کتاب: بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں

کتاب: بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں

نیلم علی راجہ

پریس فار پیس فاونڈیشن کی شائع کردہ "نصرت نسیم صاحبہ" کی کتاب "بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں" (خود نوشت) ایک ایسی سحر انگیز کتاب ہے کہ جس نے تین چار دن مجھے اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔ جتنے دن یہ کتاب زیر مطالعہ رہی اسی کے لمحات کو سوچنا ایک معمول رہا.
بہت خوب صورت سرورق کے ساتھ، 278 صفحات پر مبنی یہ کتاب، چند دیدہ ذیب تصاویر پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کے لیے بہترین کاغذ کا استعمال کیا گیا ہے۔
مصنفہ نے کتاب کا انتساب اپنی زندگی میں آنے والی اہم اور مہربان شخصیات کے نام کیا ہے۔ جن میں ان کے والدین، شوہر، بچوں، استاد، دوست احباب کے علاوہ دل کے قریبی رشتے شامل ہیں۔
محترمہ نصرت نسیم صاحبہ ایک پڑھی لکھی، سمجھ دار، ذہین، محبت کرنے والی، خودمختار اور باشعور خاتون ہونے کے باوجود ایک نہایت سادہ مزاج کی حامل، شرمیلی، رکھ رکھاو والی خاتون ہیں۔
بہت عرصہ تک صرف کتابوں کے ساتھ زندگی بسر کرنا پسند کرتی تھیں۔ کچھ اثر گھر کے سخت ماحول کا بھی تھا۔ اپنے نانا کی، ماموں اور خالہ کی بے حد لاڈلی تھیں۔ نانا جنھیں وہ ڈیڈی کہتی تھیں، کا جا بجا ذکر اس خود نوشت کا حصہ ہے اور ان کی شخصیت کو نکھارنے میں بھی ڈیڈی کا اہم کردار ہے۔
نصرت نسیم دو کتابوں کی خالق ہونے کے ساتھ ساتھ بہ حیثیت پرنسپل اور استاد بھی اپنے فرائض سرانجام دیتی رہیں ہیں۔ اس کے علاوہ ضیاءالحق کے دور میں خاتون کونسلر کی نشست پر تین دفعہ انتخاب جیت کر فلاحی و رفاہی کاموں میں بھی بھرپور حصہ لیتی رہی ہیں۔
ڈائری لکھنا، اپنے خیالات کا اظہار کرنا مصنفہ کا پسندیدہ کام تھا۔ اس سے ان کی لکھنے کی صلاحیتوں کا اندازہ بہ خوبی ہوتا ہے۔ آج بھی کتابیں ان کی زندگی میں خاص اہمیت رکھتی ہیں۔
مصنفہ نے آج کل کے بچوں اور اس دور کے بچوں کا موازنہ کچھ اس طرح کیا ہے کہ پہلے بچے باہر جا کر کھیلتے کودتے تھے۔ اور تھوڑے سے کھلونوں اور کھیلوں سے جی بھر کر کھیلتے تھے۔ مگر آج کل کے بچے بے حساب کپڑے، کھلونے، مہنگے برگرز، طرح طرح کی آئس کریمز، مگر بچے پھر بھی ناخوش اور بور ہورہے ہیں کی تکرار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بچوں کے نفسیاتی مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پہلے بچے سہولتیں کم ہونے کے باوجود خوش باش نظر آتے تھے اب چیزوں کی کثرت نے قدروقیمت گنوا دی ہے۔
مصنفہ نے اپنے خاندان کے لوگوں کا تعارف بھی کتاب میں تحریر کیا ہے۔ جن لوگوں کا کتاب میں بارہا ذکر ہے، مصنفہ نے ان کی شخصیات کو قارئین کے لیے کسی حد تک بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس سے مصنفہ کی ان لوگوں سے محبت دکھائی دیتی ہے۔
محبت اور جذبات کی عکاسی کرتی مصنفہ کی تحریر کردہ یہ کتاب دل کو موہ لینے کے لوازمات سے مالا مال ہے۔
نصرت نسیم نے اس کتاب میں فردا فردا سب احباب کا شکریہ ادا کیا ہے جنھوں نے اس کتاب کو مرتب کرنے میں ان کی مدد کی ہے۔
اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ مصنفہ نے 1965ء سے لے کر آج تک کے ادوار کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ جس سے نہ صرف مصنفہ کی زندگی کے حالات کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ ان ادوار کے لوگوں، رہن سہن، رسم و رواج، شادیوں، اخلاقیات، کرنسی، کھانا پینا، لباس سے واقفیت بھی حاصل ہوتی ہے۔
کتاب کا مطالعہ کرتے [ہوئے] ایسا لگتا ہے جیسے مختلف ادوار کو الفاظ کی صورت دے دی گئی ہو۔ جب اسکولوں میں کرسیوں کے بجائے ٹاٹ ہوا کرتا تھا۔ کتابوں کے ساتھ سلیٹ اور تختی لکھی جاتی تھی۔ روایتی کھانے بنا کرتے تھے۔ لوگ پر خلوص اور محبت کرنے والے ہوا کرتے تھے۔ زیادہ تر سفر ٹانگے پر کیا جاتا تھا۔
ہر گھر میں بننے والے صحت بخش پکوانوں کا ذکر اس کتاب کا ایک خاصہ ہے۔ ان کھانوں کے ذائقوں سے نہ تو آج کل کے بچے آشنا ہیں اور نہ ہی آج کل کی مائیں وہ کھانے بناتی ہیں۔
کرنسی میں سکے، ٹکے اور آنے کا بھی ذکر ہے۔ جو کہ نئی نسل کو ایک معلومات بھی فراہم کرتا ہے کہ یہ کرنسی بھی ہوا کرتی تھی۔
ایک روایت جو آج بھی اتنے ادوار کے بعد بھی رائج ہے اور وہ یہ کہ لڑکے کی پیدائش پر خوشی اس وقت بھی منائی جاتی تھی اور لڑکیوں کی پیدائش پر افسوس آج بھی اکثر گھرانوں میں کیا جاتا ہے۔
نصرت نسیم نے بچپن کے مختلف کھیلوں کو اپنی یادوں میں سمو کر نہایت عمدگی سے بیان کیا ہے۔ بہت سے کھیل ایسے بھی ہیں جو آج بھی کھیلے جاتے ہیں مگر موبائل اور کمپیوٹر کی ایجادات نے ان کے کھیلنے میں کمی کر دی ہے۔
آج کے مشینی دور میں نئی نسل کو اپنے اسلوب سے آگاہی حاصل کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ اس معاملے میں یہ کتاب ایک معاون کردار ادا کر سکتی ہے۔
نصرت نسیم صاحبہ نے ذکر تو کوہاٹ کے خطے کا ہی کیا ہے کیوں کہ ان کی زیادہ تر زندگی وہیں بسر ہوئی مگر چونکہ زمانے اور خصوصی پاکستان کے طور اطوار اور رہن سہن تھوڑے بہت مختلف ہونے کے باوجود ایک سے تھے۔
لہذا جو بھی اس کتاب کو پڑھے گا وہ خود کو ان رسم و رواج، طور طریقوں اور رہن سہن سے منسلک کیے بنا نہیں رہ سکے گا۔
مصنفہ نے اپنے بچپن کے واقعات سے کتاب لکھنا شروع کی اور کونسلر بننے تک کے سفر اور زندگی کے اتار چڑھاؤ کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اس میں ان کا اپنا زمانہ طالب علمی، اور بہ حیثیت استاد پھر بہ حیثیت پرنسپل فرائض منصبی ادا کرنا اور پھر اپنے نواسے نواسیوں کا ذکر بھی اس کتاب کا حصہ ہے۔
یہ کتاب شروع سے آخر تک قاری کی دل چسپی قائم رکھنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ مصنفہ کے قلم کی روانی اور الفاظ کا جادو قاری کو کتاب سے باندھ کر رکھتا ہے اور ان کی داستان حیات بہت کچھ سیکھنے کا موقع دیتی ہے۔
آپ یہ بھی پڑھ سکتے ہیں :کتاب: بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں

شیئر کیجیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے