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کیا۔
’’ ہم عصر شعری جہات‘‘ ان کی تازہ ترین تصنیف ہے، جو ان کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے اورجس کا اجرا ملک کی ریاستوں کے کئی مرکزی شہروں میں ہوچکا ہے، مختلف شہروں میں اجرا کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مصنف کو قارئین کی کمی کا شکوہ نہیں ہوتا، اور کتاب اہل علم تک پہنچ جاتی ہے، صورت حال اس قدر نا گفتہ بہ ہے کہ مطبوعہ اردو کتابوں کو مستحقین تک پہنچا دینا بھی بڑا کام لگتا ہے، قیمت بھی وصول ہوجائے تو نور علی نور۔
ہم عصر شعری جہات کا انتساب مصنف نے ان بہی خواہوں کے نام کیا ہے جنھوں نے تنقید نگاری کی طرف بدر محمدی کو راغب کیا، دو سو سولہ (216) صفحات پر مشتمل اس مجموعہ میں چوبیس مضامین ہیں، جن میں سعید رحمانی کی حمدیہ سحر کاری، فرحت حسین خوش دل کی دعائیہ نظمیں، نویدی کی نثری نعتوں پر ایک نظر، طالب القادری کی نعتیہ شاعری، ناوک حمزہ پوری کی نظمیہ رباعیات، حافظ کرناٹکی کی قطعات نگاری، روٹی جیسا چاند کا دوہا نگار، ف،س اعجاز کی چند پابند نظمیں، عطا عابدی کی ’’زندگی زندگی اور زندگی"، اندھیرے میں نور کی نظمیں، ظہیر صدیقی کا شاعرانہ اختصاص، شگفتہ سہسرامی کی شعری شگفتگی، حمید ویشالوی بہ حیثیت استاذ شاعر، صبا نقوی کی شعری جمالیات، ضیاء عظیم آبادی کی شاعرانہ ضیا پاشی، اوج ثریا کے شاعر کی زمینی وابستگی، علیم الدین علیم کی غزلوں کا رنگ و آہنگ، سائے ببول کے اور اظہر نیر، لفظ لفظ آئینہ اور اس کی تصویریں، تیکھے لہجے کا شاعر: ظفر صدیقی، اشرف یعقوبی کا شعری آہنگ، منظور عادل کا سرمایہ سخن، مینو بخشی کی اردو شاعری، کرب نا رسائی کی شاعرہ شہناز شازی کی شاعری اور کتابوں کا تفصیلی جائزہ لیا ہے اور شعر وادب میں شاعر و شاعرات اور ان کی کتابوں کے رنگ و آہنگ اور مقام و مرتبہ کے تعین کی کام یاب کوشش کی ہے، ہمارے یہاں عموما تنقید نگار شاعر کی فکری جہتوں پر تو کلام کرتے ہیں، جو نسبتاً آسان کام ہے، لیکن فنی جہتوں پر گفتگو یا تو کم ہوتی ہے یا بالکل نہیں ہوتی ہے۔ بدر محمدی کی تنقیدوں میں بھی فنی جہتوں پر گفتگو کی کمی کھٹکتی ہے۔ بدر محمدی خود شاعر ہیں، ان کا مطالعہ وسیع ہے اس لیے وہ فنی جہتوں پر بھر پور گفتگو کی اہلیت رکھتے ہیں، لیکن بیش تر مضامین میں یہ ان چُھوارہ گیا ہے، حالاں کہ انھوں نے خود اپنی اس تنقید کو جمالیاتی تنقید قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ ’’جس میں فنی حسن کو معیار قرار دیا جاتا ہے"۔
کتاب کا آغاز جہت اول سے ہوتا ہے جس میں بدر محمدی نے اپنی تنقیدی نگارشات کے اختصاص، تنقید و تخلیق کے باہمی رشتے اور شاعری کے حوالہ سے اچھی گفتگو کی ہے اس سے وسعت مطالعہ اور اس میں گہرائی اور گیرائی کا پتہ چلتا ہے، ڈاکٹر اسلم حنیف، ڈاکٹر حقانی القاسمی، ڈاکٹر آفتاب عالم صدیقی نے علی الترتیب امتزاج پسند ناقد، بدر محمدی، نقد شعر اور بدر محمدی، مشکل راہوں کا مسافر۔ بدر محمدی کے عنوان سے مصنف کی تنقیدی بصیرت، ان کے تنقیدی طریقہ کار اور ان کی تجزیاتی صلاحیتوں کے در و بست پر روشنی ڈالی ہے۔ ڈاکٹر اسلم حنیف گنور بدایوں لکھتے ہیں کہ ’’بدر محمدی کے یہاں شعری جمالیات کی تفہیم و انشراح کا توضیحی انداز غالب نظر آتا ہے، اور وہ فن پاروں میں مضمر مختلف پہلوؤں کی گرفت کے ہنر سے آگاہ ہیں۔ (صفحہ 14) حقانی القاسمی نے لکھا ہے کہ ’’انھوں نے تحسین شعر یا تفہیم شعر میں مثبت اور صحت مند رویہ اختیار کیا ہے اس سے ایک ایسا معاصر شعری منظر نامہ ترتیب پاتا ہے جو ہماری تنقید کو ایک نیا آئینہ دکھاتا ہے۔(صفحہ 25) ڈاکٹر آفتاب عالم صدیقی کی رائے ہے کہ ’’بدر محمدی تنقیدی زبان کے استعمال پر دسترس رکھتے ہیں، اور اپنی بات سلیقے سے کہنے کا ہنر جانتے ہیں۔ (صفحہ31) شفیع مشہدی نے لکھا ہے کہ بدر محمدی کے مضامین میں معروضیت بھی ہے اور دیانت بھی، اور پروفیسر نجم الہدیٰ سابق صدر شعبہ اردو بہار یونی ورسٹی مظفر پور نے لکھا ہے کہ بدر محمدی صرف لفظوں کے در وبست سے کام نہیں لیتے، فکر انگیزی اور قدر شناشی کی زیریں لہر ہر جگہ صاف نظر آتی ہے ۔‘‘
یہ کتاب قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے مالی تعاون سے چھپی ہے، اس لیے اس کی قیمت صرف ایک سو اڑتیس روپے ہے، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی معیاری طباعت اور عمدہ مارکیٹنگ کے لیے مشہور ہے، یہ کتاب ہر اعتبار سے عمدہ چھپی ہے، کاغذ طباعت، سیٹنگ، پروف ریڈنگ اور جلد سازی سبھی کچھ معیاری ہے، بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ 4 سے یہ کتاب مل سکتی ہے.
صاحب تحریر کی گذشتہ نگارش:کتاب : جہانِ آرزو

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے