مجتبیٰ حسین کے خاکوں میں انفرادی رنگ

مجتبیٰ حسین کے خاکوں میں انفرادی رنگ


ڈاکٹر قسیم اختر
اسسٹنٹ پروفیسر
پورنیہ یونیورسٹی، پورنیہ (بہار)
qaseemakhtar786@gmail.com
9470120116

مجتبیٰ حسین کی زندگی سے کئی اتفاقات جڑے ہیں۔ جس طرح ان کی کالم نگاری کی شروعات اتفافیہ ہوئی، اسی طرح ان کی خاکہ نگاری کی ابتدا بھی۔خاکوں کی شروعات کے متعلق وہ خود لکھتے ہیں ”میں نے پہلا خاکہ 1969 میں اپنے بزرگ دوست حکیم یوسف کا لکھا تھا…جب ان کی کتاب ”خواب زلیخا“کی تقریب رونمائی کا مرحلہ آیا تو نہ جانے ان کے جی میں کیا آئی کہ مجھ سے اپنا خاکہ لکھنے کی فرمائش کربیٹھے۔“ آدمی نامہ کے دیباچہ ”دوباتیں“ میں مجتبیٰ حسین کے اس اعتراف سے دو باتیں سامنے آتی ہیں:
اول: انھوں نے پہلا خاکہ اتفاقیہ لکھا۔
دوم:ان کی خاکہ نگاری کی ابتدا ہی فرمائشی خاکوں سے ہوئی۔
فرمائشی تبصروں اور خاکوں کی کیا حیثیت ہوسکتی ہے،اس کا اندازہ کرنا کوئی مشکل نہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کے متعلق ڈاکٹر صفدر امام قادری نے لکھا:”پرانے خاکے کچھ زیادہ دل لگاکر اور غیر فرمائشی انداز میں سامنے آئے ہوں گے اورنئے خاکوں میں کچھ تازہ لہو کا کھوٹ اور کچھ فرمائش کا دخل،غارت گری کی کوئی تووجہ ہوگی۔“ (۱) فرمائشی خاکوں کے تناظر میں ڈاکٹر صفدر امام قادری کا یہ اشارہ بہت خوب ہے۔ مجتبیٰ حسین کے خاکوں کے مطالعے سے اندازہ ہوتاہے کہ ان کا پہلا خاکہ فرمائشی تھا مگر اس کے بعد انھوں نے اپنے خاکوں میں فرمائشی رنگ جمنے نہیں دیا۔یہی وجہ ہے کہ ان خاکوں میں دل جمعی نظر آتی ہے۔ لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ کم وبیش گذشتہ دو دہائیوں میں انھوں نے جو خاکے لکھے ان میں شاید فرمائشی رنگ کچھ زیادہ نکھرا ہوا نظر آتا ہے۔ فرمائشی خاکوں میں متعلقہ شخصیات کی رنگ آمیزی کے ساتھ مجتبیٰ حسین نے ان کے احوالِ زندگی پر بھی توجہ دی۔ متعلقہ شخصیات کی زندگی پر تاریخی حوالوں سے گفتگو کی۔ جہاں متعلقہ شخصیت کے تاریخی پہلوؤں پر گفتگو ملتی ہے، وہاں محسوس ہوتاہے کہ ہم خاکہ نہیں بلکہ کوئی سوانحی مضمون پڑھ رہے ہیں۔ کیوں کہ فرمائشی خاکوں میں خاکہ نگار کھل کر اپنی بات کہنے سے قاصر رہتا ہے۔فرمائشی خاکوں میں خاکہ نگار کبھی خاکے کو سوانحی رنگ دیتا ہے تو کبھی متعلقہ شخصیات کی فن پر گفتگو کرتا ہے۔ مجتبیٰ حسین کے بہت سے خاکوں میں ایسا رنگ ملتا ہے، جب کہ خاکے کا معاملہ تنقید سے جدا گانہ ہے اور سوانحی مضمون سے مختلف۔ خلیق انجم نے لکھا ہے کہ خاکہ میں شخصیت پر روشنی ڈالنا پڑتی ہے،مختصر الفاظ میں ایک فرد کا نقشہ ابھارا جاتا ہے۔(۲)
یہ سچی بات ہے کہ خاکوں میں لفظ کا مناسب انتخاب انتہائی اہم مسئلہ ہے۔ساتھ ہی تاریخی بیان کے بجائے خاکوں میں شخصیتوں کی عادات واطوار، گفتار ورفتار اور رہن سہن کے پہلوؤں پر دل چسپ انداز میں روشنی ڈالی جاتی ہے۔ خاکہ اتنا لطیف اور حساس فن ہے کہ وہ تاریخی بیان کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح اس میں فن پاروں کی تنقید کی بھی شاید گنجائش نہیں رہتی۔ مجتبیٰ حسین کے خاکوں میں زبان کا جو رچاؤ ملتا ہے وہ کم خاکہ نگاروں کو نصیب ہوا، مگران کے بہت سے خاکوں میں تاریخی بیان بھی ہے اور فن پاروں پر تنقید بھی۔میرے کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ خاکہ کہانی کی طرح مربوط ہو۔ اس حوالے سے ذیل کا اقتباس دیکھیں:
”علاوہ ازیں کہانی کے فن کا بنیادی نکتہ suspension of beliefہے، جب کہ خاکہ نگاری کا پہلا اور اہم ترین تقاضا suspesion of disbeliefہے۔ یہ دونوں اصول ان دوکناروں کے مانند ہیں جن میں چاہے کتنی مشابہتیں کیوں نہ تلا ش کرلی جائیں لیکن انہیں کسی طور ایک نہیں کیا جاسکتاہے۔ اس لیے ان کے بیچ حدِّ امتیاز کی صورت جیتا جاگتا دریا بہتا ہے۔ کہانی اور خاکہ نگاری کی مثال ایسے ہی دو کناروں کی ہے۔ (۳)

خاکوں میں حقیقتاً کئی اصناف کی خصوصیات ملتی ہیں۔اس فن میں اختصار سے سروکار رکھا جاتا ہے جو ایک بہترین افسانہ کی خصوصیت ہے۔ اردو میں کیا،دوسری زبانوں میں بھی انتہائی چھوٹے چھوٹے خاکے لکھے گئے۔ طویل افسانوں کی روایت بھی رہی ہے، مگر طویل خاکوں کی روایت نہیں۔ یہ الگ با ت ہے کہ اردو میں چند طویل خاکے بھی لکھے گئے،مثلاً: مولوی نذیر کی کہانی،کچھ میری کچھ ان کی زبانی“یا ”دوزخی“۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ خاکوں کے لیے اختصار لازمی عنصر کی طرح ہوگیا۔ اس طرح زبان وبیان کے لحاظ سے خاکوں میں انشائیہ کی آمیز ش ہوجاتی ہے۔ کیوں کہ زبان وبیان کی چستی کے بغیر خاکوں میں لطف باقی نہیں رہتا۔ اگر مجتبیٰ حسین کے خاکوں پر نظر ڈالیں تو پہلی بات یہ نظر آئے گی کہ وہ انتہائی مختصر خاکے لکھتے تھے۔ ان کے خاکوں میں اختصار کا ہی نتیجہ ہے کہ وہ پڑھنےوالوں کو اپنے ساتھ باندھے رکھتے ہیں۔ ان کا لکھا ہوا ایک خاکہ پڑھنے والا رو میں کئی ایک بار پڑ ھ لیتا ہے۔ ان کی کتابوں پر بھی نظرڈالیں تو ان کے یہاں پتلی دبلی کتابیں ہی نظر آتی ہیں، اس لیے پڑھنے والے کا شوق بڑھتا ہی جاتا ہے۔ ذیل میں مجتبیٰ حسین کے چند خاکوں کا تجزیہ کیا جاتاہے جن سے ان خاکوں کی انفرادیت واضح ہوگی۔
معروف ناقد شمس الرحمن فاروقی کا خاکہ مجتبیٰ حسین نے”شمس الرحمن فاروقی“کے نام سے ہی لکھا۔ اس خاکے میں تاریخی بیان موجود ہے مگر خاکے میں اس وقت خوب صورتی پیدا ہوجاتی ہے جب وہ تاریخی بیانات کو مزاحیہ عنصر سے جوڑتے ہیں۔ مثلاً:انھوں نے مشفق خواجہ کے حوالے سے لکھا کہ جب پروین شاکر کو ایوارڈ ملا توساقی فاروقی نے لکھا کہ اس انعام کے دس فی صد کا حق دار میں ہوں، کیوں کہ پروین کی کتاب کا فلیپ میں نے لکھا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی کے متعلق مشہور ہے کہ وہ ایک جلد ساز کے یہاں آنے والی کتابوں کو پہلے پڑھتے تھے،اس کے بعد جلد ساز کو کہیں جلد سازی کا موقع ملتا تھا۔ مجتبیٰ حسین نے اس واقعے کو فاروقی کے سرسوتی سمان سے جوڑ کر دیکھا اور مزاحیہ عنصر پیداکیا کہ فاروقی کو ملنے والے اس انعام میں اس جلد سا ز کا اسی طرح حصہ ہے،جس طرح پروین شاکر کے انعام میں ساقی فاروقی کا ہے۔ اس خاکے میں مجتبیٰ حسین نے فاروقی کی شخصیت سے کہیں زیادہ ان کے دیگر کارناموں پر روشنی ڈالی۔ اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے اس خاکے میں بھی آپ بیتی کا رنگ ابھرتا ہے۔
پروفیسر ارتضی کریم پر لکھا گیا خاکہ”قصہ کچھ میرا کچھ ارتضی کریم کا“ بھی انتہائی دل چسپ ہے۔ دل چسپی کا عنصر اس وجہ سے بھی پیداہوتا ہے کہ مجتبیٰ حسین نے ارتضی کریم کی بہت سے عادتوں کو خود سے مماثل بتا یا۔ اس کے علاوہ ارتضی کریم کو جس انداز سے ایک متحرک انسان بنا کر پیش کیا گیا،وہ اپنے آپ میں ایک اہم پہلو ہے۔گویا اس خاکے میں ارتضی کریم پوری شان وشوکت سے نظر آتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
”ارتضی کریم نہایت خوش شکل اور وجیہہ وشکیل نوجوان ہیں۔ نوجوان اس لیے کہ پچھلے چالیس برس کے عرصے میں ان پر اب تک بڑھاپے کے کوئی آثار نمودار نہیں ہوئے۔ کنپٹیوں پر تھوڑے سے سفید بال آجائیں تو اسے بڑھاپا نہیں کہتے۔ میں نے انھیں جب بھی دیکھا سرگرم عمل، فعال اورمتحرک دیکھا۔ ہمیشہ کسی نہ کسی کام میں مصروف رہتے ہیں۔ ایک بار میں نے ان کے گھر فون کیا توغالباً ان کے ملازم نے فون اٹھایا۔ میں نے پوچھا ”ارتضی کریم گھر پر ہیں“۔ جواب آیا ”گھر پر ہیں مگر مصروف ہیں“۔میں نے پوچھا ”کس کام میں مصروف ہیں “۔ جواب آیا ”سونے میں مصروف ہیں“۔ (۴)
اس اقتباس سے کئی باتیں واضح ہورہی ہیں:
اول: ارتضی کریم کی شکل وشباہت
دوم: ان کی فعالیت
سوم: ان کی مصروفیت
چہارم:مصروفیت میں طنزیہ اسلوب
اس لیے یہ کہا جاتاہے کہ مجتبیٰ حسین ایک خاکے میں شخصیت کے کئی پہلوؤں کو ابھار تے ہیں۔ ارتضی کریم کے اس خاکے کے اختتام میں جو چند پیراگراف ہیں، ان کی فضا الگ ہے۔ کیوں کہ اس میں ایک روداد ہے۔
خاکوں کے متعلق یہ کہا جاتاہے کہ پورے خاکے پر وہ شخصیت غالب رہے، جس کے اوپر خاکہ لکھا جارہا ہے۔ محبتی حسین کے خاکوں میں بعض اوقات متعلقہ شخصیات غائب ہوجاتی ہیں اور شخصیات کے ضمن میں وہ عمومی طور پر طنزیہ اسلوب اختیار کرتے ہیں۔ان کے اس انداز سے کئی باتیں واضح ہوتی ہیں:
اول: خاکہ میں زیربحث شخصیت مجروح نہیں ہوتی۔
دوم: خاکوں میں متعلقہ شخصیت کا رنگ پھیکا کرنے کے بعد جو طنز یہ سطریں لکھی گئیں، ان سطروں کوخاکوں سے الگ کرکے بھی شائع کیا جاسکتاہے۔
سوم: طنزیہ اسلوب میں متعلقہ شخصیت کا رنگ ذرا پھیکا ہوجاتا ہے، اس لیے وہ شخصیت طنز کوخود سے منسلک نہیں سمجھتی، حالاں کہ یک گونہ اس طنز میں اس شخصیت کی بھی شمولیت ہوتی ہے۔
خاکوں میں مجتبیٰ حسین کی اس انفرادیت سے جو خوب صورتی پیدا ہوتی ہے وہ اپنی جگہ ہے تاہم اس سے کھردرا پن بھی راہ پاتا ہے۔ وہ اس طرح کہ خاکہ تولکھا جارہا ہے کسی اور فرد پر اور طنزیہ سطریں متعلق ہوتی ہیں کسی اور سے۔ اس سے خاکے میں دل چسپی کا عنصر تو پیداہوتاہے مگر کھردرا پن بھی در آتا ہے:
”اپنی صفائی میں صرف اتنا عرض کرتا چلوں کہ میں نے یہ خاکے کسے کے حق میں یا خلاف بالکل نہیں لکھے جس طرح دل ودماغ نے کسی شخصیت کو قبول کیا، اسے ہو بہو کاغذ پر منتقل کردیا۔ یہ اور بات ہے کہ خاکے میں خاکہ نگار کا زاویہ ئبھی درآتا ہے بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ خاکہ نگار جب کسی شخصیت کا خاکہ لکھتا ہے تو وہ انجانے طورپر خود اپنا خاکہ بھی لکھ ڈالتا ہے۔“(۵)
یہ بات تو اپنی جگہ درست ہے کہ مجتبیٰ حسین نے جس فرد کو جس طرح محسوس کیا اسی طرح لکھ دیا، مگر ان کے خاکوں کی حقیقت یہ بھی ہے کہ جس شخصیت کو وہ جس طرح محسوس کرتے ہیں، اسے اس طرح نہیں لکھتے بلکہ اچھائی راست طور پر لکھتے ہیں اور خامیوں کا علی العموم ذکر نہیں کرتے۔یعنی اس شخصیت سے قطع نظر کرتے ہوئے خاکوں کے درمیان عمومی بات کرتے ہیں، گویاطنزیہ خامی کے بیان میں اس شخص کا کوئی حصہ نہیں ہوتابلکہ وہ عمومی تناظر میں طنز کرتے ہیں۔ ایک اقتباس دیکھیں:
”بیشک میں نے اردو کے ان ہی پروفیسروں کا مذاق اڑایا ہے جنہیں اردو سے محبت نہیں ہے اور وہ اپنے پیشہ اور اس کی حرمت کالحاظ نہیں رکھتے۔ ایک دن میں نے اردو کے ایک پروفیسر کے گھر جاکر کال بیل بجائی۔ جواب میں ان کے آٹھ سالہ بیٹے نے دروازہ کھولا تو میں نے پوچھا:”کیوں میاں تمہارے والد صاحب قبلہ گھر پر ہیں“، اس پرمعصوم ومظلوم بچے نے وہیں سے اپنا منہ پلٹا کر بہ آواز بلند اپنی ماں سے پوچھا ”ممی! کیا ہمارے گھر میں کوئی والد صاحب قبلہ بھی رہتے ہیں؟ اس کے اس معصوم سوال پر میں دل مسوس کررہ گیا۔ افسوس ہوا کہ اردو کے پروفیسر ہونے کے باوجود خود پروفیسر صاحب نے بھی اپنے بیٹے کو یہ نہیں بتایا کہ وہ انگریزی میں اس کے ”ڈیڈی“ ہونے کے علاوہ اردومیں اس کے ”والد صاحب قبلہ“ بھی کہلائے جاتے ہیں۔(۶) یہ خاکہ بیگ احساس کا ہے، مگر مذکورہ اقتباس سے اندازہ کرنا ممکن ہی نہیں کہ یہ ان کا ہی خاکہ ہے، یا پھر یہ خاکہ ہے یا کوئی طنزیہ مضمون؟ مذکورہ سطور میں جو دعوی کیا گیا کہ مجتبیٰ حسین کے خاکوں سے متعلقہ شخصیت غائب ہوجاتی، اس دعوی کے لیے یہ خاکہ بھی دلیل ہے۔ گویا بیگ احساس غائب ہوگئے اور طنزیہ اسلوب میں چند اہم باتیں شامل ہوگئیں جن کا خاکے سے تو کوئی تعلق نہیں۔ اسی طرح اس خاکے میں مجتبیٰ حسین نے بیگ احساس کے افسانوں پر تنقیدی نظر بھی ڈالی۔ اس کے علاوہ ان کے اہلیہ کا جس انداز سے تذکرہ کیا گیا، وہ بھی بیگ احساس کے خاکے کا حصہ نہیں ہوسکتا بلکہ اس جگہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مجتبیٰ حسین ان کی اہلیہ کا ہی خاکہ لکھ رہے ہیں۔ اس لیے یہ کہا جاسکتاہے کہ اس خاکے میں وہ شخصیت حاوی نہیں جس پر یہ خاکہ لکھا گیا بلکہ ضمنی طور پر بہت سے بیان نے اس کو ایک الگ رخ دے دیا۔ گویا اس خاکے میں زمانے پر طنزہے،جہاں طنزیہ مضمون کا گمان گزرتاہے۔ متعلقہ شخصیت کی افسانوی خصوصیات پر تنقید ی نگاہ ہے، گویا یہ حصہ کسی تنقیدی مضمون کا ہے۔ اس لیے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ شاید مجتبیٰ حسین نے فرمائشی خاکوں میں ایسا رویہ اختیار کیا، جن میں متعلقہ شخصیت سے زیادہ ضمنی باتوں کو ترجیح دیا گیا، تاکہ اس شخص کی دل شکنی نہ ہو۔ اپنے پہلے خاکہ ”اردو شاعری کا ٹیڈی بوائے“ میں مجتبیٰ حسین نے انتہائی حسین تناظر میں ان کے مجموعے کا تعارف کرایا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ خاکہ مخصوص نشست کے لیے لکھا گیا تھا۔ اس لیے مجتبیٰ حسین نے اس نشست کو مدنظر رکھتے ہوئے مجموعے کے متعلق بھی گفتگو کی۔ساتھ ہی حکیم صاحب سے اپنے مراسم کا بھی تذکرہ کیا۔ ان کے علاوہ ان کی شاعرانہ انفرادیت پر روشنی ڈالی۔ اس خاکے میں دل چسپی کا عنصر از ابتدا تااتنہا قائم رہتا ہے۔ اس کو پڑھنے کے بعد کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ ان کا پہلا خاکہ ہوگا۔ کیوں کہ ان کا مکمل اسلوب اس میں آب وتاب کے ساتھ موجود ہے۔اسی طرح عمیق حنفی کا خاکہ بھی انتہائی شان دار ہے۔ کیوں کہ اس میں انھوں نے عمیق حنفی کی پوری شخصیت واضح کرنے کی کوشش کی۔ اس خاکے سے ایک اقتباس:”حیدرآباد میں عمیق حنفی کے ایک دوست تھے مجاہد انصاری۔ وہ عمیق حنفی کے کچھ اتنے ناقابل علاج مداح تھے کہ ہر دوسرے تیسرے جملے کے بعد کہتے ’عمیق حنفی‘ بڑے قادر الکلام شاعر ہیں۔ ’اس میں کوئی کلام نہیں کہ میں بھی عمیق حنفی کو قادر الکلام شاعر سمجھتا ہوں لیکن قادر الکلامی کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہر دوسرے تیسرے جملے کے بعد عمیق حنفی کا ذکر کیا جائے۔ ایک دن بات کا رخ پھر حنفی کی قادرالکلامی کی طرف ہونے لگا تو میں نے مجا ہد انصاری کو ٹوکٹے ہوئے کہا ’میں بھی عمیق حنفی کا قائل ہوں بلکہ تم انھیں صرف قادرالکلام شاعر سمجھتے ہو،میں تو انھیں عبدالقادرالکلام شاعر سمجھتا ہوں۔‘ اس دن کے بعد سے انھوں نے پھر کبھی عمیق حنفی کے سلسلے میں ’قادرالکلامی‘ کو زحمت دینے کی کوشش نہیں کی۔“(۷) مجتبیٰ حسین نے اس خاکے میں تاریخی بیان سے احتراز کیا ہے اور شخصیت کو پورے خاکے میں نقش کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں آپ بیتی کا گمان نہیں گزرتا بلکہ شخصی خاکہ واقعی شخصی خاکہ نظر آتا ہے۔ فرمائشی خاکوں میں حفظِ مراتب اور تعلق داری کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، اس لیے ایسے خاکوں میں بھرتی کی بہت سی چیزیں انڈیل دی جاتی ہیں مگر جب معاملہ فرمائشی نہ ہوتو فن واقعی نکھر کر سامنے آتا ہے۔ عمیق حنفی پر لکھے گئے خاکہ’’عمیق حنفی، آدمی درآدمی“میں جس طرح انھوں نے ان کی صلاحیتوں،عادتوں اور زندگی کی نیرنگیوں کو پیش کیا، اس سے ان کی پوری شخصیت سامنے آجاتی ہے۔ کوئی چار پانچ صفحات پر مشتمل اس خاکے میں مزاحیہ عنصر بھی ہے اور عمیق حنفی کی قد کاٹھی بھی۔ ان کے سچے ہونے اور دشمن بنائے جانے والی اداؤں کا بھی ذکر ہے، ادب کو کچی پکی چیزوں سے پاک صاف رکھنے کی مہم بھی۔ گویا مجتبیٰ حسین نے فن کاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھرتی کے واقعات سے اس خاکے کو بوجھل بنانے کی کوشش نہیں کی، جس طرح وہ دیگر خاکوں میں کرتے ہیں۔ عمیق حنفی کے اس خاکے میں جہاں واقعات سے مزاح کی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی،وہیں لفظوں کے استعمالات سے شگفتگی کی فضا قائم کرنے کی شعوری کیفیت نظر آتی ہے۔مذکورہ اقتباس میں ”ناقابل علاج مداح“ کی شگفتگی کا جواب نہیں۔ اسی طرح ”قادر الکلامی اور عبدالقادر الکلامی“ بھی لطف کا ایک پہلو رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ ”قادرالکلامی کو زحمت د ینا“ سے بھی مزاح کی کیفیت پیدا کرنا بڑی بات ہے۔اس طرح دیکھا جائے تووہ آسان آسان لفظوں کے سہارے بہترین اسلوب تیار کرتے ہیں۔ اپنی زبان دانی کا مظاہرہ لفطوں کے استعمال سے کرتے ہیں۔ یہاں ایک بات یہ بھی کرنی ضروری ہے کہ مجتبیٰ حسین کالم میں وہی زبان استعمال کرتے ہیں جو وہ خاکہ لکھنے کے لیے کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ سفرنامہ میں اسی آسان زبان سے سروکار رکھتے ہیں۔ گویا اصناف بدلنے سےان کے اسلوب میں تبدیلی نہیں آتی بلکہ اپنے نفیس اسلوب کا مظاہرہ وہ ہر ایک فن میں کرتے ہیں۔ذیل میں اقتباس دیکھیں: ”ہمارے عہد میں مجتبیٰ حسین ایسی ہی سادہ ورنگین، بامزہ وشیریں نثر لکھتے ہیں جن میں ان کا کوئی شریک وسہیم نہیں۔ ان کے اظہار وابلاغ میں کہیں یہ شبہ نہیں ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی بات کہنے کے لیے کوئی تکلف کیا ہے، یا جو کچھ وہ کہنا چاہتے تھے اسے اپنے قاری تک پہنچانے میں ناکام رہے۔ یہ غیر معمولی محنت کے علاوہ خدا داد صلاحیت کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ان کے موضوعات کو دیکھئے کہ ان میں کتنا تنوع ہے۔“(۸) حسن چشتی نے دراصل ان کے کالموں کا انتخاب کرتے وقت مقدے کے طور پر یہ سطریں لکھیں۔ اگر ان سطور کو مجتبیٰ حسین کے خاکوں کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کریں تو بھی ان کی صداقت وہاں موجود ہوگی۔اسی طرح سفرناموں کے اقتباسات کی روشنی میں حسن چشتی کی اس رائے کو دیکھیں تو سفرناموں میں بھی سادہ اسلوب نظر آئے گا۔بہت سے فن کاروں نے اصناف کے مدنظر اپنی زبان بنانے کی کوشش کی مگر مجتبیٰ حسین اپنے اسلوب سے ہر جگہ کام لیتے ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی عرض کرنا ضروری ہے کہ مجتبیٰ حسین کے مزاحیہ اسلوب کی روشنی ہرصنف میں بکھری ہوئی نظر آتی ہے۔ سفرناموں میں بھی وہ مزاحیہ کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور خاکوں میں بھی۔ اس طرح کالموں میں بھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی زبان ہر صنف میں ایک جیسی نظر آتی ہے۔ یہ سچی بات ہے کہ مجتبیٰ حسین کی تحریریں پڑھنے کے بعد کئی روایتوں کی پا س داری نظر آتی ہے۔ کیوں کہ ایک طرف وہ مزاح نگاروں کے رویوں کو اپنے فن سے جوڑ کر پر لطف اسلوب تیار کرتے ہیں،وہیں دوسری طرف بزرگوں کی قدردانی کرتے ہیں۔ ان کی زندگی کے واقعات سے ایسے ایسے مزاحیہ پہلو منتخب کرتے ہیں جن میں سبق کا کوئی نہ کوئی پہلو پوشیدہ ہوتاہے۔ اس طرح دیکھاجائے تو مجتبیٰ حسین صالح قدروں کے امین تھے۔ انھوں نے اس امانت کو اپنی تحریروں میں پیش کیا۔ کیوں کہ ہماری زندگی کا مقصد کسی پر طعن وتشنیع کرنا نہیں ہوتابلکہ لطیف پیراؤں میں ایسی باتوں کا اظہار ہے جس سے سماج اور فرد کی تشکیل میں معاونت ہوسکے۔ اگر مجتبیٰ حسین چاہتے تو اپنے دھار دار قلم سے بہت سی شخصیات کی خامیوں کا دفتر تیار کردیتے، مگر انھیں معلوم تھا کہ اس کا کوئی حاصل نہیں۔ اس لیے شاید انھوں نے ایک ایسے اسلوب کو فروغ دیا جس میں ذاتی اصلاح اور سماجی اصلاحات کے راز پوشیدہ ہیں۔ انھیں زندگی کی تلخ حقیقتوں سے آگاہی تھی اور وہ لطیف جذبات سے مالامال بھی۔ ان دونوں پہلوؤں سے کام لیتے ہوئے انھوں نے اپنا منفرد رنگ جمایا۔مجتبیٰ حسین کے خاکوں کے متعلق پروفیسر مناظرعاشق ہرگانوی لکھتے ہیں: ”مجتبیٰ حسین خاکہ میں لطیف پیرایہء بیان اپناتے ہیں اور حقائق حیات کی تلخیوں کو جذبہ واحساس کی لطیف کرنوں اور اسلوبی ملاوٹوں کے برتاؤ سے ہم آہنگ کرتے ہیں۔ انھوں نے خاکہ میں مزاح اور سنجیدگی کے امتزاج سے توازن قائم کیا ہے اور اردو کو اپنا اسٹائل دیا ہے…تہذیبی ضابطوں اور تقاضوں کی پاسداری کرتے(ہیں)۔(۹) یہ حقیقت ہے کہ مجتبیٰ حسین زندگی کی تلخیوں کو تجرباتی رنگ میں اس طرح پیش کرتے ہیں کہ مزاح کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ یہی کیفیت ان کے خاکوں میں شیفتگی کا احساس جگا دیتی ہے اور انفراد بھی عطا کرتی ہے۔ کیوں کہ خاکوں کی یہی انفرادیت قارئین کے لیے لطف یابی کی چیز ہوتی ہے۔پروفیسر ہرگانوی نے یہ سچی بات کہی کہ وہ اپنے خاکوں میں حفظ مراتب کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے خاکوں کا اسلوب تیکھا نہیں ہوتا۔ انتہائی شائستگی سے بلکہ انتہائی آسان لفظوں میں وہ عام فہم اسلوب اپنا تے ہوئے اپنی بات کہتے ہیں۔ان کے خاکوں میں متعلقہ شخصیات کی خوبیاں زیادہ ابھرتی ہیں اور خامیاں کم۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہرا یک ان سے خاکہ لکھوانے کی خواہش رکھتا تھا۔ اگر ان کا لہجہ ذرا تلخ ہوتا یا وہ خامیوں پر بھی توجہ دیتے تو خاکوں کی فرمائش کرنے والے کم ہوتے۔ گویا ان کے نرم لہجے نے ان کی شخصیت سے لوگوں کو قریب کیا اور فرمائشی خاکوں کاسلسلہ بھی دراز ہوا۔ مجتبیٰ حسین سے میری باربار نہ سہی، ایک بار ملاقات ضروری ہوئی۔ ان کی زندگی سے ان کی تحریروں کو جوڑ کردیکھنے سے اندازہ کرنا کوئی مشکل نہیں کہ وہ حلیم وبرباد تھے۔ یہی بردباری ان کی تحریروں میں نظر آتی ہے۔ یوں تو مجتبیٰ حسین کی تحروں سے بہت سے لوگ ناآشنا بھی ہیں۔جنھوں نے مجتبیٰ حسین کو نہیں پڑھا، اس کے ذہن میں ان کا خاکہ بھاری بھرکم شخصیت کے طور پر ابھرے گا، مگر جنھوں نے ان کی تحریروں سے فائدہ اٹھایا، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ اپنی تحریروں میں انتہائی حلیم شخص نظر آتے ہیں۔ اس لیے مجتبیٰ حسین کی تحریروں سے استفادے کے بعد جس نے بھی ان سے ملاقات کی ہوگی، اس نے مجتبیٰ حسین کو ان کی تحریروں سے بہت قریب پایاہوگا۔ گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مجتبیٰ حسین کی زندگی میں دو رنگی نہیں تھی۔ وہ جو سوچتے تھے، جو وہ سمجھتے تھے، اسی کو اپنی تحریروں میں پیش کرتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ کبھی کبھی فرمائشی خاکوں میں ’ہم درد‘ نظر آتے ہیں۔ مجموعی طور پر مجتبیٰ حسین کے خاکوں میں مزاحیہ رنگ سب سے واضح انداز میں ابھرتا ہے اور یہ مزاحیہ رنگ خاکہ لکھنے کے لیے منتخب کی گئی شخصیات سے کم متعلق ہوتا ہے،بلکہ وہ خاکوں میں متعلقہ شخصیات سے ذرا فاصلہ بناکر عمومی طور پر مزاحیہ انداز پید اکردیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس شخص پر کوئی بات گراں نہیں گزرتی جس پر خاکہ لکھا جارہا ہے۔مجتبیٰ حسین کے اسی اندا ز سے بہت سے لوگ سوچتے رہتے ہیں کہ آخر خاکہ میرے خلاف ہے یا اس میں میری تعریف کی گئی ہے۔ اس بات کا اعتراف مجتبیٰ حسین نے بھی کیا۔ لوگوں کے دلوں میں خاکہ کے خلاف اور مخالف ہونے کا سوال اس لیے پیدا ہوتاہے کہ وہ خاکوں میں مختلف مقامات پر شخصیات کو فراموش کرکے طنزیہ انداز میں چند جملے لکھتے ہیں۔ دوسری بڑی وجہ ہے کہ وہ زبان میں سادگی کو ہمیشہ اپناتے ہیں۔ ان کی سادہ زبان میں بھاری بھرکم لفظیات نہیں ہوتی ہیں۔ اس لیے ان کے اسلوب میں شاعرانہ نغمگی نہیں پائی جاتی۔ آج بہت سے لوگ خاکوں میں شعری مصرعے تیار کرتے ہیں اور نثر میں شاعری کرتے ہیں جو کہ نثر کے لیے بھی عیب ہے اور خاکے کے لیے بھی۔ مجتبیٰ حسین نے اپنے خاکوں میں نہ کبھی شاعری کی اور نہ ہی افسانوں کی طرح تلمیحات و استعارات سے اپنے اسلوب کو بوجھل بنا نے کی کوشش۔ ان کی شستگی میں ہی ان کے خاکوں کی کامیابی کا راز پوشیدہ ہے۔ مجتبیٰ حسین کے خاکوں میں تاریخی بیان بھی ملتا ہے اور تنقیدی تناظرات بھی، اگر وہ ثقیل زبان استعمال کرتے تو ان کے خاکوں کی قرأت مشکل ہوتی۔ لیکن ان کی ہنر مندی اور فن کاری ہے کہ انھوں نے اپنے خاکوں کو مختصر کیا اور انتہائی سلیس زبان استعمال کرنے کی کوشش کی۔ اسلوبیاتی تناظر میں ان کی زبان پر گفتگو کریں تو در اصل بات چیت کی زبان سے ان کے خاکوں کی زبان قریب تر ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ انھوں نے خاکہ لکھنے کے لیے کسی مخصوص میدان کے لوگوں کو منتخب نہیں کیا بلکہ ان کے خاکوں کے موضوعات اور کرداروں میں رنگا رنگی نظر آتی ہے۔ مجتبیٰ حسین صحافی تھے۔ سرکاری اداروں سے جڑے تھے۔اسی طرح ادبی میدان کی معروف شخصیات سے قریب بھی۔ یہی سبب ہے کہ ان کے خاکوں میں مختلف میدان کے افراد نظر آتے ہیں۔جس سے ان کے خاکوں میں خوبصورتی نظر آتی ہے۔ چوتھی وجہ یہ ہے کہ مجتبیٰ حسین خاکوں کی شروعات میں ہی خاکہ نگار کو عموماً متعارف کرا دیتے ہیں اور پڑھنے والوں کو پڑھتے وقت معلوم ہوتاہے کہ وہ کس کا خاکہ پڑ ھ رہے ہیں۔ آج بہت سے خاکہ نگار دانستہ اس شخصیت کا نام نہیں لیتے ہیں جن پر خاکہ لکھا جارہا ہے اور اخیر میں اس فرد کا انکشاف کرتے ہیں۔یہ دراصل افسانوی اسلوب ہے۔ پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ ان کے اسلوب میں بربادری کی کیفیت نظر آتی ہے۔ اسی بردباری کی دین ہے کہ ان کے مزاح میں سختی نہیں پائی جاتی ہے۔ ان کے طنزیہ اسلوب میں اصلاح کے امکانات پوشیدہ ہوتے ہیں۔گویا وہ اپنے طنز میں پھکڑپن سے احتراز کرتے ہیں۔ انسان دوستی کا ثبوت دیتے ہیں۔ کسی کی خامی پر وہ تالی ٹھوکنے کا جواز فراہم نہیں کرتے۔ جب کسی مزاح نگار کو ایسی بردباری اور ستھرا اسلوب ہاتھ آجائے تو اس کے فن کی اہمیت ازخود مسلم ہوجاتی ہے۔ چھٹی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ زبان کی سادگی اور خاکوں کے اختصار کی وجہ سے ان کے خاکے لوگ انتہائی بشاست قلبی اور رغبت سے پڑھتے ہیں۔ اکثر خاکہ نگاروں اور مزاح نگاروں کو سمجھنے والے محدود ہوتے ہیں۔ کیوں کہ ان کی لفظیات میں ایک ماحول بسا ہوتا ہے کہ اس ماحول کو سمجھے بغیر اس فن کار کے فن کی تفہیم نہیں ہوپاتی، مگر مجتبیٰ حسین کی تصانیف ان چیزوں سے پاک ہیں۔ ان کے یہاں تفہیم کا معاملہ آسان ہے۔ ہر طبقے کے قارئین کے لیے لذت یابی کا سامان ہوتاہے۔ گویا قاری کے لحاظ سے مجتبیٰ حسین ثروت مند ہیں۔ کیوں کہ وہ قاری کے کسی مخصوص طبقے سے تعلق نہیں رکھتے۔ ان کے قاری کا کنبہ ایک وسیع تر کنبہ ہے۔

حوالے وحواشی

(۱)(۴)صفدر امام قادری، زاہدالحق، تسلیم عارف،نازیہ امام(مرتبین)دنیا عجب بازارہے(مجتبیٰ حسین کے منتخب خاکے تاریخی ترتیب سے)، 2017، ص13۔
(۲)بحوالہ، صابرہ سعید، اردو ادب میں خاکہ نگاری،مکتبہ شعر وحکمت، لکڑی کا پل، حیدرآباد، 1978، ص 9۔
(۳)مبین مرزا، اردو کے بہترین شخصی خاکے (مرتبہ)، کتابی دنیا دہلی،2004، ص 11۔
(۴)صفدر امام قادری، زاہدالحق، تسلیم عارف،نازیہ امام(مرتبین)دنیا عجب بازارہے(مجتبیٰ حسین کے منتخب خاکے تاریخی ترتیب سے)، 2017،ص 253۔
(۵)مجتبیٰ حسین، آدمی نامہ،حسامی بک ڈپو مچھلی کمان حیدار ٓاباد، 1981،ص6۔
(۶)روزنامہ، آگ لکھنؤ، 12جون 2020۔
(۷)مجتبیٰ حسین، عمیق حنفی آدمی در آدمی،، فکرو تحقیق نئی دہلی، ص 348۔
(۸)حسن چشتی (مرتب) مجتبیٰ حسین کے منتخب کالم، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی،2004،ص14۔
(۹)پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی(مضمون نگار)، خاکہ نگاری کا فن اور اردو کے خاکہ نگار، فکرو تحقیق نئی دہلی، جنوری-جون 2017، ص 15۔

ڈاکٹر قسیم اخترشاعر اور مصنف ہیں. شاعری کا اآغاز کالج کے زمانے سے ہی کیا. "مخمور سعیدی کے شعری آفاق” ان کی تنقیدی کتاب ہے. اس کے علاوہ دو تنقیدی کتاب، ایک شعری مجموعہ اور ایک مونوگراف زیر ترتیب و طباعت ہے. فی الوقت ڈی ایس کالج کٹییار میں بطور اسسٹنٹ پروفیسراپنی خدمات انجام دے رہے ہیں.
شیئر کیجیے